عائلی زندگی اور ایتائے حقوق

محمد یوسف منہاجین

حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کی انفرادیت یہ ہے کہ آپ ﷺ نے خالص دنیاوی امور کو آخرت کی فلاح سے جوڑ دیا ہے اور کامیاب مومن اسی کو قرار دیا ہے جو دنیاوی تعلقات کے اعتبار سے بھی اعتدال پر قائم ہو۔ آپ ﷺ کی سیرتِ طیبہ میں جہاں قول و عمل میں یکسانیت نظر آتی ہے، وہاں اس کا ایک اہم امتیاز یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے تمام تعلقاتِ دنیوی کے حقوق بھی کماحقہ ادا فرمائے ہیں۔ آپ ﷺ کی حیات میں کسی بھی تعلق کا دائرہ دوسرے سے متصادم نظر آتا ہے اور نہ دوسرے کی حدود میں مداخلت کرتا ہے۔ یہی وہ راز ہے کہ اگر ہم میں سے ہر شخص اسے عملی طور پر اختیار کرلے تو نہ صرف اس کی گھریلو اور خانگی زندگی خوشگوار ہوسکتی ہے بلکہ معاشرہ بھی جنت نظیر معاشرہ بن سکتا ہے۔

دنیاوی زندگی کے تعلقات میں سے سب سے اہم گھریلو زندگی کا تعلق ہے،جس میں والدین، بیوی، بچےاور رشتہ دار شامل ہیں۔ ان تمام رشتوں کی نوعیت باہم مختلف ہے مگر ان رشتوں کا امتیاز برقرار رکھتے ہوئے ان سے اعتدال پر مبنی تعلق کو قائم رکھنا اصل کمال ہے۔ گھریلو زندگی حیاتِ انسانی کا ایک ایسا باب ہے جہاں اعتدال اور احتیاط سے ہر ایک کے ساتھ تعلقات نبھانا کامیابی اور قلبی سکون کا راز ہے، بصورتِ دیگر افراط و تفریط یا معمولی سی بے احتیاطی انسان کو نہ صرف اخروی کامیابی سے محروم کردیتی ہے بلکہ دنیا میں بھی بے سکونی اور ہیجان و اضطراب مقدر بنا رہتا ہے۔

ہمارے گھریلو حالات میں ناخوشگواری، ناچاقی اور عدمِ اطمینان کی کیفیات کا مشاہدہ عام ہے۔ ہمارے گھروں کی کیفیت ہمارے لیے ایک المیہ ہے۔ ہم سب اس حوالے سے پریشان بھی ہیں اور ان مشکلات کے حل کی تلاش میں بھی ہیں۔ مگر شاید ہم اس حقیقت سے بہت کم واقف ہیں کہ ہماری ان پریشانیوں کا حل ہمارے گھر میں ہی موجود ہے۔ صرف ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس سمت غورو فکر کریں، اسے سمجھیں اور پھر خلوصِ دل کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہوں۔

انسان کی گھریلو زندگی یعنی اس کے خاندان کے افراد میں میاں بیوی، والدین، اولاد اور رشتہ دار شامل ہیں۔ گھر کے اندر موجود ان تمام افراد کا ایک وحدت کی صورت میں مثبت انداز میں سرگرم رہنے سے پورا گھر اور خاندان راحت و سکون پاتا ہے اور اس میں کسی جانب سے بھی خلل اور رکاوٹ پورے گھریلو ماحول کو متاثر کر ڈالتی ہے۔ اس لیے گھریلو زندگی کے استحکام کا مدار اس بات پر ہے کہ اس کے تمام افراد باہم ایک دوسرے سے کس حد تک جڑے ہوئے ہیں۔ گھریلو زندگی کے ان اجزا کو باہم مربوط رکھنے کے لیے دینِ اسلام میں واضح ہدایات موجود ہیں اور حضور نبی اکرم ﷺ نے اس سلسلے میں اپنا اسوۂ حسنہ عطا فرمایا ہے۔

ہماری گھریلو زندگی کس طرح خوشگوار ہوسکتی ہے اور ہم گھر میں موجود افراد سے کس طرح کا تعلق استوار رکھیں کہ یہ دنیاوی تعلقات ہماری اخروی فلاح کا ذریعہ بھی بن جائیں؟ اس حوالے سے ہمارے لیے رسول اکرم نبی رحمت ﷺ کی حیات مبارکہ میں بہترین سبق موجود ہے۔ آپ ﷺ نے حسنِ تدبیر اور اعتدال کے سبب گھریلو زندگی سے تعلق رکھنے والے ہر ایک رشتہ کو اس طرح نبھایا کہ امت کے لیے رہنمائی و رہبری کی ایک مثال قائم فرمادی۔ ذیل میں حضور نبی اکرم ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں گھریلو زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے خاندان کے جملہ افراد؛ والدین، ازواج، اولاد اور رشتہ داروں کے بارے میں تعلیمات کو بیان کیا جاتا ہے کہ اگر ہر شخص گھر کے اندر رہنے والے کا حق ادا کرتا رہے تو گھر امن و سکون کا گہوارا بن سکتا ہے:

1۔ حقوقِ والدین کی ادائیگی

گھریلو زندگی میں سب سے پہلا اور بڑا تعلق ’’والدین‘‘ ہیں۔ انسان اپنی پیدائش سے لے کر زندگی کے بہت سے معاملات میں ان کا محتاج ہے۔ انسان اپنی پوری زندگی میں ان سے فیض یاب ہوتا اور فائدے اٹھاتا ہے۔ انسان پر اس کے والدین کے احسانات لامتناہی ہیں۔ یہی وجہ ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی اولاد اپنے باپ کا بدلہ نہیں چکا سکتی۔ سوائے اس کے کہ وہ باپ کو کسی کے پاس غلام دیکھے اور اسے خرید کر آزاد کردے۔

(سنن ترمذی، 3: 363، الرقم: 1913)

قرآن مجید نے والدین کے ساتھ سلوک کے لیے لفظ احسان استعمال کیا ہے، جس کے مفہوم میں حسنِ سلوک اور ان کی اطاعت و تابعداری شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی عبادت کرنے اور شرک نہ کرنے کی تلقین کے فوراً بعد والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَاعْبُدُوا اللہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا.

(النساء،4: 36)

’’اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔‘‘

آپ ﷺ نے کثیر احادیث مبارکہ میں والدین کی خدمت کی جانب متوجہ کیا ہے۔ کسی روایت میں آپ ﷺ نے والدین کی خدمت کو جہاد قرار دیا۔ ۔ ۔ کسی جگہ والدین کی خدمت کو رزق میں اضافے اور عمر کی درازی کا سبب قرار دیا۔ ۔ ۔ اور کسی جگہ والدین کی خدمت کو اللہ کی رضا مندی کا باعث بھی بتایا۔ جبکہ والدین کی نافرمانی اور خدمت نہ کرنے والے شخص کو بدقسمت ترین شخص قرار دیتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص رسوا اور بے عزت ہوا۔ صحابہ نے پوچھا: کون یارسول اللہ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ جس نے اپنے ماں باپ، دونوں کو یا کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا اور (ان کی خدمت کرکے) بہشت میں داخل ہونے کا موقع حاصل نہ کیا۔

(صحیح مسلم4: 165، رقم: 2551)

آپ ﷺ کے والد آپ ﷺ کی پیدائش سے قبل اور والدہ آپ ﷺ کے بچپن میں وصال فرماچکی تھیں، اس لیے آپ ﷺ کو ان کی خدمت کا موقع بھی نہ مل سکا۔ لیکن آپ ﷺ نے اپنے رضاعی والدین حضرت حلیمہ اور حضرت حارث رضی اللہ عنہما کے ساتھ نہایت محبت و احترام والا سلوک رکھا۔ حضرت عمر بن سائب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک بار آپ ﷺتشریف فرما تھے کہ آپ کے رضاعی والد تشریف لائے۔ آپ ﷺ نے ان کے لیے اپنے کپڑے کا کچھ حصہ بچھادیا، جس پر وہ بیٹھ گئے، پھر آپ ﷺ کی رضاعی والدہ تشریف لائیں، آپ ﷺ نے اس کپڑے کا مزید حصہ ان کے لیے دراز فرمادیا، وہ بھی اس پر تشریف فرما ہوگئیں، پھر آپ ﷺ کے رضاعی بھائی تشریف لائے تو آپ کھڑے ہوگئے اور انہیں اپنے سامنے بٹھادیا۔

(البدایہ، والنہایہ،3: 393)

آپ ﷺ کا یہ اسوۂ حسنہ ہماری راہنمائی کرتا ہے کہ ہم اپنے والدین کے ساتھ محبت اور احترام پر مبنی تعلق کو بہر صورت قائم رکھیں۔ آج ہمارے گھروں میں اس حوالے سے صورت حال ناگفتہ بہ ہے۔ ہم بعض اوقات لاپرواہی میں اور کبھی جانتے بوجھتے بھی ایسی باتیں کرجاتے ہیں جو والدین کے احترام کے منافی ہیں۔ ہمارے رویے دینِ اسلام کی تعلیمات کے مطابق نہیں ہوتے۔ نتیجتاً گھریلو زندگی کے اس بڑے دائرے اور تعلق کو نظر انداز کرنے اور اس کا حق ادا نہ کرنے کے سبب گھر میں ہمہ وقت نہ صرف ناخوشگواری کا ماحول قائم رہتا ہے بلکہ ہم اللہ رب العزت کی برکت و رحمت سے بھی محروم رہتے ہیں۔ یہ سب ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے، لہذا ہمیں اس حوالے سے اپنی زندگیوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

2۔ حقوقِ زوجین کی ادائیگی

انسان کی گھریلو زندگی کی خوشگواری اور طمانیت قلبی کا دوسرا بڑا تعلق ازواج (میاں بیوی) کے باہمی تعلق پر مبنی ہے۔ عورت بیوی ہونے کی حیثیت سے اور مرد شوہر ہونے کی حیثیت سے ایک دوسرے سے محبت بھی رکھتے ہیں اور ایثار و قربانی کا سلوک بھی کرتے ہیں۔ مرد کا اکثر وقت اپنے اہل خانہ کے ساتھ گزرتا ہے، اس لیے وہ دوسروں کے سامنے تو اپنا بھرم برقرار رکھ سکتا ہے مگر اپنے گھر والوں کے سامنے بھرم قائم رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس کی بدمزاجی، غصہ، تلخی، قول و عمل میں فرق اور دیگر عیوب گھر والوں کے سامنے آتے رہتے ہیں۔ یہی صورتِ حال ایک عورت کی بحیثیت بیوی کے ہوتی ہے۔ اس حوالے سے اگر ہم آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ اور عادات و اخلاق کا جائزہ لیں تو یہ امر سامنے آتا ہے کہ آپ ﷺ کی گھریلو زندگی کے اس تعلق میں ان چیزوں کا شائبہ تک نہیں ملتا۔

آپ ﷺ بحیثیت شوہر بھی ہمارے لیے ایسا اسوۂ حسنہ ہیں کہ جس کی روشنی سے ہم اپنے گھریلو ماحول میں پیدا ہونے والی تلخیوں اور اپنے عیوب کو دور کرسکتے ہیں۔ قرآن مجید میں شوہروں کو بیویوں کے حوالے سے حکم دیا گیا:

وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ.

(النساء،4: 19)

’’اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے برتاؤ کرو۔‘‘

ازواجِ مطہرات سے تعلق کے حوالے سے آپ ﷺ کی حیات طیبہ اس آیتِ مبارکہ کی عملی تصویر تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

خیر کم خیرکم لاھلی وانا خیرکم لاھلی.

(سنن ترمذی، 5: 475، رقم 3921)

تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہے اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سے بہتر ہوں۔

آپ ﷺ نے ہمیشہ عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک اور صلح جوئی کی زندگی بسرکرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ ایک شخص نے آپ ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ یارسول اللہ ﷺ بیوی کا شوہر پر کیا حق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

ان یطعمھا اذا طعم وان یکسوھا اذا اکتسی ولا یضرب الوجہ ولا یقبح ولا یهجر الا فی البیت.

(سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح، 2:590، رقم: 1850)

جب خود کھائے تو اس کو کھلائے ، جب خود پہنے تو اس کو پہنائے۔ نہ اس کے منہ پر تھپڑ مارے، نہ اس کو برا بھلا کہے اور اگر اس سے علیحدگی اختیارکرنی پڑے تو یہ گھر کے اندر ہی ہو۔

عورتوں کے مزاج میں حساسیت، جلد بازی، ضد اور ان سے ملتی جلتی خصلتیں مردوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہیں۔ یہ باتیں ان کے مزاج کا حصہ ہیں، جنھیں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ بعض اوقات مرد حضرات عورتوں کی ان نفسیاتی کیفیات کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ ان کی ضد کو سختی سے کام لے کر ختم کردیں گے۔ آپ ﷺ نے ایک نہایت عمدہ تشبیہ کے ذریعے ایسے حضرات کے لیے نصیحت فرمائی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

عورتوں کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرو کیونکہ ان کی پیدائش پسلی سے ہوئی ہے۔ اس کے ٹیڑھے پن کے ساتھ تم جس قدر کام لے سکتے ہو، لو۔ اگر تم اس کو سیدھا کرنے کی فکر کرو گے تو اس کو توڑ ڈالو گے۔

(بخاری کتاب النکاح، باب الوصاۃ بالنساء)

اسی طرح آپ ﷺ نے مردوں کو بیویوں کے معاملے میں خوشی، قناعت اور رضا کے حوالے سے رہنمائی عطا کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کوئی مومن شوہر اپنی مومنہ بیوی سے نفرت نہ کرے۔ اگر اس کی کوئی عادت ناپسندیدہ ہوگی تو اس کی کوئی دوسری عادت پسندیدہ بھی تو ہوگی۔

(صحیح مسلم،2: 381، رقم: 1468)

حضور نبی اکرم ﷺ نے مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی اپنے شوہروں کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے اور انہیں خیرو فلاح کے راستے پر گامزن رہنے کی تلقین فرمائی ہے۔ آپ ﷺ نے عورت کو شوہر کی مکمل اطاعت کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

اگر میں اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔

(سنن ترمذی، 2: 386، رقم: 1162)

حضرت ام سلمۃ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس عورت کا اس حالت میں انتقال ہوا کہ اس کا شوہر اس سے راضی تھا، تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔

(سنن ابن ماجہ،2: 592، رقم: 1854)

آپ ﷺ نے ایک بڑی ازدواجی زندگی گزاری اور کئی مصلحتوں کے پیش نظر گیارہ شادیاں کیں اور ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ نو ازواج بھی آپ ﷺ کے عقد میں رہیں۔ اس کے باوجود آپ ﷺ نے نہ صرف بہترین عائلی زندگی بسر فرمائی اور اعلیٰ ترین معیار کے مطابق اپنا اسوۂ حسنہ پوری دنیا کے سامنے پیش فرمادیا بلکہ اس حوالے سے جامع ہدایات بھی عطا فرمائیں۔

ہجرتِ مدینہ کے بعد کاشانہ نبوی ﷺ کی صورتِ حال یہ تھی کئی کئی روز چولہا تک نہیں جلتا تھا اور کھجور وغیرہ پر گزارا ہوتا تھا، ایسے حالات میں بھی کوئی خلافِ مزاج بات پیش نہیں آئی اور آپ ﷺ کے حسن تدبر، مساوات پر مبنی برتاؤ اور محبت و شفقت بھرے طرز عمل نے ان کٹھن حالات میں بھی تمام ازواج مطہرات کو مطمئن و قانع رکھا۔

آپ ﷺ ازواج میں سے کسی کی حق تلفی یا کسی کے ساتھ بے انصافی نہیں ہونے دیتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ نے جو راتیں جس جس زوجہ محترمہ کے ہاں گزارنے کا شیڈول قائم فرمایا تھا، آپ ﷺ اس کی اتنی پابندی فرماتے کہ کبھی ہم میں سے کسی کو کسی پر ترجیح نہ دیتے۔ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا کہ آپ ﷺ سب ازواج مطہرات کے یہاں تشریف نہ لے گئے ہوں۔ آپ ﷺ روزانہ عصر کی نماز کے بعد ازواج کے گھروں میں تشریف لے جاتے، ان کے پاس بیٹھتے، ان کے حالات معلوم کرتے۔ جب رات ہوجاتی تو وہاں تشریف لے جاتے، جہاں باری ہوتی اور وہیں شب بسر فرماتے۔

(سیرت النبی، ج2، ص 220، 261)

آپ ﷺ کی ازواج مطہرات نے بھی آپ ﷺ کی اطاعت کا حق کردیا۔ آپ ﷺ کی کئی ازواج عیش و عشرت کے ماحول میں پلی بڑھی تھیں اورمالدار گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں لیکن آپ ﷺ کے مشفقانہ طرزِ عمل، محبت اور ہر ایک کے حقوق کی ادائیگی نے انھیں کبھی دنیا کی عارضی نعمتوں کی طرف متوجہ نہ ہونے دیا اور نہ کبھی انھوں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے دنیاوی اسباب کا مطالبہ کیا۔ آپ ﷺ گھریلو معاملات کو انسانی فطرت و مزاج کے مطابق چلاتے۔ آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں تصنع اور تکلف نہ تھا۔

آج ہماری اخراجات سے بھری ہوئی زندگی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ کے ان واضح پہلوؤں کی روشنی میں عمل پیرا ہونے کی مکمل کوشش کی جائے۔ اسی صورت ہم گھریلو زندگی کے خوشگوار ہونے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرسکتے ہیں۔

(3) حقوقِ اولاد کی ادائیگی

گھریلو زندگی کا تیسرا اہم پہلو اولاد سے تعلق رکھتا ہے۔ اسلام سے قبل والدین کو تو اپنی اولاد پر لامحدود اختیارات حاصل تھے مگر اولاد کا والدین پر کسی طرح کا کوئی حق نہیں مانا جاتا تھا۔ آپ ﷺ نے اس باب میں بھی حقوق و فرائض کا توازن و تناسب قائم کیا اور واضح فرمادیا کہ والدین اور اولاد کے حقوق و فرائض کے پیمانے بے شک جدا جدا ہیں مگر کوئی بھی اپنے ذمہ فرائض کی ادائیگی سے بالا تر نہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لیس منا من لم یرحم صغیر نا ولم یوقر کبیرنا.

(حاکم، 1،: 131، رقم: 209)

وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا احترام نہ کرے۔

آپ ﷺ نے اولاد کی تعلیم اور تربیت کی جانب متوجہ کرتے ہوئے فرمایا کہ کوئی والد اپنے بچے کو اس سے بہتر تحفہ نہیں دے سکتا کہ وہ اس کو اچھی تعلیم دے۔

(سنن ترمذی، 3،: 383، رقم: 1959)

اسلام کی نظر میں اولاد کے حوالے سے لڑکا اور لڑکی میں کوئی فرق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے لڑکیوں کی پرورش کے حوالے سے فرمایا:جس بندہ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو بیٹیوں کی ذمہ داری ڈالی گئی اور اس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو یہ بیٹیاں اس کے لیے دوزخ سے نجات کا سامان بن جائیں گی۔ (صحیح بخاری، کتاب الادب)

آپ ﷺ کی چار صاحبزادیاں اور تین صاحبزادے (صحیح قول کے مطابق) تھے، آپ ﷺ کے صاحبزادے اگرچہ بچپن میں ہی وصال فرماگئے مگر آپ ﷺ کے ان سے تعلق کے بہت سے مظاہر سیرت کی کتب میں محفوظ ہیں۔ علاوہ ازیں سیدہ کائنات حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا اور آپ ﷺ کا اپنے نواسے و نواسیوں بالخصوص حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے الفت و محبت کے بہت سے فرامین اور واقعات ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو بوسہ دیا۔ اس وقت آپ ﷺ کے پاس اقرع بن حابس تمیمی بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ میرے دس لڑکے ہیں، میں نے ان میں سے کسی کو بھی نہیں چوما۔ آپ ﷺ نے اس کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ جو رحم نہیں کرتا (اس پر) رحم نہیں کیا جاتا۔

(صحیح بخاری، کتاب الادب، باب رحمۃ الوالد وتقبیلہ)

آپ ﷺ کا اولاد اور بچوں سے تعلق کا یہ پہلو جامع نوعیت کا ہے۔ آپ ﷺ نے صرف ان سے محبت کا اظہار ہی نہیں کیا بلکہ ہمہ وقت ان کی تربیت کا بھی اہتمام کرتے اور ان کے معمولات و معاملات کی نہایت کڑی نگرانی بھی فرماتے۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کی محبوب ترین صاحبزادی ہیں لیکن اس محبت کے باوجود بھی آپ ﷺ نے انھیں دنیاوی نعمتوں کی فراہمی کے حوالے سے دیگر صحابہ و صحابیات پر ترجیح نہیں دی۔ چکی پیس پیس کر ان کے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے تھے اور گھر کا تمام کام تنہا کرتیں اور مشقتیں اٹھاتی تھیں۔ ایک بار جب آپ ﷺ سے گھر کے کام کے لیے کنیز کی خواہش کا اظہار کیا تو آپ ﷺ نے انکار کردیا اور فرمایا کہ یہ فقرا و یتیموں کا حق ہے۔

ایک بار حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کو سونے کا ہار دیا۔ آپ ﷺ کو علم ہوا تو فرمایا کہ اے فاطمہ! کیا تم لوگوں سے یہ کہلوانا چاہتی ہو کہ رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی کے ہاتھ میں آگ کی زنجیر ہے۔ یہ سن کر انھوں نے وہ ہار بیچ دیا۔ آپ ﷺ کو جب اس امر کی اطلاع ملی تو فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے جس نے فاطمہ کو آگ سے نجات دی۔

(سنن نسائی، کتاب الزینۃ، باب کراہیۃ النساء فی اظہار الحلی والذہب)

ایک بار آپ ﷺ کی کسی سفر سے واپسی کی خوشی میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے دروازے پر پردہ لٹکادیا اور امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو چاندی کے کنگن پہنادیئے۔ آپ ﷺ جب تشریف لائے تو یہ معاملہ دیکھ کر واپس ہوگئے۔ حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کو جب آپ ﷺ کی ناراضگی کا علم ہوا تو آپ رضی اللہ عنہا نے پردہ فوراً پھاڑ دیا اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے ہاتھوں سے کنگن اتار دیے۔ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما روتے ہوئے آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ میرے اہلِ بیت ہیں، میں نہیں چاہتا کہ میرے اہل بیت دنیاوی لذتوں سے آلودہ ہوں۔

(سنن نسائی، کتاب الزینۃ، باب کراہۃ النسآء فی اظہار الحلی والذھب)

افسوس کہ آج ہمارے ہاں اس پہلو کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ والدین خصوصاً والد روزگار کے امور میں اس قدر مصروف ہیں کہ انہیں اپنی اولاد کی تربیت کے پہلو پر توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں۔ یہ بھی عام مشاہدہ ہے کہ والد کی بعض صورتوں میں تو کئی کئی روز بچوں سے ملاقات ہی نہیں ہوتی۔ والدین کی نظر آج اولاد کے حوالے سے صرف یہ ہے کہ وہ کسی طرح اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں لیں اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے یا ملازمت اور کاروبار کے لیے بیرون ملک چلے جائیں۔ آج والدین کے ہاں اولاد کے لیے حقیقی تعلیمی قابلیت کی خواہش کا عنصر بھی ختم ہوچکا ہے۔ اب ان کی دلچسپی محض اچھے نمبروں کے حصول اور جائز و ناجائز ہر صورت میں اعلیٰ مناصب تک اُنھیں پہنچانے کی حد تک رہ گئی ہے۔ یہ سب اسوۂ مصطفی ﷺ سے لاعلمی اور ناواقفیت کا نتیجہ ہے اور اس سلسلے میں والدین اپنے فرائض ادا نہ کرکے سخت گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں۔ یاد رکھیں کہ اولادکی جسمانی نشوونما کے ساتھ ساتھ ان کی دینی و دنیاوی تعلیم اور تربیت بھی والدین کے اولین فرائض میں شامل ہے۔ ایک ایسی تعلیم و تربیت کا اہتمام جو انھیں دنیا کے ساتھ ساتھ اخروی کامیابی سے بھی ہمکنار کرسکے۔

4۔ رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی

گھریلو زندگی کا ایک اور اہم پہلو اہلِ قرابت کے ساتھ تعلق پر مبنی ہے۔ اہل قرابت میں وہ تمام رشتہ دار شامل ہیں جو کسی بھی رشتہ کی رو سے بندے سے قرابت رکھتے ہوں اور پھر ان میں سے جو جس قدر قریب ہوگا، اسی قدر وہ ہمارے حسنِ سلوک کا مستحق ہوگا۔ دینِ اسلام تمام رشتہ داروں کو ایک دوسرے کا دلی خیر خواہ، ہمدرد، مددگار اور غم و خوشی میں ان کے ساتھ کھڑا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر رشتے داروں سے حسنِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے اور احادیث مبارکہ میں صلہ رحمی کی بار بار تاکید فرمائی گئی ہے۔ اسلام نے خون کے رشتوں کو حرمت عطا کرنے اور ان کا احترام قائم رکھنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں۔ اہلِ قرابت کے ساتھ حسنِ سلوک اللہ تعالیٰ کے ان خاص احکام میں سے ہے جن کا انسان سے عہد لیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللہَ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ.

(البقرہ،2: 83)

’’اور (یاد کرو) جب ہم نے اولادِ یعقوب سے پختہ وعدہ لیا کہ اللہ کے سوا (کسی اور کی) عبادت نہ کرنا، اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔‘‘

آپ ﷺ زندگی کے دوسرے معاملات کی طرح رشتہ داروں کے حوالے سے بھی حقوق و فرائض کو توازن کے ساتھ قائم کرنے کی تاکید فرماتے اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہوکر دکھاتے تھے۔ آپ ﷺ نے تبلیغ اسلام کے آغاز میں ہی لوگوں کو صلح جوئی اور صلح رحمی کی تاکید کی۔ یہ آپ ﷺ کی کاوشوں ہی کا نتیجے تھا کہ دنیائے عرب جو آپ سے قبل اختلافات، فسادات اور لڑائیوں میں برسرپیکار تھی، امتِ واحدہ میں تبدیل ہوگئی۔ آپ ﷺ نے اپنے قول و عمل کے ساتھ گروہی تعصبات، قبائلی منافرتوں اور خاندانی اختلافات کو دور کیا اور اہلِ قرابت میں بھائی چارے کو فروغ دیتے ہوئے رشتہ داروں کے باہمی تعلقات کو مستحکم فرمایا۔

آپ ﷺ نے اپنے اعزا و اقربا کے ساتھ بھی حسنِ سلوک پر مبنی بے مثال طرزِ عمل اختیار کیا۔ آپ ﷺ نے اپنی دعوت کا آغاز ہی میں اپنے رشتے داروں سے کیا اور ان کے نام لے لے کر ان تک اسلام کا پیغام پہنچایا۔ نتیجتاً جب آپ ﷺ پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے اور طرح طرح کی ظلم کیے گئے تو تب بھی آپ ﷺ نے جوابی کارروائی کے طور پر کوئی ایسا اقدام نہ کیا جن سے مشرکینِ مکہ اور آپ ﷺ کے وہ قریبی عزیز جو آپ ﷺ کی مخالفت میں پیش پیش تھے، انھیں کوئی نقصان اٹھانا پڑتا۔ ۔

<جب یمن کے سردار ثمامہ نے ایمان لانے کے بعد اہلِ مکہ کو غلے کی فراہمی بند کردی تو اہلِ مکہ نے آپ ﷺ سے درخواست کرتے ہوئے آپ کو یہی لکھا کہ ا ٓپ تو صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں، ہم آپ کے رشتے دار ہیں، آپ ﷺ ثمامہ سے کہہ کر ہمارا غلہ بحال کروادیں۔ آپ ﷺ نے ان کی درخواست قبول کی اور حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ کو اہلِ مکہ کا غلہ بحال کرنے کا حکم دیا۔

(سیرتِ حلبیہ، 3: 172)

غزوۂ بدر کے موقع پر جو قیدی گرفتار ہوکر مدینہ منورہ لائے گئے، ان میں آپ ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ ان تمام قیدیوں کو باندھ کر رکھا گیا تھا۔ رات کو رسی اور زنجیروں کی سختی کے سبب حضرت عباس کے کراہنے کی آواز آپ ﷺنے سنی تو آپ ﷺبے قرار ہوگئے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پوچھنے پر آپ ﷺ نے اپنی بے قراری کا سبب بیان فرمایا تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی زنجیریں کھولنے کی اجازت طلب کی تو آپ ﷺ نے اس موقع پر بھی صرف انہیں یہ سہولت دینے کے بجائے تمام قیدیوں کی زنجیریں کھولنے کا حکم دیا۔

(حلبی، 2:458)

اسی طرح فتح مکہ کے وقت آپ ﷺ کی چچا زاد بہن اور حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا نے ابن ہبیرہ کو پناہ دی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ وہ اس کو قتل کریں گے۔ آپ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا:

قد اجرنا من اجرت یا ام ھانی.

(صحیح بخاری، کتاب الجہاد، باب امان النساء وجوارہن)

اے ام ہانی جسے تم نے پناہ دی، اسے ہم نے بھی پناہ دی۔

گھریلو زندگی کے اس اہم پہلو اور تعلق کے حوالے سے اگر ہم اپنے احوال پر نگاہ دوڑائیں تو ہمیں کسی اعتبار سے بھی نبی رحمت ﷺ سے کوئی نسبت معلوم نہیں ہوتی۔ رشتے داروں سے ہمارے تعلقات کی قطعاً وہ نوعیت نہیں ہے جو آپ ﷺ کے امتی ہونے کی حیثیت سے ہونی چاہیے۔ ہم تو معمولی باتوں کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قطع تعلقی کرلیتے ہیں۔ رشتے داروں سے بدگمانی اور بد ظنی یا اپنے مزاج کے خلاف اُن سے کوئی بات سن لیں تو تمام تعلقات اور خونی رشتوں کو یکسر فراموش کردیتے ہیں اور رشتہ داروں کی غیبت، الزام تراشی اور اس طرح کی تمام برائیوں سے اپنے نامہ اعمال کو آلودہ کرتے رہتے ہیں۔ محض اپنے حقوق کا رونا روتے رہنا اور اپنے اوپر عائد ہونے والے فرائض کو ادا نہ کرنا ہمارا روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ یاد رکھیں کہ اہلِ قرابت کے ساتھ صلہ رحمی کا تعلق اللہ تعالیٰ کا قائم کیا ہوا ہے اور اس کو عزت و حرمت بھی اللہ ہی کی جانب سے عطا ہوئی ہے۔ یہ تعلقات اللہ کا انعام ہیں، اس لیے اس حوالے سے کوتاہی، لاپرواہی اور تساہل برتنا کفرانِ نعمت قرار پاتا ہے اور اس حوالے سے ہمیں بروز قیامت جوابدہ ہونا پڑے گا۔

خلاصۂ کلام

اسلام کے معاشرتی نظام میں ہر پہلو اپنے اپنے مقام پر نہ صرف مکمل ہے بلکہ ایک دوسرے سے باہم مربوط بھی ہے۔ اسلام میں گھریلو زندگی کے نظام کے تمام پہلو بھی آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ انسان اپنے گھریلو امور کو اس انداز کے ساتھ انجام دے کہ اس کے نتیجے میں کسی کی بھی حق تلفی نہ ہو۔ ۔ ۔ اس کے والدین، بیوی، بچے اور رشتہ دار تک کو اس سے شکایت نہ ہو۔ یہ سب کردار و اخلاق اسی صورت ہم میں پیدا ہوسکتاہے، جب ہمارے سامنے نبی اکرم ﷺ کا اسوۂ حسنہ کامل صورت میں موجود ہوگا اور ہم اس پر دل و جان سے عمل پیرا ہونے کا عہد لیے ہوئے ہوں گے۔

اس مقصد کے حصول کے لیے اسلام انسان کے اندر سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہی کا تصور پیدا کرتا ہے کہ ہر شخص اپنے کیے کا خود ہی ذمہ دار ہے۔ اپنی اچھائیوں کا اجر بھی اسے ہی نصیب ہوگا اور اپنی کوتاہیوں اور برائیوں کا خمیازہ بھی خود ہی بھگتنا ہوگا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ اَسَآءَ فَعَلَیْهَا.

(حم السجدہ: 46)

’’جس نے نیک عمل کیا تو اُس نے اپنی ہی ذات کے (نفع کے) لیے (کیا) اور جِس نے گناہ کیا سو (اُس کا وبال بھی) اسی کی جان پر ہے۔‘‘

حضور نبی اکرم ﷺ نے اس بات کو یوں بیان فرمایا:

کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ.

(صحیح بخاری، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ فی القری والمدن)

تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں باز پرس ہوگی۔

ہمارے گھریلو معاملات اور آپس کی رنجشیں اور ناچاقیاں اسوۂ حسنہ اور تعلیمات نبوی ﷺ سے روگردانی کے سبب ہیں۔ انسان اپنے گھر کو اپنے لیے جائے امن اور مقامِ راحت و اطمینان بنانا چاہتا ہے لیکن جب گھر کا نظام درست نہج پر استوار نہیں رہتا تو وہ ذہنی، قلبی، نفسیاتی اور جسمانی طور پر مسائل و مشکلات کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے۔ لہذا ہم سے ہر ایک شخص کو چاہیے کہ وہ اسوۂ نبوی ﷺ کی روشنی میں اپنے معاملات، طرزِ عمل، رویوں اور مزاج کا از سر نو جائزہ لے اور اپنی ان کوتاہیوں اور خامیوں پر قابو پانے کی کوشش کرے جن کا وہ شکار ہے۔ اس لیے کہ:

وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی.

(النجم: 39)

’’اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہو گی (رہا فضل اس پر کسی کا حق نہیں وہ محض اللہ کی عطا و رضا ہے جس پر جتنا چاہے کر دے)۔‘‘

اسوۂ حسنہ ہمارے لیے بہترین مشعلِ راہ ہے، جو نہ صرف ہدایات کا ایک مکمل پیکج ہے بلکہ آپ ﷺ نے اپنے عمل کی صورت میں ہمیں مکمل راہنمائی بھی عطا فرمائی ہے۔ آپ ﷺ کی سیرتِ مطہرہ ہماری زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات کے حوالے سے بھی ہماری رہنمائی کرتی ہے، لہذا ہمیں اس در پر حصولِ ہدایت و نجات کے لیے سوالی بننا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ کی روشنی میں زندگی کے ہر پہلو کو بسر کرنے اور اسوۂ حسنہ پر صحیح معنی میں عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ