ہر دور کا ایک فتنہ ہوتا ہے اور اَہلِ حق اُس فتنے کی بیخ کنی و سرکوبی کے لیے جملہ وسائل اور توانائیاں بہ رُوئے کار لانے میں ایک لحظہ کی تاخیر نہیں کرتے، اس فتنے اور اس کا پرچار کرنے والوں کا علمی و فکری اور لسانی و قلمی محاکمہ و محاسبہ کرنا اُن کا اولین فریضہ ہوتا ہے۔ لہذا اُمت پر جب بھی کوئی آزمائش آئی اور وہ علمی اور تحقیقی تشنگی کا شکار ہوئی تو ہمیشہ عصرِ رواں کے مجدّد نے اس کی کامل راہ نُمائی کا فریضہ سرانجام دیا اور اُمت کو جادۂ مستقیم پر گام زن کیا۔
پندرہویں صدی ہجری شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی صدی ہے۔ حسبِ روایت اِس صدی میں تجدید و اِحیاء دین کا فریضہ آپ کے ذمہ ہے جسے آپ بخوبی ادا کر رہے ہیں۔ تحریک منہاج القرآن کی چار عشروں پر محیط تاریخ شاہد و عادل ہے کہ جب بھی اُمت کو راہ نُمائی کی ضرورت پڑی، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ہمیشہ حق ادا کیا۔ آپ نے مداومت کے ساتھ ہر مشکل اور بظاہر لا ینحل مسئلہ میں ایسی کافی و شافی راہ نُمائی فرمائی کہ اُس میں کوئی تشنگی نہ چھوڑی۔ یہ آپ کا اِمتیازی وصف اور خاصہ ہے کہ آپ مشکل ترین مسائل میں کسی طرح کے ’’اگر، مگر‘‘ کے بغیر اپنا موقف صریح اور واضح الفاظ میں پیش کرتے ہیں اور تمام پہلوؤں کو زیرِ بحث لاتے ہوئے کوئی گوشہ حل طلب نہیں چھوڑتے۔ یوں سائل اور قاری دونوں آپ کی تحقیق پر دادِ تحسین دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔
ناموسِ رسالت کا مسئلہ ہو یا شعائرِ اِسلام کی حفاظت و توقیر کا معاملہ ہو، اِسلام کے اَمن و آشتی کے چہرے کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کے کلنک سے داغ دار کیا جارہا ہو یا توہین آمیز خاکے بنا کر اُمت کو اشتعال دلایا جارہا ہو، حجیتِ حدیث و سنت کا معاملہ ہو یا حدیث سے حدود کے اِثبات پر دلائل مقصود ہوں؛ تصوف کا مصادرِ اصلیہ سے اثبات کا سوال ہو یا تعلیماتِ صوفیا کا قرآن و سنت سے تطابق مقصود ہوِ؛ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ہر مرحلہ پر علمی اور ٹھوس دلائل کی روشنی میں ایسی راہ نُمائی فرمائی کہ کوئی اس کا ردّ نہ کرسکا۔
گزشتہ کچھ سالوں سے اُمت میں رافضیت کے ردّعمل میں خارجیت و ناصبیت کے اثر و نفوذ کا فتنہ پروان چڑھ رہا ہے۔ سادہ لوح مسلمان تو کجا، اَہلِ علم بھی اِس کے مسموم اَثرات سے محفوظ نہیں رہے۔ مخصوص ایجنڈے کے تحت اَہلِ علم کو راہِ اِعتدال سے ہٹا کر اِفراط و تفریط کا شکار کیا جاتا ہے اور پھر وہ عامۃ الناس کی ذہن سازی کرکے انہیں ایسی روِش پر چلاتے ہیں جو اَہلِ سنت و جماعت کے عقائد صحیحہ اور اسلام کی بارہ سو سالہ روایات کے برعکس ہوتی ہے۔
گزشتہ چند دہائیوں میں مسلمانانِ عالم اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کی محبت و مودت اور ان کے ساتھ عقیدت کے حوالے سے تشکیک و اِرتیاب کا شکار ہو کر پیچھے ہٹتے جارہے ہیں اور ان کے مخصوص اور عالی مقام و مرتبہ سے روگردانی کرتے نظر آتے ہیں۔ اِس کے برعکس ایک طبقہ ردِ عمل میں دوسری انتہا کو پہنچ گیا ہے اور یوں وہ بھی راہِ اِعتدال سے منحرف ہوتا جارہا ہے۔ گویا بہر صورت نقصان اور بدنامی اِسلام کی ہورہی ہے۔ یوں اس آفاقی دین کے پیروکار راہِ اِعتدال سے ہٹ کر دنیا میں اپنی بداعتقادی اور عقبیٰ میں بربادی کا ساماں بہم پہنچا رہے ہیں۔
اِسلام کے نام لیواؤں نے جن ہستیوں کی تعلیمات اور اُسوہ پر عمل پیرا ہوکر متحد اور یک جا ہونا تھا اور دوسروں کے لیے قابلِ تقلید مثال قائم کرنا تھی، اُنہی اَجل اور دین کی بنیاد ہستیوں کے بارے میں غلط عقائد اور نظریات کے فروغ کے باعث وہ باہم دست و گریباں ہو کر منتشر اور پراگندہ ہورہے ہیں۔ اِسی نکتہ پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے 1444 ہجری کے محرم الحرام میں اَہلِ بیتِ اَطہار سے عقیدت و نیاز مندی کا حقیقی فریضہ ادا کرتے ہوئے ایسے مسئلہ پر بے مثال اور منفرد تحقیق مکمل کی ہے جو صدیوں سے تشنہ اور راہ نُمائی طلب تھا۔
آپ نے یزید کے کُفر اور اُس پر لعنت کرنے کے مسئلہ پر اپنی نوعیت کی منفرد، وقیع اور جامع کتاب تصنیف کی ہے جو اپنے موضوع پر ایک انسائیکلوپیڈیا کا درجہ رکھتی ہے۔ اصلاح عقائد کے باب میں یہ کتاب ایک منفرد اور قابلِ قدر کاوش ہے۔ حضور شیخ الاسلام کا ایک نمایاں وصف ہے کہ آپ جس بھی موضوع پر قلم اٹھائیں یا خطاب فرمائیں، ہمیشہ اپنے دلائل کا آغاز قرآن مجید سے کرتے ہیں اور پھر حدیث مبارک سے اُس کی وضاحت اور تشریح کرتے ہوئے اپنا موقف آگے بڑھاتے ہیں۔ اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار اور سلف صالحین کے اقوال پیش کرتے ہیں۔ پھر دیگر ائمہ کرام، فقہاء عظام اور علماء کی تصریحات سے اِستشہاد کرتے ہیں۔ آپ نے اپنے علمی و فکری وصف اور تحقیقی مزاج کے عین مطابق اِس کتاب میں بھی سب سے پہلے قرآن و حدیث کی قطعی اور واضح نصوص سے یزید کے صریح کُفر کا اِثبات کیا ہے۔ آپ نے اپنے مقدمہ کا مدار ہی قرآنی آیات اور صحیح احادیث پر رکھا ہے۔ آپ کی یہ نادر اور بے مثال کتاب اَئمہ کرام کے مستند اور معتبر دلائل و براہین سے مزیّن ہے، جونہ صرف واقعۂ کربلا کے بارے میں پھیلائے گئے شکوک و شبہات کا مکمل اِزالہ کرتی ہے بلکہ سانحۂ کربلا کے اَصل ذمہ داروں کے بارے میں بھی چشم کُشا حقائق منکشف کرتی ہے۔ آپ نے ناقابلِ تردید دلائل سے ثابت کیا ہے کہ یزید نے اِمام حسین علیہ السلام کے قتل کا براہِ راست حکم دیا تھا اور وہ اس سانحے پر نہ صرف راضی تھا بلکہ اِس سے بھی بڑھ کر اُس نے فرحت و شادمانی کا اظہار کیا اور خوشی کے شادیانے بجائے تھے۔
ذیل میں ہم شیخ الاسلام کی اِس تاریخی کاوِش کے اَبواب کا اِجمالی جائزہ پیش کرتے ہیں:
پیش لفظ
حضور شيخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے کتاب کی اِبتداء ایک جامع اور وقیع پیش لفظ سے کی ہے جس میں اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کے مقابلے میں یزید کی حمایت میں اُٹھنے والی آوازوں کے تاریخی و اِعتقادی اَسباب و قرائن بیان کیے ہیں۔ آپ نے واضح کیا ہے کہ عقیدہ کے باب میں کبھی کسی فرقہ کے ردّعمل میں تبدیلی رونما نہیں ہونی چاہیے، بلکہ عقیدہ صحیحہ وہی ہے جس پر اَہل سنت و جماعت قرونِ اُولیٰ سے کاربند رہے ہیں اور وہ محبت و مودّتِ اَہلِ بیتِ نبوی علیہ وعلی آلہ الصلوٰۃ والسلام ہے۔
باب نمبر 1: قرآن و حدیث اور مسئلہ کُفرِ یزید
اِس باب میں حضور شیخ الاسلام نے ایسی آیات سے استدلال کرتے ہوئے یزید کے کُفر کا اِثبات کیا ہے جن کے بارے میں عمومی طور پر یہ تصور ہی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ ان آیات سے یزید کا کُفر ثابت ہوگا۔ نہ ہی کسی مفسرِ قرآن یا شارح نے ان آیات سے ایسا اِستدلال کیا ہے۔
باب نمبر 2: عہدِ یزید — دين و ملت کے لیے باعثِ شرّ و فساد
اِس باب میں شیخ الاسلام نے صحیح اور حسن احادیث اور مستند و معتبر روایات سے ثابت کیا ہے کہ یزید کے عہدِ حکومت نے اُمت میں اِنتشار اور فساد کی طرح ڈالی اور دین میں رخنہ ڈالنے کی روایت کا آغاز تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن احادیث مبارکہ میں واضح طور پر آگاہ فرما دیا تھا کہ اُمت میں فساد پھیلانے والا پہلا فرد ’’یزید بن معاویہ‘‘ ہوگا، اِس باب میں ان احادیث کی تحقیق و تخریج کرتے ہوئے ان کی شرح بھی بیان کی گئی ہے۔
باب نمبر 3: یزید نے براہِ راست قتلِ حسین علیہ السلام کا حکم دیا
بعض لوگ حقائق سے لاعلمی کی بنا پر سیدنا امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے باب میں خلطِ مبحث کرتے ہوئے یزید کے بجائے صرف عراق کے گورنر عبید اللہ بن زیاد کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ اِسی پر بس نہیں بلکہ اسے ’’اندھا‘‘ اور ’’بے نامی قتل‘‘ اور ان کے قاتلوں کو ’’نامعلوم‘‘ بنانے اور ان کے بارے میں اِبہام پیدا کرنے کی خارجی ذہنیت کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ اِس تشکیک و اِبہام کی وجہ سے عوام الناس مخمصے کا شکار ہو کر سوچنا شروع کردیتے ہیں کہ آخر اِس اَلم ناک سانحے اور نواسۂ رسول علیہ وعلی آلہ الصلوٰۃ والسلام کی شہادت کا اَصل ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے؟
باب ہٰذا میں شیخ الاسلام نے اِس حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے کتبِ حدیث اور مستند حوالہ جات سے ثابت کیا ہے کہ یزید براہِ راست امام حسین علیہ السلام کے قتل کا حکم دینے والا تھا اور اُس کے اَحکامات اور منشاء کے مطابق یہ سانحہ بپا کیا گیا تھا۔
باب نمبر 4: شہادتِ امام حسین علیہ السلام پر یزید کا اِظہارِ مسرت
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بالفرض والمحال یزید نے امام حسین علیہ السلام کے قتل کا حکم نہیں دیا تھا تو پھر اُس نے سانحہ کربلا پر اِظہارِ مسرت کیوں کیا؟ حقیقت یہ ہے کہ اُس نے نہ صرف اس فعلِ شنیع پر اِظہارِ مسرت کیا بلکہ ابن زیاد اور اُس کے حواریوں کی سفاکیت سے خوش ہو کر اُنہیں انعامات سے بھی نوازا۔
اِس باب میں یزید کے اِظہارِ مسرت کو دلائل کے ساتھ با حوالہ بیان کیا گیا ہے۔
باب نمبر 5: یزید کا امام حسین علیہ السلام کے سرِ اَنور کی بھرے دربار ميں توہین کرنا
یزید نے صرف سانحہ کربلا پر اِظہارِ مسرت ہی نہيں کیا بلکہ دمشق کے بھرے دربار میں امام حسین علیہ السلام کے سرِ اَنور کی توہین کی اور نفوسِ اَہلِ بیت کے ساتھ اِہانت آمیز سلوک کیا۔
یزید کے اِس بدترین فعل کو دلائل کے ساتھ اِس باب میں شرح و بسط سے قلم بند کیا گیا ہے۔
باب نمبر 6: اَہلِ مدینہ کے ساتھ ظلم و زیادتی کرنے والے کا شرعی حکم
اِس باب میں اَہلِ مدینہ کے ساتھ ظلم و زیادتی کرنے والے کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ نبویہ سے بالصراحت ثابت کیا ہے کہ مدینہ منورہ کی حرمت کو پامال کرنے اور اَہلِ مدینہ پر ظلم و زیادتی کرنے والے پر کفار کے حکم کا اِطلاق ہوگا اور اُسے اُس کے کسی سابقہ عملِ خیر کا اَجر نہیں ملے گا کیوں کہ اُس کا ہر عمل مدینہ منورہ کی بے حرمتی کے باعث اِکارت جائے گا۔ اس باب میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اَہلِ مدینہ پرظلم و زیادتی کرنے والا بلکہ ظلم و زیادتی کا صرف ارادہ رکھنے والا شخص بھی قیامت کے دن اِس طرح اُٹھے گا کہ اُس کے تمام اعمال غبار اور ریت کے ذروں کی طرح اُڑ چکے ہوں گے۔ وہ جہنم کی آگ میں یوں گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں حل ہو جاتا ہے۔ دنیوی زندگی میں کیا گیا اُس کا کوئی عملِ خیر، خواہ فرائض میں سے ہو یا نوافل میں سے، نہیں بچے گا، جو عقبیٰ میں اُس کے کام آسکے اور آخرت میں اُس کی بخشش کا وسیلہ بن سکے۔ اُس دن اُس کی حالت ایک کافر اور مشرک کی طرح ہوگی، جس کا نامہ اَعمال نیکیوں سے بالکل خالی ہوگا۔ یزید نے جو کچھ مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ میں کیا، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اُس نے اَہلِ مدینہ پر جو ظلم ڈھائے، تاریخ ان کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ یوں نصوصِ قطعیہ کی روشنی میں یزید حرمتِ حرمین شریفین کو پامال کرنے اور اسے اپنی فوج پر حلال قرار دینے کی پاداش میں کافر ٹھہرا اور واصلِ جہنم ہوا۔
قارئین محتشم! اِس زاویہ نگاہ سے نہ کبھی لکھا گیا اور نہ کبھی یزید کے کُفر کو اِس پہلو سے ثابت کیا گیا ہے۔ گویا یہ بھی حضور شیخ الاسلام کی فقید المثال تحقیق اور نادر اِعجازِ بیان ہے۔
باب نمبر 7: یزید کے حکم سے مسجد نبوى، مدينہ طیبہ اور کعبۃ اللہ كى بے حرمتی (کبار تابعین اور اکابرین کے اَقوال کی روشنی میں)
باب ہٰذا میں کبار تابعین اور اکابرِ اُمت کے اقوال سے ثابت کیا گیا ہے کہ واقعہ حرّہ میں مسجدِ نبوی، روضہ رسول، منبر شریف اور حرمِ نبوی اور حرمِ مکہ کی جو بے حرمتی کی گئی اور ان مقدس ترین مقامات کا تقدّس جس طرح پامال کیا گیا، اس سب کا صریح حکم یزید نے خود دیا تھا اور اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے۔
اِس باب کے آغاز میں یزید کی خرافات کی فہرست بھی دی گئی ہے، جن میں سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ یزید کے حکم کے تحت ستائیس (27) ہزار گھڑ سوار اور پندرہ (15) ہزار پیادہ فوج کے ذریعے حرمِ نبوی اور حرمِ مکہ پر لشکر کشی کی گئی اور ان کی حرمت کو پامال کیا گیا۔
باب نمبر 8: یزید کی سفّاکیت اور گھناؤنے کردار کا بیان (صحابہ و تابعین اور اکابرینِ اُمت کی گواہی)
یزید کے کردار کے حوالے سے کوئی نرم گوشہ رکھنے کا اِمکان ہی نہیں ہے۔ اِس باب میں صحابہ و تابعین، سلف صالحین اور اکابرینِ اُمت کے مشاہدات، روایات اور آراء قلم بند کرکے ثابت کیا گیا ہے کہ یزید اپنے ظلم و جبر، جور و اِستبداد، سفاکیت و بربریت اور بے دینی کی وجہ سے اِس لائق ہی نہیں کہ اُس کے بارے میں کوئی حسنِ ظن رکھاجائے؛ بلکہ اُس کے بارے میں حسنِ ظن رکھنا شہداے کربلا کی قربانیوں کو مشکوک کرنے کے مترادف ہے۔ اس کا تصور کوئی صاحبِ ایمان نہیں کرسکتا۔
باب نمبر 9: یزید پر لعنت کے جواز میں صحابہ کرام، اَئمہ عظام اور علماء کی تصریحات
اِس باب میں واضح کیا گیا ہے کہ اَئمہ کرام نے قرآن مجید اور حدیث مبارک کے متون سے اِستدلال کرتے ہوئے صریح الفاظ میں یزید پر لعنت بھیجنے کو جائز قرار دیا ہے۔ صدرِ اَوّل سے لے کر دورِ اَواخر تک کے معتبر اور مؤقر اَہلِ علم کی آراء پیش کرتے ہوئے یہ عقیدہ واضح کیا گیا ہے کہ یزید پر بالتعیین یعنی یزید کا نام کے کر اُس پر لعنت کرنا بالکل جائز اَمر ہے۔
شیخ الاسلام نے ثابت کیا ہے کہ یزید پر بالتعیین نام لے کر لعنت بھیجنے پر فقہاء اَربعہ کا اِجماع ہے۔ اِس حوالے سے ایسی منفرد تحقیق کتاب میں پیش کی گئی ہے جس کی مثال اِسلام کی علمی تاریخ میں نہیں ملتی۔ امام اعظم ابو حنیفہ کی طرف سکوت کا قول منسوب کر کے اُن کے بارے میں وارد شدہ اِشکالات و اِبہامات اچھوتے انداز میں رفع کیے گئے ہیں جنہیں پڑھ کر کوئی بھی اَہلِ علم داد دیے بغیر نہیں رہ سکے گا۔
باب نمبر 10: اِثباتِ کُفرِ یزید میں اَئمہ عظام اور علماء کرام کی تصریحات
اِس باب میں یزید کے کُفر کے اِثبات میں اکابرینِ اُمت، اَئمہ عظام اور علماء کرام کی تصریحات پیش کی گئی ہیں۔ یزید کے کُفر پر تصریحات کا آغاز حضرت عبد الرحمان بن سعید بن زید التابعی سے کیا گیا ہے اور امام احمد بن حنبل سمیت بیسیوں ایسے ائمہ و علماء کا موقف پیش کیا گیا ہے جو یزید کے صریح کُفر کے قائل ہیں۔
باب نمبر 11: اِثباتِ کُفرِ یزید کے دیگر شرعی دلائل
یزید کے کُفر کے اِثبات کے دیگر دلائل بیان کرتے ہوئے کتبِ عقائد سے دلائل دیے گئے ہیں اور کلامی اَبحاث سے ثابت کیا گیا ہے کہ یزید اپنے قبیح اَعمال اور شنیع اَفعال کی بناء پر دائرۂ اِسلام سے خارج ہوچکا تھا اور صریح کُفر و اِرتداد کا مرتکب ہوگیا تھا۔
باب نمبر 12: حدیثِ قسطنطنیہ اور اِزالۂ اِشکال
باب ہٰذا میں معروف حدیثِ قسطنطنیہ پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ جب یزید کے حامیوں کے تمام دلائل ردّ ہوجاتے ہیں اور اُنہیں دفاعِ یزید کا کوئی سہارا نہیں ملتا تو پھر وہ حدیثِ قسطنطنیہ میں بیان کردہ بشارتِ نبوی کو دلیل بنا کر یزید کو بزعمِ خویش جنت کا مستحق ٹھہراتے ہیں۔ شیخ الاسلام نے ثابت کیا ہے کہ یہ موقف اَٹل تاریخی حقائق کے خلاف ہے، کیونکہ بشارت پر مبنی حدیث مبارک درجنوں کتب میں وارد ہوئی ہے، مگر کسی حدیث میں قسطنطنیہ کا ذکر نہیں آیا۔ نیز یہ حقیقت بھی اَظہر من الشمس ہے کہ حدیث مبارک میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حملہ کرنے والے پہلے لشکر کے بارے میں بشارت دی ہے، جب کہ یزید بن معاویہ جس لشکر میں بلادِ روم گیا وہ آٹھواں لشکر تھا۔ لہٰذا حدیث مبارک سے استدلال کرتے ہوئے مغفرت کی بشارت میں یزید کو شریک مان کر اس کو بخشا ہوا کہنا متعدد وجوہات کی بناء پر خلافِ حقیقت قرار پاتا ہے۔
باب نمبر 13: شہادتِ حسین علیہ السلام دراصل تکمیلِ شہادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، اور قاتلِ حسین درحقیقت قاتلِ جانِ مصطفیٰ ہے
یہ کتاب کا ایک اچھوتا باب ہے۔ اس میں حضور شیخ الاسلام نے باور کرایا ہے کہ شہادتِ حسین علیہ السلام درحقیقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کی تکمیل ہے۔ گویا امام حسین علیہ السلام کا قاتل دراصل محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قاتل ہے۔ لہٰذا نبی کا قاتل کیسے صاحبِ ایمان ہوسکتا ہے؟ بنا بریں یزید کے بارے میں صاحبِ ایمان ہونے کا شائبہ رکھنا بھی دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہے۔ یزید کا اِسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ مستند و معتبر اور ناقابلِ تردید دلائل سے یہ موقف ایک منفرد پیرائے میں بھرپور طریقے سے ثابت کیا گیا ہے۔
باب نمبر 14: یزید کے حواریوں کا دنیا میں ہى کفار کى طرح عبرت ناک اَنجام سے دوچار کیا جانا
یزید اپنے اعوان و انصار اور تمام حواریوں سمیت واصلِ جہنم ہوا، جس طرح شیطان اپنے تمام چیلوں اور پیروکاروں سمیت دوزخ کا ایندھن بنے گا۔ اِس باب میں شیخ الاسلام نے ثقہ روایات سے ثابت کیا ہے کہ یزید کے حواری اور سانحۂ کربلا میں اُس کے احکامات کی بجا آوری پر مامور اُس کے کارندے دنیا میں ہی کفار کی طرح عبرت ناک انجام سے دو چار کردیے گئے تھے۔ جو عذاب عالمِ برزخ یا آخرت میں دیے جائیں گے، وہ عذاب یزید کے حواریوں کو دنیا میں ہی دے کر یہ بتلا دیا گیا تھا کہ کوئی ان کے جہنمی ہونے کے بارے میں متردّد نہ رہے اور کسی قسم کے التباس کا شکار نہ ہو۔
باب نمبر 15: یزید کے آخر وقت کے ذلت آمیز کرتوت اور عبرت ناک کافرانہ انجام
حضور شیخ الاسلام نے اس باب میں نہایت خوب صورت انداز میں یزید کی بدبخت زندگی کے آخری ایام کے کرتوتوں سے پردہ فاش کیا ہے اور اُس کا عبرت ناک کافرانہ انجام بیان کیا ہے۔ بعض لوگ یزید کی توبہ کے مختلف اِحتمالات وضع کرتے اور ان کا پرچار کرتے ہیں۔ یزید کی زندگی کے آخری ایام میں اُس کے حکم پر حرمِ خدا میں خون بہایا جارہا تھا، کعبۃ اللہ پر منجنیقوں سے سنگ زنی کی جارہی تھی، کعبۃ اللہ کی عمارت کو منہدم کیا جارہا تھا، اُدھر اِسی دوران یزید اپنی بدمستیوں میں مگن تھا کہ اُس کی ذلت آمیز موت نے اُسے دبوچ لیا۔ یوں یزید کو موقع ہی نہ ملا کہ وہ توبہ کرسکے۔ لہٰذا اُس کے لیے توبہ کے اِحتمالات ڈھونڈنا اپنے ایمان کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
اِختتامیہ: یزید کے حامیوں اور وکلاءِ صفائی سے چند سوالات
یہ باب شیخ الاسلام کی کمال وفورِ عقیدت کا مظہر ہے۔ اس میں اُنہوں نے بے مثال اَنداز میں یزید کے حامیوں اور وکلاءِ صفائی کے ایمان کو جھنجھوڑا ہے اور انہیں حقیقت کی طرف متوجہ کیا ہے کہ یزید نے جو کیا سو کیا، اب اُس لعین اور بدبخت کی حمایت کرکے اپنے ایمان کو تو ضائع نہ کرو۔ یہ باب بصارت اور بصیرت کے دَر کھول کر پڑھنے کا متقاضی ہے۔
قارئینِ کرام! آپ غور کریں کہ شیخ الاسلام نے کس طرح اِنتہائی اَحسن انداز میں مرحلہ وار کتاب کے مشتملات کو آگے بڑھایا اور ایک ایک پہلو کو زیرِ بحث لاتے ہوئے آپ نے نفسِ مسئلہ کا کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا اور نہ ہی کوئی گوشہ حل طلب رہنے دیا ہے۔ تمام ifs and buts کا قلع قمع کرتے ہوئے مکمل وضاحت اور صراحت کے ساتھ دقیق نکات پر بحث کی ہے۔
یہ کتاب درحقیقت فکری واضحیت اور اِعتقادی اِصلاح کے لیے نسخہ کیمیا کی حیثیت رکھتی ہے۔ اِسے ہر صاحبِ اِیمان کو ضرور پڑھنا اور سمجھنا چاہیے۔ اِس کتاب کی تالیف کا مقصدِ وحید شکوک و شبہات کاا ِزالہ کرکے اُمت کی اِصلاح کرنا اور انہیں فکری وحدت کی لڑی میں پرونا ہے۔ کتاب کے ’’پیش لفظ‘‘ میں عصرِ حاضر کے بحر العلوم اور جبلِ تحقیق حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری تحریر فرماتے ہیں:
’’ہر دور کا ایک فتنہ ہوتا ہے اور اَہلِ حق ہر دور میں اُس فتنے کی بیخ کنی و سرکوبی کے لیے جملہ وسائل اور توانائیاں بہ رُوئے کار لانے میں ایک لحظہ کا پس و پیش گوارا نہیں کرتے، وہ اس فتنے اور اس کا پرچار کرنے والوں کا علمی و فکری اور لسانی و قلمی محاکمہ و محاسبہ کرتے ہیں۔ اِسی تناظر میں یاد رہے کہ یہ خارجی اور ناصبى ذہنیت ہی ہے جس نے امام عالی مقام سیدنا حسین علیہ السلام کی ذاتِ اقدس اور اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کے ساتھ محبت و مودت كو کم کرنے کے لیے طرح طرح کے فکری و اعتقادی اور تاریخی و نظریاتی مغالطے پیدا کیےہيں اور تشکیک پر مبنی ابحاث کی روایت ڈالی ہے۔ انہی شکوک و شبہات کے ازالے کے لیے زیرِ نظر کتاب تالیف کی گئی ہے۔‘‘
اِس بات کی تو قوی اُمید ہے کہ اللہ رب العزت کے فضل و اِحسان سے موضوعِ ہذا پر حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کے بیان کردہ دلائل و براہینِ قاطعہ کا ردّ کوئی بھی نہ کرسکے گا۔ لیکن اِس کی جسارت وہی بدبخت کرے گا جو اپنے آپ کو یزید اور اُس کے حواریوں کے زُمرہ میں شامل کرنا چاہے گا اور یہ خواہش رکھتا ہوگا کہ وہ حسینیت سے نکل کرکے یزید کے کیمپ میں شامل ہوجائے۔ (العیاذ باللہ!) ہوسکتا ہے کہ چند معاندین و حاسدین ہمیشہ کی طرح اپنے بغض و عدوات کا اظہار حضور شیخ الاسلام پر رافضیت و شیعیت کے الزامات لگا کر کریں۔ لیکن یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اَئمہ مذاہبِ اَربعہ اور سلف صالحین پر بھی اِس طرح کے بہتان باندھنے کی پوری تاریخ ہے، جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔
قارئین کرام! یہ اِس نادر اور عظیم الشان علمی شذرہ کا مختصر تعارف ہے۔ ہم پوری کتاب کو اِس مختصر مضمون میں زیرِ بحث نہیں لاسکتے، البتہ چند مقامات کے حوالے سے کچھ معروضات پیش کردی ہیں تاکہ آپ اس کتاب کے مشتملات اور جامعیت سے آگاہ ہوں۔ کتاب کی ندرت اور اِس کے محاسن کا اندازہ تو اِسے بالتفصیل پڑھ کر ہی لگایا جا سکتا ہے۔ آخر میں اتنا ضرور عرض کروں گا کہ یہ کتاب ہماری آئندہ نسلوں کے عقیدہ کی حفاظت اور ایمان کے تحفظ کے لیے اَز بس ضروری ہے۔