9 نومبر کو حکیم الامت کا یوم پیدائش جوش و خروش اور عزت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ بلاشبہ حکیم الامت وہ عظیم شخصیت ہیں کہ جن کے فکر و فلسفہ نے برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کو سر اٹھا کر جینے کی تحریک دی اوراُن کے افکار نے مسلمانوں کے دلوں میں الگ وطن کے حصول کی چنگاری کو شعلہ بنایا۔ حکیم الامت قوتِ عمل، جُہد مسلسل اور اُمید کے شاعرِ باکمال ہیں ۔انہوں نے مسلمانوں کے بکھرے ہوئے خوابوں کو قوت اِرادی سے یکجا کیا۔ آپ نے ہمیشہ مایوس مسلمانوں کی ہمت بندھائی، اُنہیں ان کا شاندار ماضی یاد کروایا اور میدانِ عمل میں پھر سے اترنے اور عہدِ رفتہ کی شان و شوکت حاصل کرنے پر آمادہ کیا۔
10 جنوری 1938ء کے دن قریبی احباب کی ایک نشست میں حکیم الامت نے نہایت اُمید افزاء اظہارِ خیال فرمایا کہ مجھے مسلمانوں کے مستقبل سے قطعاً مایوسی نہیں۔ ہمارا کوئی مسئلہ ہے تو قیادت کا ہے، ورنہ ہم میں ہر طرح کی استعداد موجود ہے۔ کیا حکمت اور صداقت سے بھرپور یہ الفاظ ہیں، ان میں ایک امیدِ جاوداں ہے۔ ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی‘‘۔ ہم مسلمانوں کا یہ ایمان ہے کہ اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوں، مایوسی کفر و گناہ ہے۔ جُہدمسلسل اور یقینِ محکم زوال کو کمال میں بدل دینے والے وصف ہیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اسلام کے نام پر حاصل کیا جانے والا یہ ملک ایک روز صفِ اول کا ملک بنے گا اور حکیم الامت کے یہ کلمات حقیقت بن کر ہمارے سامنے آئیں گے۔ جب پاکستان حاصل کرنے کی جدوجہد کا آغاز ہوا تو مسلمان زوال اور پستی کی انتہائی حدوں کو چھو رہے تھے۔وہ عزم اور تنظیم سے محروم تھے۔ قیادت اور فکر کا فقدان تھا۔ جب یہ قوم اتحاد کی لڑی میں پروئی گئی تو اللہ نے بیدار مغزاور کُہنہ مشق قیادت بھی عطا کی اور آزادی کی نعمت بھی۔ جب قومیں آزمائش کی چکی میں پستی ہیں تو اُنہیں اتحاد و یکجہتی اور جُہدمسلسل کی کشتی کنارے لگاتی ہے۔ اتحاد و یکجہتی سے مراد باہمی عزت و احترام اور ایک دوسرے کے مرتبے کا لحاظ ہے۔ مقام و مرتبہ کے اس لحاظ نے قوم کے تن مردہ میں جان ڈال دی تھی ۔اگر بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ اور حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ اپنی شخصیت اور اپنے علمی مرتبہ کی نفی کرکے ایک دوسرے کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دینے پر آمادہ نہ ہوتے اور قوم کے لیے مہر و وفا کا اور اخلاص کا پیکر نہ بنتے تو برصغیر کے مسلمانوں کو متحرک اور فعال قیادت میسر نہ آتی اور برصغیر کے مسلمان گروہوں اور ٹولیوں میں بکھر کر اپنی توانائیاں ضائع کرتے رہتے اور ہر دن اُنہیں اُن کی منزل سے دور لے جاتا۔ آئیے بانیٔ پاکستان اور حکیم الامت کے مابین باہمی عزت و احترام کے جذبات محسوس کرتے ہیں۔
بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 8 دسمبر 1944ء کو حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کے یوم پیدائش (یوم اقبال) پر ایک خوبصورت پیغام جاری کیا جو بڑے لوگ ، بڑا دماغ اور بڑے ظرف کی تعریف پر پورا اترتا ہے۔ بانیٔ پاکستان نے فرمایا: ’’ اگرچہ اقبالؒ ہم میں موجود نہیں لیکن اُن کا غیر فانی کلام ہماری راہ نمائی کے لئے باقی ہے جو ہمارے دلوں کو ہمیشہ گرماتا رہے گا، ان کی شاعری جو حُسنِ بیان کے ساتھ حُسنِ معنی کی بھی آئینہ دار ہے، اس عظیم شاعر کے دل و دماغ میں پنہاں ان جذبات اور حیات افروز افکار کی عکاسی بھی کرتی ہے جس کا سرچشمہ اسلام کی سرمدی تعلیم ہے۔ اقبال پیغمبرِ اسلام ﷺ کے سچے اور مخلص پیروکار تھے، وہ اول و آخر مسلمان اور اسلام کے مفسر اور شارح تھے۔ اقبالؒ محض ایک فلسفی اور مبلغ نہیں تھے وہ حوصلہ ، عمل ، استقامت اور خود اعتمادی کے پیکر بھی تھے اور سب سے بڑھ کر اِنہیں اللہ تعالیٰ پر لازوال ایمان و ایقان تھا اور وہ اسلام کی خدمت کے جذبہ سے سرشار تھے۔ ان کی ذات ایک شاعر کے بلند مقاصد کے ساتھ ایک عملی انسان کی حقیقت پسندی کا حسین امتزاج تھی۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان کے ساتھ سعی پیہم اور مسلسل جدوجہد اُن کے پیغام کا جزو لاینفک تھا اور اس لحاظ سے وہ صحیح معنوں میں اسلامیت کا نمونہ تھے۔ انہیں اسلام کے اصولوں سے ایک غیر فانی لگاؤ تھا، ان کے نزدیک زندگی میں کامیابی کا راز اپنی خودی کا شعور حاصل کرنا تھا اور اس مقصد کی تکمیل کے لئے وہ اسلام کی تعلیمات پر نہ صرف یقین رکھتے تھے بلکہ اسے حقیقی شاہراہِ عمل بھی گردانتے تھے۔ انسانیت کے لئے ان کا پیغام عمل اور خودی کا شعور ہے‘‘
اسی طرح حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ بانیٔ پاکستان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ اگرچہ آپ ہندوستان کے عظیم شاعر، فلاسفر اور مبلغ تھے، آپ کی شہرت گھر گھر اور شہر شہر میں پھیلی ہوئی تھی لیکن اس سب کے باوجود آپ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے مداح تھے۔ وہ ہمہ وقت آپ کی راہ نمائی کرتے اور الگ وطن کے مشن کی کامیابی میں اپنے مشوروں سے بروقت نوازتے۔ ایک موقع پر حکیم الامت کے دوست ڈاکٹر چکرورتی نے کہا کہ پنڈت نہرو سے جب کبھی آپ کا ذکر ہوا تو انہوں نے بڑی عقیدت کا اظہار کیا۔ میری خواہش ہے کہ پنڈت صاحب جب لاہور آئیں تو آپ سے ایک ملاقات ہو جائے۔ حکیم الامت نے فرمایا کہ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ پھر ایک دن پنڈت لاہور آئے اور حسبِ وعدہ ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ پنڈت نہرو کے لئے حکیم الامت کے کمرے میں کرسیاں لگائی گئیں مگر وہ تعظیماً کرسیوں پر بیٹھنے کی بجائے فرش پر بچھے قالین پر ہی بیٹھ گئے۔ اقبال اور پنڈت نہرو کے درمیان تحریک آزادی اور مسلمانوں کے مستقبل و دیگر آئینی اُمور پر مکالمہ ہوا ۔ملاقات کے اختتام پر اسی نشست میں پنڈت نہرو کے ساتھ آئے ہوئے میاں افتخار الدین نے حکیم الامت سے کہا کہ ’’ڈاکٹر صاحب! آپ مسلمانوں کے لیڈر کیوں نہیں بن جاتے؟ مسلمان مسٹر جناح سے زیادہ آپ کی عزت کرتے ہیں، اگر آپ مسلمانوں کی طرف سے کانگریس سے گفت و شنید کریں تو نتیجہ بہتر نکلے گا‘‘۔ حکیم الامت بیمار تھے اور تکیہ کا سہارا لے کر یہ ساری گفتگو فرمارہے تھے مگر جب انہوں نے یہ سُنا تو غصے میں آگئے اور اُٹھ کر بیٹھ گئے اور میاں افتخار الدین کو ترت جواب دیا کہ’’ اچھا تو یہ خیال ہے، آپ مجھے بہلا پھسلا کر مسٹر جناح کے مقابلے پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ مسٹر جناح ہی مسلمانوں کے اصل لیڈر ہیں، میں تو اُن کا ایک معمولی سپاہی ہوں‘‘۔
جب کسی کازسے وابستہ اہلِ علم و ہُنر اور سوسائٹی کے مخلص افراد کے اندر اعلیٰ ظرفی، کشادہ دلی اور وسیع النظری نہیں ہوتی تو اس کی قیمت جماعت اور قومیں ادا کرتی ہیں۔شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ نے نہایت خوبصورت الفاظ میں حکیم الامت کو خراج تحسین پیش کیا اور اُن کے مردِ مومن کے فلسفہ کو بیان فرمایا:
’’مرد مومن کا وہ تصور جو ہمیں حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ نے دیا ہے، اُسے کما حقہ ہو سمجھنے کے لئے اُس زوایۂ نگاہ کو دیکھنا ہو گا جسے انہوں نے اختیار کیااور انتہائی بلیغ انداز میں قرآن مجید کی اصطلاح ’’القوی الامین‘‘ کی ترجمانی کرتے ہوئے اُسے ’’مرد جلیل ‘‘ سے موسوم کیا ہے‘‘۔
اگر ہم اس اَمر کی توجیہ کرنا چاہیں کہ وہ تصور مردِ مومن جو اقبالؒ نے پیش کیا، اُسے کوئی اور اس انداز سے کیوں نہیں پیش کر سکاتو اس تجزیے کی تہہ میں تین بنیادی عوامل کار فرما نظر آئیں گے جسے فکر اقبال کے تین بنیادی عناصر سے تعبیر کر سکتے ہیں:
- اقبال نے اپنے تمام تر تصورات کی عمارت قرآن مجید سے اخذ کر دہ مفاہیم پر استوار کی ہے۔
- اقبال نے اپنی فکر کی آبیاری ارشادات نبویﷺ کے چشمے سے کی ہے۔
- اقبال نے اُن معارف اور لطائف و حقائق کو سیکھنے کے لئے شیخ رومیؒ کے سامنے زانوے تلمذ طے کیا۔ یعنی قرآن و سنت اور اہل اللہ کی عقیدت و محبت نے اقبال کے افکار و فلسفہ کو لافانی بنادیا۔
جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی