حمد باری تعالیٰ
الہٰی سہل میری زندگی کے امتحان کردے
زمین کو گلِ بداماں آسماں کو مہرباں کردے
یہ قطرہ ہے اسے پھیلا کے بحرِ بیکراں کردے
یہ ذرہ ہے اسے چمکا کے مہرِ ضوفشاں کردے
بھٹک پائے نہ کوئی راہرو راہِ صداقت سے
میرے حرفِ دعا کو تیرگی میں کہکشاں کردے
قدم اٹھتے نہیں اب تشنگی سے دھوپ میں یارب
رہِ منزل پہ اپنی رحمتوں کا سائباں کردے
چمن میں جو بھی آتا ہے وہ تنکے نوچ لیتا ہے
خدایا اور اونچی میری شاخِ آشیاں کردے
یہی ہے آرزو میری یہی ہے جستجو میری
میری حمدو ثناء کو تو دلوں کا ترجماں کردے
میرے ایماں کی کشتی بے خطر ساحل پہ جا پہنچے
کچھ اس انداز سے رخ پر ہوا کے بادباں کردے
جو تو چاہے تو سارے راز تخلیقِ دو عالم کے
عیاں کردے، نہاں کردے، نہاں کردے، عیاں کردے
تو اپنے فضل سے افسرؔ کی حمدو نعت کو مولا
عطا لطفِ زباں کردے، عطا حسنِ بیاں کردے
{افسرؔ ماہ پوری}
میرے حضور ﷺ
احمد، خدا نے نام ہے رکھا حضورؐ کا
تا حشر ہوتے رہنا ہے چرچا حضورؐ کا
تازہ ہوا کبھی بھی مقفل نہ ہوگی اب
شام و سحر کھُلا ہے دریچہ حضورؐ کا
لوحِ عمل پہ درج ہے کردار جو عظیم
انسانیت کے نام ہے نامہ حضورؐ کا
عظمت کی رہگذر پہ علامت ہے عَزم کی
وہ کاروانِ ہجرتِ طیبہ حضورؐ کا
اُس شہرِ دلنواز کے دیوار و در کی خیر
خطوں میں بے مثال ہے خطہ حضورؐ کا
اُنؐ کے درِ عطا پہ عطا کی ہیں بارشیں
کاسہ بھرے گا آج بھی منگتا حضورؐ کا
لمحاتِ زردِ کرب و بلا ان گنت سہی
تسکین قلب و جاں کی ہے روضہ حضورؐ کا
نقشِ قدم فلک نے بھی چومے ہیں آپؐ کے
تاروں بھرا زمیں پہ ہے رستا حضورؐ کا
حرفِ درود، حرفِ خدا ہے اسی لیے
پڑھتا ہے آسماں بھی صحیفہ حضورؐ کا
فرمانِ مصطفیؐ تر و تازہ گلاب ہے
لہجہ ہے ہر زمانے کا لہجہ حضورؐ کا
کشتی مرے وجود کی جب ڈوبنے لگی
آیا ہے میرے کام وسیلہ حضورؐ کا
مجھ پر گرفت زندہ مسائل کی ہے، ریاضؔ
آئے گا آج جوش پہ دریا حضورؐ کا
{ریاضؔ حسین چودھری}