زندگی کو بامقصد کیسے بنایا جائے؟
بے مقصد زندگی کسی کے بھی کام نہیں آتی، نہ گزارنے والے کے اور نہ ہی معاشرے کے کسی کام آتی ہے۔ زندگی کو بامقصد و بامراد بنانے کے لیے سب سے پہلے اس امر کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس کے بارے میں اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ.
(الفاتحة، 1: 5)
’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔‘‘
فرمایا اے بندے تو اپنی ہر نماز کا آغاز و افتتاح اس مقصدِ حیات کے عنوان سے کر کہ ’’مولا ہمیں سیدھی راہ دکھا۔‘‘ اب یہاں بندہ اپنے مولا سے صرف صراطِ مستقیم پر چلنے کی ہدایت نہیں مانگتا بلکہ ’’اھدنا‘‘ کہہ کر اجتماعیت کی شکل میں اللہ کے حضور استدعا کرتا ہے کہ مولا صرف میری ہی نہیں بلکہ تمام امتِ مسلمہ کو صراطِ مستقیم کی طرف گامزن فرما۔
یہ امر ذہن میں رہے کہ مقصدیتِ حیات تب نصیب ہوتی ہے جب بندے کو سیدھی راہ پر چلنے کی طلب اور خواہش بھی ہو اور وہ اس خواہش پر اپنا ارادہ (Intention) بھی واضح کرے۔ جب بندہ اپنے مولا سے سیدھی راہ پر چلنے کی دعا مانگتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کو منزلِ مقصود کا ادراک ہے۔ یعنی جب ہمیں خبر ہوگی، فہم ہوگ، فکری واضحیت (Conceptual clarity) ہوگی، مقصد سے آگہی ہوگی اور پتہ ہوگا کہ جانا کہاں ہے، تب ارادہ پختہ ہوگا۔ جب انسان کو واضح ہو کہ میں نے کس سمت جانا ہے۔۔۔ کہاں سفر کرنا ہے۔۔۔ میری منزل اور میرا مقصد کیا ہے۔۔۔ میں سفر کیوں کررہا ہوں اور کہاں پہنچنا چاہتا ہوں۔۔۔؟ تو تب اراۃ الطریق یعنی ’’راستہ دکھانے‘‘ کا مرحلہ آئے گا۔
مقصد کے ادراک اور فہم کے بعد بندہ جب اپنے مولا سے اخلاص کے ساتھ دعا کرتا ہے، خود کو عاجزی کے ساتھ پیش کرتا ہے، گڑگڑاتا ہے اور اس سے مانگتا ہے کہ اے اللہ! مجھے رشد و ہدایت عطا فرما تو پھر اللہ رب العزت کرم فرماتا ہے اور اسے ہدایت کی دولت سے نوازتا ہے۔
اللہ رب العزت سیدھی راہ ڈائریکٹ نہیں دکھاتا بلکہ سیدھی راہ کے لیے انعام یافتہ لوگوں کی صحبت میں بھیج دیتا ہے۔ یعنی وہ فرماتا ہے کہ میرے انعام یافتہ مقربین، اولیاء و صالحین کی صحبت و سنگت تمہیں سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرے گی اور تمہیں اس قابل بنائے گی کہ تمہیں مقصدِ حیات نصیب ہوجائے گا۔ بعد ازاں جب بندہ ان اولیاء و صالحین کی صحبت اختیار کرتا ہے تو پھر صراط الذین انعمت علیہم کے مصداق ان اولیاء و صالحین کی پیروی اختیار کرتا ہے، ان سے جڑتا اور وابستہ ہوتا ہے۔ ان کے علم، تقویٰ، عمل، صحبت اور سنگت سے فیض یاب ہوتا ہے اور ان کے ساتھ خود کو وقف کرتا ہے تو صراطِ مستقیم پر گامزن ہوجاتا ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ انعام یافتہ لوگ کون ہیں؟ تو قرآن مجید نے انعام یافتہ لوگوں سے متعلق فرمادیا کہ
وَمَنْ یُّطِعِ اللهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَ ج وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا.
(النساء، 4: 69)
’’اور جو کوئی اللہ اور رسول (ﷺ) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں۔‘‘
انعام یافتہ لوگوں میں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین شامل ہیں۔ لہذا ان چار طبقات کے ساتھ بیٹھا کرو۔یہی تمہاری زندگیوں کو بامقصد بنانے میں تمہاری مدد کریں گے۔
پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کی پہچان کیا ہے؟ تو حضور نبی اکرم ﷺ نے ان کی پہچان کرادی ، فرمایا:
اَلَّذِیْنَ اِذَا رُؤُوْا ذُکِرَ اللہُ.
(سنن کبریٰ للنسائی، رقم: 11171)
اولیاء اللہ وہ لوگ ہیں جنھیں دیکھنے سے اللہ یاد آجائے۔
یعنی انعام یافتہ وہ لوگ ہیں کہ جن کی سنگت، صحبت، قربت اور معیت میں وقت گزارا جائے تو اللہ یاد آجائے۔ یعنی جن کے ساتھ گزرا ہوا وقت ہمارے دل میں ہر آن اللہ رب العزت اور حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت اور آپ ﷺ کی تعلیمات کا نور روشن رکھے۔
ہماری زندگی کیسے گزرنی چاہیے؟ انعام یافتہ لوگ ہی ہمیں اس بارے بتاتے ہیں۔۔۔ ہمارے معاملات کیسے ہوں؟ یہی طبقہ ہمیں سکھاتا ہے۔۔۔ ہماری تعلیم کیسی ہونی چاہیے؟ یہ ہمیں گائیڈ کرتے ہیں۔۔۔ ہماری دنیا کیسی ہونی چاہیے؟ یہ ہمیں سمجھاتے ہیں۔۔۔ ہماری آخرت کیسی ہونی چاہیے؟ یہ ہمیں اس کے لیے رشد و ہدایت عطا کرتے ہیں۔۔۔ ہم نے اللہ کی رضا جوئی کیسے حاصل کرنی ہے؟ یہی ہمیں بتاتے ہیں۔۔۔ اللہ کی ناراضگی سے کیسے بچا جائے؟ یہی لوگ ہمیں بتاتے ہیں۔۔۔ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے راستوں پر گامزن کیسے ہوا جائے؟ یہی لوگ ہمیں سکھاتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اگر ہم اس ٹریک پر آجائیں تو یہ ٹریک ہمیں بے راہ روی سے بچاتا ہے، ہمیں دائیں بائیں نہیں ہونے دیتا بلکہ یکسوئی کے ساتھ منزل اور مقصد کی طرف گامزن رکھتا ہے۔
اگر انسان کی سمت ٹھیک ہو اور منزل واضح ہو تو وہ اس زندگی میں راکٹ کی رفتار سے سفر کرتا ہے اور اگر کسی کی منزل واضح نہ ہو اور کوئی صحبت نہ ملی ہوئی ہو تو اس سے زیادہ بد نصیب کوئی شخص نہیں۔ پھر اس کا سفر ایسے ہوتا ہے جیسے کولہو کا بیل ہے کہ وہ سفر طے کر بھی رہا ہوتا ہے مگر اپنی جگہ پر ہی ایک دائرہ میں موجود رہتا ہے۔ لہذا بے راہ روی سے بچنے کا جو واحد راستہ ہے وہ ڈائریکشن اور سمت کا نصیب ہونا ہے اور ڈائریکشن اللہ کے ولی اور انعام یافتہ لوگوں کی صحبت سے نصیب ہوتی ہے۔
سیکڑوں مسائل کا فوری حل
امام یونس صوفی بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام شافعی سے بڑھ کر اپنے وقت کا عاقل، ذہین اور فطین کوئی شخص نہیں دیکھا۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایک روز ہم دونوں کے درمیان کسی موضوع پر بحث ہوئی اور اختلافِ رائے ہوگی، اس کے بعد ہم جدا ہوگئے۔ ایک عرصے کے بعد امام شافعی مجھے ملے اور میرا ہاتھ تھام لیا اور کہنے لگے:
یا ابا موسیٰ! اختلاف اپنی جگہ، دلیل تمہیں پسند نہیں آئی یا مجھے پسند نہیں آئی، بہر حال اختلاف ہوگیا۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم بھائی بھائی ہوکر رہیں اور اختلاف اپنی جگہ رہے۔
یہ وہ رویہ، وسعتِ قلبی اور حسنِ اختلاف تھا جس کی وجہ سے سلف صالحین اس علم و ادب کے دروازے تاقیامت امت کے لیے کھول گئے۔ یہی وجہ ہے کہ علمی مباحث میں کہیں فروع پر استدلال کی بنیاد پر اختلاف ہے اور کہیں استنباط کی بنیاد پر اختلاف ہے، کہیں تشریحات اور توضیحات پر اختلاف ہے۔ اہلِ علم وہ تھے جو اختلاف کو امت کے لیے رحمت سمجھا کرتے تھے اور اسے اتحاد سمجھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کا علم آج تک ختم نہیں ہوسکا بلکہ سمندر کی طرح رواں دواں ہے اور ہر عام و خاص فیض یاب ہورہا ہے۔
جیسی نیت ویسا معاملہ
ادب العلم اور ادب النفس کیا ہے؟ جیسے حصولِ علم کے آداب ہیں ویسے اپنے نفس اور اپنی ذات کے بھی آداب ہیں۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیںکہ میری ہمیشہ سے یہ خواہش رہی کہ علم مجھ سے آگے منتقل ہو اور فروغ پائے مگر کوئی ایک شخص بھی اس علم کو میری ذات سے منسوب نہ کرے۔
جب عالم اس مقام پر فائز ہوجائے تو وہ عالم نہیں رہتا بلکہ عارف ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؓ فرماتے ہیں کہ:
کن مع اللہ بلاخلق، وکن مع الخلق بلا نفس.
اے بندے جب اللہ سے اپنا رابطہ قائم کرو تو ایسے ہوجائو جیسے درمیان میں خلق ہے ہی نہیں۔ اسی طرح جب اللہ کی مخلوق سے رابطہ قائم کرو تو ایسے ہوجائو جیسے درمیان میں نفس ہے ہی نہیں۔
ایک اور بزرگ فرماتے ہیں کہ:
میں جب بھی کسی مجلس میں تواضع اور انکساری کی نیت سے بیٹھا تو اٹھتے وقت پوری مجلس پر فائق ہوچکا تھا اور جب بھی کسی مجلس میں فوقیت کی نیت سے بیٹھا تو اٹھنے سے پہلے میں رسوا ہوچکا تھا۔
امام اعظم ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں:
جو شخص وقت سے پہلے منصب کی تلاش میں لگ جاتا ہے وہ ساری زندگی ذلیل و خوار ہوتا رہتا ہے۔
یعنی جو بندہ ایسا پھل کھانے کی خواہش کرے جو ابھی پکا نہ ہو تو وہ ہمیشہ بیمار ہی رہتا ہے۔ جو جس منصب کے اہل نہ ہو اور وہ منصب مانگ لے تو منصب ملنے کے باوجود وہ ہمیشہ رسوا ہی رہتا ہے۔
قبر کی تنہائی کو رونق میں کون بدلے گا؟
ایک مرتبہ حضرت شقیق بلخی نے حضرت حاتم الاصم سے پوچھا کہ اے حاتم! آپ نے تیس سال میری صحبت میں گزار دیئے، ان تیس سالوں میں آپ نے کیا سیکھا؟ آپ فرماتے ہیں کہ:
میں نے آپ کی صحبت میں یہ مشاہدہ کیا کہ اللہ کی مخلوق میں دو ہی رشتے ہیں یا تو مجھے کوئی محب نظر آیا ہے یا کوئی محبوب نظر آیا ہے۔ میں نے غور کیا تو ایک تلخ حقیقت دیکھی کہ محب تو ساری زندگی محبوب سے محبت کرتا رہا مگر جب وہ محب بیمار ہوا تو کچھ محبوب ایسے تھے جو اپنے محب کی عیادت کرنے کے لیے صرف اس کے بستر مرگ تک گئے اور واپس آگئے۔ کچھ محبوب ایسے تھے کہ جب محب اللہ کو پیارا ہوگیا تو اس کے جنازے کو قبر تک لے گئے اور اس کی قبر کے کنارے سے ہوکر آگئے۔ کچھ محبوب ایسے تھے جو اپنے محب کو دفن کرکے آگئے۔
وہ فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ ہر محبوب ایسا تھا یا تو وہ اس کی بیمار پرسی تک گیا یا اس کو قبر تک دفنانے کے لیے گیا مگر ہر محبوب اپنے محب کو قبر میں تنہا چھوڑ کر آگیا۔ اب وہ محب جو ساری زندگی اپنے محبوب کا دامن پکڑ کر رکھتا تھ، اس کے نخرے برداشت کرتا تھ، اس کے لیے ترلے اور منتیں کرتا تھ، اس کے لیے خرچ کرتا تھا لیکن جب موت کا وقت آیا تو وہ محبوب؛ محب کو تنہا اندھیری کوٹھڑی میں چھوڑ کر آگیا۔ وہ نہ تو اس کا آسرا بن، نہ اس کی وحشت میں اس کا سہارا بن، نہ اس کی فرقت میں اس کی قربت بن، نہ اس کی تنہائی کو ختم کرنے کے قابل بنا۔
میرے شیخ! میں نے اس معاملے میں بڑا غور کیا کہ یہ ماجرا کیا ہے؟ پھر میں سمجھ گیا اور خود اپنے آپ سے کہا کہ بھئی اچھا محبوب تو وہ ہے جو محب کی قبرمیں داخل بھی ہوجائے اور جب محب کو محبوب کی ضرورت پڑے تو وہ اس کے ساتھ ہو۔ وہ تنہا ہو تو اس کی تنہائی کو دور کرے۔۔۔ وحشت میں ہو تو اس کی پریشانی دور کرے۔۔۔ جب پریشانی میں ہو تو اس کا سہارا بنے۔۔۔ جب پھنس رہا ہو تو وہ اسے بچا رہا ہو۔۔۔ جب سوال و جواب کا موقع آئے تو مدد کر رہا ہو۔۔۔ جب فرشتوں کی گرفت میں ہو تو نکال بھی رہا ہو اور ان سے چھڑا بھی رہا ہو۔ فرماتے ہیں کہ اصل محبوب وہ ہوتا ہے جو قبر میں بھی بندے کے کام آئے۔
فرماتے ہیں کہ اے میرے شیخ! میں نے اپنا زاویۂ نگاہ بدل لیا اور اس دن کے بعد اپنا محبوب ہی بدل لیا۔ انھوں نے پوچھا: پھر کس کو محبوب بنایا؟ فرمایا:
اے شیخ! میں نے اس کے بعد نیکی اور تقویٰ کو اپنا محبوب بنالیا۔۔۔ میں نے طہارت، زہد و ورع، عبادت و ریاضت، اللہ کے ذکر، قیام اللیل، تلاوت قرآن، تذکرہ قرآن اور تذکرہ حدیث کو محبوب بنالیا۔۔۔ عبادت و طہارت کو اپنا جینا مرنا بنالیا اور سمجھ گیا کہ یہ وہ آسرا ہے، یہ وہ محبوب ہے کہ اگر میں تنہا بھی ہوں گا تو یہ میرے لیے اجالا ہوگا۔۔۔ میں اکیلا ہوں گا تو یہ میرا چراغ ہوگا۔۔۔ میں پھنس بھی جائوں تو مجھے بچالے گا۔۔۔ میں گرفت میں آجائوں تو مجھے چھڑالے گا۔ اس کے بعد سے میں نے دنیا کے محبوب چھوڑ دیئے اور اللہ کی تعلیمات اور اللہ والوں کو اپنا محبوب بنالیا۔
تمام جھگڑوں کا واحد علاج
آج قوم کے اندر اس مزاج کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو مزاجِ مصطفوی ﷺ ہے۔۔۔ آج قوم کے اندر اس اخلاق کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو اخلاقِ مصطفوی ﷺ ہے۔۔۔ آج قوم میں ان رویوں کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو سنت و اسوہ مصطفی ﷺ سے مزیّن ہوں۔ آج تفرقے اور انتشار و فساد کا شکار لوگوں کو ’’تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا وبینکم‘‘ کے مصداق مشترک عقائد کی طرف لانے کی ضرورت ہے۔
آج اختلافِ رائے کی حقیقت کو سمجھنے اور اختلافِ رائے کو برداشت کرنے کے کلچر کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیں! اگر اختلاف رائے نہ ہوتا تو یہ مذاہب کبھی جنم نہ لیتے، پھر امام اعظم، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام جعفر الصادق، امام ابو یوسف اور امام محمد بھی نہ ہوتے۔ یہ اختلاف رائے کی برکت ہے کہ اللہ رب العزت نے اس دین میں وسعت عطا کی۔ فروعات میں اختلاف کا نہ ہونا معیوب نہیں، ہاں مگر اصل اور بنیاد میں کوئی اختلاف نہ کرے۔
ایک روز امام الشافعیؒ سلام کرنے اور فاتحہ پڑھنے کے لیے امام اعظمؒ کے مزار پر تشریف لے گئے۔ فجر کی نماز کا وقت آگیا تو آپ نے متصل مسجد میں نماز ادا کی۔ آپ کے شاگرد نے دیکھا کہ آج امام شافعی نے قنوتِ نازلہ جو اُن کے نزدیک سنت موکدہ ہے، اسے ترک کردیا ہے۔ جب نماز پڑھ لی تو شاگرد آکر پوچھنے لگا کہ حضرت یہ کیا ہوا؟ آج یہاں آپ نے سنت موکدہ ہی چھوڑ دی۔ فرمایا: تم کیا سمجھتے ہو کہ میں جن کی بارگاہ میں سلام کرنے آیا ہوں، ان کی مخالفت کرتا پھروں، میری فقہ اپنی جگہ مگر امام اعظم کا ادب اپنی جگہ۔
اسی طرح امام احمد بن حنبل کا فتویٰ تھا کہ اگر حجامہ کے ذریعے خون نکالا جائے یا قے آجائے تو اس کے بعد وضو کرنا لازم ہوجاتا ہے۔ کسی نے فتویٰ پوچھا: کیا آپ کسی ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھیں گے جو حجامہ کے بعد وضو کرنا لازم نہیں سمجھتا۔ آپ فرماتے ہیں کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ میں امام مالک کے پیچھے نماز نہ پڑھوں۔ فرمایا: فقہ اپنی جگہ، مذہب اپنی جگہ، اختلافِ رائے اپنی جگہ مگر امام دارالہجرۃ کا مقام اور ادب اپنی جگہ ہے۔
سمارٹ فون کا سمارٹ مین کیسے بنا جائے؟
آقا علیہ السلام نے فرمایا: عقلمند وہ شخص ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد کے لیے عمل کرے۔ وہ یہ نہ بھولے کہ دنیا فانی ہے اور ختم ہونے والی ہے۔پھر فرمایا: ناتواں اور کمزور وہ شخص ہے جو خواہشِ نفس کی پیروی کرتا رہے اور بعد میں کہے: ’’اللہ مجھے بچائے اور اللہ مجھے معاف کرے۔‘‘
سیدنا عمر ابن الخطابg فرماتے ہیں: اپنا محاسبہ کرو، اس سے قبل کہ تمہار امحاسبہ کیا جائے۔
آج کے سوشل میڈیا کا عقلمند وہی ہے جو اپنا محاسبہ کرے۔ پہلے اپنے الفاظ کو تولا کرو، اپنے ارادوں کو تولا کرو، اپنی پوسٹ کو تولا کرو، قبل اس کے کہ تمہیں تولا جائے۔ یہ ذہن نشین کرلیں کہ آج سوشل میڈیا ایک بہت بڑا میدان ہے اس کا فائدہ بھی ہے اور دوسری طرف یہ دجالی فتنہ بھی ہے۔ اگر سوشل میڈیا کو صحیح طریقے سے استعمال کیا گیا تو رحمت ہے اور غلط طریقے سے استعمال کریں تو زحمت بھی ہے، فساد بھی ہے اور اس میں گرفت بھی ہے۔
سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے یہ امر انتہائی ضروری ہے کہ جو بات ہماری زبان پر ہے اس پر کنٹرول بھی ہو، جب وہ بات زبان سے نکل گئی تو سمجھ لیں تیر کمان سے نکل گیا۔ اپنے اندر تحمل اور برداشت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔آج ہم بھول جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں کی ایسی تیسی کردو، فلاں کو جواب دے دو، دیکھی جائے گی۔ یہ جو دیکھی جائے گی، فلاںکو سمجھادو، فلاں کی ایسی تیسی کردو، بلاگ لکھ دو، مخالفت میں لکھتے چلے جائو، اس رویّے میں ہم اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں اور خود کو اس دلدل میں دھنساتے چلے جاتے ہیںجس سے نکلنے کا کوئی ذریعہ ہی نہیں۔
آقا علیہ السلام نے فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
سوشل میڈیا پر ہماری زبان بھی چلتی ہے اور ہمارے ہاتھ بھی چلتے ہیں۔ قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ کیا ہم اپنی پوسٹ سے لوگوں کی دلجوئی کررہے ہیں؟ ان کے دلوں کو جوڑ رہے ہیں؟ دوسروں کی خدمت کررہے ہیں؟ اپنا پیار، محبت اور امن تقسیم کررہے ہیں؟ یا ان کو توڑ رہے ہیں؟
اللہ رب العزت نے موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو فرعون کا مقابلہ کرنے کے لیے بھیجا اور فرمایا:
اِذْهَبَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰی.
(طٰہٰ، 20: 43)
’’تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ بے شک وہ سرکشی میں حد سے گزر چکا ہے۔‘‘
فرعون کے پاس جائو وہ باغی ہوگیا ہے، میرا دشمن ہوگیا ہے، اس نے خدائی کا دعویٰ کردیا ہے، میرا مقابلہ کررہا ہے، میرے سامنے کھڑا ہوگیا ہے اور ساتھ نصیحت فرمائی کہ:
فَقُوْلَا لَـهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّهٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی.
(طٰہٰ، 20: 44)
’’سو تم دونوں اس سے نرم (انداز میں) گفتگو کرنا شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا (میرے غضب سے) ڈرنے لگے۔‘‘
یعنی فرعون کے دربار میں کھڑے ہوکر بڑے پیار سے بات کرنا۔ اللہ رب العزت نے یہ نہیں فرمایا کہ اس کی ایسی تیسی کردو، تلوار لے کر جائو پھر غضبناک ہوجان، اس کو اپنے شکنجے میں لے لین، قبضے میں لے لین، اس پر اپنا رعب طاری کردین، نہیں، ایسا نہیں فرمایا بلکہ فرمایا کہ اس سے پیار بھری بات کرن، حکمت بھری بات کرن، دانائی اور دانشمندی سے بات کرن، اس سے کیا ہوگا؟ لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰیٰ۔ شاید کہ اسے بھولی ہوئی بات یاد آجائے، شاید وہ بھٹکا ہوا واپس آجائے، شاید وہ نافرمانی چھوڑ کر میرے در پر جھک جائے اور یہ کہ شاید تمہاری حکمت کے نتیجے میں وہ خوفزدہ ہوجائے اور یہ خوفزدگی؛ دھونس سے نہیں بلکہ حکمت کے ذریعے پیدا کی جائے۔