حضرت آدم علیہ السلام سے پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد رسول اللہ ﷺ تک دین اسلام ایک ہی ہے اور یہی دین اسلام قیامت تک کے لیے اللہ کا محبوب اور منتخب دین ہے۔ ہر صاحبِ شریعت پیغمبر کو اللہ نے جس شریعتِ مطہرہ سے نوازا، وہ بعد میں اختلافِ زمان و مکان کی وجہ سے مشیتِ الہٰی کے مطابق تغیر پذیر ہوتی رہی جبکہ شریعتِ محمدیہ ﷺ کو اس نے یہ امتیاز و اختصاص بخشا ہے کہ اس کے بعد اب کوئی شریعتِ جدیدہ نہیں اور یہی شریعتِ محمدی اپنے کمال و جامعیت کی بنیاد پر جہاں مسلمانانِ عالم کے لیے واجب الاتباع ٹھہری، وہیں اپنی زندگی و تابندگی اور تازگی و شادابی کے لحاظ سے بقائے دوام کی خلعت سے بھی سرفراز ہوئی۔
کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ دینِ اسلام کی مذہبی و علمی اور عملی تعبیر و تشریح ہیں۔ یہ عقائد و مبادی اور احکام و مسائل کے سرچشمے ہیں اور پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اللہ ﷺ جملہ احوال و قضایا اور شعبہ ہائے حیات میں اسوہ و قدوہ اور نمونہ کامل ہیں جن کا ہر قول و فعل و عمل صحابہ کرام اور قیامت تک کی امتِ مسلمہ کے لیے دلیل و حجتِ شرعی ہے۔
سنتِ رسول کے ساتھ سنتِ خلفائے راشدین کی اطاعت و اتباع ہر مسلمان پر فرض ہے۔اسی طرح صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعتِ مبارکہ بھی عدول و مقتدائے شریعت و امت ہے جس پر آیات و احادیث کی بے شمار ہدایات ناطق و شاہد ہیں اور ساری امت مسلمہ کا اسی کے مطابق اعتقاد و عمل ہے اور اسی پر اس کا اجماع بھی ہے۔ اس سفینہ نوح پر جو سوار ہوا وہ ساحلِ مراد کو پہنچا اور جس نے ان نجومِ ہدایت کی روشنی میں اپنا سفرِ حیات شروع کیا، وہ کامیابی و کامرانی کے ساتھ اپنی منزلِ مقصود سے ہمکنار ہوا۔
تعقل، تفکر اور تدبر اہلِ اسلام کے لیے بموجب ہدایات و ارشاداتِ کتاب و سنت ہر عہد و قرن میں ضروری ہے اور ان کا یہ دینی و شرعی و اجتماعی فریضہ ہے کہ اسرار و رموزِ حیات و کائنات میں غورو خوض کرکے ان کی گتھیاں سلجھائیں اور انسانی معاشرہ کی صلاح و فلاح کے لیے وہ تمام تر تدابیر بروئے کار لائیں جن کی انہیں کچھ بھی ضرورت و حاجت محسوس ہو اوربنی نوع انسان کے حق میں کسی بھی جہت سے جس امرِ مطلوب کی کوئی بھی افادیت و اہمیت متصور ہو۔ لیکن تحقیق و تفحص و اکتشاف و ایجاد اور اقدام و عمل کے ہر مرحلے میں قدم قدم پر اس کی رعایت اور اس کا التزام ہر مسلمان کے اوپر واجب ہے کہ اسلام و شریعتِ مطہرہ نے جو اصول و قواعد و ضوابط مقرر فرمادیے ہیں اور جو ہدایات جاری فرمادی ہیں، ان کی کسی طرح خلاف ورزی نہ ہو اور الحاد و اعتزال و انحراف و ضلال و تجاوز و خروج سے اپنے آپ کو ہر قیمت پر محفوظ رکھا جائے۔
مہد سے لحد تک عقائد و عبادات و معاملات کے جو دائرے اسلام و شریعتِ مطہرہ نے متعین کردیئے ہیں، ان کی پابندی فرض شرعی ہے اور پیغمبر اسلام ﷺ و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اطاعت و اتباع سے کسی مسلمان کو کسی حال میں مفر نہیں۔ اسی طرح کتاب و سنت سے ثابت و واضح احکام و مسائل میں کسی کی ذاتی رائے اور قیاس آرائی کا کوئی دخل نہیں۔ نہ ہی ان کے اندر کسی بڑے سے بڑے عالم و فقیہ و مجتہد کو مجال دم زدن و جرأت این و آں و جسارتِ چنیں و چناں کی کوئی گنجائش ہے۔
کتاب و سنت سے ثابت اور منصوص احکام میں تقلید کا کوئی جواز نہیں اور نہ عہدِ رسالت و عہدِ صحابہ میں زمانہ مابعد کی اصطلاحی تقلید فقہی کا نام تھا اور نہ ہی اس کی کوئی ضرورت تھی۔ کیونکہ ان کے اقوال و اعمال براہِ راست وحی ربانی اور مشکوٰۃِ نبوت سے مستنیر ہوا کرتے تھے۔ ہاں! صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مراتب و مدارجِ علم و فہم متفاوت تھے اس لیے اعلم و افقہ صحابۂ کبار سے دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسائلِ شرعیہ میں رجوع کیا کرتے تھے اور ان کے بیان کردہ احکام و مسائل کے مطابق عمل کیا کرتے تھے۔اعلم و افقہ کی طرف رجوع وسوال کا حکم خود رب کائنات نے دیا ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم ارشاد فرماتا ہے:
فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ.
(النحل:43)
’’سو تم اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہو۔‘‘
اور تفقہ کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً فَلَوْلَا نَفَرَمِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ.
(التوبۃ،9: 122)
’’اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سارے کے سارے مسلمان (ایک ساتھ) نکل کھڑے ہوں تو ان میں سے ہر ایک گروہ (یا قبیلہ) کی ایک جماعت کیوں نہ نکلے کہ وہ لوگ دین میں تفقُّہ (یعنی خوب فہم و بصیرت) حاصل کریں اور وہ اپنی قوم کو ڈرائیں جب وہ ان کی طرف پلٹ کر آئیں تاکہ وہ (گناہوں اور نافرمانی کی زندگی سے) بچیں۔‘‘
پیغمبر اسلام ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
انما شفاء العی السوال.
(ابوداؤد)
مرضِ جہل کا علاج سوال ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو دعا دیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اللهم فقھہ فی الدین وعلمہ التاویل.
اے اللہ! انھیں دین کی فقاہت اور تفسیر و تاویل کا علم عطا فرما۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بارگاہ رسول ﷺ کی نوکری اور کثرتِ اکتساب کی وجہ سے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان اپنی دینی بصیرت اور تفقہ کے باب میں امتیازی شان کے مالک تھے۔ یہاں تک کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا:
لا تسئلونی مادام ھذا الحبر فیکم.
(مشکوٰۃ بروایت بخاری)
جب تک یہ عالم و فقیہ تمھارے درمیان موجود ہیں، اس وقت تک مجھ سے نہ پوچھو۔
استخراجِ مسائلِ شریعہ کا کام اب بھی جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا کہ یہ شریعت جاوداں اور پیہم رواں دواں ہے اور ہر عہد و عصر کے مسائل و قضایا کو حل کرنے کی اس کے اندر بھرپور صلاحیت موجود ہے
کتاب و سنت اصل مصادرِ شریعت ہیں اور انہیں کی روشنی میں قیاسِ مجتہد کو بھی علما و فقہائے اسلام نے مصادرِ شریعت میں شمار کیا ہے جس کی تائید مندرجہ ذیل حدیث نبوی سے ہوتی ہے:
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو حاکم یمن بناکر رسول اللہ ﷺ نے بوقتِ روانگی سوال فرمایا کہ تمھارے پاس کوئی معاملہ فیصلہ کے لیے لایا جائے گا تو کیسے فیصلہ کرو گے؟ حضرت معاذ نے عرض کیا کہ کتاب اللہ سے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر اس میں نہ پاؤ تب کیا کرو گے؟ عرض کیا کہ سنتِ رسول سے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر اس میں بھی نہ پاسکو تب کس طرح فیصلہ کرو گے؟ اس وقت حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
اجتھد برائی ولا آلو۔ قال فضرب رسول اللہ ﷺ علی صدرہ وقال الحمدللہ الذی وفق رسول رسول اللہ لما یرضی بہ.
(ابواب الاحکام للجامع الترمذی)
اس وقت میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے معاذ بن جبل کے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے ارشاد فرمایا: اللہ کا حمد و شکر ہے جس نے رسول اللہ کے قاصد کو اس کی توفیق دی جس سے اس کے رسول (ﷺ) راضی ہیں۔
رسول اکرم ﷺ کی حیاتِ ظاہری کے بعد لا تجتمع امتی علی الضلالۃ اور دیگر ارشادات کی روشنی میں عہدِ تابعین و تبع تابعین ہی میں علما و فقہائے اسلام نے اجماعِ امتِ مسلمہ کو بھی مصادر شریعت میں شامل کرلیا۔ اس طرح کتاب اللہ،سنت رسول،قیاس شرعی اور اجماعِ امت، چار مصادر شریعت (ادلۂ اربعہ) قرار پائے اور سوادِ اعظم نے فقہا و مجتہدینِ امت کے علم و فضل، ان کی دینی و ایمانی فہم و فراست، ان کی دیدہ وری و نکتہ رسی، ان کے ورع و تقویٰ، ان کے حزم و احتیاط اور ان کی خدا ترسی و مآل اندیشی پر اعتماد کرتے ہوئے ان کے وضع کردہ اصول و ضوابط و کلیات و جزئیات کو جملہ احکام و مسائلِ غیر منصوصہ میں حرزِ جاں بنایا اور درجہ بہ درجہ و عہد بہ عہد انہیں قبول کرتے اور ان کے مطابق عمل کرتے چلے آرہے ہیں کہ یہی ہدایتِ صراط مستقیم و اتباعِ سبیل مومنین اور ادوارِ مابعد کی اصطلاحی تقلیدِ ائمہ مجتہدین ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مراتب و مدارجِ علم و فہم متفاوت تھے اس لیے اعلم و افقہ صحابۂ کبار سے دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسائلِ شرعیہ میں رجوع کیا کرتے تھے اور ان کے بیان کردہ احکام و مسائل کے مطابق عمل کیا کرتے تھے۔
مختلف علوم و فنون کی طرح رفتہ رفتہ فقہ اسلامی کے بھی اصول و قواعد مرتب ہوتے گئے اور تفصیلی دلائل کے ساتھ احکام شریعہ فرعیہ کے جاننے کو علمِ فقہ کہا جانے لگا اور یہ اصطلاحی تعریف کی گئی کہ:
العلم بالقواعد الکلیۃ التی یتوصل بھا الی استنباط الاحکام الشرعیۃ العملیۃ من ادلتھا التفصیلیۃ.
کتاب و سنت کی روشنی میں مقاصدِ شریعت یعنی حفظِ دین و نفس و نسل و عقل و مال، ان فقہا و مجتہدین کا مطمع نظر ہے اور ان کی ساری کدو کاوش اسی محور کے گرد ہمیشہ گردش کرتی رہی ہے۔ مجتہدین کے سبھی طبقات؛ مجتہدین فی الشریعہ،مجتہدین فی المذہب،مجتہدین فی المسائل،اصحابِ تخریج،اصحابِ ترجیح اور اصحابِ تمییز نے انہیں مقاصدِ شریعت کی تکمیل کی راہ میں اپنی دینی و علمی و فکری و اجتہادی توانائیاں صرف کیں اور اپنی عمر عزیز کو اسی تفقہ و اجتہاد کے لیے واقف کردیا۔ تمام مجتہدین حقیقی طور پر مجتہدین فی الشریعہ کے مقلدِ فقہی قرار پاتے ہیں اور انھیں کی طرف ان سب مجتہدین اور دیگر مقلدین کا انتساب ہوتا ہے۔
استخراجِ مسائلِ شریعہ کا کام اب بھی جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا کہ یہ شریعت جاوداں اور پیہم رواں دواں ہے اور ہر عہد و عصر کے مسائل و قضایا کو حل کرنے کی اس کے اندر بھرپور صلاحیت موجود ہے مگر المیہ یہ ہے کہ آج آخری درجۂ اجتہاد کے حاملین یعنی اصحابِ تمییز کا ملنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ باب اجتہاد بند نہیں ہوا ہے مگر اس کا اہل بھی تو کوئی ہو؟ تعبیر کی غلطی سے اچھے خاصے حضرات کہتے نظر آتے ہیں کہ اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہوا ہے تو موجودہ علما کو بھی اجتہاد کرنا چاہیے۔ اس سے ان کا مقصد اس کے سوا عموماً کچھ نہیں ہوتا کہ نئے حالات و مسائل کا شریعت کی روشنی میں کوئی حل ڈھونڈنا چاہیے۔ ان کی یہ خواہش صد فی صد درست ہے مگر انہیں چاہیے کہ لفظِ اجتہاد کی بجائے لفظِ استخراج کا استعمال کریں تاکہ ان کا لفظ ان کی بات اور ان کا مافی الضمیر صحیح طور پر اور صحیح تناظر میں واضح ہوسکے۔
مذکورہ طبقات میں سے کسی طبقہ میں بلکہ آخری طبقہ (اصحاب تمییز) میں بھی کسی موجودہ عالم و مفتی و فقیہ کے شامل نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ طبقہ مقلدین میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اور ان کے لیے تقلیدِ فقہی ہر حال میں واجب ہے۔ کیونکہ یہ حقیقت روشن ہے کہ جو شخص مجتہد نہیں وہ مقلد ہے اور تقلید ہی میں اس کے لیے عافیت اور راہِ نجات ہے۔
جو شخص علمِ طب سے واقف نہیں وہ طبیب نہیں اور جو علم سے نابلد ہے وہ عالم نہیں۔ یہ بات ایک عام آدمی بھی اچھی طرح سمجھتا ہے۔سمندر کے اندر موتیوں کی کمی نہیں ہوتی ہے مگر انہیں سمندر کی تہہ سے باہر وہی شخص نکال سکتا ہے جو ماہر غوطہ خور ہو۔ ورنہ جسے غوطہ خوری نہ آتی ہو، وہ موتیوں کی طلب میں سمندر کے اندر چھلانگ لگاکر اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا۔
تقلید فقہی کا تعلق صرف ابوابِ فقہ سے ہے اور احکام و مسائل غیر منصوصہ میں ہی اس کا وجود و وجوب ہے۔ باقی علوم و فنون اسلامیہ و عربیہ اور عصری علوم و فنون میں ہر عالم و محقق کو اپنی استعداد و لیاقت و صواب دید کے مطابق جو کچھ کرنا چاہیے اور جس شعبہ علم و فن میں آگے بڑھنا چاہیے، اس کے لیے کوئی روک ٹوک نہیں۔ وہ ڈاکٹری، انجینئرنگ، سائنس وغیرہ میں اعلیٰ سے اعلیٰ تحقیق و ریسرچ کرے اور اونچے سے اونچے درجہ پر فائز ہو تو یہ اس کی بڑی کامیابی اور قابلِ رشک ترقی ہے جس پر علما و فقہائے اسلام کی جانب سے کوئی قدغن اور کوئی پابندی نہیں۔ بس صرف اتنی شرط ہے کہ حدودِ شریعت سے اس کے قدم آگے نہ بڑھنے پائیں۔
مذہبی پہچان کے حامل غیر مقلدین طبقہ کے علاوہ جدید تعلیم یافتہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو علمِ دین سے نابلد ہونے کے سبب تقلیدِ فقہی کو غیر ضروری اور باطل قرار دیتا ہے۔ اس حوالے سے ان کے دلائل سنجیدہ کم اور مضحکہ خیز زیادہ ہوتے ہیں۔ ان کی پہچان ائمہ پر تنقید اور انتشارِ امت کے سواء کچھ نہیں ہے
لغوی طور پر اپنی گردن میں قلادہ ڈالنے کو تقلید کہا جاتا ہے جب کہ اصطلاحی طور پر تقلید فقہی کی تعریف یہ ہےکہ احکام و مسائل شریعہ غیر منصوصہ میں کسی امام مجتہد کی تحقیق کو بلا دلیل و حجت مان لینے کا نام تقلید ہے۔ چنانچہ علمائے مقتدمین نے صراحت و ضاحت کے ساتھ اپنی مستند کتب و رسائل میں یہی بات تحریر فرمائی ہے۔
ظاہر ہے کہ جو عالم مجتہد نہیں ہوگا وہ مقلد ہی ہوگا اور اسے تقلید فقہی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ جس طرح مختلف علوم و فنون کے ماہرین اپنے علم و فن کے تعلق سے جو تحقیق بیان کریں، وہ ان کی علمی و فنی تحقیق کا نتیجہ ہوتا ہے جسے دنیا کے کروڑوں انسان بلاچون و چرا تسلیم کرتے ہیں اور کوئی جاہل و عامی شخص اگر کج بحثی پر آمادہ ہوتا ہے تو اسے ہر عاقل انسان ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اسی طرح صدیوں پیشتر کے جلیل القدر علما و فقہائے اسلام بھی تقلیدِ فقہی کے قائل اور اس پر عامل تھے، جن کی عظمت و فضیلتِ دینی و علمی پر شرق و غرب کے مسلمان متفق ہیں۔ عالم اسلام کے بڑے بڑے علما و فقہا وفضلا کا اگر آج جائزہ لیا جائے تو ان میں ایسے افراد و اشخاص صحیح معنوں میں نادر الوجود ہیں جنھیں کلیات و جزئیات فقہ پر عبور ہو اور بڑے بڑے دارالافتاء کے نامور مفتیانِ کرام بھی معروف دلائلِ تفصیلیہ کے بعد اجرائے فتویٰ کرنے والےا صحاب فتویٰ نہیں ہیں بلکہ ان کی حیثیت ناقلینِ فتاویٰ سے زیادہ نہیں ہے۔
ائمہ مجتہدین فی الشریعہ یعنی امام ابو حنیفہ و امام شافعی و امام مالک و امام احمد بن حنبل رحمھم اللہ کے مرتبہ و مدون فقہی اصول و ضوابط اور ان کی تاصیل و تفریع کو اسلامی بلاد و امصار میں شروع ہی سے اتنا شرف قبول حاصل ہوا کہ سوادِ اعظم نے انھیں میں سے کسی ایک کی تقلیدِ فقہی پر اتفاق کرلیا اور تقریباً ایک ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ گزرا کہ اسی پر اس کا اجماع بھی ہوگیا۔ مارآہ المسلمون حسنا فھو عنداللہ حسن (اثر ابن مسعود) کا یہ ایک بہترین نمونہ اور جلوۂ حق نما ہے جس کے اندر سواد اعظم کا اصل چہرہ صاف عیاں اور ہر طرح نمایاں ہے۔
چودھویں صدی ہجری کے ایک عظیم و جلیل فقیہ و مفتی مگر مقلدِ حنفیت کی زبانی فقہ اسلامی کی حقیقت سن کر اور اسے سمجھ کر قارئین کرام بھی اسی حقیقت کے اعتراف پر مجبور ہوں گے کہ اجتہاد تو بڑی چیز ہے آج کل تفقہ بھی ایک جنس نایاب سے کم نہیں ہے۔ فقاہت کیا چیز ہے اور تفقہ فی الدین کب حاصل ہوتا ہے؟ اس کے بارے میں فقیہ اسلام امام احمد رضا بریلوی رقمطراز ہیں:
’’فقہ یہ نہیں کہ کسی جزئیہ کے متعلق کتاب سے عبارت نکال کر اس کا لفظی ترجمہ سمجھ لیا جائے۔ یوں تو ہر اعرابی ہر بدوی فقیہ ہوتا کہ ان کی مادری زبان عربی ہے بلکہ فقہ بعد ملاحظہ اصولِ مقررہ، و ضوابطِ محررہ، وجوہِ تکلم، وطرقِ تفاہم، و تنفیحِ مناط، و لحاظ انضباط، و مواضع یسر و احتیاط، و تجنب تفریط و افراط، وفرق روایات ظاہرہ و نادرہ، وتمییز درایات غامضہ و ظاہرہ، و منطوق و مفہوم صریح و محتمل، وقول بعض و جمہور و مرسل و معلل، و وزن الفاظ مفتین، وسبر مراتب ناقلین، وعرف عام و خاص، و عادات بلاد و اشخاص، وحال زمان و مکان، واحوالِ رعایا و سلطان، وحفظ مصالح دین، ودفع مفاسد مفسدین، وعلم وجوہ تجریح، واسباب ترجیح، ومناہج توفیق، و مدارک تطبیق ، و مسالک تخصیص، ومناسک تقیید، ومشارع قیود، وشوارع مقصود، وجمع کلام، ونقد مرام، وقہم مراد کا نام ہے۔
یہ تطلع تام، واطلاع عام، ونظر دقیق، وفکر عمیق، وطول خدمت علم، وممارست فن، تیقظ وافی، وذہن صافی، معتاد تحقیق، موید بتوفیق کا کام ہے۔حقیقتاً وہ ایک نور ہے جو رب عزوجل بمحض کرم اپنے بندہ کے قلب میں القا فرماتا ہے:
وَمَا یُلَقّٰھَآ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَـقّٰھَآ اِلَّا ذُوْحَظٍّ عَظِیْمٍ.
(فصلت،41: 35)
ابانۃ المتواری
(1331) مطبوعہ بریلی)
آج جو لوگ فقہائے اسلام سے بے نیاز ہوکر اجتہاد کے دعویدار ہیں، ان کا جائزہ لیجئے تو مذکورہ مراتب و مدارج تو کجا، صحیح عربی دانی کے حامل بھی نہ ملیں گے۔ چند مشکل آیات و احادیث اور اشعارِ عرب پیش کرکے دیکھئے، صحیح ترجمہ و تفہیم سے بھی قاصر نظر آئیں گے۔
فقہا و مجتہدینِ اسلام کے احکام اجتہاد یہ اور مسائلِ مستنبطہ میں اگر اختلافِ زمان و مکان اور ضرورت و حاجت وغیرہ کی بنیاد پر تغیر و تبدل کیا جائے تو ایسا کرنا روا ہے مگر اس کے لیے مشق و ممارست اور درک مہارت رکھنے والے فقہائے اسلام ہی ماذون و مجاز ہیں اور یہ کام نہ ہرکس و ناکس کا ہے اور نہ عام علما و مفتیان کرام کا ہے۔
جو حضرات تقلید فقہی کو غیر ضروری بلکہ باطل قرار دیتے ہیں، اُن میں سے ایک طبقہ تو مذہبی پہچان رکھتا ہے مگر دوسرا طبقہ جدید تعلیم یافتہ مگر علمِ دین سے نابلد افراد کا ہے۔ یہ لوگ اپنی تجدد پسندی اور روشن خیالی کے زعم میں ایسی باتیں کرجاتے ہیں جو سنجیدہ کم اور مضحکہ خیز زیادہ ہوتی ہیں اور علم و بصیرت و فقہ و افتا سے ان کی دوری و ناآشنائی ان کے ایک ایک جملہ سے عیاں ہوتی رہتی ہے۔ اس طرح کے افراد ائمہ مجتہدین پر طعن و تشنیع اور سوادِ اعظم کی تنقید و مذمت کرکے اختلاف و انتشارِ امت و ملت میں اضافہ کا سبب بننے کے سوا کچھ اور نہیں بن سکے ہیں۔
اجتہاد تو بڑی چیز ہے آج کل تفقہ بھی ایک جنس نایاب سے کم نہیں ہے۔فقہ یہ نہیں کہ کسی جزئیہ کے متعلق کتاب سے عبارت نکال کر اس کا لفظی ترجمہ سمجھ لیا جائے۔ بلکہ یہ حقیقتاً ایک نور ہے جو اللہ تعالیٰ محض اپنے خاص کرم سے اپنے بندہ کے قلب میں القاء فرماتا ہے
عام مسلمانوں کو ہر مسئلہ شرعیہ میں کسی عالمِ دین کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے اور یہی حال عام علمائے کرام کا بھی ہے کہ انھیں جزئیات فقہ پر مشتمل ان کتب کے مطالعہ پر اکتفا کرنا پڑتا ہے جو مقلد علما و فقہا ہی نے تحریر فرمائی ہیں۔ معدودے چند حضرات جو براہِ راست اور ہمہ وقت فقہ و افتا سے وابستہ رہتے ہیں۔ ان کا جائزہ لینے پر آخری طبقہ مجتہدین یعنی اصحابِ تمییز میں انھیں شمار کیا جانا بھی اتنا مشکل اور دِقت طلب امر ہے کہ جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ ایسی صورت میں سوادِ اعظم اور ان کے موجودہ علما و فقہائے صغار و کبار، اگر تقلیدِ فقہی کو اپنے حق میں لازم و واجب سمجھتے ہیں تو یہ ان کی عین سعادت و سلامت روی ہے اور اسی میں امتِ مسلمہ کے لیے خیرو برکت و امن و عافیت و صلاح و فلاح بھی ہے۔ اس لیے سوادِ اعظم کو اسی جادۂ اعتدال و صراط مستقیم پر ہمیشہ گامزن رہنا چاہیے۔ جیسا کہ ارشاد نبوی ﷺ ہے:
اتبعوا السواد الاعظم فانہ من شذ شذ فی النار.
(ابن ماجہ)
سوادِ اعظم کی پیروی کرو کیونکہ جو اس سے الگ ہوا وہ جہنم میں گیا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم اھل سنت وجماعت کو اپنے رسول اکرم ﷺ و خلفائے راشدین و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت کی اطاعت و اتباع اور ائمہ مجتہدین کے نقوشِ قدم پر چلتے رہنے کی ہمیشہ توفیق عطافرمائے۔ آمین