39 ویں سالانہ عالمی میلاد کانفرنس 2022ء

رپورٹ:محبوب حسین

تحریک منہاج القرآن کے زیرِ اہتمام امسال مینار پاکستان پر 39 ویں عالمی میلاد کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں لاکھوں عشاقانِ مصطفی ﷺ نے نہایت جوش و جذبے اور ولولے کے ساتھ شرکت کی۔ قومی و بین الاقوامی خصوصی مہمانان گرامی قدر، علماء و مشائخ، اساتذہ، وکلاء اور ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے نمایاں افراد کی ایک کثیر تعداد کانفرنس میں خصوصی طور پر شریک ہوئی۔ علاوہ ازیں سابقہ جملہ عالمی میلاد کانفرنسز میں شریک شرکاء سے کئی بڑھ کر تاحدِ نگاہ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بھی دنیا بھر میں عالمی میلاد کانفرنس اور تحریک منہاج القرآن کی عوامی پذیرائی اور مقبولیت کا اعلان کررہا تھا۔

عالمی میلاد کانفرنس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے آن لائن شرکت کی اور خصوصی خطاب فرمایا۔ یہ کانفرنس صاحبزادہ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور صاحبزادہ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی زیرِ نگرانی منعقد ہوئی۔ اس پروگرام کے جملہ انتظامی امور ناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن خرم نواز گنڈا پور، بریگیڈیئر (ر) اقبال احمد خان (نائب صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل) اور محمد جواد حامد (نائب ناظم اعلیٰ ایڈمنسٹریشن) کی سربراہی میں قائم کمیٹیوں نے احسن طور پر سرانجام دیئے۔

  • عالمی میلاد کانفرنس میں امسال فضیلۃ الشیخ الدکتور ابراھیم صلاح الھدھد (سابق رئیس جامعۃ الازھر مصر) اور فضیلۃ الاستاذ احمد محموالشریف الازھری (جامعۃ الازہر مصر) نے خصوصی شرکت کی۔

دیگر مہمانوں میں نائب امیر جماعت اسلامی محترم لیاقت بلوچ، ڈائریکٹر جنرل خانہ فرہنگ ایران محترم آغا جعفر روناس، محترم جسٹس (ر) نذیر احمد غازی، سجادہ نشین حضرت سلطان باہو محترم سلطان احمد علی، محترم سید صمام علی شاہ بخاری (زیب سجادہ کرمانوالہ شریف)، محترم پیر صوفی اسد اللہ شاہ نقیبی (سجادہ نشین نقیب آباد شریف)، محترم پیر سید شمس الرحمن مشہدی (سجادہ نشین حسین آباد شریف سرگودھا)، محترم دیوان حامد مسعود چشتی (پاکپتن شریف)، امیر متحدہ جمیعت اہلحدیث محترم سید ضیاء اللہ شاہ بخاری، محترم پیر سید سعید الحسن شاہ (صوبائی وزیر)، محترم صاحبزادہ پیر فقیر محمد (آستانہ عالیہ بٹ خیلہ شریف)، محترم پیر مفتی حمید جان سیفی، سربراہ جامعہ عروۃالوثقیٰ محترم سید جواد نقوی، ڈی جی اوقاف محترم ڈاکٹر طاہر رضا بخاری، محترم معین الدین محبوب کوریجہ (سجادہ نشین دربار کوٹ مٹھن شریف)، محترم پیر سید سردار آغا غزنی، محترم مفتی محمد رمضان سیالوی، محترم پیر سید علی رضا بخاری (سجادہ نشین بساہاں شریف آزاد کشمیر)، محترم پیر سید عبد الماجد محبوب گیلانی، محترم پیر سید نور علاؤ الدین قادری (کوئٹہ)، محترم صاحبزادہ پرویز اکبر ساقی، محترم مفتی محمد کریم خان، محترم پیر سید علی حیدر شاہ بخاری، محترم پیر اجمل عرفان دانش، محترم پیر ضیاء الحق نقشبندی (امیر تنظیم اتحاد امت پاکستان)، محترم پیر احمد عاصم سلیم ہجویری (سجادہ نشین داتا گنج بخش علی ہجویری)، محترم صوفی اظہر عباسی صابری، محترم صاحبزادہ کلیم احمد فخری (سجادہ نشین چشتیاں شریف بہاولنگر)، محترم پیر اختر رسول قادری، محترم پیر سید خورشیدالحسن شاہ (اوچ شریف)، محترم پیر سید طاہر نذیر نقشبندی (خانقاہ نقشبندیہ فاروق آباد)، محترم صاحبزادہ پیر سید محمد فیصل ریاض حسین شاہ، محترم صاحبزادہ پیر سید نعمان ریاض حسین شاہ، محترم پیر سید اصغر علی شاہ (گوجرانوالہ)، محترم سردار محمد انور ڈوگر (ملتان)، محترم امجد چوہدری (چیئرمین بزنس فرنٹ)، محترم مسعود عالم بٹ، محترم مفتی عاشق حسین شاہ، محترم پیر طارق ولی (سجادہ نشین مجلس چشتیہ پاکستان)، محترم پیر زادہ محمد حسین گولڑوی (نمائندہ خاص دربار عالیہ گولڑہ شریف)، محترم مفتی محمد عمران نظامی (خطیب دربار عالیہ بابا فرید گنج شکر)، محترم پیر بدر منیر سیفی، محترم مولانا عاصم مخدوم، محترم پیر سید عطاء الرسول شاہ (منچن آباد شریف)، محترم پیر سید جمیل الرحمن چشتی (سجادہ نشین چشتیہ آباد شریف کامونکی)، محترم پیر خوشی محمد خوشحال (آستانہ عالیہ نقشبندیہ شیخوپورہ)، محترم پیر سید شہزاد ظفر (سجادہ نشین مانوالا شریف)، محترم پیر سید علی رضا گیلانی (سجادہ نشین میاں میر) اور دیگر نامور جید علماء و مشائخ شامل تھے۔

  • علاوہ ازیں تحریک منہاج القرآن کے جملہ مرکزی نائب ناظمین اعلیٰ، جملہ فورمز تحریک؛MSM، یوتھ لیگ، ویمن لیگ، علماء کونسل کے مرکزی عہدیداران، کارکنان اور جملہ مرکزی شعبہ جات کے ذمہ داران نے پروگرام میں خصوصی شرکت کی۔
  • میلاد کانفرنس میں قاری اللہ بخش نقشبندی اور قاری خالد حمید کاظمی نے تلاوت قرآن پاک کا شرف حاصل کیا جبکہ حافظ مرغوب احمد ہمدانی، سید خالد حسین شاہ گیلانی، محمد افضل نوشاہی، شہزاد برادران، ظہیر بلالی، سمیع اکرم بلالی، شہزاد حنیف مدنی، ڈاکٹر سرور صدیق، شکیل طاہر اور دیگر نے گلہائے عقیدت پیش کئے جبکہ نقابت کے فرائض علامہ سعید رضا بغدادی، علامہ مدثر نوری، علامہ سرفراز حسین، علامہ منہاج الدین قادری، علامہ مہتاب اظہر راجپوت، انعام مصطفوی، علامہ حسن محمود جماعتی نے سرانجام دیئے۔
  • عالمی میلاد کانفرنس میں محترم جی ایم ملک (ڈائریکٹر فارن افیئرز MQI) نے بیرون ممالک سعودی عرب، کینیڈا، ہانگ کانگ، کویت، اٹلی، سویڈن، USA، ساؤتھ افریقہ، ابوظہبی، فرانس، UK، ساؤتھ کوریا، چائنہ اور دوبئی سے تشریف لانے والے معزز مہمانان گرامی قدر کو خوش آمدید کہا۔ اس موقع پر محترم علامہ سید محمود شاہ الازہری کو ان کی 35 سالہ گرانقدر تحریکی خدمات کے اعتراف میں چیئرمین سپریم کونسل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور صدر MQI ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے گولڈ میڈل اور شیلڈ سے نوازا۔

اظہارِ خیالات مہمانانِ گرامی قدر

عالمی میلاد کانفرنس میں تلاوتِ قرآن مجید اور حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں ہدایا درود و سلام اور ثناء خوانی کے بعد مہمانانِ گرامی اور مرکزی قائدین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اِن خطابات کے خلاصے نذرِ قارئین ہیں:

محترم انجینئر محمد رفیق نجم (نائب ناظم اعلیٰ کوآرڈینیشن)

محترم انجینئر محمد رفیق نجم نے عالمی میلاد کانفرنس میں خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج کا یہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا لگایا ہوا وہ عشقِ رسول ﷺ کا پودا ہے جو پورے ملک کے اندر اس قدر تناور ہوچکا ہے کہ اب گلی گلی اور محلہ محلہ تاجدار انبیاء علیہ السلام کے میلاد کا جشن منایا جاتا ہے۔ آج کا یہ جم غفیر تحریک منہاج القرآن اور اس کے کے جملہ فورمز کے عہدیداران و کارکنان کی مشترکہ محنتوں کا ثمر اور نتیجہ ہے۔

محبتِ رسول ﷺ کا تقاضا یہ ہے کہ آج ہم آپ ﷺ پر ایمان بھی لائیں اور آپ کی مدد و نصرت بھی کریں۔ آپ ﷺ کی مدد و نصرت سے مراد دینِ اسلام کی خدمت بجا لانا ہے۔ آج تحریک منہاج القرآن شرق تا غرب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں صرف عشقِ رسول ﷺ کی بات نہیں کرتی بلکہ نصرتِ رسول ﷺ یعنی نصرتِ دین کی بات بھی کرتی ہے۔ آج مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ شدت پسندی کے حالات میں تحریک منہاج القرآن عشق رسول ﷺ کے چراغ بھی روشن کر رہی ہے اور فرزندانِ توحید اور عشاقان رسول کو تاجدار انبیاء ﷺ کے دین کی خدمت کا سلیقہ بھی سکھا رہی ہے۔

شیخ الاسلام نے قرآن و حدیث کے علمی دلائل کے ساتھ ہر پہلو اور ہر جہت سے دینِ اسلام کی نصرت کا حق ادا کردیا ہے۔ ملک بھر کی تنظیمات کے عہدیداران اور کارکنان مبارکباد کے مستحق ہیں کہ جن کی کاوشوں کی بدولت تجدیدِ دین، احیائے اسلام، فروغِ عشقِ مصطفی ﷺ اور اصلاحِ احوالِ امت کا یہ مصطفوی مشن پوری دنیا میں ہر آئے روز عروج کی جانب گامزن ہے۔

محترم علامہ رانا محمد ادریس (نائب ناظم اعلیٰ)

ہماری خوش نصیبی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کی ولادت باسعادت کی یہ عظیم رات عطا فرمائی ہے اور پھر کرم بالائے کرم کہ ہمیں اس عظیم رحمتوں اور برکتوں والی رات کے اندر ہزارہا علماء و مشائخ کی سنگت اور بالخصوص وقت کے مجدد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت، رہنمائی اور سنگت میں تاجدار کائنات ﷺ کی آمد کی خوشیاں منانے کی توفیق عطا فرمائی۔ مومن کا سب سے بڑا سرمایہ ایمان ہے اور ایمان آقا علیہ السلام کی محبت، عشق اور ادب میں فنا ہوجانے کا نام ہے۔ جشن میلاد النبی ﷺ درحقیقت اسی محبت، عشق اور ادب کا اظہار ہے۔

مینار پاکستان کے اس تاریخی گراؤنڈ میں عشاقان مصطفی ﷺ کا یہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر منہاج القرآن اور شیخ الاسلام پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے کرم کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ عالمی میلاد کانفرنس ایک تاریخی کانفرنس کا روپ دھار چکی ہے اور تعدادکے اعتبار سے اپنے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ کر ایک نیا ریکارڈ قائم کرچکی ہے۔ یقینا یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا کرم، شیخ الاسلام کی توجہات، منہاج القرآن کی پاکستان بھر کی تنظیمات کی شبانہ روز محنت اور کارکنانِ تحریک کا تاجدار کائنات ﷺ کی ذات کے ساتھ والہانہ محبت و عشق کا ایک بیّن ثبوت ہے۔

مینار پاکستان کے اس تاریخی گراؤنڈ کے اندر عشاقانِ مصطفی ﷺ کا یہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر، یہ خوشیاں، یہ رنگینیاں، یہ چہل پہل، یہ چمک، یہ دمک، یہ پھبن، یہ مہک اور ہر طرف کملی والے آقا علیہ السلام کے ترانے، درود و سلام کے گجرے، گھر گھر آقا کریم ﷺ کے میلاد پاک کی محافل، ان ساری سرگرمیوں کا مرکز و محور، روح اور جان مجدد رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہیں، جنہوں نے ہمیں حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت اور ادب کے اظہار کے طریقے سکھلائے۔

محترم صاحبزادہ سید علی رضا بخاری (ممبر آزاد کشمیر اسمبلی)

روح پرور، ایمان افروز، عشق و محبت سے بھرپور عالمی میلاد کانفرنس کے انعقاد پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور صاحبزادگان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آج کے دور میں جہاں دنیا گلوبل ویلج کا روپ اختیار کرچکی ہے، نہ صرف لاہور کی سرزمین پر منعقد ہونے والی عالمی میلاد کانفرنس کے شرکاء بلکہ دنیا بھر کے مسلمان منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے عشق و محبت، ذوق و شوق، کیف و سرور اور نبی کونین ﷺ کی نسبت کی برکتیں اور آپ کے فیض و کرم سے مستفیض ہورہے ہیں۔ منہاج القرآن ایک ایسا پلیٹ فارم ہے کہ جہاں ہم آقائے نامدار ﷺ کے اس دنیا میں تشریف لانے کے بابرکات لمحات کو یاد کرکے اپنی جھولیوں میں دنیا و آخرت کی خیرات اور حضور ﷺ کے فیوضات حاصل کرسکتے ہیں اور ان سے اپنے قلب و روح اور ظاہر وباطن کو منور کرسکتے ہیں۔

محترم لیاقت بلوچ (مرکزی نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے زمانہ طالبِ علمی سے یاد وابستہ ہے۔ اللہ نے انہیں بڑی صلاحیتوں سے نوازا ہے اور انہوں نے اپنے علم اور تحقیق کے ساتھ عالمِ اسلام میں اپنے مقام اور اپنی اہمیت کو تسلیم کروایا ہے۔ سیرت طیبہ ﷺ ہر مرض کی دوا ہے، ہر مسئلے کا حل ہے اور دورِ حاضر کے ہر چیلنج کا جواب ہے۔ آج اتحاد امت اور وحدتِ انسانی کی ضرورت ہے۔ فرمان رسول اللہ ﷺ کے مطابق قیامت کے دن انبیاء و شہداء ان پر رشک کریں گے جو دنیا میں دین کی بنیاد پر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ یہ عظیم الشان کانفرنس اور یہاں موجود شرکاء کا عشق اور لگن اس بات کا اعلان ہے کہ یہاں اہلِ ایمان زندہ ہیں۔ آج ہمارے اخلاق، ہماری بنیادیں، ہمارا خاندان، ہماری نئی نسل اور ہماری تعلیم بربادی سے دوچار ہیں۔ آج معیشت، مہنگائی اور کرپشن کی لعنت عام آدمی کی زندگی کو برباد کررہی ہے۔ ان حالات میں اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں کہ اللہ کی طرف رجوع کیا جائے۔ قرآن و سنت سے جڑ جائیں اور اللہ کے دین کی روشنی میں اس پیغامِ حق کو نافذ کریں جو پیغام لے کر آج کی رات اللہ نے اپنے محبوب ہستی کو کائنات میں بھیجا۔

محترم پیر شمس الرحمن مشہدی (سجادہ نشین آستانہ عالیہ حسین آباد شریف)

محترم پیر شمس الرحمن مشہدی نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور تحریک منہاج القرآن کا پیغام پنجابی اشعارکی صورت میں شرکائے محفل تک پہنچایا کہ

آؤ انج میلاد منایئے۔۔۔۔ رحمت دا لنگر ور تایئے

نفرت نوں تے مار مکایئے۔۔۔ آؤ انج میلاد منایئے

رب رسول ﷺ تو دور ہوگئے آں۔۔ دنیا وچ مغرور ہوگئے آں

سنگیو رب دے پاسے جایئے۔۔۔ آؤ انج میلاد منایئے

امت ہوگئی ٹکڑے ٹکڑے۔۔۔ ہر دی وکھری جنت ہوگئی

جھگڑے چھڈیئے پیار ودھایئے۔۔۔ آؤ انج میلاد منایئے

فتوے لا لا حد کر چھڈی۔۔۔ ہر ہر جاتے کندھ کر چھڈی

کندھاں ڈھایئے گھر ستھرایئے۔۔۔ آؤ انج میلاد منایئے

آج کی عالمی میلاد کانفرنس جو شیخ الاسلام کی خاص توجہ سے سجتی ہے، ہمیں اس سے یہ پیغام لے کر جانا چاہے کہ میلاد کا مقصد یہ ہے کہ مخلوق سے نفرتیں مٹادی جائیں اور محبتیں پھیلادی جائیں، حضور کے دین کو اپنے اخلاق و کردار کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلائیں، شیطان سے تعلق توڑ کر رحمن سے تعلق جوڑ لیا جائے۔ منہاج القرآن ان ہی مقاصد کے حصول کے لیے شیخ الاسلام کی قیادت میں اپنا کلیدی کردار اداکررہی ہے۔

محترم صاحبزادہ سلطان احمد علی (سجادہ نشین حضرت سلطان باہوؒ)

میرے پاس منہاج القرآن سے محبت کی ایک نہیں دو نہیں بلکہ کئی ہزار وجوہات ہیں، اس لیے مجھے جب بھی حکم ملتاہے تومیں یہاں آنے میں خوشی و مسرت محسوس کرتا ہوں۔ اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کو اپنی صفات اور اپنے انوار کا مظہر اتم بناکر بھیجا اور آپ ﷺ کو وہ شان و رفعت عطافرمائی کہ حضور ﷺ کی اطاعت مبارک کو اپنی اطاعت قرار دیا۔ اس شب جو نور والا اس دنیا کے اندر جلوہ فرما ہوا، یہ اسی کے انوار کی برکتیں اور روشنی ہے جو ہمارے سینوں میں ہے۔ جب تک یہ امت کے سینے میں سرکار ﷺ کے عشق محبت اور ادب و تعظیم کی روشنی ہے، اس امت کا چراغ اسی طرح روشن رہے گا۔ منہاج القرآن اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری امت کے سینے کو محبت و عشقِ مصطفی ﷺ کی روشنی سے منور کرنے میں مصروفِ عمل ہیں اور میری ان سے محبت کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔

محترم جسٹس(ر) نذیر احمد غازی (اینکر پرسن 24 چینل)

ساحر صدیقی نے ایک بات کہی تھی جس کا منظر کبھی کبھار دیکھنے کو ملتا ہے اور آج عالمی میلاد کانفرنس میں ہم وہ منظر دیکھ رہے ہیں۔ اس نے کہا تھا: یارسول اللہ ﷺ !

جس جا بھی تیرے قرب کے آثار ملے ہیں
معمورِ تجلی در و دیوار ملے ہیں

ارے لوگو میری قسمت کو سراہو
سرکار ملے ہیں مجھے سرکار ملے ہیں

نبیوں کو ہوئی جن کی معیت کی تمنا
قسمت سے ہمیں وہ قافلہ سالار ملے ہیں

جب میں یہ سوچتا ہوں کہ ملک کے کونے کونے سے اور بیرون ملک سے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ آج عالمی میلاد کانفرنس میں کیوں چلے آئے ہیں؟ یہ کس لیے آئے ہیں؟ تو یہ جواب ملتا ہے کہ:

شاہ خوباں آئے گا ہر راہ میں میلا لگا
کاسہ لیے لاکھوں گدا ہیں، کچھ اس طرف کچھ اُس طرف

میں سمجھتا ہوں کہ آج یہ گدایانِ دربارِ رسولِ خدا ﷺ یہاں پر بیٹھے ہیں۔ ایک دفعہ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سید عالمین ﷺ کی محفل میں پریشانی کی حالت میں بیٹھے تھے۔ حضور ﷺ سے بڑھ کر کون مزاج شناس ہوسکتا ہے۔ فرمایا: ابوذر لگتا ہے تم پریشان ہو، کیا بات ہے؟ عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ قیامت کے روز جنت میں آپ ﷺ اعلیٰ ترین مقام پر تشریف فرما ہوں گے۔ مجھے یہ خیال پریشان کرتا ہے کہ ہم آپ کے قریب کیسے پہنچیں گے؟ سید عالمین ﷺ نے فرمایا کہ اے ابوذر! المرء مع من احب۔ آدمی اس کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ یہ سن کر سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ یکا یک اٹھے اور آپ ﷺ کے سینہ اطہر سے لپٹ گئے اور عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ ! ہم آپ سے محبت کرتے ہیں۔ صحابہ کہتے ہیں کہ ہمیں نہیںمعلوم کہ انھوں نے کتنی مرتبہ یہ بات دہرائی کہ حضور! ہم آپ سے محبت کرتے ہیں۔

آج اس عالمی میلاد کانفرنس کے شرکاء اور ہم سب اس عہدِ وفا کی تجدید کے لیے آئے ہیں کہ یارسول اللہ ﷺ ! ہم آپ سے محبت کرتے ہیں۔

محترم سید ضیاء اللہ شاہ بخاری (امیر متحدہ جمیعتِ اہلِ حدیث)

حضور نبی کریم ﷺ کی اس کائنات میں آمد سے لے کر آج تک اور پھر قیامت تک اللہ نے ہمارا ہر دن آپ ﷺ کی نسبتِ جلیلہ سے خوشیوں، کامیابیوں اور روشنیوں سے بھردیا۔ آقا علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں تمہیں اپنی وہ سیرت، اسوہ اور شریعت دے کر جارہا ہوں کہ جس کا دن تو ہے ہی روشن و منور مگر اس کی رات بھی دوسری راتوں کی طرح اندھیری نہیں ہوتی بلکہ وہ بھی دن کی طرح روشن اور منور ہوتی ہے۔ یقینا آج کی عالمی میلاد کانفرنس آپ ﷺ سے محبت کا اظہار ہے کہ ہم اپنے اپنے انداز کے ساتھ اللہ کی اس بات کو پورا کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ النبی اولی بالمومنین من انفسہم۔ ہمیں اپنے محبوب اپنی جانوں سے بھی زیادہ پیارے ہیں۔

آج شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہمیں اس ہی ہستی کی محبت و اطاعت اور دینِ اسلام کی نصرت کی طرف متوجہ کررہے ہیں۔ میری شیخ الاسلام سے محبت دو وجوہات کی بنیاد پر ہے: پہلی وجہ آپ کی جملہ علمی و فکری تصنیفات ہیں بالخصوص حدیث اور اس ضمن میں حدیثِ ضعیف کی حجیت کے حوالے سے آپ کا تحقیقی کام لائقِ صد تحسین ہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ آپ نے صحابہ کرامl اور اہل بیت اطہارf سے محبت کا جو بیج بویا ہے اور خوف و ملامت کے ڈر کے بغیر ان ہستیوں سے محبت و عقیدت کا جو اظہار کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔

شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی نسبت کی وجہ سے اصحاب رسول سے بھی محبت کریں اور آپ ﷺ سے نسبت ہی کی وجہ سے اہلِ بیت اطہار سے بھی محبت کریں۔ لہذا شیخ الاسلام بھی اس بات کا استحقاق رکھتے ہیں کہ ہم ان سے بھی محبت کریں، اس لیے کہ آپ ان ہی برگزیدہ ہستیوں سے محبت اور ان کی تعلیمات کو حقیقی معنوں میں فروغ دے رہے ہیں۔ آج شیخ الاسلام جس راستے کو اپنائے ہوئے ہیں، میں پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ یہ راستہ آسان نہیں ہے۔ آج کے اس دور میں انتشار اور امت میں اختلاف کے باعث اتحادِ امت کا سودا بیچنا بہت مشکل بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ

مت پوچھ حال میرے کاروبار کا
آئینہ بیچتا ہوں اندھوں کے شہر میں

شیخ الاسلام آج جس استقامت کے ساتھ کھڑے ہیں، یہ اس کا نتیجہ ہے کہ آپ کی دعوت پر آج دیوبندی بھی آئے، اہل حدیث بھی آئے، اہل تشیع بھی آئے، اہل سنت بھی آئے، پاکستان سے مشائخ بھی آئے اور مصر کی جامعۃ الازہر سے شیوخ بھی آئے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جس کے بارے میں میرے آقا علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ جب اللہ کسی سے محبت کرتا ہے تو اللہ اس کی مقبولیت روئے زمین پر رکھ دیتا ہے۔ آج میں شیخ الاسلام کی فراست کو ایک بار پھر خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ آپ نے امت کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کے لیے جو تحریک پچھلے چالیس سال سے شروع کررکھی ہے، آج وہ آپ کے تربیت یافتہ کارکنان کے ذریعے دنیا بھر میں نہ صرف پھیل رہی ہے بلکہ اسے غیر معمولی پذیرائی بھی نصیب ہورہی ہے۔

محترم علامہ سید جواد نقوی (سربراہ جامعہ عروۃ الوثقیٰ)

نہج البلاغہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ کی توصیف میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو طبیبِ امت بناکر مبعوث فرمایا۔ آپ ﷺ اپنی طب کی مرہم لے کر گردش میں ہیں، ایک جگہ ٹھہرے ہوئے نہیں ہیں۔ آپ ﷺ نے اپنی مرہم، دوائیں اور جراحی کا سامان تیار کررکھا ہے۔ آپ ﷺ نے امت کے درد و تکلیف کی دوا اور مرہم لے کر ہر مریض کے پاس جاکر وہیں اس پر مرہم رکھی، جہاں پر اس کی ضرورت تھی اور بیماریوں کا علاج فرمایا۔ آپ ﷺ نے دلوں کا علاج، بصارتوں کا علاج، سماعتوںکا علاج فرمایا اور چراغِ ہدایت روشن فرمایا۔ یہ لوگ اس سے پہلے پتھر ہوچکے تھے اور چرنے والے جانوروں کی طرح تھے۔ آپ نے ان حالات میں ان کا علاج فرمایا۔

آج امتِ رسول اللہ جن امراض میں مبتلا ہے اس کے لیے حضور ﷺ کا اسی طرح کا نسخہ ہی کار آمد ہے اور وہ یہ کہ ایسے طبیب کی ضرورت ہے جو اپنی طب کے ساتھ گردش کرے اور امت کی ان بیماریوں کی اصلاح کرے۔ الحمدللہ! طبیب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں موجود ہیں۔ جنھوں نے ہر مناسب موقع پر امت کے وجود کو لاحق بیماریوں کی نہ صرف تشخیص کی بلکہ فوراً اس کا نسخہ تیار کرکے اس بیمار کے زخم پر رکھا ہے۔

آج جب امت کے اندر ہر باب سے فتنے اٹھ رہے ہیں اور گمراہی کے بحران کھڑے کیے جارہے ہیں، دین کے نام پر، سیاست کے نام پر، مذہب کے نام پر، فرقوں کے نام پر جو گمراہی پھیلائی جارہی ہے، ایسے میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بروقت نسخہ جات تجویز کیے اور تجویز کرکے اس بیماری کے اوپر مرہم بناکر رکھا یعنی جو کتاب بھی تیار کرکے امت کو پیش کی ہے، وہ امت کو لاحق کسی نہ کسی بیماری کا علاج ہے۔

محترم شیخ احمد محمود الشریف الازہری (جامعۃ الازہر۔ مصر)

محترم شیخ احمد محمود الشریف الازہری جامعۃ الازہر میں فقہ حنفی اور اصول فقہ کے نامور استاذ ہیں اور عقیدہ ماتریدیہ میں متخصص ہیں۔ آپ نے شرکائے کانفرنس سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ میں نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے مختلف علوم و فنون میں اجازات حاصل کررکھی ہے اور میں آگے اپنے تلامذہ کو شیخ الاسلام کی طرف سے یہ اجازات دیتا ہوں۔ میں شیخ الاسلام، محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے اتنے معتبر علماء کے درمیان اس عالمی محفل میلاد میں شرکت کا عظیم موقع فراہم کیا ہے۔ یہی وہ عظیم جگہ ہے جہاں اس عظیم مملکت کے لیے قرار داد قائداعظمؒ نے پیش کی تھی اور آج اسی جگہ پر اس عظیم وطن کے طول و ارض سے شیخ الاسلام نے علماء کو جمع کرکے اس مملکت پاکستان کی تکمیل کی طرف اہم قدم اٹھایا ہے۔

یہاں تمام مسالک کے علماء کے محبت رسول ﷺ پر کلام سے اور تمام علماء کی باہم محبت سے امت کو دوبارہ اٹھنے کا موقع نصیب ہوگا۔ شیخ الاسلام کے انہی افکار سے امت کا دوبارہ احیاء ہوگا۔ شیخ الاسلام کے یہ افکار محبتِ رسول ﷺ کی اساس لیے امت سے ہر طرح کی نفرت اور انتہا پسندی کا خاتمہ کردیں گے۔

محترم ڈاکٹر طاہر رضا بخاری (ڈی جی مذہبی امور اوقاف پنجاب)

حضرت علامہ محمد اقبالؒ دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے بعد جب واپس لوٹ رہے تھے تو اطالوی ڈکٹیٹر موسولینی نے ان سے ملاقات کی۔ موسو لینی نے ان سے پوچھا کہ مجھے کوئی بات بتائیں۔ اقبال نے کہا کہ اپنے شہروں کی آبادیوں کو مختصر رکھو اور جب شہروں کی آبادیاں ایک خاص حد سے تجاوز کرجائیں تو پھر ان کو روک کر اردگرد چھوٹے چھوٹے شہر آباد کرو۔

موسولینی حیرانگی کے عالم میں اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا، فرطِ جذبات سے اپنے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور کہنے لگا کہ کیا کمال (Excellent) بات ہے۔ اقبال تو نے کتنی اچھوتی بات کی ہے۔ حضرت اقبال نے کہا کہ یہ بات میری نہیں بلکہ یہ بات رسول اکرم ﷺ کی ہے جو آپ نے 13 سو سال پہلے اس وقت کہی تھی جب مدینہ کی شہری بستی ایک خاص حد سے تجاوز کرنے لگی تھی تو آپ ﷺ نے قریب چھوٹی چھوٹی بستیاں آباد کرنے کا حکم فرمایا اور اس شہری آبادی کی ٹاؤن پلاننگ کی اور فرمایا کہ تمہاری گلیاں اتنی کھلی ہونی چاہئیں کہ جس میں دو لدے ہوئے بیل گزر سکیں، تمہاری مارکیٹ ٹیکس فری ہونی چاہیے اور تمہارے شہروں کے اندر مرکزی مقام پر ہسپتال ہونے چاہئیں۔ اقبال نے کہا موسولینی اگر دنیا میں عروج چاہتا ہے تو یورپ کے بجائے اپنا رخ مدینہ منورہ کی طرف کرلے۔

وہ ایک ایسا مصطفوی معاشرہ تھا جس کی نظیر رسول محتشم ﷺ نے عطا کی اور آج جس کی عملی تطبیق کی طرف تحریک منہاج القرآن ایک طویل عرصے سے بڑے جذبے اور ولولے کے ساتھ کوشاں ہے اور ان شاء اللہ مصطفوی معاشرے کی تشکیل کا خواب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کوشش سے ہم سب کو جلد دیکھنا نصیب ہوگا۔

الشیخ الدکتور ابراہیم صلاح الھدھد (سابق رئیس جامعۃ الازہر)

اللہ رب العزت کے فرمان: اللهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ مَثَلُ نُوْرِهٖ... میں ’’ہ‘‘ ضمیر حضور نبی اکرم ﷺ کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نور کی مثال نورِ مصطفی ﷺ ہے۔ اسی طرح قرآن مجید میں ایک اور مقام پر حضور نبی اکرم ﷺ کو نور سے تشبیہ دی گئی ہے۔ ارشاد فرمایا:

اِنَّـآ اَرْسَلْنٰـکَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا. وَّ دَاعِیًا اِلَی اللهِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا.

(الاحزاب، 33: 45، 46)

’’بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور اس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے) ۔‘‘

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ہمیں عالمی میلاد کانفرنس کے اس عجیب و غریب اور حیران کن منظر میں شرکت کی دعوت دے کر ہم پر احسان کیا۔ میں نے پچاس سے زائد ممالک کے دورے کیے اور مختلف نوعیت کے پروگرامز اور محافل میں شریک ہوا مگر اس جیسا عظیم الشان پروگرام کہیں نہیں دیکھا۔ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری سے جامعۃ الازہر میں دورانِ تعلیم میری ملاقات رہی ہے۔ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کا شکریہ کہ انھوں نے ہمیں اس پروگرام میں مدعو کیا۔ اللہ تعالیٰ دونوں کو صالح ذریت بنائے اور اپنے باپ دادا کے نقشِ قدم پر چلائے اور تمام عمر حسنِ عمل اور حسنِ قول پر قائم رکھے۔

یہ جو عظیم منظر ہے، یہ بہت سے اشارات و دلالات پر دلالت کرتا ہے۔ پہلی دلالت یہ ہے کہ ہم آج جس منظر میں ہیں یہ قول نہیں بلکہ عمل کے اثرات ہیں۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ہزاروں لوگوںکا عمل ہزاروں لوگوں کے قول سے بہتر ہے۔ محفل میں شریک یہ لوگ زمین پر اللہ تعالیٰ کے گواہوں میں سے ہیں اور ہم بھی گواہی دیتے ہیں کہ شیخ الاسلام نے للہیت، محبت الہٰی، محبت دین اور محبتِ رسول ﷺ کے لیے خود کو خاص کرلیا ہے۔ انھوں نے آپ سب کو محبتِ رسول ﷺ کا جام پلایا ہے اور آپ کو سیدھی راہ دکھائی اور ایسا صرف وہی کرسکتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ ہم یہ گواہی دیتے ہیں کہ شیخ الاسلام منہج نبوی ﷺ پر ہیں کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ لوگوں میں تفرقہ کے بجائے انھیں دینِ اسلام پر جمع فرماتے۔ اسی طرح شیخ الاسلام بھی وسطیت پر چلتے ہوئے لوگوں کو جمع فرمانے والے ہیں۔ میں ذاتی طور پر نہیں بلکہ جامعۃ الازہر کی نمائندگی کرتے ہوئے یہاں پر حاضر ہوا ہوں۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمام حاضرین کو حضور ﷺ کی شفاعت کا حقدار ٹھہرائے۔

عالمی میلاد کانفرنس کے موقع پر آنے والی نئی کتب

عالمی میلاد کانفرنس کے موقع پر ڈائریکٹر فریدِ ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ محترم محمد فاروق رانا نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی زیورِ طباعت سے آراستہ ہوکر منظرِ عام پر آنے والی درج ذیل کتب کا تعارف پیش کیا:

1۔ شفاء العلیل فی قواعد التصحیح والتضعیف والجرح والتعدیل:

یہ کتاب اصول الحدیث پر عربی زبان میں لکھی گئی ہے۔ اس کتاب میں حدیث کو صحیح، حسن یا ضعیف قرار دینے اور حدیث کے رواۃ پر جرح و تعدیل کے 70 فوائد بیان کیے گئے ہیں۔

2۔ عقیدہ رسالت: سلسلہ تعلیماتِ اسلام۔ والیم:16

اس کتاب میں عقیدہ رسالت سے متعلقہ 180 سوالات کے جوابات دیئے گئے ہیں۔ تمام مباحث پر کافی و شافی مواد دیا گیا ہے اور دقیق نکات کو عام فہم، آسان، مختصر مگر جامع پیرائے میں پیش کیا گیا ہے۔

3۔ حقوق انسانی کا اسلامی تصور (بنیادی مباحث)

اس کتاب میں انسان کے اسلامی حقوق کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ فرد کے انفرادی حقوق بھی بالتفصیل بیان کیے گئے ہیں۔

4۔ الروض الازہر من خلق صاحب الکوثر

یہ کتاب حضور نبی اکرم ﷺ کے اخلاقِ کریمانہ کے حسین تذکرہ پر مشتمل ہے۔ تین جلدوں پر مشتمل یہ کتاب ایک مومن مسلمان کے اخلاق و کردار کا حقیقی تصور پیش کرتی ہے۔ یہ کتاب رہنمائی کرتی ہے کہ بطورِ مسلمان ہم نے کن اخلاقِ حسنہ کو اپنانا ہے اور کن اخلاقِ رزیلہ سے اجتناب کرنا ہے۔

5۔ The Education system in Pakistan

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی یہ کتاب دینی مدارس کے نظامِ تعلیم اور اس میں اصلاحات کی ضرورت پر جامع تحقیق پیش کرتی ہے کہ مدارس کس طرح حقیقی معنوں میں خدمتِ اسلام کا فریضہ سرانجام دے سکتے ہیں اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں کس طرح موثر اور فعال کردار ادا کرسکتے ہیں۔

6۔The Human migration to space and the reality of Gog and magag

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے خلائی ہجرت کے مضمرات اور اس کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں۔ کون کون سے عالمی ادارے اس وقت خلائی تحقیقات کررہے ہیں۔ اس کتاب میں یاجوج ماجوج کی حقیقت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔

خطاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے خطاب کے آغاز میں عالمی میلاد کانفرنس میں شرکت کرنے والے ہزاروں علماء و مشائخ، مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات اور لاکھوں عشاقانِ مصطفی ﷺ کو خوش آمدید کہا اور عالمی میلاد کانفرنس کے مثالی انتظامات کرنے پر چیئرمین سپریم کونسل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، صدر منہاج القرآن ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، ناظم اعلیٰ خرم نواز گنڈاپور، نائب صدر بریگیڈیئر (ر) اقبال احمد خان اور نائب ناظم اعلیٰ ایڈمنسٹریشن محمد جواد حامد اور ان کی پوری ٹیم کی دن رات کی محنت اور کاوشوں کو سراہا اور مبارکباد اور دعاؤں سے نوازا۔

  • ابتدائی کلمات کے بعد شیخ الاسلام نے اپنے خصوصی خطاب میں فرمایا: اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّةً.

(البقرة، 2: 208)

’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔‘‘

اس آیت مبارکہ میں مومنوں کو خطاب ہے جو ایمان لانے کے بعد مسلمان ہوچکے ہیں، ان سے فرمایا جارہا ہے کہ اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ۔ سارا اسلام سلامتی کا دین ہے۔ سو ہر اعتبار سے اس سلامتی کو اپنی زندگیوں کی زینت بنالو۔ محافل میلاد کے انعقاد کا مقصد اور محافلِ میلاد کا پیغام یہ ہے کہ ان محافل کے ذریعے حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس سے محبت اور تعظیم و تکریم کی نسبت پختہ ہوجائے جبکہ سیرت نبویہ ﷺ کی محافل کی اہمیت یہ ہے کہ اس کے ذریعے حضور ﷺ کے ساتھ اطاعت اور اتباع کا تعلق پختہ و مستحکم ہوجائے اور ہم آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کے رنگ میں رنگے جائیں۔ ہماری اپنی ذاتی بشری، انسانی سیرتیں جن میں کمی، کمزوری اور کجی آتی ہے، ان کے سارے رنگ ہٹا کر سیرت محمدی ﷺ کا رنگ ہماری سیرت پر غالب آجائے۔

پس محفل میلاد کے ذریعے حضور ﷺ کے ساتھ قلبی اور روحانی تمسک قائم ہوتا ہے اور حضور ﷺ کی سیرت طیبہ کے ذریعے مسلمانوں کو ذہنی اور فکری توسّع اور اس کے اندر برکت و شفقت اور رحمت نصیب ہوتی ہے۔ محافل میلاد کے انعقاد سے مسلمانوں کے اندر حضور علیہ السلام کے ساتھ وفاداری اور جانثاری کا جذبہ جنم لیتا ہے اور مضبوط ہوتا ہے جبکہ حضور ﷺ کی سیرت طیبہ کو پڑھنے، سننے اور سمجھنے سے کتاب و سنت کے ساتھ عملی پاسداری کا تعلق مضبوط ہوتا ہے۔ اس لیے اگر ہم محافلِ میلاد منعقدکریں اور ان کا اثر ہماری زندگی، ہمارے عمل اور ہمارے اخلاق و سیرت پر نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ ہم نے محفل میلاد سے نفع حاصل نہیں کیا۔

میلاد النبی ﷺ کی محافل اور سیرتِ نبوی ﷺ آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ عشق و محبت کا دعویٰ کریں، آپ کے ساتھ حبی و قلبی تعلق قائم کریں، آپ ﷺ کے ساتھ وفاداری و جانثاری کا دعویٰ کریں لیکن اس کا اثر ہمارے اخلاق اور ہمارے برتاؤ میں نظر نہ آئے اور ہمارے اخلاق میں سلامتی نہ ہو، ہمارے اخلاق میں رواداری نہ ہو، ہماری طبیعت اور مزاج میں خوشگواری نہ ہو تو اس کا مطلب ہے ہم نے میلاد النبی ﷺ اور سیرت نبوی سے کچھ حاصل نہیں کیا ہے۔ میلاد نبوی اور سیرت نبوی ﷺ کا مشترکہ پیغام یہ ہے کہ ہمارے طرزِ عمل میں حکمت و دانائی پیدا ہو۔ کسی سے اتفاق ہو تب بھی حسنِ اخلاق قائم رہے اور کسی سے اختلاف ہو تب بھی حسنِ اخلاق قائم رہے۔

میلاد پاک کی محفلوں سے جو محبت رسول ﷺ کی خیرات ملتی ہے اور محفل میلاد میں سیرت کے بیان سے آقا علیہ السلام کے اخلاق حسنہ کا جو پیغام ملتا ہے، اس کا خلاصہ حسنِ خلق ہے۔ یہ محافل علمِ صحیح کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اگر ہم ان محافل سے علم حاصل نہ کریں اور صرف مراسم کرکے چلے جائیں خواہ وہ عالمی میلاد کانفرنس ہے یا پوری دنیا میں منعقدہ محافل، اگر ان محافل کو مراسم بنادیں، دھوم دھام سے کرلیں مگر اس سے علم نصیب نہ ہو تو ہم نے ان کے مقصد کو کھودیا۔ علم تب نفع مند ہوتا ہے جب اس سے حلم پیدا ہو اور جب علم اور حلم جمع ہوتے ہیں تو انسان کی زندگی کو سِلم نصیب ہوتا ہے یعنی سلامتی نصیب ہوتی ہے۔ پھر انسان کا قول و فعل اور کردار دوسروں کے لیے رحمت و شفقت اور محبت بن جاتا ہے اور اس میں نفرت نہیں رہتی۔ علم اگر حلم اور سلم سے خالی ہوجائے تو وہ بے وقار ہوجاتا ہے اور اس کی تاثیر ختم ہوجاتی ہے۔ اس لیے امام مالک نے فرمایا:

اے بندے جب تجھے علم نصیب ہوجائے تو وہ علم تمہارے وجود، سیرت اور کردار پر نظر بھی آنا چاہیے اور اس سے تمہارے اندر اطمینان، سکون، حلم و بردباری اور وقار پیدا ہوجائے۔ اگرہم علم حاصل کرلیں، آقا علیہ السلام کی محبت کے دعویدار ہوجائیں، محافل میلاد منعقد کرلیں، مجالسِ سیرت منعقد کرلیں اور ان تمام چیزوں کا اثر ہماری زندگی میں تقویٰ اور ورع کی صورت میں دکھائی نہ دے، سکینہ اور وقار کی صورت میں دکھائی نہ دے، حلم اور بردباری کی صورت میں دکھائی نہ دے، اچھے اور خوبصورت کردارکی صورت میں دکھائی نہ دے، ہمارے برتاؤ دوسرے کے لیے سختی پر مبنی رہیں، ہمارے دل تنگ رہیں اور ان میں وسعت پیدا نہ ہو بلکہ نفرتیں ہوں، محبت پیدا نہ ہو، ہم دوسروں کے لیے منبعِ رحمت نہ بن سکیں تو اس کا مطلب ہے ہم نے علم حاصل نہیں کیا اور ہم نے سیرتِ نبوی ﷺ سے فیض حاصل نہیں کیا۔ امام شافعی نے فرمایا:

لیس العلم ماحفظ، العلم ما نفع.

علم صرف وہ نہیں جسے یاد کرلیا جائے، پڑھ لیا جائے اور بیان کردیا جائے بلکہ علم وہ ہے جس سے نفع حاصل کیا جائے۔ جو علم ہماری زندگی اور ہماری سیرت کو تبدیل کردے، اسے علم نافع کہیں گے۔

حضرت سہل بن عبداللہ التستریؒ فرمایا کرتے تھے:

من اراد النظر الی مجالس الانبیاء فلینظر الی مجالس العلماء.

انبیاء کا زمانہ گزر گیا، ہم انھیں جسمانی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکے۔ اب اگر کوئی چاہے کہ انبیاء کی مجلسوں کو دیکھے کہ ان کی مجلس کیسی تھی تو اسے چاہیے کہ وہ علماء کی مجلسوں میں بیٹھے اور انھیں دیکھے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ علماء اپنی سیرت، عمل، کردار، اخلاق، حسنِ ادب، قول و کردار اور برتاؤ میں اتنے نفیس، لطیف، میٹھے، پیارے، وسیع القلب، وسیع المشرب، معتدل، سخی اور اتنے نرم و شفیق ہونے چاہئیں کہ ان کی مجلس کو دیکھ کر انبیاء کی مجالس یاد آجائیں، اسی لیے حضور علیہ السلام نے علماء کو انبیاء کا وارث ٹھہرایا۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے جن سلاطین اور حکمرانوں کو دعوتی خطوط لکھے، ان میں آپ ﷺ نے ہمیشہ یہ الفاظ استعمال فرمائے: اسلم تسلم۔تم اسلام قبول کرلو تاکہ تمہیں دنیا کی سلامتی مل جائے۔ آپ ﷺ نے پہلا خط حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو لکھا اور یہ اعلان نبوت کا پانچواں سال تھا، جب مسلمان کمزور تھے مگر آپ ﷺ نے اسلم تسلم کے الفاظ ہی تحریر فرمائے۔ پھر آپ ﷺ دعوتِ اسلام اور توحید و رسالت کا پیغام پہنچاتے اور یٰـٓاَهْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَةٍ سَوَآءٍ م بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ فرماکر مشترکات کی بنیاد پر اکٹھا ہونے کی دعوت دیتے۔ آخر میں فرماتے کہ اگر تو انکار کردے تو تیری قوم کے گناہ کا بوجھ تیرے کندھوں پر ہوگا۔

غور طلب بات یہ ہے کہ جب مسلمان کمزور تھے تب بھی دعوت دی تو اسلم تسلم فرمایا اور جب مسلمان طاقتور ہوگئے سلطنتِ اسلامیہ پھیل گئی، اس وقت بھی جو خطوط بھیجے، اس کے الفاظ بھی اسلم تسلم تھے۔ سات ہجری میں مقوقس بادشاہ کو خط لکھا تو اس میں بھی اسلم تسلم کے الفاظ لکھے اور اضافہ یہ کیا کہ یعطک اللہ اجرک مرتین۔ اگر تو اسلام قبول کرلے تو اللہ تعالیٰ تجھے دوگنا اجر عطا کرے گا لیکن اگر تو قبول نہ کرے گا تو تیری قوم کا بوجھ تیرے سر پر ہوگا۔

ان تمام خطوط میں چار امور توجہ طلب ہیں:

1۔ پہلا لفظ جس کے ذریعے حضور ﷺ نے دعوت دی، وہ سلامتی ہے۔

2۔ اگر تو اسلام قبول کرلے تو تجھے دوگنا اجر ملے گا۔

3۔ اگر میری دعوت قبول نہ کرو اور رد کردو تو پھر تمہاری قوم کی گمراہی کا بوجھ بھی تم پر ہوگا۔

یہاں یہ نہیں فرمایا کہ اگر میری دعوت کو رد کردو گے تو میں لشکر لے کے تمہارے اوپر حملہ کردوں گا، پھر تمہاری جان کی خیر نہیں، پھر ہم تمہارا وجود مٹادیں گے۔ نہیں، ایسا نہیں کہا بلکہ صرف متوجہ کرکے نصیحت کردی۔

4۔ چوتھا نکتہ یہ فرمایا کہ اے اہلِ کتاب! آؤ کچھ چیزیں تمہارے اور ہمارے درمیان مشترک ہیں، جنہیں تم بھی مانتے ہو، ہم بھی مانتے ہیں۔ آؤ ان مشترکات کی بنیاد پر اکٹھے ہوجائیں۔

یہ چار چیزیں آج ہماری توجہ کا مرکز ہیں۔ افسوس کہ آج کا مسلمان مسلمان کے گلے کاٹ رہا ہے۔۔۔ مسلمان مسلمان کو کافر ٹھہراتا ہے۔۔۔ مسلمان مسلمان کو جہنم میں دھکیلنا چاہتا ہے۔۔۔ مسلمان مسلمان کو گالی دیتا ہے۔۔۔ مسلمان مسلمان کی تذلیل کرتا ہے۔۔۔ مسلمان مسلمان سے نفرت کرتا ہے۔۔۔ چھوٹے موٹے اختلافات، ایک مسئلہ، رائے، نقطہ نظر پر اختلاف ہے مگر اس کی وجہ سے ہماری زندگیاں نفرت کے ساتھ بھر گئی ہیں۔۔۔ ہماری زندگی میں وسعت اور گنجائش نہیں رہی۔۔۔ دل میں سلامتی کی جگہ نفرت، قہر اور غضب آگیا ہے۔۔۔ اور زبان سے آگ برستی ہے۔ اگر سلف صالحین اور قرون اولیٰ کا کوئی مسلمان ہمارا نقشہ دیکھ لے تو حیرت زدہ رہ جائے کہ کیا یہ مسلمان ہے؟ کیا یہ نبی رحمت ﷺ کے پیروکار اور امتی ہیں جو اسلم تسلم کے ساتھ دعوتِ اسلام دیتے تھے؟

حضور اکرم ﷺ کے فرمان اسلم تسلم کو قرآن کے پیغام کے تحت دیکھیں تو اللہ رب العزت کا یہ پیغام غور طلب ہے کہ

اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ.

(النحل، 16: 125)

’’(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجیے جو نہایت حسین ہو۔‘‘

اس آیت کریمہ میں تین چیزیں توجہ طلب ہیں:

  1. اللہ کی راہ کی طرف حکمت کے ساتھ دعوت دیں۔
  2. خوبصورت نصیحت کے ساتھ دعوت دیں۔
  3. اگر ان سے مجادلہ ہوجائے تو بہت ہی احسن طریقے سے گفتگو کریں۔

اس آیت میں مخاطب دو طرح کے لوگ ہیں:

ایک قسم موافقین کی ہے، دوسری قسم مخالفین کی ہے۔

لہذا اگر موافق کو دعوت دیں تو حکمت کے ساتھ دعوت دیں اور خوبصورت انداز کے ساتھ دیں۔ یہاں واعظین، علماء و خطباء کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم موعظۃ الحسنۃ اور حکمت کے طریق پر قائم ہیں؟ اگر ہیں تو اللہ کا شکر ادا کریں اگر بات میں کڑواہٹ ہے، کھردری ہے، اس میں شفقت و محبت نہیں، دوسرے کی تکریم و عزت نہیں تو ہم اللہ کے بھی نافرمان ہوئے اور اس کے رسول ﷺ کے بھی نافرمان ہوئے۔

دوسرا طبقہ مخالفین کا ہے۔ اگر مخالف کو دعوت دینی ہو تو اب اچھے طریقے سے بات کرنا کافی نہیں ہے بلکہ بہت ہی خوبصورت طریقے اور بہت ہی اچھے قرینے سے سلجھی ہوئی بات کرو۔ یہاں حَسَنَہ نہیں فرمایا بلکہ اَحْسَنْ فرمایا ہے۔ لہذا دین کا پیغام دینے والوں اور اگلی نسلوں کی تربیت کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ طریقِ حسن، طریقِ احسن اور طریقِ حکمت کے ساتھ پیغام دیں۔