اجتماعی مقصدِ حیات: مصطفوی معاشرے کا قیام

ڈاکٹر نعیم انور نعمانی

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا.

(العنکبوت،29: 69)

’’اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (یعنی مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیں اپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں۔‘‘

جو لوگ کسی بھی میدان میں اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، باری تعالیٰ ان کی جدوجہد کو ثمر آور کرتا ہے اور ان کی سعی و کاوش کو نتیجہ خیز بناتا ہے۔ اگر مقصد عظیم ہو تو رب کا وعدہ ہے کہ لنھدینھم سبلنا کا چشمہ ہماری بارگاہ سے جاری ہوجائے گا اور انسان کو لمحہ بہ لمحہ ہدایتِ ربانی ملتی رہے گی اور وہ منزل کی طرف بڑھتا رہے گا۔ تمام تر رکاوٹوں کی پرواہ کیے بغیر اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادِ کارکو عظیم مقصدِ حیات کو حاصل کرنے کے لیے صرف کرنا جاھدوا فینا ہے۔ جاھدوا میں اپنے نفس کی باطل خواہشات کا مقابلہ کرنا بھی شامل ہے۔ ایسی خواہشاتِ نفس جو انسان کو اپنا غلام بنالیتی ہیں اور اعلیٰ مقصد کی جدوجہد میں مزاحم ہوجاتی ہیں۔ انسان کو اپنی جدوجہد کو منزل آشنا کرنے کے لیے ان اندرونی اور بیرونی خطرات اور سازشوں سے بھی مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔

انسانی جدوجہد ہمیشہ اس کے مقصدِ حیات کے گرد گھومتی ہے۔ ہمیں اپنا مقصدِ حیات دنیا کے فلاسفر اور حکماء سے نہیں سمجھنا بلکہ اس خالقِ دو جہاں سے سمجھنا ہے جس نے ہمیں تخلیق فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ.

(الذاریات،51: 56)

’’اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لیے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں۔‘‘

قرآن مجید نے انسان کا مقصدِ حیات ’’بندگی اختیار کرنا‘‘ قرار دیا ہے۔ اللہ رب العزت نے مقصدِ حیات کی اس واضحیت کے ساتھ ساتھ یہ بھی بیان کردیا کہ کوئی انسان بھی اپنی زندگی میں یہ تصور نہ کرے کہ وہ عبث پیدا کیا گیا ہے اور اس کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ ارشاد فرمایا:

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰـکُمْ عَبَثًا.

(المومنون،23: 115)

’’سو کیا تم نے یہ خیال کر لیا تھا کہ ہم نے تمہیں بے کار (وبے مقصد) پیدا کیا ہے۔‘‘

زندگی کے اس واضح مقصد یعنی عبادت و عرفانِ الہٰی کے حصول کا راستہ بھی قرآن مجید نے واضح کردیا ہے کہ وہ راستہ مسلسل جدوجہد اور احسن عمل سے عبارت ہے۔ ارشاد فرمایا:

الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَنَّکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً.

(الملک،67: 2)

’’جس نے موت اور زندگی کو (اِس لیے) پیدا فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے۔‘‘

مقصدِ حیات اور ذریعۂ حیات میں فرق

شاہراهِ حیات پر چلتے چلتے انسان ذریعۂ حیات اور مقصدِ حیات کو خلط ملط کردیتا ہے۔ عام دنیوی زندگی میں اگر کسی سے سوال کریں کہ تمہارا مقصدِ حیات کیا ہے؟ تو اس کے جواب میں ہمیں یہ سننے کو ملتا ہے کہ مجھے ڈاکٹر بننا ہے، انجینئر بننا ہے، بیرسٹر بننا ہے، پروفیسر بننا ہے، فلاں فلاں پروفیشنز میں اس منصب تک پہنچنا ہے۔ یہ سارے عہدہ و مناصب انسان کے مقصدِ حیات نہیں ہیں بلکہ یہ سارے ذرائع حیات ہیں کہ ان کے ذریعے انسان اپنی حیات کو باقی رکھتا ہے، اپنی زندگی کا نظام ان کے ذریعے چلاتا ہے اور ان ہی کے ذریعے آمدن و دولت کماتا ہے۔ مقصد اور ذریعۂ حیات میں بڑا واضح فرق ہے۔ مقصدِ حیات ایک مرتبہ متعین ہوجانے کے بعد بدلتا نہیں ہے جبکہ ذریعۂ حیات بدلتا رہتا ہے۔ کوئی طالب علم بیرسٹر بننا چاہتا ہے لیکن بعد ازاں حالات موافق نہ رہے اور وہ انجینئر بن گیا تو اس سے معلوم ہوا کہ ذریعہ اور ذرائعِ حیات بدلتے رہتے ہیں جبکہ مقصدِ حیات کبھی نہیں بدلتا۔

ہمارا مقصدِ حیات کیا ہے؟

مقصد ہمیشہ بڑا ہوتا ہے اور وہ مقصد انسانی فلاح، دینی تفوق، معاشرتی اصلاح اور قوم کی تقدیر بدلنے سے عبارت ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو یہ مقصد دے کر مبعوث کیا گیا کہ:

هُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْهُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّهٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ.

(الصف،61: 9)

’’وہی ہے جس نے اپنے رسول (ﷺ) کو ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا تا کہ اسے سب ادیان پر غالب و سربلند کردے خواہ مشرک کتنا ہی ناپسند کریں۔‘‘

اب ہمیں بحیثیت مسلمان اس آیتِ کریمہ کی روشنی میں اپنے مقصدِ حیات کا تعین کرنا ہے اور پھر اس کے تعین کے بعد اپنی زندگی کی ساری مساعی و کاوش کو اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے صرف کردینا ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ نے اعلانِ بعثت کے بعد اپنی اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ، طائف، مدینہ منورہ اور عرب کے دیگر علاقوں اور قبائل تک دعوتِ اسلام پہنچانے اور معاشرے کی اصلاح کے لیے اپنی زندگی کے شب و روز ایک کردیے۔ دن ہو یا رات ہر وقت اپنے مقصدِ بعثت کو حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہے۔

(1) انفرادی مقصدِ حیات؛ حصولِ علم ہے

ایک مسلمان کو بھی اپنی زندگی رسول اللہ ﷺ کی سیرت مطہرہ کی روشنی میں بامقصد بنانا ہے۔ اس اعتبار سے ہر مسلمان کی زندگی کے دو رخ ہیں:

1۔انفرادی زندگی

2۔اجتماعی زندگی

انفرادی زندگی کو بامقصد بنانے کے لیے علم حاصل کرنا ضروری ہے اور پھر اس علم پر دین کی تعلیمات اور احکامات کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے اور بعد ازاں اس کے ذریعے دوسروں کی زندگیوں کو سنوارنا انفرادی مقصدِ حیات ہے۔ انسانی زندگی کو بامقصد بنانے کے لیے پہلی چیز طلبِ علم ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ہر مسلمان کے لیے طلب علم کو فرض قرار دیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم و مسلمۃ.

بدقسمتی سے حصولِ علم کے اس راستے کو ہم فراموش کرچکے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کو اس انفرادی مقصدِ حیات سے آشنا کرنے کے لیے سب سے پہلے انھیں تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا۔

(2) اجتماعی مقصدِ حیات؛ مصطفوی معاشرے کا قیام

ہمیں انفرادی زندگی کے مقصد حیات کو سامنے رکھنے کے ساتھ ساتھ اجتماعی مقصدِ حیات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ اس اجتماعی مقصدِ حیات کے سبب ہی کوئی قوم اقوامِ عالم میں زندہ قوم کے طور پر سامنے آتی ہے۔ اگر صرف انفرادی زندگی کے مقصدِ حیات پر ہی زور دیا جائے اور اجتماعی مقصدِ حیات کو نظر انداز کردیا جائے توپھر سقوطِ بغداد جیسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں کہ جہاں بڑے بڑے علماء موجود تھے مگر ہلاکو اور چنگیز خان کےہاتھوں ان کی گردنیں بھی کاٹی گئیں۔ یہ لوگ انفرادی زندگی میں باشعور تھے مگر اجتماعی شعور قوم میں پیدا نہ کرسکے تھے۔ اگر اجتماعی شعور زندہ ہو تو اقوام تباہی کا شکار نہیں ہوتیں۔ اجتماعی شعور زندہ ہو تو اقوام محض اپنے جذبہ، حکمت اور شعور کے ساتھ بھی دشمن کو ناکام کرسکتی ہیں۔ جس قوم میں اجتماعیت ہو، وہ کبھی نہیں مرتی اور جس قوم کی اجتماعیت مرجائے، وہ قوم زندہ ہوتے ہوئے بھی مردہ قوم ہوجاتی ہے۔

ہماری قوم کی اجتماعیت کو سب سے زیادہ نقصان سیاست اورمذہب کے غلط استعمال نے پہنچایا ہے۔ ہم نے پوری قوم میں سیاست کے نام پر ایک دوسرے سے نفرت و حقارت پیدا کی ہے اور مذہب کے نام پر فرقہ واریت اورمذہبی جنونیت کو ہوا دی ہے۔آج نہ تو کوئی سیاستدان اجتماعیت کی دعوت دیتا ہے اور نہ ہی دین کا کوئی مبلغ (الا ماشاء اللہ) عملی اجتماعیت کا نام لیتا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ قوم اپنا کوئی اجتماعی تشخص نہیں رکھتی۔اجتماعیت کے اس فقدان کے باعث نہ صرف ہم قومی سطح پر بلکہ امتِ مسلمہ عالمی سطح پر زوال کا شکار ہے۔

اجتماعی مقصدِ حیات کے حصول کا لائحہ عمل

اجتماعی مقصد حیات کو حاصل کرنے کے لیے درج ذیل اقدام ناگزیز ہیں:

1۔ قوم کی ذہن سازی یعنی ان کی تربیت کرنا ہوگی۔

2۔ ذہین افراد کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوگا۔

3۔ افرادِ معاشرہ کی معاشی کفالت کرنا ہوگی۔

بعد ازاں معاشرے کو مثالی بنانے کے لیے درج ذیل اقدام کرنے ہوں گے:

1۔ تعلیم و تربیت کے عمل کو ہر سطح پر نافذ کرنا ہوگا اور معاشرے میں مثبت سرگرمیوں کو فروغ دینا ہوگا۔

2۔ معاشرے میں انصاف کی فراہمی کو بھی ممکن بنانا ہوگا کہ کسی کا حق نہ مارا جائے، کسی کے ساتھ ظلم نہ ہو، کسی کی زمین پر قبضہ نہ ہو، کسی کے اثاثہ جات کو چھینا نہ جائے اور معاشرے کے کسی بھی فرد کے حق کو پامال نہ کیا جائے۔

3۔ معاشرے کے ہر کمزور، ضرورتمند اور بے حال و بے سہارا فرد اور مقروض شخص کی مدد کے لیے بیت المال کا قیام عمل میں لانا ہوگا۔

4۔ ہم معاشرے میں جس جمہوریت کی بات کرتے ہیں اس کے لیے عوام میں بیداریِ شعور کی مہم چلانا ناگزیر ہے۔

یہی اقدامات ہماری اجتماعی زندگی کو خوبصورت و حسین اور دلکش بناسکتے ہیں۔ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ہر شخص کو اخلاص کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور ان تمام اقدامات کے عملی نفاذ اور معاشرے کو مثالی بنانے کے لیے ہر فرد کو انتہائی سنجیدگی اور سمجھداری کا رویہ اپنانا ہوگا۔

اجتماعی مقصدِ حیات کا حصول کیونکر ممکن ہے؟

زندگی کے کسی بھی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پہلی چیز اس فرد اور قوم کا اخلاص (Sincerity) ہے۔ دوسری چیز جو مقصد کے حصول کو یقینی بناتی ہے وہ شعور (Sensibility) ہے۔ شعور کا تعلق انسان کے ذہن کے ساتھ ہے۔ کامیابی کے لیے تیسرا عنصر سنجیدگی (Seriousness) ہے۔ اگر ہم اپنے مقصد کے حصول کے لیے سنجیدگی اختیار نہیں کرتے تو کبھی کامیابی ہمارا مقدر نہیں بن سکتی۔ کوئی بھی شخص کامیابی کے ان تینوں عناصر کو کماحقہ اپناکر ہی کامیاب ہوسکتا ہے۔

کچھ لوگ مخلص ہوتے ہیں مگر بے شعور ہوتے ہیں، نتیجتاً وہ ناکام ہوجاتے ہیں اور کچھ باشعور ہوتے ہیں مگر اپنے مقصد کے حصول میں سنجیدہ نہیں ہوتے ہیں، اس لیے وہ بھی خاسر ہوجاتے ہیں۔ الغرض تینوں عناصر میں سے کسی ایک کی کمی بھی کامیابی سے محروم کردیتی ہے۔

اخلاص، شعور اور سنجیدگی یہ تینوں عوامل انسانی کامیابی کے لیے ناگزیر ہیں جبکہ اس کامیابی کو حاصل کرنے کے لیے کچھ عملی عناصر بھی ہیں:

1۔ پہلا عنصر اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اس کی منصوبہ بندی اور پھر اس کا مکمل تنظیمی عمل (Organizational process) لازمی ہے۔ کسی بھی مقصد کے حصول کے لیے منصوبہ بندی اور تنظیمی عمل اس کی کامیابی کو یقینی بنادیتا ہے۔

2۔ انفرادی اور اجتماعی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے دوسرا عملی عنصر تربیت (Training) ہے۔ جب تک انسان تربیت کا مرحلہ طے نہ کرے، کامیابی کا حصول یقینی نہیں ہوتا ۔ رسول اللہ ﷺ نے سب سے پہلے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تربیت کی اور اسی وجہ سے آپ ﷺ نے بہت قلیل وقت میں اپنے مقصدِ بعثت کو پالیا۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی عطا کردہ تعلیم اور تربیت کا نتیجہ ہی تھا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اتنے بڑے جزیرۂ عرب کو صرف اور صرف دس سال کے قلیل عرصہ میں آپ ﷺ کی قیادت میں فتح کرلیا اور اس میں اسلامی حکومت قائم کردی۔

رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کی ویعلمھم اور یزکیهم کے ذریعے ہمہ جہتی تربیت کا اہتمام کیا تھا۔ اگر آج ہم اپنی قوم کو دینی و دنیاوی ہر دو لحاظ سے اخلاق و کردار اور اقدار سکھانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں ان سب کو تعلیم و تربیت سے مزین کرنا ہوگا۔اسلام کا ہر عمل ایک تعلیم بھی ہے اور ایک مستقل تربیت بھی ہے۔ نماز ہی کو لے لیں یہ تعلیم و تربیت کا خوبصورت مرکب ہے۔ ایک امام کی اقتداء میں نماز ادا کرنا اور ہر ہر رکن صلوٰۃ میں ہر مقتدی کا امام کی اتباع اور پیروی کرنا ایک مسلمان کی تربیت کا اہتمام ہے۔ اس عمل کا مقصد کسی ایک امام، رہبر، راہنما کی اطاعت اور پیروی کرنا ہے اور اسی کردار کے ذریعے کسی عمل کی اجتماعی تکمیل ہوتی ہے۔

خلاصۂ کلام

قوم کی اجتماعی کامیابی کے لیے قوم کی تعلیم، تنظیم اور تربیت لازمی ہے، اسی صورت قومی مقصد حاصل ہوسکتا ہے۔ ہمیں ہر سطح پر معاشرتی برائیوں کو ختم کرنا ہوگا اور معاشرتی اچھائیوں کو زندہ کرنا ہوگا۔ ہمیں بحیثیت مسلمان اس کردار کو اپنانا ہوگا کہ ایمان والے تو وہ ہیں جو یامرون بالمعروف وینھون عن المنکر کا عملی پیکر ہوتے ہیں۔

معاشرے سے کسی ایک بھی اچھائی کو ختم کرنا تمام اچھائیوں کو ختم کرنا ہے اور کسی ایک اچھائی کو زندہ کرنا، سارے معاشرے کی اچھائی کی قدروں کو زندہ کرنا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے قرآن حکیم نے ایک انسانی جان کے ناحق قتل کو تمام انسانوں کا قتل قرار دیا ہے اور ایک انسانی جان کی حفاظت کو کل انسانی جانوں کی حفاظت قرار دیا ہے۔اسلام ایک نفس اور ایک جان میں کل جہاں کا تصور دیتا ہے اور سب سے زیادہ اجتماعیت پر زور دیتا ہے اور اسی حقیقت کو یداللہ علی الجماعۃ کے تصور کے ساتھ واضح کرتا ہے۔ جس فعل کو ساری قوم مل کر کرے، اس میں اللہ کی مدد بھی شامل حال ہوجاتی ہے۔

اگر ہر کوئی اپنے انفرادی مقصدِ حیات پر توجہ مرکوز رکھے اور اجتماعی مقصدِ حیات کو فراموش کردے تو پھر سقوطِ بغداد جیسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں جہاں انفرادی سطح پر شعور ہونے کے باوجود علماء کی گردنیں بھی محض اس لیے کٹ گئیں کہ وہ اجتماعی سطح پر شعور پیدا نہ کرسکے

بدقسمتی سے آج تک ہم نے من حیث المجموع اس قوم کو کوئی قومی ہدف نہیں دیا ہے، کوئی قومی شعور نہیں دیا ہے، کوئی قومی اخلاق نہیں دیا ہے اور کوئی قومی مقصد اور نصب العین نہیں دیا ہے۔ اس لیے ہم انفرادی زندگی میں بھی بے مقصد اور قومی زندگی میں بھی بے مقصد ہیں۔ ہماری انفرادی کاوشیں بھی بے شمار ہیں اور اجتماعی کاوشیں بھی بے حساب ہیں مگر ان کی سمت متعین اور رخ مقرر نہیں ہے۔ ہم من حیث القوم اس اونٹنی کی طرح ہیں، جو بے لگام و بے مہار ہے اور بغیر کسی مقصد کے چلے جارہی ہے۔

آیئے ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنے اصل مقصد کو پہچانیں، اپنی قوم اور اپنی ناقہ بے زمام کو پھر سے مقصد اور منزل کی جانب گامزن کرکے اس قوم کو ایک عظیم قوم بنادیں اور اس معاشرے کو ایک مثالی اور مصطفوی معاشرہ بنادیں۔ علامہ محمد اقبال کی طرح ہر صاحبِ درد کو اپنی قوم کی ناقۂ بے زمام کو سوئے قطار می کشم کا فریضہ سرانجام دینا چاہیے۔ اسی جانب متوجہ کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے اپنا وظیفہ حیات امت کو یوں بتایا ہے۔

نغمہ کجا ومن کجا ساز سخن بہانہ ایست
سوئے قطار می کشم ناقۂ بے زمام را