شیخ احمد محمود الشریف (جامعۃ الازھر)
شیخ احمد محمود الشریف جامعۃ الازہر میں فقہ، اصول الفقہ اور عقیدہ کے استاذ ہیں۔ آپ نے تحریک منہاج القرآن اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری آج سے دس سال پہلے جب قاہرہ تشریف لائے تو آپ نے عالمِ اسلام کی بڑی مساجد میں سے ایک مسجد سلطان حسن میں خطاب فرمایا۔ اس مجلس کی انتظامی ذمہ داری میرے پاس تھی۔ خطاب سے پہلے ہم نے یہ سوچ رکھا تھا کہ زیادہ سے زیادہ 20، 30 لوگ خطاب سننے آئیں گے کیونکہ شیخ الاسلام عربی نہیں ہیں، عجمی ہیں اور پھر پاکستان سے ہیں لیکن ہم وہ منظر دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ آپ کے تشریف لانے سے پہلے ہی وہ مسجد بھر چکی تھی۔ اس موقع پر آپ نے اپنے خطاب میں کثیر علوم پر گفتگو فرمائی یہاں تک کہ حاضرینِ مجلس جن کا تعلق مختلف ممالک سے تھا، وہ سب دیکھتے ہی رہ گئے۔ عربی زبان پر آپ کی دسترس، علومِ حدیث پر مہارت اور منکرینِ حدیث کے شبہات کا رد کرنے میں آپ کی مہارت نے سب کو حیران کردیا۔
اس موقع پر آپ نے ایک خاص مجلس میں ہمیں اپنی سندِ حدیث کی اجازت سے نوازا۔ اس کے بعد ہم بھی آپ کے باقاعدہ شاگرد اور محبین کی صف میں شامل ہوگئے۔
میں عالمی میلاد کانفرنس کو ہر سال بذریعہ انٹرنیٹ دیکھتا تھا، اس دفعہ اس عظیم محفل میں حاضری کا شرف بھی مل گیا۔ میں اور میرے استاذ الشیخ ابراہیم صلاح الھدھد اس محفل میں شرکت کے بعد آپس میں بات کررہے تھے کہ ہم نے آج تک کثیر ممالک کا دورہ کیا لیکن اس طرح کی محفل میلاد آج تک دیکھنے کو نہیں ملی۔ لوگوں کو ایک جگہ جمع کرنا کوئی بڑی بات نہیں لیکن انہیں اتنے احسن اور منظم انداز سے ایک جگہ جمع کرنا اور پھر انہیں علم کی دولت سے نوازنا، یہ کام شیخ الاسلام کے علاوہ اور کوئی نہیں کرسکتا۔ آپ کا خطاب اتنا جامع و مانع اور فصیح و بلیغ تھا کہ ہر ہر لفظ علم کا نیا باب تھا جس کی شرح کے لیے گھنٹوں درکار ہیں۔ جو علمی گفتگو آپ نے کی، ہم نے آج تک یہ علمی نکات کسی سے سنے اور نہ کتب میں پڑھنے کو ملے۔
الشیخ الدکتور ابراہیم صلاح الھدھد
جامعۃ الازھر مصر کے سابق رئیس الجامعہ الشیخ ابراہیم صلاح ابوسلیمان الھدھد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ: ہم نے عالمی میلاد کانفرنس کا جو حیران کن منظر دیکھا، میں یقینِ کامل سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ آقا علیہ السلام اس عظیم محفل میں خود جلوہ گر تھے اور آپ ﷺ ہمارے ہر سلام کا جواب دے رہے تھے۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مجھ پر درود و سلام پڑھا کرو۔ پس تمہارا درود و سلام میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور میں اس کا جواب بھی دیتا ہوں۔
شیخ الاسلام؛ اپنے علم، سلوک، ادب، تربیت اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ تعلق میں شیخِ کامل ہیں۔ میں نے دنیا کے کثیر ممالک کا وزٹ کیا۔ یورپ، افریقہ، ایشیاء، تمام براعظموں میں گیا لیکن محفلِ میلاد کا ایسا عظیم اجتماع میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ مجھے لوگوں کی کثرت نے کبھی متاثر نہیں کیا کیونکہ یہ کوئی بڑی بات نہیں، غیر مسلم بھی بہت بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہیں لیکن نبی کریم ﷺ کے ذکر کے لیے سجائی گئی اس محفل میں تمام لوگوں کے خشوع و خضوع، ادب اور محبت بھرے احساسات جو میں نے یہاں دیکھے، اس سے پہلے آج تک دیکھنے کو نہیں ملے۔
ہم ایسے جم غفیر کو دیکھ رہے تھے کہ جن کے شیخ نے واقعتا ان کی تربیت کی ہے اور ان کے دلوں کو تراش کر انہیں محبتِ رسول ﷺ سے بھرا ہے اور تزکیہ پر ان کی تربیت کی ہے۔ آپ لوگ جو عبادت کرتے ہیں یہ آپ کا اور آپ کے رب کا معاملہ ہے لیکن میرے لیے جو چیز اہم ہے وہ آپ کا اخلاق ہے۔ میں اس جم غفیر کی اخلاقی تربیت دیکھ کر حیران ہوں۔ ایسا اخلاق ہمیشہ تربیت سے اور محبتِ رسول ﷺ سے ہی جنم لیتا ہے۔
میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ جس طرح حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرامl کی صرف اقوال کے ساتھ نہیں بلکہ اعمال کے ساتھ تربیت فرمائی، اسی طرح شیخ الاسلام نے بھی زبانی نہیں بلکہ عملی کام کرکے اپنے فیض یافتہ لوگوں کی تربیت فرمائی۔ جس طرح نبی کریم ﷺ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ تمام جہانوں کے لیے ’’احمد‘‘ بن کر تشریف لائے، اسی طرح شیخ الاسلام نے آپ ﷺ کے منہج پر عمل کرتے ہوئے تمام فرقوں کے لوگوں کو یہاں جمع فرمایا اور ایسا صرف اس وقت ممکن ہوتا ہے جب آپ میں اخلاص اور للہیت انتہاء درجے کی موجود ہو۔