سوشل میڈیا رحمت بھی ہے اور زحمت بھی ہے۔ خیر بھی ہے اور شر بھی ہے۔یہ نیکیاں کمانے کا ذریعہ بھی ہے اور گناہ و بدی سے اپنا دامن آلودہ کرنے کا بھی سبب ہے۔ اس سوشل میڈیا کو کون کیسے استعمال میں لاتا ہے اس کا انحصار استعمال کرنے والے کی نیت، تربیت، طبیعت، ذہنی کیفیت، علمی کمیت اور اس کے نسب و حیثیت پر ہے۔ سوشل میڈیا نے جہاں بہت سارے نامعلوم اہلِ فن اور اہلِ علم حضرات کو معتبر بنایا، وہاں بہت سارے اہلِ علم ہونے کے دعوے داروں کو اُن کے غیر علمی اور غیر ذمہ دارانہ طرزِ تکلم، ان کی ہجو گوئی، لغویات اور مغلظات کے باعث بے نقاب بھی کیا۔
بدقسمتی سے علماء جیسی وضع قطع رکھنے والے لوگ جنہیں عامۃ الناس کم علمی اور نادانی کے باعث علماء دین میں شمار کرتی ہے، وہ بھی سوشل میڈیا کے معروف ابلاغی ٹولز فیس بک اور یوٹیوب چینلز پر ایک طرف دینی و مذہبی عقائد و مسائل کی غلط تشریح و تعبیر کرتے دکھائی دیتے ہیں تو دوسری طرف علماء حق اور علمی، فکری اور روحانی اعتبار سے معتبر شخصیات کو برے القابات سے پکارتے نظر آتے ہیں۔ صرف مغلّظات بولنے تک بات محدود نہیں رہی بلکہ سوشل میڈیا پر بعض اَحباب ایسے بھی دیکھے گئے ہیں جو منبرِ رسول پر باقاعدہ اُچھل کود کرتے اور کرتب دکھاتے پائے گئے ہیں۔اسی طرح ایسے کچھ نام نہاد مبلغین کی واحد علمی شہرت لطیفہ گوئی ہے۔ یہ نام نہاد علماء کسی بھی طور دین کے نمائندے نہیں ہیں، اس لیے کہ جس اندازِ تکلم اور اخلاق باختہ رویہ سے وہ اپنے شاگردوں اور عامۃ الناس کو دینِ اسلام کا تعارف کروا رہے ہیں، یہ کسی بھی طور کسی عالم اور داعی کی شان نہیں ہے اور نہ ہی یہ دینِ اسلام کی تعلیمات ہیں۔اختلافی مسائل کو منفی انداز میں اجاگر کرنے، مغلظات بولنے اور علماءِ حق کو برے القابات سے پکارنے کے پسِ منظر میں درج ذیل وجوہات ہوتی ہیں:
1۔ سوشل میڈیا پر ایسا طرزِ عمل اختیار کرنے اور دوسروں کو گالیاں دینے والوں کو زیادہ لائیکس، شیئرنگ اور آمدنی (Revenue) ملتی ہے۔
2۔ اِن کا یہ طرزِ عمل انھیں سوشل میڈیا پر وائرل کرتا ہے اور انھیں شہرت ملتی ہے، اور یہ لوگ دراصل طالب بھی اسی چیز کے ہی ہوتے ہیں۔
3۔ ایک سبب دائمی جہالت اور تربیت کی کمی ہے۔
4۔ بعض کسی خاص ایجنڈے پر ہوتے ہیں اور دین کی تعلیمات کے حوالے سے منفی اندازِ فکر اور علماءِ حق کے ساتھ ایسا رویہ عمداً اختیار کرتے ہیں۔
5۔ دینی تعلیمات کو عمداً مسخ کرنا اور علمائے حق کو ٹارگٹ کرنے کا ایک مقصد سوشل میڈیا پر اپنے لوگوں کی توجہ حاصل کرنا اور اپنا قد کاٹھ بڑھانا ہوتا ہے۔
ایسےنادان اور جاہل لوگ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ دوسروں کو گالیاں دینا مصطفوی تعلیم و تربیت کے برعکس رویہ ہے۔ گالی دینے والا عالم تو کیا انسان کی تعریف پر بھی پورا نہیں اترتا۔وہ زبانیں جنہیں پیکرِ شرافت و صداقت ہونا چاہیے، افسوس کہ وہ زبانیں محلِ نجاست و خباثت بنی ہوئی ہیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی مبارک حیات کا ہر لمحہ اور ہر مرحلہ اُمت کے سامنے بطور رول ماڈل موجود ہے۔ آپ ﷺ پر کفار مکہ نے ظلم کے پہاڑ توڑے۔ آپ ﷺ کے ساتھیوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا۔ کوئی ظلم اور جبر ایسا نہیں تھا جس کا شکار آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ نہ ہوئے ہوں۔ شعب ابی طالب کی محصوری ہو یا طائف کی وادی کی سنگ باری، آپ ﷺ کسی موقع پر بھی بدترین مخالفین کو برے القابات نہیں دیتے بلکہ آپ ﷺ اُن کی اصلاح اور ہدایت کی دعائیں کرتے نظر آتے ہیں۔ جو علماء اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں اور اہلِ علم ہستیوں کو برے ناموں اور القابات سے یاد کرتے ہیں اور ان پر سب و شتم کرتے ہیں، اُن کا مصطفوی تعلیمات اور سیرت طیبہ سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
دینِ اسلام عفو و درگزر، صلہ رحمی، رواداری، سلامتی اور نرمی کا دین ہے۔ایک مسلمان جو حقیقت میں اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے دین کو سمجھتا اور اُس پر صدقِ دل سے عمل پیرا ہے، وہ کسی مسلمان کو ہاتھ اور زبان سے تکلیف نہیں دیتا۔ حدیثِ نبوی میں ’لسان‘ کا لفظ پہلے استعمال کیا گیا ہےکیونکہ زبان انسان کو ہاتھ سے دیے گئے زخم سے زیادہ زخمی کرتی ہے اور اس کا زخم انسانی روح پر لگتا ہے جس سے انسان اضطراب کا شکار ہو جاتا ہے۔دینِ اسلام کی نمایاں وبنیادی تعلیمات میں سے ہے کہ کسی کو بُرے القابات، برے الفاظ اور تمسخرانہ کلمات سے نہ پکارا جائے۔
آئیے یہ جانتے ہیں کہ ایسے لوگوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے کیا احکامات صادر فرمائے ہیں اور اُن کا تعارف کن الفاظ میں کروایا گیا ہے:
دعوتِ دین اور اخلاقِ مصطفی ﷺ
دینِ اسلام کی بنیاد حضور نبی اکرم ﷺ کے اَخلاقِ عالیہ اور آپ ﷺ کی عطا کردہ تعلیمات ہیں۔ آپ ﷺ کی مکی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو حقیقت واضح ہوتی ہے کہ آپ ﷺ نے دینِ اسلام کے اوائل دور میں ہر طرح کے مصائب و آلام اور تکالیف برداشت کیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کفارِ مکہ نے ہر نوع کی ستم ظریقی کا نشانہ بنایا۔یہاں تک کہ محدثین نے اُن تکالیف کا ذکر کرنے کے لیے اپنی کتب میں ابواب قائم کیے کہ: ’’بَابُ مَا لَقِيَ النَّبِيُّ ﷺ وَأَصْحَابُهُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ بِمَكَّةَ‘‘ [باب:نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مکہ میں مشرکین کے ہاتھوں جن مشکلات کا سامنا کیا، اُن کا بیان]
ان تکالیف و مصائب کا اندازہ اس ایک واقعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ ﷺ نماز ادا فرما رہے تھے اور جب سجدے کی حالت میں تھے توعقبہ بن ابی معیط اونٹ کی اوجھڑی لایا اور آپ ﷺ کی پیٹھ مبارک پر ڈال دی۔حضرت عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ میں یہ سب دیکھ رہا تھا ، مگر میں کچھ نہ کر سکتا تھا، کاش مجھ میں روکنے کی اور کچھ کرنے کی طاقت ہوتی۔
(بخاری، 1: 94، رقم: 237)
کفارِ مکہ اور منافقین نے اس سے بھی بڑھ کر ظلم و ستم روا رکھے، لیکن نبی کریم ﷺ نے کبھی کسی کو نہ برا کہا، نہ زبانِ رسالت سے کوئی لغو لفظ نکلا اور نہ ہی کسی کی ذاتیات پر حملہ کرتے ہوئے اُسے برے لقب سے پکارا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جسے آج کے سوشل میڈیا پر برسرِ پیکار نام نہاد علماء بیا ن کرنے سے کتراتے ہیں۔حضور نبی اکرم ﷺ کے دین کے نام پر عزت کمانے والے یہ لوگ افسوس کہ آپ ﷺ کی سیرتِ مقدسہ پر کسی بھی طرح عمل کرتے ہوئے نظر نہیں آتے۔
چاہیے تو یہ تھا کہ جس نبی ﷺ کا کلمہ پڑھا ہے اور جن کی تعلیمات کے پرچا رکے لیے محراب و منبر استعمال کرتے ہیں، اُسی نبی کی تعلیمات بعینہ لوگوں تک پہنچائی جائیں۔لیکن منابر ومساجد میں دین کے نام پر لوگوں کی ذاتیات منظرِ عام پر لانا، گالی گلوچ کرنا دین سے بے وفائی اور دشمنی ہے۔
منبروں اور مساجد میں بد زبانی کرنے والے کون؟
مذہبی تعلیم سے جڑنے والے بعض مفلوک الحال لوگ جن کا بچپن محرومیوں اور کسمپرسی میں گزرا، جب وہ منبر اور سٹیج پر بیٹھتے ہیں تو اُن کے الفاظ ماضی میں اُن کے ساتھ پیش آنے والے تلخ واقعات کی عکاسی کرتے ہیں۔اُن کی چیخ و پکار اُن کی محرومیوں کی نشاندہی کر رہی ہوتی ہے۔حضرت حسان بن عطیہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
سَيَظْهَرُ شِرَارُ أُمَّتِي عَلَى خِيَارِهِمْ.
(ابو عمرو عثمان بن سعید، السنن الواردۃ فی الفتن، 4: 798، الرقم:401)
’’عنقریب میری امت کے بہترین لوگوں پر شریراور گھٹیا قسم کے لوگوں کا ظہور ہوگا‘‘
زبانِ رسالت نے ایسے لوگوں کی نشاندہی آج سے ساڑھے چودہ صدیاں قبل کر دی تھی کہ ایسے لوگ جو منبروں پر بیٹھ کر دین کے نام پر لوگوں کی ذاتیات پر حملہ آور ہوں گے، گالیاں دیں گے، اپنے گھٹیا الفاظ کے ساتھ سستی شہرت کے حصول کے لیے بیہودہ حرکات کا سہارا لیں گے،لوگوں کی خواہشات کے مطابق فتوے جاری کریں گے، کتاب اللہ کی تعلیمات کو سستے داموں فروخت کریں گے، یہاں تک کہ اپنے فتوی اور دین فروشی کے ذریعے فساد فی الارض کا موجب بنیں گے،ان کا یہ عمل ان ہی یہود و نصارٰی جیسا ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کو مالی منفعت کی خاطر بیچا اور عذابِ الہٰی میں گرفتار ہوئے۔
دنیا کا بدترین شَر علمائے سوء کا شَر ہے
حضور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات آفاقی ہیں۔ آپ ﷺ نے کسی بھی معاملے میں ابہامات واشکالات نہیں رکھے بلکہ دینِ متین کی تمام اَقدار کو واضح کر دیا۔نگاہِ نبوت کائنات میں ہونے والی تمام تبدیلیوں سے واقفیت رکھتی تھی۔ آپ ﷺ کے علم میں یہ بات تھی کہ کس طرح دین کے نام پر لوگ شہرت کمائیں گے،دین کو فروخت کریں گے اور منبروں پر بیٹھ کر لغو اور بیہودہ زبان استعمال کریں گے۔یہی وجہ ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ سے شَر اور فساد کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
شر (فساد اوربرائی) کے بارے میں مجھ سے نہ پوچھو، بلکہ بھلائی کے بارے میں مجھ سے سوال کرو، (اُس شخص نے تین بار سوال کیا اور تین مرتبہ ہی آپ ﷺ نے اُسے ایسے ہی فرمایا) آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! (ہم مجسم و مشخص صورت میں شر کی پہچان کرنا چاہتے ہیں) تو آپ ﷺ نے فرمایا:
أَلَا إِنَّ شَرَّ الشَّرِّ شِرَارُ الْعُلَمَاءِ، وَإِنَّ خَيْرَ الْخَيْرِ خِيَارُ الْعُلَمَاءِ.
(دارمی، السنن،1: 116، رقم:370)
خبردار! سب سے بڑی برائی اور شر علماءِ (بد) کا شر ہے، اور سب سے بڑی بھلائی علماءِ (خیر) کی بھلائی ہے۔
دینِ اسلام عفو و درگزر، صلہ رحمی، رواداری، سلامتی اور نرمی کا دین ہے۔ایک مسلمان جو حقیقت میں اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے دین کو سمجھتا اور اُس پر صدقِ دل سے عمل پیرا ہے، وہ کسی مسلمان کو ہاتھ اور زبان سے تکلیف نہیں دیتا
حضرت معاذ بن جبلرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ طوافِ کعبۃ اللہ فرما رہے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہمیں لوگوں کے شر کے متعلق بتایئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: خیر کے متعلق سوال کرو۔پھر آپ ﷺ نے فرمایا:
شِرَارُ النَّاسِ شِرَارُ الْعُلَمَاءِ فِي النَّاسِ.
(بزار، المسند،7: 93، رقم:2649)
’’لوگوں میں بد ترین شر (فاسد تاویلات کرنے والے) علماء ہیں۔‘‘
منبروں پر بیٹھ کر دین کے نام پر فسادات پھیلانے والے لوگ دینی اور اخلاقی لحاظ سے اس قدر غیر مہذب اور غیر تربیت یافتہ ہوتے ہیں کہ اُن کے نزدیک دوسروں کو بیہودہ الفاظ سے پکارنا، گالی دینا اور مغلظات بولنا برائی نہیں ہے۔اس لیے یہ بڑے دھڑلّے کے ساتھ اپنے کلام کا آغاز ہی گالی سے کرتے ہیں۔حالانکہ حضور نبی اکرم ﷺ نے واضح طور پر فرما دیا ہے کہ:
سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ.
(بخاری، الصحیح، 1: 27، رقم:48)
’’مسلمان کو گالی دینا فسق/گناہ ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔‘‘
کاش یہ لوگ اپنی اصلاح و ہدایت کے لیے ان احادیث مبارکہ کی طرف متوجہ ہوں اور ان کی روشنی میں عمل کرتے ہوئے اپنی اصلاح کریں اور اَخلاقِ عالیہ سے متصف و مزیّن ہوں۔
علمائے سوء بد ترین لوگ
زبانِ رسالت سے جہاں علماءِ حقہ کے لیے تحسین کے الفاظ وارد ہوئے ہیں وہیں پر ایسے علماء جو دین کے نام پر لوگوں میں فساد پھیلاتے اور منبروں پر گالیاں دیتے نظر آتے ہیں، انھیں آسمان کے نیچے بد ترین قرار دیا گیا ہے۔ مولا علی علیہ السلام سے مروی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
یُوْشِكُ أَنْ یَّاْتِيَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقَی مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ، وَلَا یَبْقَی مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ، مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابٌ مِنَ الْهُدَی عُلَمَاءُهُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِیْمِ السَّمَاءِ مِنْ عِنْدِهِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ، وَفِیْهِمْ تَعُوْدُ.
(بیہقی، شعب الایمان،2: 311، رقم:1908)
’’لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ حقیقی اسلام (لوگوں میں) باقی نہیں رہے گا مگر صرف اس کا نام ہوگا اور قرآنِ کریم میں سے بھی کچھ باقی نہیں رہے گا (یعنی مقصدِ قرآن جو سمجھنا اور عمل کرنا تھا) بلکہ صرف اس کا رسم الخط باقی رہے گا ۔ (یعنی سمجھنے اور عمل کرنے کے بجائے صرف دیکھ کر پڑھنا) مسجد یں آباد ہوں گی مگر ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے سب سے زیادہ برے لوگ ہوں گے ۔ انہی سے فتنے اٹھیں گے اور انہی کی طرف لوٹیں گے ۔(ظالموں کی حمایت و مدد کی وجہ سے دین میں فتنہ پیدا ہوگا اور انہی میں لوٹ آئے گا، اور انہی پر ظالم مسلط کر دیئے جائیں گے) ‘‘
یہ حدیث اس زمانہ کی نشان دہی کر رہی ہے جب دنیا میں اسلام تو موجود رہے گا مگر مسلمانوں کے دل اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہوں گے۔ کہنے کوتو وہ مسلمان کہلائیں گے مگر اسلام کے حقیقی مدعا اور منشاء سے کو سوں دور ہوں گے۔ قرآن جو مسلمانوں کے لئے ایک مستقل ضابطۂ حیات اور نظامِ علم ہے اور اس کا ایک ایک لفظ مسلمانوں کی دینی و دنیاوی زندگی کے لئے راہ نما ہے،حفاظ کے سینوں میں تو ہوگا مگر وہ اس کے نور سے محروم ہوں گے۔ قرآن صرف برکت کےلیے پڑھنے کی ایک کتاب ہو کر رہ جائے گی۔حدیث مبارک میں’’ رسم قرآن‘‘سے مراد یہی ہے کہ تجوید و قرأت سے قرآن پڑھا جائے گا، مگر اس کے معارف و مفاہیم سے بالکل شناسا نہیں ہوں گے۔ احکاماتِ قرآنیہ یعنی اَوامر و نواہی پر عمل کرنے کی دولت سے محروم ہوں گے۔مساجد ظاہر میں آباد ہوں گی مگر عبادتِ خداوندی کی لذت، ذکر اللہ اور درس و تدریس جیسے اعلیٰ مقاصد کا فقدان ہوگا۔ وہ علماء جو خود کو روحانی پیشوا و قائدین کہلوائیں گے، اپنے فرائضِ منصبی سے ہٹ کر مذہب کے نام پر امت میں فرقہ واریت پیدا کریں گے، ظالموں اور جابروں کی مدد و حمایت کریں گے۔ اس طرح دین میں فتنہ و فساد کا بیج بو کر اپنے ذاتی اغراض کی تکمیل کریں گے۔
جب سارے مکاتب فکر کے ائمہ کرام شرعی اُصول و ضوابط کے مطابق قرآن و حدیث اور اجماع و قیاس سے ہی استدلال کرتے ہیں تو کسی کو لعن طعن کرنا روا نہیں ہے، یہ بات مبلغین و واعظین اور بالخصوص ہمارے دینی مدارس کے مدرسین کے لیے قابلِ توجہ ہے
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ بندوں (کے سینوں سے) نکال لے بلکہ علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا:
إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا.
(بخاری، الصحیح،1: 50، رقم:100)
یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو جاہلوں کو سردار بنالیں گے اور ان سے (دینی مسائل) پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے، خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسرں کو بھی گمراہ کریں گے۔
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ:
يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ آلِهَتُهُمْ بُطُوْنُهُم، شَرَفُهُمْ مَتَاعُهُمْ، قِبْلَتُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، دِيْنُهُمْ دَرَاهِمُهُمْ وَدَنَانِيْرُهُمْ، أُوْلئِكَ شَرُّ الْخَلْقِ لَا خَلَاقَ لَهُمْ.
(دیلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، 5: 444، رقم:8688)
لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب ان کی زندگی کا اہم مقصد شکم پروری ہوگا ۔ ان کے نزدیک شرف وبزرگی دنیا کی دولت ہوگی، ان کی بیویاں ان کی سردار ہوں گی، اور ان کا مذہب درہم و دینار ہوگا ۔ وہی لوگ بدترین مخلوق ہوں گے، اُن کا (آخرت) میں کوئی حصہ نہيں ہوگا۔
لوگوں میں اختلاف کا واقع ہونا فطری عمل ہے۔اسلام اگرچہ کسی کی اختلافی رائے کو مسترد نہیں کرتا ، لیکن ایسے اختلافات کو ناپسند کرتا ہے جو تعصب وہٹ دھرمی اور منفی جذبات پر مبنی ہوں
یاد رکھیں کہ جب کوئی باریش شخص منبرِ رسول پر بیٹھ کر گالی اور مغلظات بولتا ہے تو سوسائٹی میں اضطرابات پیدا ہوتے ہیں۔جب عوام الناس اِن نام نہاد علماء کو باہم لڑتے دیکھتے ہیں تو اُن میں دین سے بیزاری اور خلفشاری بڑھتی ہے۔منبروں پر بیٹھ کر برے الفاظ اور ناپسندیدہ القابات کے ساتھ دوسروں کو مخاطب کرنے والے لوگ نسلِ نو کو دین سے متنفر کررہے ہیں۔علاوہ ازیں ان کے اس قبیح اور حرام فعل سے متاثر ہوکر جو بھی اس رویہ اور طور طریقہ کو اختیار کرے گا تو ان نام نہاد علماء کے نامۂ اعمال میں بھی گناہوں کا اضافہ ہوتا چلا جائے گا کیونکہ انھوں نے ہی اس برائی اور شر کی بنیاد رکھی۔جب کوئی عالم ایک منبر پر بیٹھ کر کسی کو شک کی بنیاد پر گالی دیتا ہے، اُس پر الزام لگاتا ہے تو یہ ایک شنیع و قبیح عمل ہے جس کے متعلق اسلام منع کرتا ہے۔اس سے ایک طرف تو اس کے حلقۂ احباب میں اس کی عزت و منزلت ختم ہوجائے گی بلکہ اُس کی گفتگو بے اَثر اور لایعنی سمجھی جائے گی۔
اختلاف کا طریقۂ کار
لوگوں میں اختلاف کا واقع ہونا فطری عمل ہے۔اسلام اگرچہ کسی کی اختلافی رائے کو مسترد نہیں کرتا ، لیکن ایسے اختلافات کو ناپسند کرتا ہے جو تعصب وہٹ دھرمی اور منفی جذبات پر مبنی ہوں۔دورانِ اختلاف یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اگر اختلافِ رائے کا مقصود حق اور صراطِ مستقیم ہو تو ایسا اختلاف مقبول و ممدوح اور قابلِ تحسین ہے۔
حال ہی میں منہاج القرآن انٹر نیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کی کتاب’آداب اختلاف‘ شائع ہوئی ہے۔ اس موضوع پر یہ پہلی ضخیم کتاب ہے جس کی اَشد ضرورت تھی۔آج زیادہ تر جھگڑے اس بات پر ہو رہے ہیں کہ ہم اختلاف اور مخالفت کا فرق بھول گئے ہیں۔علمائے کرام، سیاستدانوں بالخصوص صحافی حضرات اور مختلف ٹاک شوز میں بیٹھنے والے تجزیہ نگاروں کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اپنی کتاب’’آداب اختلاف‘‘ کے صفحہ 48 پر رقمطراز ہیں کہ:
’’جب سارے مکاتب فکر کے ائمہ کرام شرعی اُصول و ضوابط کے مطابق قرآن و حدیث اور اجماع و قیاس سے ہی استدلال کرتے ہیں تو کسی کو لعن طعن کرنا روا نہیں ہے، یہ بات مبلغین و واعظین اور بالخصوص ہمارے دینی مدارس کے مدرسین کے لیے قابلِ توجہ ہے کہ وہ کوئی ایسا طرزِ تبلیغ یا طرزِ تدریس اختیار نہ کریں جس سے کسی دوسرے مسلک کے امام کی تنقیص و تحقیر یا احترام میں کمی اور طلبہ کے ذہن میں نفرت پیدا ہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے دینِ اسلام کو ہر دور میں ایسے باصلاحیت اور مضبوط رجالِ کار عطا فرمائے جو شریعت کی روح اور مقاصد کے مطابق پیش آمدہ جدید مسائل کا حل تلاش کرتے رہے۔ اگر اپنے زمانے سے قبل کے اَسلاف کے ساتھ اختلاف کی نوبت پیش آئی تو اَحسن انداز میں اُن کی رائے کے ساتھ اختلاف کیا۔اس لیے ایسے اختلاف کو مذموم نہیں بلکہ محمود کہا گیا ہے۔اجتہادی اختلاف کے بارے میں حضرت عمر بن عبد العزیزرضی اللہ عنہ کا قول بہت اہمیت کا حامل ہے۔آپ نے فرمایا:
مَا أُحِبُّ أَنَّ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللهِ لَمْ يَخْتَلِفُوا، لِأَنَّهُ لَوْ كَانَ قَوْلًا وَاحِدًا كَانَ النَّاسُ في ضِيْقٍ.
(ابن عبد البر، جامع بيان العلم وفضله، 1: 901)
’’مجھے اس بات سے خوشی نہ ہوتی اگر رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اختلاف نہ ہوتا؛ اس لیے کہ اگر ان میں اختلاف نہ ہوتا تو لوگ (صرف ایک ہی آپشن ہونے کے باعث اُمورِ دین کے حوالے سے) تنگی میں پڑ جاتے (اور ان کے لیے رخصت اور گنجائش کی راہیں مسدود ہوجاتیں۔‘‘
یہ بات کتنی واضح ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیزرضی اللہ عنہ کہہ رہے ہیں کہ صحابہ کرام میں بھی اختلافی آراء پائی جاتی تھیں۔ کسی بھی کتاب میں یہ چیز ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی کہ اگر کسی ایک صحابی یا تابعی نے دوسرے سے اختلاف کیا ہو تو دونوں کے مابین فحش کلامی، گالی گلوچ اور مغلّظات کا تبادلہ بھی ہوا ہو۔ہمارے اسلاف کا کبھی یہ وتیرہ نہیں رہا کہ اپنی رائے کو طاقت کے بل بوتے پر امت پر مسلط کریں۔اجتہادی کاوشیں خلوصِ نیت کے ساتھ اشاعت و فروغِ دین کی خاطر ہوا کرتی تھیں۔ہمارے اسلاف ذاتی شہرت و عزت کے کبھی طلب گار نہ تھے۔
اگر ہم صحابہ کے بعد تابعین اور اَتباع التابعین رضی اللہ عنہم کے مبارک دور کو ملاحظہ کریں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ ائمہ فقہ یعنی امام ابو حنیفہ اور صاحبین رحمھم اللہ تعالیٰ کے مابین متعدد اختلافی مسائل کتبِ فقہ میں مذکور ہیں مگر امام ابو حنیفہ نے اپنے ساتھ اختلاف کرنے والے اپنے شاگردوں کی کبھی سرزنش نہیں کی کہ تم اپنے استاذ اور امام کے سامنے اختلافی مسئلہ بیان کررہے ہیں یا میری رائے کی تردید کر رہے ہو؟
اگر کسی شخص کا کسی کے ساتھ اختلافِ رائے ہو جائے، یا وہ کسی اور نظریہ کا پیروکار ہو، تو اُس پر تنقید و طنز کرنا منشاء اسلام کے خلاف ہے۔اسلام میں تو کسی سزا یافتہ گناہ گار پر بھی طعن و تشنیع اور ملامت کرنے کی ممانعت آئی ہے۔کتبِ احادیث میں درج ہے کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خلافِ شرع امور انجام دینے والوں پر طعن و تشنیع کی تو حضور نبی اکرم ﷺنے اس سے بھی منع فرما دیا۔
ایک صحابی پر کسی معاملے میں حد نافذ ہوئی تو بعض صحابہ نے اُن پر لعنت کی۔ اس پررسول اللہ ﷺنے فرمایا:
لَا تَلْعَنُوْهُ، فَوَاللَّهِ، مَا عَلِمْتُ إِنَّهُ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُوْلَهُ.
(بخاری، الصحیح،6: 2489، رقم:6398)
اس پر لعنت نہ کرو، اللہ کی قسم! میں تو اس کے متعلق یہی جانتا ہوں کہ یہ شخص اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔
اسلاف کے طرزِ عمل سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ چاہے وہ صحابہ کا دور ہو، تابعین کا ، یا اتباع التابعین کا، دورانِ اختلاف ہر کوئی اخلاقیات، آداب اور الفاظ کا چناؤ مستلزم سمجھتا۔تلخ گوئی، تند خوئی، درشت کلامی اور گالی جیسے رویے انسانی شخصیت کی تضحیک کرتے ہیں۔کسی شخصیت سے مسائل میں اختلاف کے دوران آداب کو ملحوظ رکھنا ہمارے اسلاف کا طرہّ امتیاز رہا ہے۔
یہاں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا تذکرہ ضروری ہے کہ آپ اپنی دینی مساعی اور عالم گیر دورہ جات کے دوران گفتگو میں ہمیشہ سیرتِ طیبہ اور اَخلاقِ حسنہ کو بھی شامل گفتگو فرماتے ہیں۔آپ اوّل دن سے ہی نوجوانوں کے اَخلاق و کردار سنوارنے کی طرف متوجہ رہے۔ آپ نے نوجوانوں کے اَخلاق و کردار سنوارنے کے لیے منہاج یوتھ لیگ قائم کی،طلبہ کی تعلیم و تربیت کے لیے مصطفوی سٹوڈنٹس قائم کی اور خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے منہاج القرآن ویمن لیگ قائم کی۔ یہ بات دعوٰی کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے تربیت یافتہ نوجوان، طلبہ و طالبات اپنے اَخلاق و کردار میں سب سے مختلف نظر آتے ہیں۔ منہاج القرآن کے اسکالرز بین المذاہب رواداری اور اتحاد بین المسلمین کے پیامبر نظر آتے ہیں۔ وہ فرقہ واریت کی فضول ابحاث کا حصہ نہیں بنتے اور دوسروں کو برے القابات سے پکارنے اور سب و شتم کرنے کے بجائے اپنے نقطۂ نظر کو علمی و تحقیقی استدلال کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔یہ سب شیخ الاسلام کی تربیت کا اِعجاز ہے۔ یہی کردار ہر عالمِ دین کو اختیار کرنا ہوگا۔
خلاصۂ کلام:
دینِ متین لوگوں کے ساتھ خوش اسلوبی اور دوسروں کے ساتھ اختلافی نقطہ نظر بیان کرنے میں آداب ملحوظ رکھنے کی تلقین کرتا ہے۔یاد رکھیں کہ ایک عالم، استاد اور حاکم کی کہی ہوئی بات کا اَثر ہوتا ہے، اس لیے ان مناصب پر فائز تمام لوگوں سے گذارش ہے کہ جب وہ عوام الناس میں کسی کے متعلق کلام کریں تو شائستگی کے ساتھ بولیں اورکسی کے ساتھ اختلاف کریں تو آداب کو ملحوظ رکھیں۔اس لیے کہ کلام میں شائستگی،آداب اور شگفتگی کو ملحوظ رکھنے میں ہی دین کے حقیقی تشخص کی حفاظت کا راز پنہاں ہے۔