ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
اللہ رب العزت کی توفیق اور اس کی مدد و نصرت سے اس زیرِ نظر تحریر میں قرآن و سنت کی روشنی میں یہ موضوع زیر بحث ہے کہ کیا یہ عقیدہ رکھنا درست ہے کہ ہمارے لیے صرف قرآن کافی ہے، ہم صرف قرآن کو حجت مانتے ہیں اور سنت و حدیث نبوی کو حجت نہیں مانتے؟ جان لیں کہ ایسا سمجھنا اور ایسا کہنا صریح کفر ہے۔ ایسے عقیدہ کا قرآن مجید اور دینِ اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ دینِ اسلام کے خلاف ایک فکری بغاوت اور ایک ذہنی انحراف ہے۔ بدقسمتی سے اس بغاوت اور انحراف کو قرآن کا ٹائٹل دے دیا گیا کہ ہم تو صرف قرآن ہی کی ہر بات کو حجت تسلیم کرتے ہیں۔ اس مؤقف کے قائلین کا یہ قول خود قرآن مجید کی مخالفت ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً ڈیڑھ سو آیات کریمہ میں سنت و حدیثِ نبوی کی حجیت کو صراحتاً بیان کیا گیا ہے۔ پس حجیتِ حدیث و سنت کا انکار ڈیڑھ سو آیاتِ کریمہ کی نفی ہے اور اس طرح یہ نہ صرف قرآن مجید بلکہ دین اسلام کا بھی انکارہے۔ اس حوالے سے ہم متعدد آیات کا مطالعہ زیرِ نظر مضمون کے سابقہ حصوں میں کرچکے ہیں۔ اس عقیدہ پر مزید آیاتِ قرآنیہ ملاحظہ ہوں:
سنت کی حجیت؛ دراصل عقیدہ رسالت کی حجیت اور اس کے وجوب پر دلالت کررہی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
یٰـٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآءَ کُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَاٰمِنُوْا خَیْرًا لَّکُمْ وَاِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ ِللہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَکَانَ اللهُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا.
(النساء،4: 180)
’’ اے لوگو! بے شک تمہارے پاس یہ رسول ( ﷺ) تمہارے رب کی طرف سے حق کے ساتھ تشریف لایا ہے، سو تم (ان پر) اپنی بہتری کے لیے ایمان لے آؤ اور اگر تم کفر (یعنی ان کی رسالت سے انکار) کرو گے تو (جان لو وہ تم سے بے نیاز ہے کیوں کہ) جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے یقینا (وہ سب) اللہ ہی کا ہے اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔‘‘
اس آیت میں ہمارے پاس آنے اور حق کی بات کو لانے کی نسبت آپ ﷺ کی طرف کی گئی ہے کہ وہ ہمارے پاس اللہ کی طرف سے حق کے ساتھ تشریف لائے۔ یہ بات کفار کے زعم، گمان اور رسالت کے انکار پر مبنی ان کے اعتقادی و فکری تصورات کے رد کے ضمن میں ہے۔ اس باب میں کئی مقامات پر قرآن مجید نے ایسا کیا ہے کہ رسول اکرم ﷺ پر ایمان لانے کو کافی قرار دیا ہے اور ایمان باللہ کا ذکر واضح طور پر اس کے ساتھ نہیں کیا۔ گویا ایمان بالرسالت میں ہی ایمان باللہ کو شاملِ تصور کر لیا گیا ہے۔ہر چند کہ بے شمار مقامات پر ایمان باللہ اور ایمان بالرسول اور اسی طرح اطاعتِ الٰہی اور اطاعتِ رسول کا ذکر اکٹھا آتاہے یعنی ایمان بالرسول کو ایمان باللہ سے جدا نہیں کیا گیا مگر قرآن مجید میں کئی مقامات ایسے آئے ہیں جہاں کفار کے رد میں صرف ایمان بالرسول کو ذکر کیا گیا اور ایمان باللہ کا الگ سے ذکر نہیں کیا گیا اور ایمان بالرسول کے ذکر کو ہی ایمان باللہ کے لیے بھی کافی سمجھ لیا گیا۔ مذکورہ آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے فَاٰمِنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهِ نہیں فرمایا بلکہ صرف ایمان بالرسول کا ذکر کیا ہے۔
ایمان بالرسول محض ایک اصطلاح نہیں کہ آپ ﷺ کو رسول مان لیا اور بات ختم، ایسا نہیں ہے، بلکہ یہ ایک مکمل پیکج ہے کہ جو کچھ رسول اکرم ﷺ سمجھا رہے ہیں، عطا کر رہے ہیں، بیان کررہے ہیں، ان تمام کو اسی طرح مانا جائے۔
قرآن مجید کی وہ آیات جہاں صرف ایمان بالرسول کا ذکر ہے اور ایمان باللہ کا ذکر نہیں ہے، ان آیات میں ایمان باللہ کے ذکر نہ کرنے کا مطلب (معاذ اللہ)یہ نہیں ہے کہ ایمان باللہ کی ضرورت اور حاجت نہیں۔ ایسا نہیں ہے بلکہ اللہ رب العزت نے کافروں کے زعمِ باطل اور فکر کو رد کرنے کے لیے یہ اسلوب اختیار کیا ہے۔ اس لیے کہ کفار و مشرکین بھی اللہ کی ہستی کا انکار نہیں کرتے تھے ۔ ان کی کتب پڑھ لیں، ان میں باقاعدہ اللہ کے ذکر کے باب موجود ہیں کہ ’’ایک اللہ ہے، وہی پیدا کرنے والا ہے، وہی مالک ہے، سب کچھ اس کے قبضہ قدرت میں ہے، سب کچھ اُس کے علم میں ہے اور ہم نے اُسی کی طرف جانا ہے۔‘‘ توحید کے حوالے سے اُن کے اور ہمارے عقیدہ میں فرق صرف یہ ہے کہ اُن کا تصورِ توحید قرآن مجید کے دیے ہوئے تصورِ توحید کے مطابق نہیں۔ وہ کئی خدا مانتے ہیں اور سب خداؤں کے اوپر ایک سب سے بڑا خدا مانتے ہیں اور اسے رب الارباب کہتے تھے۔ وہ مطلقاً اللہ کی ذات کا انکار نہیں کرتے تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ربوبیت اور الوہیت میں دوسروں کو شریک ٹھہراتے تھے اور اصل خرابی کی جڑ یہی تھی۔ ایسا اس لیے تھا کہ انہوں نے تصورِ توحید حضور نبی اکرم ﷺ سے قبول نہیں کیا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، ربوبیت اور الوہیت کا تصور اپنے ذہنوں کے مطابق گھڑ رکھا تھا۔ واسطۂ رسالت سے اللہ تعالیٰ کا علم اور اس کی معرفت نہ لینے کے سبب ان کے اندر بے شمار خرابیاں، جہالتیں اور گمراہیاں داخل ہوگئی تھیں۔
گویا عقیدۂ توحید کو بھی اگر درست ہونا تھا تو واسطۂ رسالت سے ہونا تھا اور اس علم کے ذریعے ہونا تھا جو رسول گرامی ﷺ نے انسانیت کو فراہم کیا۔ جب انھوں نے رسالت کا ذریعہ اور واسطہ نہیں مانا، قولِ رسول ﷺ کو حجت نہیں مانا، رسول اللہ ﷺ کی تشریح و تعبیر کو حجت نہیں مانا، رسول ﷺ کی دی ہوئی دعوت کو قبول نہیں کیا تو صاف ظاہر ہے کہ وہ کبھی عقیدۂ توحید بھی صحیح حاصل نہیں کر سکتے تھے۔
قرآن مجید کی وہ آیات جن میں صرف ایمان بالرسول کا ذکر ہے، ان آیات کا مقصود یہ ہے کہ اگر وہ رسول ﷺ پر ایمان لے آتے ہیں تو تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔ رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ عقیدہ توحید، آخرت، وحی، کتب اور ہر ایک عقیدہ کا رخ اور تصور صحیح ہوجائے گا۔ اس لیے کہ مرکز و محور رسو ل اللہ ﷺ پر ایمان لانا ہے۔ ایمان بالرسول محض ایک اصطلاح نہیں کہ آپ ﷺ کو رسول مان لیا اور بات ختم، ایسا نہیں ہے، بلکہ یہ ایک مکمل پیکج ہے کہ جو کچھ رسول اکرم ﷺ سمجھا رہے ہیں، عطا کر رہے ہیں، بیان کررہے ہیں، ان تمام کو اسی طرح مانا جائے۔ رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کا مطلب ہے کہ جو کچھ انہوں نے انسانیت اور امت کو دیا، اس سب کو حق مان لیا جائے اوران کے ہر قول،فعل، دعوت، تعبیر اور تشریح کی حجیت پر ایمان لایا جائے۔
جب رسول اللہ ﷺ پر ایمان لے آتے ہیں تو ایمان کے جتنے ارکان ہیں وہ سارے ان کے اندر آجاتے ہیں۔ اس لیے کہ خود تو کوئی رسول بن ہی نہیں سکتا، اللہ تعالیٰ ہی کسی کو رسول بناتا اور انسانیت میں مبعوث کرتا ہے۔ پس رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے سے بندہ سیدھا ایمان باللہ پرپہنچ گیا۔ گویا ایمان بالرسول میں ہی ایمان باللہ ہے۔ ارکانِ ایمان میں سے جس ایمان کو جامع اور کامل بنایا گیا اور جسے ایمان باللہ پر بھی کافی قرار دیا گیا وہ ایمان بالرسول ہے۔ جو اس رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہیں لاتے یعنی ان کے ہر قول اور فعل کو حجت نہیں مانتے اور فقط قرآن مجید کو مانتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کے اوپر بھی (معاذ اللہ) اپنے آپ کو جج بنا لیا۔ یہ لوگ اپنے آپ کو تو حجت بنانا قبول کرتے ہیں لیکن آپ ﷺ کی حجیت کو قبول نہیں کرتے۔ وہ اپنے اس کردار سے تو اللہ تعالیٰ کو بھی رد کررہے ہیں۔
ایمان بالرسول پر رحمتِ الٰہیہ کے دو حصوں کا عطا ہونا
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِہٖ یُؤْتِکُمْ کِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِہٖ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِہٖ وَیَغْفِرْ لَکُمْ وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.
(الحدید،57: 28)
’’ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اُس کے رسولِ (مکرّم ﷺ) پر ایمان لے آؤ، وہ تمہیں اپنی رحمت کے دو حصّے عطا فرمائے گا اور تمہارے لیے نور پیدا فرما دے گا جس میں تم (دنیا اور آخرت میں) چلا کرو گے اور تمہاری مغفرت فرما دے گا، اور اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
اس آیت میں ڈرنے کا اشارہ اس طرف بھی ہے کہ یہ بات کہنے سے ڈرو کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی ہر بات کو نہیں مانتے۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرو کہ تم کہتے ہو کہ ہم صرف اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید کو مانتے ہیں لیکن رسول اللہ ﷺ کی ہر بات کوحجت نہیں مانتے۔
اس آیت میں رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کے اجر کو بھی بیان کردیا کہ رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کے اجر کے طور پر وہ تمہیں اپنی رحمت کے دو حصّے عطا فرمائے گا۔سوال یہ ہے کہ محض ایمان بالرسول پر رحمت کے دو حصے عطا فرمانے کا کیوں کہا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ رحمت کا ایک حصہ رسول اللہ ﷺ کو ماننے پر بطورِ اجر مل گیا اور چونکہ ایمان بالرسول ایمان باللہ بھی ہے، اس لیے رحمت کا دوسرا حصہ اللہ کو ماننے پر بطورِ اجر مل گیا۔ گویا اشارہ یہ دیا جارہا ہے کہ فقط رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانا، ایک حقیقت کو ماننانہیں بلکہ دونوں حقیقتوں، یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید اور آقاعلیہ السلام کی رسالت کو ماننا ہے۔
جن آیات میں فقط ایمان بالرسول کا حکم ہے وہاں ایمان بالرسول کو ہی ایمان باللہ کی ضرورت کے لیے کافی بنا دیا گیا۔ صرف رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کا ذکر کرنےکا مطلب رسول اللہ ﷺ کی اتباع کرنا ہے اور رسول اللہ ﷺ کے حکم، قول، فعل، تقریر، تعبیر، تشریح، تشریع اور تعلیمات کو حجت ماننا ہے۔ ایسی آیات کا پورا مضمون صرف اسی محور پر گھومتا ہے۔
قرآن مجید میں مذکور اوصافِ مصطفیٰ ﷺ سے حجیتِ حدیث و سنت پر دلیل
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهٰهُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَیَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ.
(الاعراف،7: 157)
’’(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول (ﷺ) کی پیروی کرتے ہیں جو امی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر منجانب اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور اُن سے اُن کے بارِگراں اور طوقِ (قیود)۔ جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے۔ ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔‘‘
سوال یہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی پیروی کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اس دور کے لوگوں کے لیے تھا یا ہمارے زمانے اور قیامت تک کے لیے ہے؟ اگر ہم نے قرآن مجید کے اس حصے کو صرف اسی زمانے کے لوگوں کے لیے محددو کر دیا تو پھر ہم قرآن مجید کے ہی (معاذ اللہ) منکر ہو گئے۔ پس معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کی پیروی کا یہ حکم قیامت تک آنےوالے ہر مومن و مسلمان کے لیے ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آقا علیہ السلام کے فضائل اور آپ ﷺ کے اوصاف کا تذکرہ فرمایا ہے اور اُن امور اور ذمہ داریوں کا ذکر کیا ہے جو آپ ﷺ ادا کرتے ہیں۔ ان اوصاف کے تذکرہ کے ذریعے اللہ رب العزت آپ ﷺ کے رسول ہونے کی تشریح کررہا ہے۔ یہ امر ذہن نشین رہے کہ رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کے معنی و مراد کا تعین ہم اپنے ذہن سے نہیں کریں گے بلکہ اللہ رب العزت نے جو معنی سمجھایا، اس پر ایمان لائیں گے۔ اگر قرآن کو حجت ماننا ہے تو پھر جو تعریف قرآن نے دی، اس کو ماننا ہوگا۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ کے ذیل میں حضور نبی اکرم ﷺ کے پانچ اوصاف کا ذکر کیا۔ ان اوصاف سے بھی حجیتِ حدیث و سنت صراحتاً ثابت ہورہی ہے۔ آیئے اس تناظر میں اوصافِ مصطفی ﷺ کا مطالعہ کرتے ہیں:
(1) امر بالمعروف
اس آیت میں پہلا وصفِ مصطفی ﷺ یہ بیان ہوا کہ یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وہ رسول انھیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں۔یہاں آقا علیہ السلام کے حکم دینے کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے محدود نہیں کیا کہ وہ صرف قرآن مجید کی آیات کا حکم دیتے ہیں اور اس کے علاوہ جسے وہ اچھی بات سمجھیں، اس کا حکم نہیں دے سکتے۔ یہ قرآن مجید میں کہیں نہیں ہے۔ اگر اسی طرح ہوتا تو پھر اس آیت میں فاعل قرآن مجید کو یا لفظ اللہ کو بنایا جاتا۔ یہاں رسول اللہ ﷺ کو فاعل بنایا کہ یہ رسول تمہیں حکم دیتاہے۔ حضور ﷺ کی اتھارٹی کو مطلقاً (absolute) بتایا جارہا ہے کہ قرآن مجید میں یا قرآن مجید کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کے علم، فہم اور بصیرت میں جو جو چیزیں اچھی ہیں، اپنی رسالتی ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے یہ رسول ﷺ ان سب کا حکم دیتے ہیں۔ پس اس میں سنت و حدیث بھی شامل ہوگئی۔
(2) نہی عن المنکر
آپ ﷺ کی دوسری خصلت اور ذمہ داری یہ بتائی گئی کہ وَیَنْهٰهُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ کہ وہ بری باتوں سے منع فرماتے ہیں۔ اب اس میں وہ منکرات بھی آگئے جن کاذکر قرآن مجید میں ہے اور وہ بھی آگئے ہیں جن کاذکر قرآن مجید میں نہیں آیا ۔ یعنی وہ قرآن مجید کی آیات کی تشریح کرتے ہوئے یا آسمانی اور ربانی حکمت اور نبوی بصیرت کے تحت جس جس چیز کو برا سمجھتے ہیں، اس سے منع کرتے ہیں۔ پس اس میں بھی سنت و حدیث شامل ہوگئی۔
(3) پاکیزہ چیزوں کو حلال کرنا
آپ ﷺ کے تیسرے وصف اور خصلت کی طرف یوں متوجہ کیا کہ وَیُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ کہ وہ ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں۔ اگر اس سے مراد صرف ان ہی چیزوں کو حلال قرار دینے کا عمل تھا اور انہی طیبات کی حلّت تھی جن کا ذکر قرآن مجیدمیں آیا ہے تو اس کا فاعل اس پورے کلام میں قرآن مجید کو بنایا جاتا، اللہ تعالیٰ اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ سے اس کلام کو شروع نہ فرماتا، اسے اتباعِ رسول نہ قرار دیا جاتا بلکہ اسے اطاعتِ الٰہی کے حکم کے تحت بیان کیا جاتا اور مضمون اس طرح ہوتا کہ ’’یہ قرآن تمہیں اچھائیوں کا حکم دیتاہے، یہ قرآن تمہیں برائیوں سے منع کرتاہے، یہ قرآن پاکیزہ چیزوں کو تمہارے لیے حلال کرتا ہے، یہ کتاب ناپاک چیزوں کو حرام کرتی ہے۔‘‘
ایسا نہیں کہا گیا بلکہ ان تمام امور کی نسبت حضور علیہ السلام کی طرف کی گئی اور ان امور کے حوالے رسول اللہ ﷺ کی بات کے ماننے کو اتباعِ رسول قرار دیا گیا۔ پس ساری چیزیں خواہ قرآن مجید کے ذریعے آقاعلیہ السلام نے بیان کیں یا غیراز قرآن یعنی اپنی نبوی اور رسالتی حکمت و بصیرت اور علم کے تحت بیان کیں، وہ سب کچھ اتباعِ رسول کے تحت آگیا۔ لهٰذا اس آیت میں صراحتاً حجیتِ سنت و فرامین رسول بیان ہو رہی ہے،اس لیے کہ ہر شے کی نسبت رسول ﷺ کی طرف ہے۔
(4) ناپاک چیزوں کو حرام قرار دینا
آپ ﷺ کی چوتھی خصلت کا ذکر یوں کیا کہ وَیُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰۤئِثَ وہ ان پر ناپاک چیزوں کو حرام کرتے ہیں۔لازمی بات ہے کہ یہاں بھی اُن ناپاک چیزوں کے حرام ہونے کی بات نہیں ہورہی جنھیں قرآن مجید نے حرام قرار دیا ہے بلکہ واضح کردیا کہ یہ رسول اللہ ﷺ بھی جس چیز کو حرام قرار دیں، وہ بھی حرام ہے، اس لیے تم اس حوالے سے بھی ان کی اتباع کرو۔
(5) بارِ گراں اور طوق سے آزادی
آپ ﷺ کے پانچویں وصف کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
وَیَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ.
’’اور اُن سے اُن کے بارِگراں اور طوقِ (قیود)۔ جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے۔ ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔‘‘
صاف ظاہر ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے ذریعے احکام میں جو آسانیاں پیداکیں، وہ بھی اس میں شامل ہے لیکن وہ امور جن کا قرآن مجید میں صریح حکم نہیں آیا تھا، آقا علیہ السلام نے اپنی سنت اور حدیث کے ذریعے ان میں آسانیاں پیدا کیں، ان زنجیروں کو توڑا اور آزادیاں اور سہولیتں دیں، وہ بھی اس کے تحت ہیں۔ چونکہ قرآن مجید بھی رسول اللہ ﷺ عطا کررہے ہیں اور قرآن مجید کے علاوہ حدیث و سنت کی صورت میں جو کچھ دینا اور سمجھانا ہے وہ بھی رسول اللہ ﷺ عطا کر رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ جو بشکلِ قرآن حضور ﷺ ارشاد فرما رہے ہیں اور امت کو دے رہے ہیں، اس حصے کو وحی جلی اور وحی متلو کہا جاتا ہے اور وہ حصہ جورسول اکرم ﷺ بطور سنت و حدیث عطا فرما رہے ہیں، اس کو وحی خفی اور وحی غیر متلو کہا جاتا ہے۔
مذکورہ پانچوں چیزوں میں قرآن مجید نے نسبت حضورعلیہ السلام کی طرف کی ہے اور اسے یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ کے تحت بیان کیا ہے۔
آپ ﷺ کے ان پانچ اوصاف کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ:
فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٓٗ اُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.
(الاعراف،7: 157)
’’پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول ﷺ) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
یعنی جو ان تمام شانوں کے ساتھ اس رسول پر ایما ن لائے، رسول ﷺ کے ہرقول، فعل، عمل،سنت، حدیث،ارشاد اور تعلیم کو حجتِ مطلقہ مانتے ہوئے ایمان لائے، رسول کے ہر امر بالمعروف، نہی عن المنکر،حلتِ طیبات اور تحریم الخبائث پرایمان لائے اور آپ ﷺ نے جو آزادیا ں اور سہولتیں دیں، کئی پابندیاں ختم کیں، الغرض آپ ﷺ کے ہر حکم پر ایمان لائے۔ یعنی ا س پورے پیکج کے ساتھ ان پر ایمان لائے، اس میں پسند نہیں ہے کہ جوچاہے مان لیا اور جو چاہے چھوڑ دیا، ایسا نہیں ہے۔ پس جو اس رسول پر اس مکمل پیکج کے ساتھ ایمان لایا تو آیت کےآخر میں مذکور فلاح کی خوشخبری نصیب ہوگی۔
معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کی حدیث و سنت کو حجت ماننا، دراصل ایمان بالرسالت ہے۔ ایمان بالرسول ہو ہی نہیں سکتا جب تک رسول اکرم ﷺ کی سنت اور حدیث کو اصلاً حجت، واجب، لازم اور اصلِ دین نہ ماناجائے اور اسی طرح حجت نہ مانا جائے جیسے قرآن مجید کو مانتے ہیں۔ پہلے حجت ماننا ہے اور پھر آگے درجے میں تفاوت ہے کہ قرآن مجید کا درجہ پہلا ہے اور پھرحدیث کا درجہ اس کے بعد ہے، مگر اصلِ حجیت میں دونوں برابر ہیں۔
اطاعتِ رسول ﷺ میں اطاعتِ الٰہی بھی شامل ہے
جس طرح اصلِ حجیت میں قرآن مجید اور احادیثِ مبارکہ برابر ہیں، اس طرح اطاعت میں بھی دونوں کا درجہ ایک ہے، اس لیے کہ اللہ رب العزت نے اسے ہر جگہ ایک مرتبہ دیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی اطاعت کرنے کے حوالے سے ارشاد فرمایا:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ.
(النساء،4: 59)
’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو۔‘‘
قرآن مجید میں 38 مقامات پر لفظِ اطاعت کے ساتھ خواہ صیغہ کوئی بھی ہو، اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺ کی اطاعت کا ذکر آیا ہے۔ ان 38 آیات میں سے 20 آیات ایسی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اللہ تعالیٰ کے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت دونوں کا ذکر اکٹھا آیا ہے اور 18 آیات ایسی ہیں جن میں صرف رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کا ذکر ہے۔ ان آیات میں رسولاللہ ﷺ کی اطاعت کے حکم کے ساتھ اللہ کی اطاعت کا ذکر صراحتاً یا لفظاً نہیں آیا جبکہ اس کے برعکس قرآن مجید میں ایک آیت بھی ایسی نہیں جس میں صراحتاً صرف اطاعتِ الٰہی کا حکم اور ذکر ہو۔ اس موازنہ سے معلوم ہوا کہ تمام 38 مقامات پر رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کا حکم موجود ہے۔
صرف قرآن مجید ہی کو حجت ماننے والوں نے کیا کبھی قرآن مجید کے اس اسلوب کی طرف بھی توجہ کی ہے کہ قرآن مجید ہمیں حجت کے حوالے سے کیا سمجھاتاہے اور اس ضمن میں اس کی تعلیم کیاہے؟ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ایک دو آیات ہی ایسی آجاتیں جن میں فقط اسی طرح اطاعتِ الٰہی کا حکم دے دیا جاتا جس طرح 18 آیات میں فقط اطاعتِ رسول کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ رب العزت نے یہ طریقہ نہیں اپنایا اور قطعی طو ر پر یہ دروازہ اس لیے بند کر دیا کہ وہ ذات عالم الغیب ہے، جانتی ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب لوگوں کے اذہان اور افکار میں یہ فتنہ پید ا ہوگا اور دین گریز لوگ اگرچہ کلمہ پڑھنے والے ہوں گے اور ظاہری طور پر میری اطاعت کا انکار نہیں کریں گے مگر ان کا سار ا فتنہ اطاعتِ رسول کی حجیت پر مبنی ہوگا اور وہ رسول کی اطاعت اور اُن کی سنت و حدیث کے حجت ہونے کو ٹھکرائیں گے۔ وہ کہیں گے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کافی ہے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا مطلب ہے کہ قرآن کا حجت ہونا کافی ہے اور وہ آپ ﷺ کے ہر فرمان اور ہر قول کے حجت ہونے کا انکار کریں گے۔ لهٰذا اگر ایک آیت بھی ایسی وارد ہوجاتی جس میں صرف اطاعتِ الٰہی کا حکم ہوتا اور اس میں ظاہراً و لفظاً اطاعتِ رسول کاذکر نہ ہوتا تو یہ لوگ اسی ایک آیت کو بطورِ دلیل بیان کرتے اور باقی 37 آیات کو بھول جاتے۔ وہ ایک ہی آیت کو لیتے اور ان کے اعتراض کے لیے یہی کافی ہوتا کہ وہ کہتے کہ ’’دیکھیں یہاں قرآن نے فقط اطاعتِ الٰہی کا حکم دیا ہے اور اطاعتِ رسول کا ذکر نہیں کیا، لهٰذا ہم اس آیت پرعمل کرتے ہیں۔‘‘
کفار و مشرکین نے تصورِ توحید حضور نبی اکرم ﷺ سے قبول نہیں کیا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، ربوبیت اور الوہیت کا تصور اپنے ذہنوں کے مطابق گھڑ رکھا تھا۔ اللہ کا علم اور اس کی معرفت واسطۂ رسالت سے نہ لینے کے سبب ان کے اندر بے شمار خرابیاں، جہالتیں اور گمراہیاں داخل ہوگئی تھیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس اسلوب سے واضح فرمادیا کہ تم جو عمل کرنے کا ارادہ رکھتے ہو، میں اسے مکمل ہی نہیں ہونے دوں گا۔ اطاعتِ رسول کے حوالے سے یہ حکم بالکل اسی طرح ہے جیسے اگر ایمان بالرسول کاملاً ہو گیا تو ایمان باللہ اس کے اندر آگیا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے بغیر رسول کو رسول مانا ہی نہیں جاسکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ مبعوث نہ کرے تو رسول کوئی از خود نہیں بن سکتا۔ اگر اطاعتِ رسول کو حجت مان لیا اور رسول کی اطاعت کر لی تو اس میں از خود اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہو گئی، چونکہ رسول کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو شامل ہے۔ رسول کی اطاعت اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہی ہو رہی ہے، اسے منصبِ رسالت پرفائز کرنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہے اور اس کی اطاعت کا حکم دینے والا بھی اللہ ہے۔ پس جب رسول ﷺ کی اطاعت ہوگی تو یہ اطاعتِ الٰہی کو بھی شامل ہوگئی۔ مگر خالی اطاعتِ الٰہی، اطاعتِ رسول ﷺ کو شامل نہیں ہوتی، اس میں رسول ﷺ کی اطاعت کے حجت ہونے کے انکار کاراستہ نکل سکتا تھا، پس اللہ تعالیٰ نے اس فتنے کادروازہ بند کردیا۔
(جاری ہے)