سوال: کیا دوزخ کبھی فنا ہوگی اور دوزخیوں کی سزا کبھی ختم ہوگی؟
جواب: عقیدۂ اہل سنت کے مطابق جہنم کبھی فنا نہیں ہو گی، صرف توحید پرست گناہگار لوگ اپنی سزا پوری ہونے کے بعد حکمِ الہٰی سے جنت میں داخل ہوں گے جبکہ کفار ومشرکین اور ملحدین ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے اور وہ کبھی اس سے نکل نہیں پائیں گے۔ اس حوالے سے بہت سی آیات ہیں جو اس پر دلالت کرتی ہیں کہ ان کا ٹھکانہ ہمیشہ کے لیے جہنم ہی ہوگا، چند آیات ملاحظہ ہوں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَظَلَمُوْا لَمْ یَکُنِ اللهُ لِیَغْفِرَلَهُمْ وَلَا لِیَهْدِیَهُمْ طَرِیْقًا. اِلَّا طَرِیْقَ جَهَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَآ اَبَدًا وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللهِ یَسِیْرًا.
(النساء،4: 168، 169)
’’بے شک جنہوں نے (اللہ کی گواہی کو نہ مان کر) کفر کیا اور (رسول کی شان کو نہ مان کر) ظلم کیا، اللہ ہرگز (ایسا) نہیں کہ انہیں بخش دے اور نہ (ایسا ہے کہ آخرت میں) انہیں کوئی راستہ دکھائے۔ سوائے جہنم کے راستے کے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، اور یہ کام اللہ پر آسان ہے۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ کفار کی بخشش نہیں ہے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ دوسرے مقام پر فرمایا:
اِنَّ اللهَ لَعَنَ الْکٰفِرِیْنَ وَاَعَدَّ لَھُمْ سَعِیْرًا. خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا لَا یَجِدُوْنَ وَلِیًّاوَّ لَا نَصِیْرًا.
(الاحزاب،33: 64، 65)
’’بے شک اللہ نے کافروں پر لعنت فرمائی ہے اور اُن کے لِئے (دوزخ کی) بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔ جِس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ نہ وہ کوئی حمایتی پائیں گے اور نہ مددگار۔‘‘
مذکورہ آیت مبارکہ میں بھی یہی بیان ہے کہ کفار جہنم سے نکل نہیں پائیں گے اور وہ ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ اگلی آیت مبارکہ بھی کفار کے ابدی طور پر جہنم میں رہنے پر دلالت ہے:
قُلْ اِنِّیْ لَنْ یُّجِیْرَنِیْ مِنَ اللهِ اَحَدٌ وَّلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحَدًا. اِلَّا بَلٰـغًا مِّنَ اللهِ وَرِسٰلٰتِہٖ وَمَنْ یَّعْصِ اللهَ وَرَسُوْلَہٗ فَاِنَّ لَہٗ نَارَجَهَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَآ اَبَدًا.
(الجن،72: 22، 23)
’’آپ فرما دیں کہ نہ مجھے ہر گز کوئی اللہ کے (اَمر کے خلاف) عذاب سے پناہ دے سکتا ہے اور نہ ہی میں قطعاً اُس کے سوا کوئی جائے پناہ پاتا ہوں۔ مگر اللہ کی جانب سے اَحکامات اور اُس کے پیغامات کا پہنچانا (میری ذِمّہ داری ہے)، اور جو کوئی اللہ اور اُس کے رسول (ﷺ) کی نافرمانی کرے تو بے شک اُس کے لیے دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
ان آیات مبارکہ سے یہی ثابت ہے کہ کفار کے لیے کسی صورت بھی جہنم سے چھوٹ نہیں ہے بلکہ ان کے لیے ابدی ٹھکانہ جہنم ہی ہے کیونکہ بعد از قیامت موت کو ذبح کر دیا جائے گا، اس لیے جنت وجہنم میں حیات، حیاتِ ابدی ہو گی جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
قیامت کے دن موت کو سرمئی مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا، (ابو کریب نے اضافہ کیا) اس کو جنت اور دوزخ کے درمیان کھڑا کیا جائے گا، (اس کے بعد راویوں کا اتفاق ہے) پھر کہا جائے گا:
يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ فَيَشْرَئِبُّونَ وَيَنْظُرُونَ وَيَقُولُونَ: نَعَمْ، هَذَا الْمَوْتُ، قَالَ: وَيُقَالُ: يَا أَهْلَ النَّارِ هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ قَالَ فَيَشْرَئِبُّونَ وَيَنْظُرُونَ وَيَقُولُونَ: نَعَمْ، هَذَا الْمَوْتُ، قَالَ فَيُؤْمَرُ بِهِ فَيُذْبَحُ، قَالَ: ثُمَّ يُقَالُ: يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ خُلُودٌ فَلَا مَوْتَ، وَيَا أَهْلَ النَّارِ خُلُودٌ فَلَا مَوْتَ قَالَ: ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: {وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ. [مريم: 39]} وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى.
’’اے اہل جنت کیا تم اس کو پہچانتے ہو؟ وہ گردن اٹھا کر اسے دیکھیں گے اور کہیں گے: ہاں یہ موت ہے۔ کہا جائے گا اے اہل دوزخ! کیا تم اس کو پہچانتے ہو؟ وہ گردن اٹھا کر اسے دیکھیں گے اور کہیں گے: ہاں یہ موت ہے۔ پھر اس کو ذبح کرنے کا حکم ہو گا اور اس کو ذبح کر دیا جائے گا۔ پھر کہا جائے گا کہ اے اہل جنت! اب دوام ہے اور موت نہیں ہے اور اے اہل دوزخ! اب ہمیشگی ہے اور موت نہیں ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی (ترجمہ:) ’اور آپ انہیں حسرت (و ندامت) کے دن سے ڈرائیے جب (ہر) بات کا فیصلہ کردیا جائے گا، مگر وہ غفلت (کی حالت) میں پڑے ہیں اور ایمان لاتے ہی نہیں۔ ‘ اور آپ نے اپنے ہاتھ مبارک سے دنیا کی طرف اشارہ کیا۔‘‘
(البخاري، الصحيح، كتاب التفسير، باب (وأنذرهم يوم الحسرة)، 4: 1760، الرقم: 4453)
اس حدیث مبارک سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ جنت ودوزخ کو فنا نہیں ہے، یہ رہیں گی۔ اس کا مطلب ہے کہ جب یہ دونوں دائمی ہیں تو ان میں رہنے والے بھی دائمی طور پر ان میں رہیں گے، لہٰذا دوزخ کا فنا نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں کوئی نہ کوئی موجود بھی رہے گا یعنی کفار ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ یہی عقیدہ اہل سنت ہے جیسا کہ اہل السنہ کی کتب میں لکھا ہے:
وَالْجَنَّةُ وَالنَّارُ خُلِقَتَا لِلْبَقَاءِ لَا لِلْفَنَاءِ.
’’جنت اور دوزخ کی تخلیق باقی رہنے کے لیے کی گئی ہے، ان کے لیے فنا نہیں ہے۔‘‘
(طحاوي، شرح العقيدة الطحاوية، 1: 480)
منصور طبری فرماتے ہیں:
وَالْجَنَّةُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَهُمَا مَخْلُوقَتَانِ مَوْجُوْدَتَانِ بَاقِيَّتَانِ لَايَفْنَيَانِ أَبَدًا.
’’اور جنت حق ہے اور دوخ حق ہے اور وہ دونوں پیدا کی ہوئی ہیں وہ دونوں موجود ہیں۔ (جنت اور دوخ) دونوں باقی ہیں۔ دونوں کبھی فنا نہیں ہوں گی۔‘‘
(ابن منصور، شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة، 1: 197)
ان عبارات کے مطابق دوزخ بھی ابدی ہے اور اس کے فنا ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
اس موقع پر اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ کہا جاتا ہے کہ احادیث مبارکہ کے مطابق قیامت کے دن کے کافی طویل عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ کی رحمت اُسکے غضب پر غالب آ جائے گی اور اہلِ دوزخ اپنی سزا کی مدت پوری ہونے کے بعد بالآخر دوزخ سے نکال لیے جائیں گے اور دوزخ بجھا دی جائے گی۔ اگر دوزخ مستقل ٹھکانہ ہے تو اہل دوزخ بھی تو اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں، کیا ان کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا باب ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے گا یا بند ہی رہے گا؟
یاد رکھیں کہ احادیثِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کا اس کے غضب پر غالب آنے کا ذکر موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے غلبہ کے حوالے سے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَمَّا خَلَقَ اللهُ الْخَلْقَ کَتَبَ فِي کِتَابِهِ وَهُوَ يَکْتُبُ عَلَی نَفْسِهِ وَهُوَ وَضْعٌ عِنْدَهُ عَلَی الْعَرْشِ إِنَّ رَحْمَتِي تَغْلِبُ غَضَبِي.
(مسلم، الصحيح، کتاب التوبة، باب في سعة رحمة اللہ تعالی وأنّها سبقت غضبه، 4: 2107، الرقم: 2751)
’’جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اس نے اپنی کتاب میں لکھا اور وہ اپنی ذات کے متعلق لکھتا ہے جو اُس کے پاس عرش پر رکھی ہوئی ہے کہ میرے غضب پر میری رحمت غالب ہے۔‘‘
اس طرح کی احادیث سے کفار کو جہنم سے نکالنے کا کوئی جواز نہیں ملتا۔ ویسے بھی آیاتِ مقدسہ میں بڑی صراحت کے ساتھ حکم الہٰی موجود ہے کہ کفار کا دائمی ٹھکانا جہنم ہی ہے اور ان کے لیے چھٹکارے کی کوئی سبیل نہیں ہے۔ جب انہوں نے اللہ کے احکام کو ٹھکرا دیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے بھی آخرت میں اپنی رحمت کے دروازے ان پر بند کر دئیے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے غضب پر اس کی رحمت غالب ہے، اسی لیے تو وہ شرک کرنے اور نافرمانیاں اور گناہ کرنے کے باوجود بھی انسان کو زندگی کی ہر سہولت مہیا کرتا ہے، ورنہ بڑے بڑے جرائم پیشہ اسی وقت اللہ کی پکڑ میں آجائیں اور انہیں مزید مہلت ہی نہ ملے۔ یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رحمت کے غلبہ کا ہی نتیجہ ہے کہ منکر الٰہی بھی اس کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ کفار کے لیے جہنم میں ہمیشگی ہو گی، ان کے لیے کسی صورت بھی جہنم سے چھٹکارا نہیں ہو گا، وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں ہی رہیں گے، ان کے لیے جہنم سے نکل کر جنت میں جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ صرف اہلِ ایمان گناہگار ہی اپنی سزا پوری ہونے کے بعد جہنم سے جنت میں جائیں گے جبکہ کفار کا مستقل ٹھکانہ جہنم ہی ہوگا، وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے کیونکہ آیاتِ مبارکہ میں اللہ تعالی نے عذاب دینے کی کوئی قیدنہیں لگائی اور نہ ہی ’اَبدًا‘ کی کوئی حد بیان کی ہے۔
سوال: نماز میں یکسوئی حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے؟
جواب: نماز میں داخل ہوتے ہی نمازی کے دل و دماغ میں ایسے وسوسے اور خیالات آنے لگتے ہیں کہ نماز میں یکسوئی نصیب نہیں ہوتی۔ امام غزالیؒ نے نماز میں شیطانی خیالات، وسوسوں سے بچنے اور خشوع و خضوع برقرار رکھنے کے لیے درج ذیل تدابیر بیان فرمائی ہیں :
1۔ انسان جب اذان کی آواز سنے تو دل میں تصور کرے کہ مجھے میرے خالق و مالک اور غفور و رحیم کی بارگاہ سے حاضری کا بلاوا آیا ہے۔ اب میں ہر کام پر اس حاضری کو ترجیح دیتا ہوں لہٰذا جس کام میں بھی مشغول ہو، اسے چھوڑ کر نماز کی تیاری کرے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
رِجَالٌ لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللهِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَآءِ الزَّکٰوۃِ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْهِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ.
النور،24: 37)
’’(اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے اور نہ نماز قائم کرنے سے اور نہ زکوٰۃ ادا کرنے سے (بلکہ دنیوی فرائض کی ادائیگی کے دوران بھی) وہ (ہمہ وقت) اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں (خوف کے باعث) دل اور آنکھیں (سب) الٹ پلٹ ہو جائیں گی۔‘‘
2۔ نماز میں یکسوئی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مؤذن کی صدا سننے کے بعد نمازی کا دل بار بار اپنے مالک کی حاضری کی طرف متوجہ ہو اور خوش ہو کہ مالک نے یاد فرمایا ہے اور میں اس کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اپنی تمام روداد عرض کروں گا۔ ۔ ۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگوں گا۔ ۔ ۔ شوق و محبت سے قیام، رکوع اور سجود کے ذریعے دلی راحت اور سکون حاصل کروں گا اور اپنے تمام غموں اور صدماتِ ہجر و فراق کا ازالہ کروں گا۔ ۔ ۔ میں محبوبِ حقیقی کی حاضری کے لیے طہارت کرتا ہوں، اچھے کپڑے پہنتا ہوں اور خوشبو لگا کر حاضر ہوتا ہوں کیونکہ میرے مالک کا حکم ہے :
یٰـبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ.
(الاعراف،7: 31)
’’اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو۔‘‘
پس بندے کو چاہئے کہ بارگاهِ الہیٰ کی عظمت کا بار بار تصور کرتے ہوئے سوچے کہ اتنی بڑی بارگاہ میں کیسے حاضری دوں گا۔
3۔ نماز میں یکسوئی حاصل کرنے کے لیے مکمل نماز کے معانی ذہن نشین کر لیے جائیں اور اس کا مفہوم لفظاً لفظًا ازبر کر لیا جائے۔ مثلاً لفظ سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ زبان سے ادا ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کی بڑائی، پاکیزگی اور تقدس کا تصور دل و دماغ میں گھر کر جائے اور نمازی پر یہ خیال حاوی ہو جائے کہ وہ سب سے بڑے بادشاہ کے دربار میں دست بستہ حاضر ہے جو ہر عیب اور نقص سے پاک ہے۔ وَبِحَمْدِکَ سے اس کی حمد و ثنا کی طرف نگاہ جائے کہ وہی ذات ساری تعریفوں کے لائق ہے۔ علی ھذا القیاس ساری نماز کے ایک ایک لفظ پر نمازی کو آگاہی ہو تو نماز میں یکسوئی نصیب ہوتی ہے۔
4۔ نمازی نماز میں یہ تصور کرے کہ یہ میری زندگی کی آخری نماز ہے، شاید اس کے بعد زندگی مہلت نہ دے۔ بس یہ سوچ نمازی کو باقی چیزوں سے ان شاء اللہ اجنبی و بیگانہ کر کے اپنے رب کریم کی طرف متوجہ کر دے گی۔