سوال: کیا ہر عمر کے افراد کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جا سکتی ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
جواب: خاتم النبیین سید المرسلین حضرت محمد مصطفی ﷺ سے پہلے جتنے انبیاء ورسل علیہم السلام اس دنیا میں تشریف لائے ان کی نبوت ورسالت علاقہ، قوم اور زمانے کے لحاظ سے محدود تھی جبکہ آپ ﷺ کی نبوت دنیا کے تمام علاقوں کے لیے ہے، تمام اقوام کے لیے ہے اور قیامت تک کے لیے ہے۔ اس بات کی تصدیق خود باری تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمائی ہے:
قُلْ یَاأَیُّهَا النَّاسُ إِنِّی رَسُولُ اللهِ إِلَیْکُمْ جَمِیعًا.
(الاعراف، 7: 158)
آپ فرما دیں: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں واضح فرما دیا کہ اب میں نے جس رہبر اعظم کو تمہاری طرف مبعوث کیا ہے، اس کی شانِ رہبری کسی قوم سے مخصوص ہے اور نہ کسی زمانہ سے محدود ہے۔ جس طرح میری حکومت و سروری عالمگیر ہے، اسی طرح میرے محبوب کی رسالت بھی جہاں گیر ہے۔ لہٰذا اب ہر خاص وعام، ہر امیر وغریب، ہر عربی وعجمی اور ہر رومی وحبشی، نبی آخر زماں ﷺ کا امتی ہے۔
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا کَآفَّةً لِّـلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْراً وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَایَعْلَمُوْنَo
(سبا، 34: 28)
اور (اے حبیبِ مکرّم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر اس طرح کہ (آپ) پوری انسانیت کے لیے خوشخبری سنانے والے اور ڈر سنانے والے ہیں لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
مذکورہ بالا آیت آپ ﷺ کے پوری انسانیت کے لیے نبی ورسول ہونے کی دلیل ہے۔ جس طرح آپ ﷺ تمام عالمین کے لیے رحمت ہیں اسی طرح تمام عالمین کے لیے آپ ﷺ کی نبوت ورسالت ہے۔ لہٰذا کوئی بھی انسان آپ کے دائرہ دعوت سے باہر نہیں ہے۔ اس کی تفسیر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث مبارک سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَأُرْسِلْتُ إِلَی الْخَلْقِ کَافَّةً وَ خُتِمَ بِیَ النَّبِیُّونَ.
(مسلم، الصحیح، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب تحویل القبلة من القدس إلی الکعبة، 1: 371، الرقم: 523)
مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا اور مجھ پر نبوت ختم کر دی گئی۔
معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی نبوت ورسالت اور دعوتِ دین پوری نسلِ انسانی کے لیے اور قیامت تک کے لیے ہے۔ چنانچہ جس طرح نبی اکرم ﷺ کے باقی فرائض امت کو منتقل ہوئے ہیں اسی طرح دعوت کا فریضہ بھی امت کو منتقل ہوا ہے۔ آپ ﷺ کے پیروکار بحیثیت امت اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ قرآن کریم اور سنتِ رسول ﷺ کی شکل میں اللہ تعالیٰ کا پیغام نسلِ انسانی تک پہنچائیں۔ اگر امت میں دعوت کا یہ عمل جاری رہے گا تو امت بری الذمہ ہوگی لیکن اگر کسی دور میں امت میں دعوت کا یہ عمل رک جائے گا یعنی نسل انسانی تک اسلام کا پیغام پہنچنے کا عمل معدوم ہو جائے گا تو نتیجے میں بحیثیت امت پوری امت مسلمہ گناہگار ٹھہرے گی۔ یہ دعوت اسلام کی اصولی حیثیت ہے۔ لہذا قیامت تک دعوتِ اسلام کا عمل جاری رکھنے کا حکم ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَاُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.
(آل عمران، 3: 104)
’’اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں۔‘‘
پس دینِ اسلام قبول کرنے کی دعوت جمیع انسانیت کے لیے ہے اور یہ حکم تا قیامت باقی رہے گا۔ اس کے مخاطبین میں ہر عام و خاص، ہر پیرو جوان اور مردو خواتین یعنی تمام ذی شعور جن و انس شامل ہیں۔ وہ لوگ جو پہلے ہی اسلام قبول کرچکے ہیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ اِن میں سے ایک جماعت دعوتِ دین کا فریضہ سرانجام دیتی رہے۔
دینِ اسلام کی دعوت دینا کیوں ضروری ہے؟
کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اگر اللہ کے ہاں دین صرف اسلام ہی ہے تو کیا باقی ادیان حق نہیں ہیں؟ اس کے جواب میں حافظ ابن کثیر تفسیر القرآن العظیم میں لکھتے ہیں:
وَهُوَ اتِّبَاعُ الرُّسُلِ فِیمَا بَعَثَهُمُ اللهُ بِهِ فِی کُلِّ حِینٍ، حَتَّی خُتِمُوا بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، الَّذِی سَدَّ جَمِیعَ الطُّرُقِ إِلَیْهِ إِلَّا مِنْ جِهَةِ مُحَمَّدٍ ﷺ.
(ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1: 355)
ہر زمانہ کے نبی پر اللہ تعالیٰ نے جو نازل فرمایا اس کی اطاعت واتباع کو اِسلام کہتے ہیں۔ یہاں تک کہ سیّدنا محمد ﷺ کی تشریف آوری سے جب نبوت کا سلسلہ ختم ہوا تو اتباع محمّدی کا نام اسلام ہو گیا۔
یہی وجہ ہے کہ اب سابقہ شریعتیں منسوخ ہو چکی ہیں۔ اب صرف اور صرف شریعت محمدی ﷺ کی پیروی لازم ہے۔ لہٰذا انسانیت کی بہتری کے لیے دین اسلام کی دعوت دینا بے حد ضروری ہے کیونکہ اب دین اسلام کے علاوہ کوئی اور دین اپنانے والا اللہ تعالیٰ کے ہاں فائدہ اٹھانے والا نہیں ہے بلکہ نقصان اٹھانے والا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِینًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِی الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِینَo
(آل عمران، 3: 85)
اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کو چاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔
یعنی اب اسلام ہی ایک عالمگیر دین ہے جس کی دعوت پوری نسل انسانی کے لیے، دنیا کے تمام علاقوں کے لیے اور قیامت تک کے لیے ہے۔ اسی دعوت وارشاد کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اس امت کو امتِ خیر قرار دیا ہے، فرمانِ الہٰی ہے:
کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ.
(آل عمران، 3: 110)
تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
جب خیر امت جیسے جلیل القدر لقب سے سرفراز ہونے کی وجہ ہی دعوتِ دینِ اسلام ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ دعوت وارشاد کا عمل چھوڑ کر امتِ محمدی ﷺ کسی صورت بھی اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہو سکتی، لہٰذا دینِ اسلام کی دعوت دینا ہمارا اہم فریضہ ہے۔
راهِ ہدایت کی طرف نہ بلانے کی سزا
جو لوگ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں موجود واضح نشانیوں اور ہدایت کو لوگوں تک پہنچانے کی بجائے چھپاتے ہیں، انہیں باری تعالیٰ نے ملعون قرار دیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنَّ الَّذِینَ یَکْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنَاتِ وَالْهُدَی مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتَابِ أُولَئِکَ یَلْعَنُهُمُ اللهُ وَیَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَo
(البقرة، 2: 159)
بے شک جو لوگ ہماری نازل کردہ کھلی نشانیوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں اس کے بعد کہ ہم نے اسے لوگوں کے لیے (اپنی) کتاب میں واضح کردیا ہے تو انہی لوگوں پر اللہ لعنت بھیجتا ہے (یعنی انہیں اپنی رحمت سے دور کرتا ہے) اور لعنت بھیجنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔
اس آیتِ مبارکہ میں بنی اسرائیل کے اُن علمائِ سوء کا ذکر ہے جو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اللہ تعالیٰ کے احکامات اور رسول اللہ ﷺ کے خصائص وکمالات کو چھپاتے تھے یا پھر اپنی خواہشِ نفس کے مطابق تحریف کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن پر لعنت بھیجی ہے۔ اگر آج بھی کوئی شخص نبی کریم ﷺ کے کمالات اور دینِ حق کی ترویج واشاعت کی بجائے رکاوٹ کا سبب بنے گا تو رحمتِ باری تعالیٰ سے محروم رہے گا۔
دعوتِ اسلام ہر مسلمان پر بقدرِ استطاعت واجب ہے
لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا اور دین اسلام کی دعوت دینا ہی رسول اللہ ﷺ کی راہ ہے۔ اسی راہ پر ہمیں بھی چلنے کا حکم ہے اور یہی آپ ﷺ کی اتباع ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قُلْ هَذِهِ سَبِیلِی أَدْعُو إِلَی اللهِ عَلَی بَصِیرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِی وَسُبْحَانَ اللهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَo
(اے حبیبِ مکرّم!) فرما دیجیے: یہی میری راہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت پر (قائم) ہوں، میں (بھی) اور وہ شخص بھی جس نے میری اتباع کی، اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔
(یوسف، 12: 108)
اللہ تعالیٰ کی واحدنیت کا پرچار کرنالازمی امر ہے، یہی حکم تمام انبیاء کرام اور رسل عظام کو تھا اور اب یہی حکم قیامت تک آنے والے تمام جن وانس کو ہے کہ توحید ورسالت کی تبلیغ کریں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِی إِلَیْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِo
(الأنبیاء، 21: 25)
اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر ہم اس کی طرف یہی وحی کرتے رہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں پس تم میری (ہی)عبادت کیا کرو۔
مذکورہ بالا آیاتِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہے کہ اب اللہ تعالیٰ کے ہاں سچا دین اور قابلِ عمل دین اسلام ہی ہے۔ اس کی ترویج واشاعت ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق اس کو فروغ دینے کی کاوش کرے۔ جہاں علم کی ضرورت ہے وہاں علماء کرام اپنے علم کی روشنی پھیلائیں۔۔۔ جہاں مالی مدد کی ضرورت ہے وہاں مالدار اپنا مال خرچ کریں۔۔۔ سوشل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے احباب اپنی خدمات پیش کریں۔۔۔ یعنی جو جس شعبہ میں بھی ہے وہ اپنی اہلیت واستعداد کے مطابق دین اسلام کے لیے جس نوعیت کی خدمات پیش کر سکتا ہے، ضرور پیش کرے۔ یہ ہر ایک کی استطاعت کے مطابق اس کا فریضہ ہے۔ مقصد دعوتِ دین ہے تاکہ ہم احکامِ باری تعالیٰ پر عمل پیرا ہوتے رہیں۔
اسلام میں جبراً تبدیلیٔ مذہب کا کوئی تصور نہیں
کسی کو جبراً اسلام میں داخل کرنا دینِ اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت حصین انصاری رضی اللہ عنہ جو قبیلہ بنی سالم بن عوف سے تعلق رکھتے تھے جب اسلام لائے تو ان کے دو بیٹے نصرانی تھے۔ شفقتِ پدری کے پیش نظر وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح ان کے بیٹے بھی رسالت مآب ﷺ کے خوشہ چین بن جائیں اور اسلام کی برکتوں سے مستفیض ہوں۔ اپنے طور کافی کوشش کے بعد ایک دن حضرت حصین انصاری رضی اللہ عنہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگے کہ آقا ﷺ مجھے اجازت ہو تو میں اپنے بیٹوں کو کچھ ڈرا دھمکا کراسلام قبول کرنے پر مجبور کروں؟ کیونکہ مجھے ان کا نصرانی رہنا بہت شا ق گزرتا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
لَآ اِکْرَاهَ فِی الدِّیْنِ قف قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ج فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْم بِاللهِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقیٰ لَاانْفِصَامَ لَهَا ط وَاللهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ.
(البقرة، 2: 256)
دین میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے، سو جو کوئی معبودانِ باطلہ کا انکار کر دے اور اﷲ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لیے ٹوٹنا (ممکن) نہیں، اور اﷲ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔
اس کے بعد حضور ﷺ نے انہیں فرمایا کہ دینِ اسلام میں کوئی زبر دستی نہیں کیونکہ اللہ نے ہدایت و ضلالت دونو ں کے راستے واضح کردیئے ہیں۔ دین کے بارے میں کسی کو زبر دستی مجبور نہ کیا جائے، اللہ نے کھلی ہدایت دینے کے بعد لوگوں کو اختیار دے دیا ہے۔
(القرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 3: 279)
دینِ اسلام برحق ہے پھر بھی حق کے واضح ہونے کے بعد اسلام اِنسان کو اِختیار دیتا ہے کہ چاہے وہ مومن بن جائے، چاہے کفر اِختیار کرے جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ.
(الکهف، 18: 29)
اور فرما دیجیے کہ (یہ) حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے۔
اسلام ہر مذہب کے پیروکاروں کو اپنے اپنے مذاہب کے عقائد کے مطابق عمل پیرا رہتے ہوئے جینے کا حق دیتا ہے۔ نہ کسی کے مذہب کو چھیڑنے کی تعلیم دیتا ہے اور نہ ہی اپنا مذہب چھوڑنے کی اجازت دیتا ہے۔ سورۃ الکافرون میں ایک مکالمہ بیان کر کے آخر پر ارشاد فرمایا:
لَکُمْ دِینُکُمْ وَلِیَ دِینِo
(الکافرون، 109: 6)
(سو) تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے ہے۔
لہٰذا دینِ اسلام میں جبراً مذہب تبدیل کروانے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اگر کوئی غیر مذہب اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر بخوشی دین اسلام قبول کرنا چاہے تو اسے خوش آمدید کہتا ہے۔ اگر کوئی ریاست، گروہ یا فرد واحد مسلمانوں پر ظلم وستم بھی ڈھائے تو اسلامی تعلیمات کے مطابق اس کو امن کی دعوت دینا لازم ہے۔ بعض لوگ جہالت کی وجہ سے اور بعض اسلام دشمنی کے سبب اسلامی تعلیمات کو سیاق سباق سے ہٹا کر پیش کرتے ہیں اور عوام الناس کو گمراہ کرنے کی خاطر زور زبردستی اور جبرواکراہ کو اسلام کی طرف منسوب کرتے ہیں جبکہ ہرگز اسلامی تعلیمات میں جبرواکراہ نہیں ہے۔
کم سنی میں قبولِ اسلام اور خدمات پیش کرنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین
دورِ نبوی ﷺ میں بہت سے صحابہ کرام کم عمری میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور بہت سے ایسے تھے جنہوں نے کم سنی میں اپنی خدمات دینِ اسلام کے لیے پیش کیں لیکن اختصار کی خاطر چند صحابہ کرام کا ذکر درج ذیل ہے:
(1) سیدنا علی المرتضیٰ علیہ السلام
امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا علی علیہ السلام کی قبول اسلام کے وقت عمر آٹھ سال لکھی ہے۔ بعض روایات میں دس سال یا اس سے بھی کم عمر کا ذکر ہے۔ آپ علیہ السلام بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے ہیں۔
(البخاری، التاریخ الکبیر، 6:259)، (ابن سعد، الطبقات الکبری، 3: 21)، (طبری، تاریخ الأمم ولملوک، 1: 539)
(2) سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے والد سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ میں مشرف بہ اسلام ہوئے جبکہ اس وقت آپ رضی اللہ عنہ بالغ نہیں تھے۔ یعنی آپ رضی اللہ عنہ نے بالغ ہونے سے پہلے اسلام قبول کیا۔
(ابن سعد، الطبقات الکبری، 4: 142)
(3) سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ گیارہ سال کی عمر میں ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے۔
(الحاکم، المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابۃ، 3: 476، الرقم:5775)
(4) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو دس سال کی عمر میں نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کیا تو آپ ﷺ نے خدمت کے لیے قبول فرمایا۔
(العسقلانی، الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ، 1: 126)
(5) سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ
انہوں نے تیرہ سال کی عمر میں اپنے آپ کو غزوہ احد میں شرکت کے لیے پیش کیا۔
(الحاکم، المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابۃ، 3: 650، الرقم:6389)
(6) سیدنا عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
آپ رضی اللہ عنہ سولہ سال کی عمر میں غزوہ بدر میں شہید ہوئے۔
(ابن الأثیر، أسد الغابۃ، 2: 376)
(7) یہودی لڑکے کا قبولِ اسلام
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا نبی اکرم ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا۔ وہ بیمار ہوا تو نبی اکرم ﷺ اُس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اس کے پاس بیٹھ کر اس سے فرمایا: اسلام قبول کر لے۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو اس کے پاس تھا اور اُس سے کہا: ابو القاسم ﷺ کی بات مان لو۔ وہ مسلمان ہوگیا۔ نبی اکرم ﷺ یہ فرماتے ہوئے باہر تشریف لائے:
اَلْحَمْدُلِلّٰهِ الَّذِیْ اَنْقَذَهٗ مِنَ النَّار.
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے اسے جہنم سے بچا لیا۔
(البخاری، الصحیح، کتاب الجنائز، باب إذا أسلم الصبی فمات هل یصلی علیه وهل یعرض علی الصبی الإسلام، 1: 455، الرقم:1290)
جبراً اسلام قبول کروانا اور کسی کو قبولِ اسلام سے روکنا جائز نہیں
جبراً اسلام قبول کروانے کے حوالے سے قرآن وحدیث میں بالکل واضح ہے کہ کسی صورت اس عمل کی اجازت نہیں ہے۔ اس کو آئین وقانون کا حصہ بنانے کی کوئی ممانعت نہیں ہے لیکن اس کی آڑ میں اپنی رضامندی سے اسلام قبول کرنے والے شخص کو ایڈیشنل سیشن جج صاحب سے درخواست کے چکروں میں ڈال کر قبولِ اسلام میں تاخیر کروانا اور اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کو اسلام قبول کرنے کی اجازت نہ دینا کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہے کیونکہ جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت پر گامزن فرمادے، اس کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنا جائز نہیں ہے۔
جس طرح جبراً کسی شخص کو اسلام میں داخل ہونے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا عین اسی طرح ایک غیر مسلم کو اسلام قبول کرنے سے روکا بھی نہیں جا سکتا۔ اگر عمر کی قید لگا کر یا دیگر تاخیری ہتھکنڈے استعمال کر کے اسلام قبول کرنے سے روکنے کی کوشش کی جائے تو یہ بھی جبر ہے اور مذہبی آزادی چھیننے کے مترادف ہے۔ یعنی جس طرح اسلام میں قبولِ اسلام کے حوالے سے جبرو اکراہ جائز نہیں، اسی طرح کسی غیر مسلم کو اسلام قبول کرنے سے روکنا اور اس کو اسلام کی برکتوں سے محروم کرنا بھی ہرگز جائز نہیں ہے۔
حاصلِ کلام
مذکورہ بالا تمام دلائل وبراہین سے یہ بات اچھی طرح عیاں ہوتی ہے کہ دینِ اسلام ایک عالمگیر دعوتی دین ہے۔ لہٰذا دینِ اسلام کی دعوت عام کرنا ہمارا ایمانی تقاضا ہے۔ دعوتِ دین کی ذمہ داری نبھانا پیغمبرانہ شیوہ ہے، اس لیے کوئی زمانہ بھی اس عمل سے خالی نہیں رہ سکتا یعنی انسانی تربیت کے لیے یہ ضروری امر ہے۔ جہاں اسلام جبراً کسی کو دائرہ اسلام میں داخل کرنے کی اجازت نہیں دیتا، وہیں ہر عمر کے افراد کو اپنی مرضی اور ارادہ واِختیار سے اسلام قبول کرنے میں رکاوٹ ڈالنے سے بھی منع کرتا ہے۔ اگر جبراً کسی مذہب میں داخل کرنا اِنسانی حقِ آزادی کے خلاف ہے تو اِسی طرح اپنی خوشی سے اسلام قبول کرنے سے منع کرنا بھی حقِ آزادی پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔ لہٰذا اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کو قبولِ اسلام کی اجازت نہ دینا اور اٹھارہ سال سے زائد عمر کے افراد کو اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنے کی خواہش رکھنے کے باوجود فوری اسلام میں داخل ہونے سے محروم کرنا یعنی تاخیری ہتھکنڈے استعمال کرنا، اِنسانی حقِ آزادی کی خلاف ورزی اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے جسے نہ صرف اسلام بلکہ مہذب دنیا کے تمام عصری قوانین ناجائز قرار دیتے ہیں۔