وہ لوگ جنھیں اللہ رب العزت کی محبت و عشق کی نعمت نصیب ہوجاتی ہے، ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ دنیا کی پر آسائش زندگی اور آرام کو قربان کردیتے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ م ، اہلِ بیت اطہار علیہم السلام اور اولیاء کرام رحمھم اللہ کی زندگیاں اس امر پر شاہد ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت اُن کے ظاہرو باطن میں سرایت کرچکی تھی۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز آقا علیہ السلام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ م کے ہمراہ موجود تھے۔ آپ ﷺ نے نوجوان صحابی سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو دور سے آتا دیکھا۔ انھوں نے ایک مینڈھے کی کھال پہن رکھی تھی۔ آپ ﷺ نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو اس حال میں آتے دیکھا تو فرمایا:
انظروا الی ھذ الرجل الذی نوراللہ قلبہ.
اس نوجوان کو دیکھو کہ اللہ رب العزت نے اس کے دل کو منور کردیا ہے۔ میں نے اس نوجوان صحابی کو اپنے والدین کی آغوش میں اس حال میں دیکھا کہ وہ اسے بہترین کھانا کھلاتے اور بہترین مشروبات دیتے مگر اب اس کا حال دیکھ لیں۔ ایک روز میں نے انھیں دو سو درہم کی قمیص پہنی ہوئی تھی مگر اب یہ اس حال میں ہے کہ فقر و فاقہ اور تنگی کے آثار نظر آرہے ہیں۔
آقا علیہ السلام نے جب یہ بیان کیا تو یقینا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ م کے دلوں میں یہ سوال پیدا ہوا ہوگا کہ یہ نوجوان صحابی جب اپنے والدین کی آغوش میں سہولت اور آسانی کی زندگی بسر کررہے تھے تو اب ان کی یہ حالت کیسے ہوئی ہے؟ آقا علیہ السلام صحابہ رضی اللہ عنہ م کے دلوں میں آنے والے سوال کو جان گئے اور فرمایا:
فدعاہ حب اللہ و حب رسولہ انی ماترون.
اللہ اور اس کے رسول کی محبت و عشق نے ان کا یہ حال کر دیا ہے کہ آج یہ فقر و فاقہ اور سختی و تنگی والی زندگی کو عیش و عشرت اور سہولت والی زندگی پر ترجیح دے رہے ہیں۔ جب بندہ اللہ اور رسول ﷺ کی محبت کو دنیا کی ہر شے پر ترجیح دیتا ہے تو تب جاکر اُسے رضائے الہٰی نصیب ہوتی ہے اور وہ مشاہدۂ حق سے مستنیر ہوتا ہے۔
- امام غزالی رضی اللہ عنہ احیاء علوم الدین میں بیان فرماتے ہیں کہ ایک روز سیدنا عیسی علیہ السلام ایک پہاڑ کی طرف سفر کررہے تھے کہ ایک گروہ سے ان کی ملاقات ہوئی ہے۔ آپ نے ان لوگوں کو دیکھا کہ ان کے رنگ زرد ہو چکے ہیں، وہ نحیف اور لاغر ہیں اور فقر و فاقہ کے آثاران پر نمایاں ہیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام ان سے پوچھتے ہیں کہ تمھاری یہ حالت کیسے ہوئی؟ وہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ رب العزت کی دوزخ کے ڈر اور خوف نے یہ حال کر دیا ہے۔ سیدنا عیسی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بے شک جس چیز سے تم ڈرتے ہو، اللہ رب العزت تمہیں اس سے حفاظت عطا فرمائے گا۔
سیدنا عیسی علیہ السلام یہ فرماکر آگے روانہ ہوجاتے ہیں۔ پھر ایک اور گروہ سے ان کی ملاقات ہوتی ہے۔ اس گروہ کی حالت ایسی ہے کہ وہ پہلے والے گروہ سے بھی زیادہ لاغر و کمزور ہیں۔ سیدنا عیسی علیہ السلام ان سے بھی پوچھتے ہیں کہ تمھاری یہ حالت کیسے ہوئی؟ وہ کہتے ہیں کہ جنت کی آرزو نے ہمارا یہ حال کر دیا ہے۔ سیدنا عیسی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر تم اللہ رب العزت کی جنت طلب کرتے ہو تو بیشک اللہ رب العزت یہ جنت تمہیں عطا فرمائے گا۔
الحب للہ والشوق الیہ
اللہ رب العزت کی محبت اور اس کےشوقِ دیدار نے ہمارا یہ حال کردیا ہے۔ جو لوگ اس راہِ محبت و شوق اور راہِ عشق پر گامزن ہوتے ہیں اور اس راہ کے مسافر بنتے ہیں تو انہیں ان مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے کہ کچھ حاصل کرنے کے لیے کچھ تو کھونا پڑتا ہے۔ ہماری حالت یہ ہے کہ ہم یہ احوال، کیفیات اور مقامات بھی چاہتے ہیں مگر ان احوال اور کیفیات کو حاصل کرنے کے لیے جو قربانیاں درکار ہیں، وہ قربانیاں دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
محبتِ الہٰی کی علامات
سیدنا ابو سعد نیشاپوری، تہذیب الاسرار میں بیان کرتے ہیں کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
من ذاق من خالص حب اللہ تعالیٰ شغلہ ان طلب الدنیا و ذالک.
جو شخص خالص محبتِ الہٰی کا مزہ چکھ لیتا ہے، وہ اس دنیا سے بیگانہ اور بے رغبت ہو جاتا ہے۔ وہ اس دنیا سے دور ہو جاتا ہے اور اس میں اس دنیا کی تمنا، آرزو اور خواہشات ختم ہو جاتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ اور ہمارے درمیان کئی پردے اور رکاوٹیں حائل ہیں۔ ان رکاوٹوں میں جاہ و منصب کی طلب، اقتدار کا نشہ، نفس کی خواہشات اور دل کے امراض شامل ہیں۔ اللہ رب العزت کا وصال، قربت، اس تک رسائی اور اس کے مشاہدہ و دیدار کی لذت کا راز ان پردوں کو ہٹانے سے ہی نصیب ہوتا ہے۔
امام الرفاعی ’’حالۃ اہل الحقیقہ مع اللہ‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ:
بای شیئ وجدت الخلۃ؟
آپ نے اللہ رب العزت کی دوستی اور قربت کا مقام کیسے حاصل کیا؟ سیدنا ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
انقطاع الی ربی واختیاری ایاہ علی ماسواہ...
میں نے یہ حال ایسے حاصل کیا کہ میں ہر شخص سے کٹ کر اس کی طرف راغب ہو چکا ہوں... ہر کسی سے دور ہو کر اس کی طرف میں نے سفر کیا ہے... ہر غیر کے مقابلے میں فقط اللہ کو اختیار کیا ہے... سوائے اللہ تعالیٰ کے میری اور کوئی تمنا، خواہش اور آرزو نہیں ہے۔
اگر ہم اپنے حال پر نگاہ دوڑائیں تو کیا ہم اس چیز کا دعوی کر سکتے ہیں...؟ کیا ہم یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ ہم جو ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں، خالصتاً لوجہ اللہ ہیں...؟ کیا ان کا مقصود اللہ رب العزت اور حضور نبی اکرم ﷺ کی رضا اور خوشنودی ہے...؟ اگر ایسا نہیں ہے تو ہم میں سے ہر ایک کو اپنی نیت اور اعمال کی اصلاح کی طرف متوجہ ہونا ہے اور یہی حالت و کیفیت اور وارفتگی و شوق اپنا اندر پید اکرنا ہے۔
- ابن الملقن الانصاری حدائق الاولیاء میں بیان کرتے ہیں کہ سیدنا سری سقطی رضی اللہ عنہ نے اپنی ذاتی خدمت کے لیے ایک کنیز خریدی۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس خاتون نے اپنے لیے ایک جگہ مقرر کی جہاں وہ اللہ رب العزت کی عبادت کیا کرتی۔ ایک روز میں نے چاہا کہ میں اس کے قریب جاکر یہ تو معلوم کروں کہ جب وہ تنہائی میں اپنے رب کے سامنے پیش ہوتی ہے تو اپنے رب سے کیا کیا مناجات کرتی اور کس طرح کلام کرتی ہے؟ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اسے یہ کہتے ہوئے سنا کہ:
یارب! حبک لی ان فعلت کذا وکذا.
باری تعالی! تجھے اس محبت کا واسطہ جو تجھے مجھ سے ہے، میرا فلاں فلاں کام کر دے۔ حضرت سری سقطی فرماتے ہیں کہ میں آگے بڑھا اور کہا کہ اے خاتون! کیا یہ کہنا مناسب نہیں ہے کہ تو یہ کہہ کہلی حبی ایاک، کہ مجھے جو محبت تجھ سے ہے، اس کا واسطہ کہ میرا فلاں کام کر دے۔
اس خاتون نے یہ سن کر جواب دیا کہ:
یا سیدی لو لاحبہ ایای ما اقعدک واقامنی.
اگر اس کی مجھ سے محبت نہ ہوتی تو مجھے اپنی عبادت کے لیے رات بھر کھڑا نہ کرتا۔ اگر اس کی مجھ سے محبت نہ ہوتی تو مجھے گوشہ تنہائی میں اس طرح اپنا ذکر کرنے کا اذن نہ دیتا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اس حوالے سے فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت کی اپنے بندے سے محبت، عشق، طلب اور آرزو مقدم ہے اور بندوں کی اللہ کے ساتھ محبت مؤخر ہے۔ پہلے اللہ اپنے بندے سے محبت فرماتا ہے، جب وہ اپنے بندے کے دل میں جھانک کر دیکھتا ہے کہ اس کے دل میں طہارت و پاکیزگی ہے اور ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی ہے، تب وہ اس بندے سے محبت کرنے لگتا ہے۔ پس جب تک دل سے تمام تر خواہشات کو مٹا نہیں دیتے، اس وقت تک دل میں اللہ رب العزت کا جلوہ نہیں ہوتا اور جب اللہ رب العزت دیکھتا ہے کہ میرے بندے کے دل میں میرے سوا کوئی اور خواہش، تمنا اور جستجو نہیں ہے تو وہ اس کے دل میں جلوہ گر ہوجاتا ہے۔
محبین و عشاق الہٰی کی کیفیات
امام الرفاعی حالۃ اہل الحقیقہ مع اللہ میں بیان کرتے ہیں کہ ایک جوان حرم کعبہ میں مصروفِ طواف تھا۔ اس پر بھوک اور مصائب کے آثار نمایاں تھے۔ اس کے فقر و فاقہ کی کیفیت دیکھ کر میں نے چاہا کہ اس کی کوئی میں مدد کر دوں۔ میری جیب میں اس وقت سو دینار تھے۔ میں اس کے قریب گیا اور اسے سو دینار دینے کی کوشش کی۔ اس نے میری طرف توجہ ہی نہیں کی۔ اس لیے کہ جو سچے عشاق ہوتے ہیں، وہ دنیا اور اہلِ دنیا سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ انہیں دنیا اور اہل دنیا سے کوئی غرض اور تمنا نہیں ہوتی۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے دوبارہ کوشش کی اور کہا کہ اے جوان اس رقم سے اپنی ضرورت پوری کرلینا، اسے قبول کر لے۔ یہ سن کر اس جوان نے میری طرف دیکھا اور کہا:
یا شیخ! ھذہ حالۃ لا ابیعھا بالجنۃ وما فیھا فکیف ابیعھا ثمن بخسٍ.
اے شیخ میں اس حال کو جنت اور جو کچھ جنت میں ہے، آبِ تسنیم، شراب طہورہ اور محلاتِ جنت کے عوض بھی نہ بیچوں، تو ان چند ٹکوں کے عوض کیسے بیچ دوں؟
ہمارا حال یہ ہے کہ ہم چند ٹکوں اور معمولی مفادات کے عوض آخرت اور دین و ایمان تک کو بیچ ڈالتے ہیں۔ عشاق اور محبین کے کئی احوال، کیفیات اور مقامات ہوتے ہیں، ان کا زاویہ نگاہ، طرزِ سوچ، اندازِ بیاں اور طرزِ عمل بھی مختلف ہوتا ہے۔ حتی کہ اللہ رب العزت کے ساتھ ان کے تعلق کی کیفیت بھی مختلف ہوتی ہے۔
سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رضی اللہ عنہ کشف المحجوب میں بیان کرتے ہیں کہ ایک روز اللہ رب العزت کی بارگاہ سے اپنے ایک نبی کو حکم دیتا ہے کہ فلاں پہاڑ پر ایک عاشق رہتا ہے، اس سے جا کر ملاقات کریں اور میرا پیغام دیں۔ برگزیدہ نبی حکم کی تعمیل میں اس عاشق سے ملتے ہیں۔ یہ عاشق عمر رسیدہ تھا اور اس نے ستر سال گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر اپنے رب کی عبادت و ذکر کیا تھا۔ اللہ کے نبی نے انھیں اللہ کا پیغام دیا کہ اللہ نے ستر سال کی اس کی عبادت کو ٹھکرا دیا ہے اور قبول نہیں کیا۔ یہ پیغام سن کر وہ عمر رسیدہ بزرگ اور عاشق وجد میں آجاتا ہے اور اس پر ایک کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اللہ کے نبی تعجب کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ آپ نے ستر سال اپنے رب کی عبادت کی مگر اسی رب نے آپ کی عبادت کو ٹھکرا دیا ہے، آپ رنجیدہ ہونے کے بجائے وجد میں آگئے ہیں۔ اس نے کہا: اے برگزیدہ نبی! عبادت قبول کرے یا نہ کرے، یہ اس کا کام ہے، میرا کام فقط یہ ہے کہ اس کی عبادت اور ذکر کروں۔ وجد میں اس لیے آیا کہ اس کے دھیان، توجہ اور شمار میں تو ہوں۔
محبت اور عشق میں یکسوئی لازمی ہے۔ ضروری امر ہے کہ ہم اس دعویٰ محبت و عشق کو خالص اور سچا کر لیں۔ جب عشق و محبت کی کیفیات خالص و سچی ہو جاتی ہیں تو پھر انسان کو انجام سے غرض نہیں ہوتی۔ جب محبت خالص ہو جاتی ہے تو وہ نوازے یا نہ نوازے، کیفیت یہ ہوتی ہے کہ ہم تو سجدے تیری چوکھٹ پہ کیے جاتے ہیں۔ افسوس کہ ہمارا اس سے تعلق اتنا کمزور و نحیف اور حساس ہے کہ اگر اس دنیا میں ہمیں کوئی نعمت ملتی ہے تو ہم خوش ہو جاتے ہیں اور اگر کوئی چیز چھن جاتی ہے تو ہم شکوہ و شکایت اور ناشکری کرنے لگ جاتے ہیں۔ جبکہ حقیقی عشاق اور محبین جن کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق خالص ہوتا ہے، وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اللہ رب العزت نے اس دنیا میں کیا دیا ہے اور کیا نہ دیا۔ انھیں دنیا کی آسودہ زندگی، دولت و اقتدار اور شہرت و ناموری سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ ان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق اس بنیاد پر قائم نہیں ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت انھیں کیا عطا کررہا ہے اور کیا نہیں دے رہا بلکہ ان کے تعلق کی بنیاد فقط اس کی رضا اور خوشنودی ہوتا ہے۔ ہم نے اسی امر کو اپنی زندگیوں میں منتقل کرنا ہے۔ ہماری زندگی اسی حال کی عکاس ہو تب جاکر ہم اس کے دیدار کے قابل ہوسکیں گے۔
مشاہدہ و دیدارِ الہٰی
اللہ کے حقیقی عشاق وہ ہیں کہ جن کی محبت خالص ہو اور جن کا کل مقصودِ حیات اللہ رب العزت کی رضا اور خوشنودی کا حصول ہو۔ وہ اس کیفیت اور حال میں اللہ رب العزت کی عبادت کیا کرتے ہیں گویا کہ وہ اللہ رب العزت کا دیدار کر رہے ہیں۔ صحیح بخاری میں مذکور حدیث جبرائیل میں اسی امر کی طرف اشارہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے مقامِ احسان کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
ان تعبد اللہ کانک تراہ وان لم تکن تراہ فانہ یراک.
مقامِ احسان یہ ہے کہ تو اللہ رب العزت کی عبادت ایسے کر گویا کہ تو اللہ رب رب العزت کا مشاہدہ کر رہا ہے اور اگر یہ استعداد اور مقام نہ ہو تو یہ جان لے کہ وہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔ مشاہدہ کے دو درجات ہیں:
1۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ جب اللہ رب العزت کی عبادت کریں تو یہ تصور پیدا کریں کہ ہم اپنے رب کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
2۔ جب یہ کیفیت اور مقام نہیں ہے تو یہ یقین رکھے کہ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ یعنی ہم مشاہدہ نہیں کر سکتے تو نہ کریں، وہ تو مشاہدہ کر رہا ہے۔
اگر ان دونوں کیفیات میں سے کوئی ایک کیفیت بھی پیدا ہو جائے تو یہ قبولیت کی علامت ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے ان بشری آنکھوں سے اللہ رب العزت کا دیدار اور مشاہدہ کیسے کیا جائے؟ اس سوال کا جواب سیدنا امام جعفر الصادق رضی اللہ عنہ نے نہایت ہی خوبصورت انداز میں ارشاد فرمایا ہے۔ حضرت امام ابو سعد نیشا پوری تہذیب الاسرار میں بیان کرتے ہیں کہ سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا:
ھل رایت اللہ تعالیٰ؟
کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہوا ہے؟ آپ نے فرمایا:
لم اکن لا عبد ربا لم اری.
میں ایسا شخص ہی نہیں ہوں کہ اس رب کی عبادت کروں جو رب مجھے نظر نہ آئے۔ اس شخص نے تعجب کا اظہار کیا اور عرض کیا:
فکیف رایتہ فھولا تدرکہ الابصار؟
اے امام! آپ نے اپنے رب کو کیسے دیکھ لیا، بشری آنکھیں تو اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں؟ سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے اپنے جواب میں اس عقدہ کو حل کردیا کہ جب ان بشری آنکھوں سے اسے نہیں دیکھا جا سکتا تو اپنے رب کا مشاہدہ اس دنیا میں کیسے کیا جائے؟ آپ نے فرمایا:
لم تره الابصار بالمشاهدۃ الاعیان ولکن راته القلوب بحقائق الایمان. لا یحس بالحواس ولا یقاس بالقیاس.
یعنی ان آنکھوں نے اپنے رب کو تو نہیں دیکھا ہوا مگر یہ مشاہدہ ایمان اور دل کی حقیقت کے ذریعے ہوتا ہے۔ میں نے اپنے رب کا مشاہدہ اپنے قلب اور حقیقتِ ایمان کے ذریعے کیا ہے چونکہ وہ رب ایسا رب ہے کہ اسے محسوس نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔
اللہ رب العزت کے برگزیدہ لوگوں کے دل میں ایمان کا نور ہوتا ہے اور اس ایمان کے نور کی ایک حقیقت ہوتی ہے، وہ اپنے رب کا مشاہدہ اس حقیقت سے کرتے ہیں۔
جس طرح بشری آنکھیں ہیں، اسی طرح دل کی بھی آنکھیں ہوتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہماری دل کی آنکھیں پاک ہیں...؟ کیا یہ دل کی آنکھیں اپنے رب کا مشاہدہ کر سکتی ہیں...؟ مال و دولت اور جاہ و منصب کی طلب، حرص، لالچ اور رذائلِ اخلاق کے سبب دل کی آنکھیں پاکیزہ و مطہر نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے وہ اپنے رب کا مشاہدہ نہیں کر سکتیں۔
ہمیں سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے اس قول اور ارشاد سے سیکھنا چاہیے کہ دلوں کو پاکیزہ اور مطہر کر لیں تاکہ ہمارے دل کی آنکھیں اس قابل ہو جائیں کہ وہ اپنے رب کا مشاہدہ کر لیں۔
- امام سلمی طبقات الصوفیہ میں بیان کرتے ہیں کہ امام سری السقطی رضی اللہ عنہ اللہ کی بارگاہ میں یوں عرض کرتے:
اللھم ماعذ بتنی بشئی فلا تعذبنی بذل الحجاب.
اے باری تعالی تو نے آج تک مجھے کسی چیز کا عذاب نہیں دیا، پس روز قیامت بھی مجھے اپنے دیدار سے محروم نہ کرنا اور میرے اور اپنے درمیان وہ حجاب قائم نہ فرمانا جس کی وجہ سے میں تیرا دیدار نہ کر سکوں۔
ہمارا یہ مقام ہے کہ ہم جہنم کی آگ سے پناہ مانگتے ہیں مگر عشاق اس چیز سے پناہ مانگتے کہ روزِ قیامت اللہ رب العزت انھیں اپنے دیدار سے محروم نہ کردے۔
مشاہدہ و معرفتِ الہٰی کیونکر ممکن ہے؟
مشاہدہ و دیدارِ الہٰی کیسے حاصل ہو؟ اس حوالے سے امام ابو سعد نیشا پوری تہذیب الاسرار میں بیان فرماتے ہیں کہ امام ابو الحسین النوری فرماتے ہیں کہ مقامِ مشاہدہ اور مقامِ دیدار الہی اس طرح حاصل ہوتا ہے کہ
قد حیل بینی وبین قلبی منذ اربعین سنۃ، وما اشتہیت شیئا ولا تمنیت شیئا.
میرے اور میری نفسانی خواہشات کے درمیان چالیس سال سے ایک پردہ ہے یعنی چالیس سال سے میں نے اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی نہیں کی۔ میں نے کسی چیز کی نہ ہی خواہش کی اور نہ ہی کسی چیز کی تمنا کی بلکہ صرف ایک ہی تمنا ہے کہ روز قیامت اس کا دیدار نصیب ہو جائے۔
پوچھا گیا کہ آپ کی نفسانی خواہشات، تمنائیں، لذتیں اور آرزوؤں کے درمیان چالیس سال سے ایک پردہ ہے، یہ کیسے ممکن ہوا؟ فرمایا: منذ عرفت ربی۔
یہ پردہ اس وقت سے قائم ہے، جب سے میں نے اپنے رب کو پہچان لیا ہے۔ ہمیں بھی اپنے رب کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ جو اپنے رب کو پہچان جاتے ہیں، وہ اسی کے ہو جاتے ہیں اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔
امام ابو سعد نیشاپوری تہذیب الاسرار میں بیان کرتے ہیں کہ سیدنا امام ذوالنون مصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ معرفت کے تین درجات ہیں:
1۔ توحید کی معرفت۔ یہ مومنین کی معرفت ہے۔
2۔ معرفت الحجۃ والبیان: دلیل اور بیان کی معرفت۔ یہ علماء، حکماء اور بلغاء کی معرفت ہے۔
3۔ معرفۃ صفات الواحدنیہ: اللہ رب العزت کی وحدانیت کی صفات کی معرفت۔ یہ اولیاء کی معرفت ہے جو اپنے دلوں کے ذریعے اپنے رب کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
عرفاء اور شوقِ مشاہدۂ حق
امام الرفاعی اپنی کتاب حالۃ اہل الحقیقہ مع اللہ میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت شعیب علیہ السلام کثرت سے اپنے رب کی یاد، تمنا اور جستجو میں آنسو بہاتے تھے۔ حتی کہ روتے روتے ان کی بصارت چلی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کی بینائی لوٹا دی مگر ان کی وارفتگی کا عالم یہ تھا کہ عشق و محبت اور مستی کے عالم میں روتے روتے ان کی بینائی دوبارہ چلی گئی۔ اللہ رب العزت نے پھر بینائی لوٹا دی۔ تیسری مرتبہ بھی جب یہ ہوا تو اللہ رب العزت نے اپنے محبوب نبی سے فرمایا:
یا شعیب ان کان بکاؤک من مخافۃ النار فقد امنتک من النار وان کان بکاؤک من اجل الجنۃ فقد اوجبت لک الجنۃ.
اے شعیب! اگر دوزخ کے ڈر سے روتے ہو تو اس سے میں نے تجھے امان عطا کر دی ہے اور اگر جنت کی آرزو ہے تو جنت تجھ پر واجب کردی ہے۔ جنتیں تو تمہارے لیے ہیں۔ یعنی دوزخ کا خوف ہے تو تجھے اس سے امان ہے اور اگر جنت کی آرزو ہے تو تجھے یہ نعمت حاصل ہے۔ پھر کیوں روتے ہو؟
یہ محبت کے انداز ہیں، وہ رب اپنے محبوب بندوں سے اسی طرح پیار بھرا کلام کرتا ہے۔ سیدنا شعیب علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یا رب میں کچھ نہیں مانگتا، میری کوئی طلب نہیں ہے۔
ولکن من الشوق الی رؤیتک.
فقط تیرے دیدار کا متمنی ہوں اور تیرے دیدار کی تلاش ہے۔ مجھے نہ اِس جہاں کی جنت چاہیے اور نہ اُس جہاں کی جنت چاہیے، میری جنت تو فقط اے باری تعالی تیرا دیدار ہے۔
کیا ہماری بھی یہی جنت ہے؟ افسوس کہ ایسا نہیں ہے۔ ہماری جنت تو سہولت کی زندگی ہے، ہماری جنت؛ مال و دولت، جاہ و منصب اور شہرت و ناموری کا حصول ہے۔ عشاق و محبین جنت و دوزخ کے سبب اللہ کی عبادت و ذکر نہیں کرتے بلکہ اُن کا مقصدِ وحید فقط مشاہدۂ حق ہوتا ہے اور وہ اسے پابھی لیتے ہیں۔
امام قشیری الرسالہ میں بیان کرتے ہیں کہ امام عبداللہ الانصاری نے فرمایا کہ انہوں نے حضرت حسین الانصاری سے سنا کہ
رایت فی نوم فان القیامۃ قد قامت فشخص قائم تحت العرش فیقول الحق: یا ملائکتی! من ھذا؟
وہ خواب میں دیکھتے ہیں کہ حشر کا میدان بپا ہے اور اللہ رب العزت اپنے ملائکہ سے فرماتا ہے کہ یہ شخص جو میرے عرش کے نیچے کھڑا ہے، یہ کون ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ باری تعالی تو ہی بہتر جانتا ہے۔ پھر اللہ رب العزت خود فرماتا ہے کہ:
ھذا معروف الکرخی سکر من حبی فلا یفیق الا بلقائی.
اے ملائکہ! یہ معروف کرخی ہے۔ یہ عرشِ الہی کے نیچے عالمِ مدہوشی و مستی میں کھڑا ہے اور جب تک اسے میرا مشاہدہ اور دیدار نصیب نہیں ہو جاتا، اس کی مدہوشی و مستی ختم نہ ہوگی۔
- حضرت رابعہ بصری اپنے رب کے حضور اس طرح دعا کرتیں:
همتی ومرادی فی الدنیا من الدنیا ذکرک وفی الآخرۃ من الآخرۃ رویتک ثم فافعل بینھما ما شئت.
باری تعالی! میرا منتہائے کمال اور مقصودِ حیات اس زندگی میں تیرا ذکر ہے اور آخرت میں مجھے فقط تیرا دیدار چاہیے۔ میرا مقصود و مطلوب کوئی اور نہیں ہے۔ پس اس جہاں میں اور اُس جہاں میں میرے ساتھ تو جو حشر کرنا چاہتا ہے اور مجھے جو انجام دینا چاہتا ہے، وہ دے دے، لیکن مجھے فقط اِس دنیا میں اس قابل بنا دے کہ میں تیرا ذکر کر سکوں اور اُس جہاں میں اس قابل بنا دے کہ میں تیرا مشاہدہ کر سکوں۔
ہمارا مقصود و مطلوب بھی یہ ہی ہونا چاہیے کہ اس جہاں میں زندگی بسر کریں تو رب کی یاد میں بسر کریں اور اُس جہاں میں پہنچیں تو اللہ رب العزت ہمیں اپنے مشاہدہ سے سرفراز فرمائے۔