اہلِ علم جانتے ہیں کہ ایک مضمون ہوتا ہے اور ایک اس کا عنوان جو نفسِ مضمون کی نشاندہی کرتا ہے۔ اصل مقصود تو مضمون ہی ہوتا ہے۔ عنوان کا قدیم یا جدید ہونا اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ مضمون قدیم ہے یا جدید۔ ہوسکتا ہے مضمون صدیوں پرانا ہو مگر عنوان و نام بعد میں تجویز ہوا ہو۔ نئے عنوان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مضمون بھی نیا ہے۔
مثلاً: علمِ تفسیر کی موجودہ تمام کی تمام اصطلاحات جدید ہیں۔ عہدِ رسالت ﷺ میں ان اصطلاحات کے وضع کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی۔ بعد میں جب یہ ایک باقاعدہ فن بن گیا تو اس کی اصطلاحات اور عنوان کی ضرورت ہوئی۔ اب اگر نئی اصطلاحات کی بنیاد پر قرآن مجید اور اس کی تفسیر کے علم کو ہی رد کردیا جائے تو یہ قرآن کی خدمت اور دانائی نہ ہوگی۔ یہی حال دوسرے علوم حدیث و فقہ وغیرہ کا ہے۔ ان کی موجودہ اصطلاحات باقاعدہ ایک فن کی شکل میں عہدِ نبوی ﷺ کے بہت بعد میں وجود میں آئیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اصطلاحات مقصود بالذات نہیں ہوتیں بلکہ مقصود اصلِ مضمون ہوتا ہے۔ کیا ہم اصطلاحات کے جدید ہونے پر قرآن و سنت اور فقہ کو چھوڑ دیں گے؟ ہرگز نہیں۔
اسی طرح تصوف کے ساتھ ہوا۔ تصوف بنیادی طور پر تزکیۂ نفس، تصفیۂ باطن اور تحلیۂ اخلاق کا نام ہے جو شریعت کا مطلوب اور رسالت کے اساسی مقاصد میں داخل ہے۔ یہ مضمون قرآن مجید میں بھی ہے اور حضور خاتم الانبیاء ﷺ کی تعلیمات میں بھی۔ نفسِ مضمون پہلے سے موجود تھا البتہ اس کی اصطلاحات بعد میں وضع ہوئیں۔ اس بنیاد پر تصوف کو غیر اسلامی یا غیر شرعی چیز تصور کرنا جہالت یا تعصب پر مبنی ہے۔
تصوف اور فقہ کا منبع ایک ہے
جس طرح فقہ و اجتہاد اور قیاس کا اصل سرچشمہ و منبع قرآن و سنت ہے۔ قرآن و سنت ہی سے فقہی مسائل و احکام کا استنباط و استخراج کیا جاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح تصوف یا صوفیاء کی زبان میں راہِ سلوک و طریقت کی اساس بھی قرآن و سنت رسول ﷺ پر ہی رکھی گئی ہے۔ لہذا فقہ اور اجتہاد و قیاس کے ذریعے قرآن و سنت سے مستنبط احکام کو تو عین شریعت سمجھنا اور صوفیاء و تصوف کی راہ کو خلافِ شریعت سمجھنا نقلاً و عقلاً صحیح نہیں ہے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی نے شاہ اسماعیل کے حوالے سے لکھا ہے:
فقہاء کے پیدا کیے ہوئے قیاسی نتائج کو تو شرعی علوم میں شمار کرنا لیکن ائمہ صوفیاء نے شرعی نصوص ہی سے جن مسائل کا استنباط کیا ہے ان پر بدعت وغیرہ کے الفاظ کا اطلاق آخر کیسے درست ہوسکتا ہے؟ مزید لکھتے ہیں:
فجمیعها علوم شرعیة وائمتها مویدون من الغیب ومقلدوهم متبعون للحق.
فقہ ہو یا تصوف یا کلام یہ سارے علوم؛ شرعی علوم ہی ہیں اور ان دینی علوم کے سارے ائمہ کی تائید غیب سے کی گئی ہے اور ان کے مقلدین حق ہی کے پیرو ہیں۔
پھر علماء اور صوفیاء کے اختلافات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مولانا موصوف لکھا ہے:
وانکار اهل فن علی اهل فن اخر ینشا عن الغفلة بمقاصدهم ومبادیهم وطریق قیاسهم فینسبون تارة مسائلهم التی فرعوھا الی البدعة.
(مولانا مناظر احسن گیلانی، مقالہ تصوف اور اس کے دو طریقے، مشمولہ در مقالات احسانی، ص: 29)
مذکورہ بالا دینی علوم جن میں تصوف بھی شریک ہے، ان میں سے کسی علم کے فن والے دوسرے فن والوں کا جو انکار کرتے ہیں تو یہ ساری باتیں صرف غفلت سے پیدا ہوئی ہیں یعنی ہر فن والے کی دوسرے فن والوں کے مبادی اور مقاصد سے ناواقفیت کا نتیجہ ہیں۔
جس طرح فقہ کے سارے مسائل کا صراحتاً ذکر شرعی نصوص میں نہیں پایا جاتا لیکن تصریحی مسائل کو پیش نظر رکھ کر ائمہ فقہ و اجتہاد نے مسائل کا حل دیا ہے، ائمہ صوفیاء نے بھی یہی کیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر فن کی جزئیات (مثلاً فقہی مسائل) کا بہت بڑا حصہ ایسا ہے جن کے متعلق صاحبِ شریعت سے صراحتاً حکم منقول نہیں ہے بلکہ اجتہاد سے کام لے کر منصوصاتِ شرعیہ سے بطور نتیجہ ان کو پیدا کیا گیا ہے۔ پھر جب فقہی جزئیات کو بدعت کہنا صحیح نہیں ہے، اسی طرح صوفیہ کے پیدا کیے ہوئے اجتہادی نتائج پر بے دھڑک ’’بدعت‘‘ کا ہتھیار چلا دینا، خود سوچنا چاہیے کہ کس حد تک درست ہوسکتا ہے۔
مولانا مناظر احسن گیلانی نے مشہور سلاسلِ طریقت میں اختلاف کی نوعیت بتاتے ہوئے فرمایا ہے:
جیسے فقہ میں باوجود اختلافات کے حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی مکاتبِ خیال اہل السنت یا اہلِ حق ہی کے مکاتبِ خیال سمجھے جاتے ہیں، اسی طرح صوفیوں کے مختلف طرق و سلاسل قادری،نقشبندی، سہروردی اور چشتی وغیرہ کے متعلق یہی باور کیا جاتاہے کہ ان میں ہر طریقہ صحیح اور درست ہے۔ صوفیوں کے ان مختلف طریقوں میں جو اختلافات پائے جاتے ہیں، ان کا تعلق صاحبِ طریقہ کے فطری رجحانات یا ان لوگوں کے خصوصی حالات سے ہے جن میں پہلے پہلے یہ طریقہ مروج ہوا۔ (ایضاً، ص: 30، 31)
فقہ کا تعلق احکام کے ظاہر اور تصوف کا تعلق احکام کے باطن سے ہے
فقہ اور تصوف کے درمیان دوسرا تعلق یہ ہے کہ فقہ احکامِ شریعت کے ظاہر یا احکام کی ظاہری شکل و صورت سے بحث کرتا ہے جبکہ تصوف ان احکام کے باطن اور روح سے۔ فقہاء اسلام نے نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور دوسری عبادات کے ظاہری احکام اور آداب و شرائط بالتفصیل بیان کیے ہیں مگر جہاں تک ان عبادات کی روح یعنی اخلاص نیت، خشوع خضوع، خالصتاً لوجہ اللہ، خشیت و رضائے الہٰی اور حضورِ قلب کا تعلق ہے، فقہ کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ فقہاء اس میں معذور بھی تھے اور شرعاً اس کے مکلف بھی نہیں تھے۔ ان کی نگاہ جہاں تک جاسکتی تھی وہاں تک چلے آئے، آگے دل کا معاملہ تھا اور دل کی دنیا میں محض فقیہ کا گزر نہیں ہوتا۔ صوفیہ چونکہ اس کوچہ کے محرمِ اسرار تھے، اس لیے وہی اس نادیدہ وادی اور افعال القلب کے احکام و آداب مقرر کرنے کا حق رکھتے تھے۔ اس سلسلہ میں ارکانِ اسلام کے ظاہر اور باطن کے امور پر غورو فکر سے یہ مسئلہ بخوبی واضح ہوجاتا ہے۔ ذیل میں ارکانِ اسلام کی امثال کے ذریعے زیرِ بحث موضوع واضح کیا جارہا ہے:
(1) نماز کا ظاہر و باطن
فقہاء و مجتہدین امت رحمہم اللہ نے بڑی شرح و بسط کے ساتھ نماز کے احکام و شرائط بیان کیے ہیں لیکن صوفیہ نے قرآن و سنت کی روشنی اور اپنے نورِ بصیرت سے نماز کی اصل روح کو سمجھا اور اس کے اہتمام کے لیے ایسے آداب مقرر کیے جن کا تعلق نماز کے باطنی پہلو سے تھا۔
نماز سے قبل فقہاء نے جن شرائط کو ادائیگی نماز کے لیے ضروری و لازمی قرار دیا ہے، صوفیہ ان کے علاوہ بھی چند شرائط کو قبولیتِ نماز کے لیے ضروری ٹھہراتے ہیں۔ لیکن اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اہلِ باطن اور صوفیاء نے علماء شریعت کے بیان کردہ شرائط میں اضافہ کرکے دین میں کوئی تبدیلی کی ہے، نہیں، بلکہ انھوں نے فقہی مسائل کے ساتھ ساتھ باطنی اور روحانی آداب بیان کرکے نماز کی ظاہری اور باطنی تکمیل کا سامان کیا ہے تاکہ نماز روح و جان سے خالی ہوکر محض ایک جسمانی ڈھانچہ نہ رہ جائے۔ مثلاً:
٭ شرائط نماز میں ایک لازمی شرط طہارت ہے۔ فقہاء کے نزدیک ظاہری نجاست سے پاک ہونا شرط ہے جبکہ صوفیہ کے نزدیک باطن میں شہوتوں سے پاک ہونا بھی اس میں شامل ہے۔ اسی طرح کپڑے کا رجس و ناپاکی سے پاک ہونا فقہاء کے نزدیک نماز کے لیے شرط ہے جبکہ صوفیہ کے نزدیک باطن میں کپڑے کا حلال کمائی سے ہونا بھی شرطِ نماز ہے اور اس شرط کی بنیاد غالباً وہ تاکیدی حدیث ہے جو حضرت عبداللہ بن عمرg سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
من اشتری ثوبا بعشرة دراهم وفیه درهم حرام لم یقبل الله تعالیٰ له صلوٰة مادام علیه.
(مشکوٰۃ المصابیح، باب الکسب وطلب الحلال، ص: 243)
جس آدمی نے دس دراہم کا کوئی کپڑا خریدا جن میں ایک درہم حرام کا بھی شامل تھا توجب تک یہ کپڑا اس کے جسم پر رہے گا، اللہ تعالیٰ اس کی کوئی نماز قبول نہیں فرمائے گا۔
- اسی طرح ایک حدیث نبوی ﷺ ’’لا صلوۃ الابحضور القلب‘‘ میں فقہاء نے نفی فضیلت مراد لی ہے یعنی فضیلتِ نماز کا حصول حضورِ قلب کے بغیر ممکن نہیں ہے، اگرچہ بے حضور جائز ہے اور روا ہوجائے گی مگر مشائخِ طریقت حقیقتِ فضیلت مرادلیتے ہیں اور کہتے ہیں جس نماز میں حضور قلب نہ ہو، وہ روا ہی نہیں۔
خواجہ نصیرالدین چراغ دہلویؒ فرماتے ہیں:
اعضاء و جوارحِ جسمانی کا قبلہ کعبہ شریف ہے۔ اگر اعضاء و جوارح کعبہ کی طرح متوجہ نہ ہوں گے (جسے فقہاء کی اصطلاح میں استقبالِ قبلہ کہا جاتاہے) تو نماز درست نہ ہوگی۔ اسی طرح قبلۂ دل ذات پاک حق تعالیٰ ہے، اگر دل اپنے قبلہ سے پھر جائے تو پھر کیسی نماز؟ (ملفوظات خواجہ نصیرالدین چراغ دہلوی مرتبہ حمید شاعر قلندر (اردو ترجمہ)، ص267)
- نماز میں داخل ہونے کے لیے صوفیہ جن آداب کا ذکر کرتے ہیں ان میں نیت کے ساتھ تکبیرِ اولیٰ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ حضرت جنید بغدادیؒ کا بیان ہے کہ ہر چیز کی صفوت ہوتی ہے اور نمازکی صفوت (خالص اور عمدہ چیز) تکبیر اولیٰ ہے۔ شیخ ابو سعید الخراز کہتے ہیں کہ بندہ جب اپنے دونوں ہاتھ تکبیر کے لیے اٹھائے تو اس وقت اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی کے سواء اور کوئی چیز نہیں ہونی چاہیے۔
- قرأت کے متعلق صوفیہ کا ادب یہ ہے کہ وہ دل کے کانوں سے حاضر ہو گویا اللہ تعالیٰ سے سن رہا ہے۔ رکوع کے بارے میں صوفیہ کا کہنا ہے کہ انسان جب رکوع کرے تو اپنے آپ کو عرش کے نزدیک محسوس کرے اور تسبیح پڑھتے وقت اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر عظمت والی کوئی چیز اس کے دل میں نہ ہو۔ جب رکوع سے سر اٹھائے اور تحمید پڑھے تو جان لے کہ اللہ تعالیٰ اسے سن رہا ہے۔ سجدے کا ادب یہ ہے کہ وہ دل میں یہ محسوس کرے کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ قریب کوئی نہیں ہے اور نہ اس سے بڑھ کر عزت والا اور بزرگ کوئی ہے۔ (علی ہجویریؒ، کشف المحجوب، ص: 263)
(2) روزے کا ظاہر و باطن
روزے کی اصل ’’امساک‘‘ ہے اور اس میں تمام طریقت مضمر ہے۔ اس کا ادنیٰ درجہ بھوک کا روزہ ہے جو ماہِ رمضان کا چاند دیکھنے سے ایک ماہ تک ہر عاقل، بالغ، تندرست، مقیم مسلمان پر فرض ہے۔ شیخ علی ہجویریؒ کے بقول امساک کے لیے شرائط ہیں یعنی جس طرح پیٹ کو خوردونوش سے روکا جاتا ہے، اسی طرح آنکھ کو بدنگاہی سے، کان کو لہو و غیبت سننے سے، زبان کو لغو باتیں کرنے سے اور جسم کو دنیا کی متابعت اور شرع کی مخالفت سے باز رکھنا چاہیے۔ (ایضاً، ص 280)
(3) زکوٰۃ کا ظاہرو باطن
زکوٰۃ کا تعلق ظاہر ہے کہ مال سے ہے اور صوفیہ عموماً مال سے محروم ہوتے ہیں اور اگر ان کے پاس مال ہوتا بھی ہے تو اس کی محبت جو شرعاً مذموم چیز ہے، اس سے ان کے پاکیزہ قلوب بہر کیف خالی ہوتے ہیں۔ مال کو جمع کرنا اور دنیا داروں کی طرح جوڑ جوڑ کر رکھنا، ان کا شیوہ نہیں ہوتا۔ فقہاء کے بیان کردہ نصابِ زکوٰۃ کا ذکر کرتے ہوئے صوفیہ کہتے ہیں کہ فقیر پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہی نہیں کیونکہ وہ مال جمع کرکے اتنی دیر نہیں رکھتا کہ اس پر پورا سال گزر جائے۔
معروف صوفی شیخ ابوبکر شبلیؒ سے ایک عالم نے پوچھا کہ زکوٰۃ کتنی دینی چاہیے؟ انھوں نے جواب دیا کہ جب دل میں بخل ہو اور مال حاصل ہوجائے تو تمہارے مذہب کے مطابق دو سو درہم میں سے پانچ درہم اور بیس دینار میں سے نصف دینار دینا چاہیے جبکہ ہمارے مذہب میں کوئی چیز ملکیت میں رکھنی ہی نہیں چاہیے۔ عالم نے پوچھا: تمہارا امام کون ہے؟ شیخ شبلی نے جواب دیا: حضرت ابوبکر صدیقg، جنھوں نے اپنا تمام مال راہِ خدا میں دے دیا اور جب رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ اہل و عیال کے لیے کیا چھوڑا تو جواب دیا: اللہ اور اس کا رسول ﷺ ۔ (کشف المحجوب، ص274)
یہی بات حضرت بابا فریدالدین گنج شکر نے یوں بیان فرمائی کہ زکوٰۃ تین قسم کی ہوتی ہے:
1۔ زکوٰۃِ شریعت
2۔ زکوٰۃِ طریقت
3۔زکوٰۃِ حقیقت
شریعت کی زکوٰۃ یہ ہے کہ اگر دو سو درہم ہوں تو ان میں سے پانچ درہم زکوٰۃ راہِ خدا میں خرچ کرے۔ طریقت کی زکوٰۃ یہ ہے کہ دو سو میں سے پانچ اپنے پاس رکھے اور باقی دراہم راہِ خدا میں خرچ کردے اور حقیقت کی زکوٰۃ یہ ہے کہ پانچ درہم بھی اپنے پاس نہ رکھے بلکہ تمام کے تمام راہِ خدا میں تقسیم کردے۔ اس واسطے کہ درویشی خود فروشی ہے۔ (راحۃ القلوب، ملفوظات بابا فریدالدین گنج شکر مرتبہ محبوب الہٰیؒ، ص6)
(4) حج کا ظاہرو باطن
اہلِ تصوف کے یہاں حج محض ظاہری عبادت ہی نہیں بلکہ اس کے اندر اہلِ نظر کے لیے بے شمار روحانی اور باطنی فوائد پنہاں ہیں۔ اسرارِ شریعت کے ماہرین نے بھی اگرچہ حج کے معنوی فضائل کا ذکر کیا ہے لیکن صوفیہ نے جس خوبی کے ساتھ ارکانِ حج کے باطنی پہلوؤں پر وشنی ڈالی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ علماء تصوف نے حج سے متعلق صوفیہ کے آداب پر طویل بحث کی ہے۔ جس کا ماحصل یہ ہے کہ:
میقات پہنچ کر وہ اپنے جسم کو پانی سے اور دل کو توبہ سے غسل دیتے ہیں۔۔۔ احرام کے لیے کپڑے اتارتے وقت دل سے کینہ اور حسد نکال پھینکتے ہیں۔۔۔ تلبیہ کہنے کے بعد صوفیہ، نفس شیطان اور خواہش کی دعوت کا جواب نہیں دیتے۔۔۔ جب ظاہری آنکھوں سے خانہ کعبہ کی طرف نظر کرتے ہیں تو دل کی آنکھوں سے اس ذات کی طرف دیکھتے ہیں، جس نے انہیں کعبہ کی دعوت دی ہے۔۔۔صوفیہ جب اپنے جسموں کے ساتھ کعبے کا طواف کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے ارشاد وتری الملائکۃ حافین من حول العرشکو یاد کرکے گویا فرشتوں کو عرش کا طواف کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔۔۔ جب مقامِ ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں تو جان لیتے ہیں کہ یہ اس بندے کا مقام ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایفائے عہد کیا ہے۔۔۔ صوفیہ حجر اسود کو بوسہ دیتے وقت سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بیعت کررہے ہیں۔۔۔ صوفیہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتے وقت نفس، خواہش اور شیطان سے فرار اختیار کرتے ہیں۔۔۔ منیٰ ان کے لیے لقاء اور عرفات میں وقوف حشر و نشر اور قبروں سے اٹھنے کی یاد دہانی ہے۔۔۔ مزدلفہ کو چھوڑتے وقت وہ دنیا و آخرت کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔۔۔ جب وہ رمی کے لیے سنگریزے توڑتے ہیں تو پتھروں کے ساتھ اپنے ارادوں اور شہوتوں کو بھی توڑتے ہیں۔۔۔ جب رمی جمار کرتے ہیں تو اپنے اعمال کو ملحوظ رکھتے ہوئے حسنِ ادب کے ساتھ رمی کرتے ہیں۔۔۔ اہلِ تصوف سر مونڈھتے وقت دل سے حُبِ ستائش کو نکال پھینک دیتے ہیں۔۔۔ جب جانور ذبح کرتے ہیں تو ان کا ادب یہ ہوتا ہے کہ وہ قربانی کرنے سے پہلے اپنے نفس کو ذبح کرتے ہیں۔۔۔ جب طوافِ زیارت کرنے کے بعد واپس لوٹتے ہیں اور غلافِ کعبہ کو پکڑتے ہیں تو اس کے بعد وہ غیراللہ سے کوئی تعلق پیدا نہیں کرتے۔ (ابو نصر سراج، کتاب اللمع فی التصوف، ص 228، 229)
شریعت و طریقت کا باہمی تعلق
شریعت و طریقت کے باہمی تعلق کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ شریعت کے دو درجے ہیں:
1۔ ایک درجہ فرائض و واجبات بجا لانے اور منہیات و محرمات سے پرہیز کاہے ۔ اس سے آدمی شریعت کی حدود میں داخل ہوتاہے۔
2۔ دوسرا درجہ سنن زوائد، مستحبات، نوافل وغیرہ کو بجا لانا اور شبہات و مکروہات سے پرہیز کا ہے جس کے بجا لانے سے قربِ خداوندی حاصل ہوتا ہے۔ طریقت اسی دوسرے درجے کا نام ہے۔
شریعت میں کوئی آدمی اس وقت کامل ہوگا جب دونوں درجوں پر عامل ہوگا۔ اگر صرف درجہ اول پر عامل رہا تو اگرچہ شریعت کی حدود میں داخل رہے گا مگر شریعتِ کاملہ، ایمانِ کامل اور ایمان کی حلاوت، لذت اور مٹھاس سے محروم رہے گا۔ (صحیح بخاری،کتاب الایمان)
شریعت اور طریقت دونوں میں نسبت عموم خصوص مطلق کی ہے۔ شریعت شارعe کے افعال سے عبارت ہے اور آپ ﷺ کے افعال بحر توحید کے وہ دُرِّ یکتا ہیں جو تقویٰ اور احتیاط کے ساتھ مخصوص ہیں۔ پس اس اعتبار سے شریعت عام ہے اور طریقت خاص۔ قاعدہ ہے کہ عام کا وجود خاص کے بغیر ممکن ہے لیکن خاص کا وجود عام کے بغیر محال ہے۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ ایک شخص شریعت پر عامل ہو مگر ابھی اس نے طریقت کی راہ میں قدم نہ رکھا ہو، اس کے برعکس یہ محال ہے کہ ایک شخص راہِ طریقت کا سالک ہو اور شریعت پر عامل نہ ہو۔
شریعت اور طریقت کے ساتھ کتبِ سلوک میں معرفت اور حقیقت کی اصطلاحیں بھی استعمال ہوتی ہیں۔ ان سب کے باہمی تعلق کو ایک مثال کے ذریعے یوں واضح کیا جاسکتا ہے کہ شریعت ایک درخت، طریقت شاخیں، معرفت پتے اور حقیقت گویا پھل ہے۔ ان چاروں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ شریعت و طریقت کو الگ الگ یا ایک دوسرے کا معارض سمجھنا گمراہی اور جہالت ہے۔ اچھا درخت وہی سمجھا جاتاہے جو پھل دے۔ اسی طرح شریعت کا وہ عمل بہتر ہے جس پر حقیقت کا پھل لگے۔ درخت پر اگر ٹہنیاں اور پتے نہ ہوں تو بھی وہ درخت یا درخت کاتنا کہلائے گا مگر اس سے کسی کو فائدہ نہ ہوگا۔ پتے نہیں لگ سکتے جب تک کہ شاخیں نہ ہوں اور شاخ کا تووجود ہی درخت کے ساتھ ہے۔ اسی طرح پتے اور پھل بھی بالواسطہ درخت سے متعلق ہیں۔ گویا اول تا آخر شریعت لازم ہے۔ جو لوگ شریعت کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں وہ کفر کرتے ہیں، شریعت کے بغیر کسی شے کا وجود نہیں۔
بعض علماء شریعت کو دودھ اور طریقت کو مکھن سے بھی تشبیہ دیتے ہیں۔ ظاہر ہے دودھ ہوگا تومکھن نکل سکے گا۔ دودھ کے بغیر ’’جعلی مکھن‘‘ تو نکل سکتا ہے مگر اصلی مکھن دودھ کے بغیر نہیں نکلا کرتا۔
تصوف اور قرآن و سنت
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صادقین، قانتین،مخلصین، محسنین، عابدین، خاشعین،متوکلین، صابرین، اولیاء، ابرار اور اس طرح کے دیگر الفاظ کے ذریعے اپنے نیک، مقبول اور صالح بندوں کا ذکر کیا ہے۔ صدق، اخلاص، احسان، عبادت، خشوع و خضوع، فقر، توکل، صبر، شکر چونکہ صوفیہ کی امتیازی صفات ہیں، اس لیے یہ کہنا درست ہے کہ صوفیہ معنوی طور پر ان میں شامل اور داخل ہیں۔
اسی طرح قرآن مجید میں توبہ، انابت، توکل، قرب، خوف، رجا، مشاہدہ، یقین کی تعریفات آئی ہیں، یہی چیزیں تصوف میں احوال یا مقامات کہلاتی ہیں۔ علاوہ ازیں قرآن میں دنیوی زندگی کو لہو و لعب اور دھوکے کی پونجی کہا گیا ہے اور یہی چیز تصوف کی اساس ہے۔ نیز قرآن حکیم میں اخلاقِ حسنہ پر زور دیا گیا ہے اور یہ سب کو معلوم ہے کہ تصوف اخلاقِ حسنہ کا دوسرانام ہے۔
التصوف هوالاخلاق الرضیة، التصوف هوالحریة والفتوة وترک التکلف والسخاء وبذل الدنیا.
(نافع السالکین ملفوظات خواجہ شاہ سلیمان تونسوی مرتبہ امام الدین (اردو ترجمہ)، ص346)
تصوف پسندیدہ اخلاق کا نام ہے۔ تصوف آزادی و جوانمردی اختیار کرنے کا نام ہے، تکلفات کے چھوڑنے، سخاوت اور دنیا کے خرچ کرنے کا نام ہے۔
احادیث رسول ﷺ میں بھی صدیقین، صالحین اور دوسرے ناموں سے مردانِ خدا کی تعریف و توصیف کی گئی ہے۔علاوہ ازیں صدق اخلاص، صبر، شکر، فقر، زہد، قناعت، توکل، رضا بالقضا جیسے قلبی و روحانی اعمال کی تاکید سے کتبِ حدیث بھری پڑی ہیں۔ صوفیاء ان ہی افعال القلب کی درستگی پر زور دیتے ہیں۔ صوفیاء کی ساری تعلیمات اور ریاضات و مجاہدات کا بڑا مقصود بھی تزکیہ نفس (نفس کو رذائلِ اخلاق، کبر، حسد، کینہ، حبِ جاہ، حبِ مال، خواہشات نفسانی وغیرہ سے پاک کرنا) اور دل کی اصلاح ہوتا ہے۔ دل کی حیثیت انسانی جسم میں بادشاہ کی ہوتی ہے اور باقی سارے اعضاء و جوارح کی حیثیت رعایا کی سی ہے۔ اسی لیے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تھا:
الا ان فی الجسد مضغة اذا صلحت صلح الجسد کله واذا فسدت فسد الجسد کله الا وهی القلب.
لوگو! کان کھول کر سن لو کہ جسم میں گوشت کا ایک ایسا ٹکڑا بھی ہے کہ اگر وہ صحیح ہوجائے تو سارا جسم صحیح ہوجاتا ہے اور اگر وہ خراب ہوجائے تو سارا جسم خراب ہوجاتاہے، سن لو وہ گوشت کا ٹکڑا انسان کا دل ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ص: 241)
تصوف کی متعددکتابوںمیں صحیحین کی حدیث جبرائیل کو سلوک کی اساس بنایا گیا ہے۔ حدیث جبرائیل میں احسان کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ:
ان تعبدالله کانک تراه فان لم تکن تراه فانه یراک.
(صحیح بخاری، کتاب الایمان، ج: 1، ص: 12)
تو اللہ کی عبادت اس طرح کر گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے پس اگر تو اسے نہ دیکھ سکے تو یہ یقین رکھ کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔
اسی احسان کی منزل کو پانے کی مخلصانہ سعی کا نام صوفیاء کی اصطلاح میں تصوف و طریقت ہے۔
صوفیاء اور اتباعِ قرآن و سنت
تصوف کی مستند کتابوں؛ قوت القلوب، رسالہ قشیریہ، کشف المحجوب، کتاب اللمع،عوارف المعارف، احیاء علوم الدین، حلیۃ الاولیاء، تذکرۃ الاولیاء، سرالاولیاء، فوائدالفواد اور خیرالمجالس وغیرہ کے صفحے کے صفحے الٹ جایئے، صرف زبان ہی سے نہیں بلکہ عملاً کتاب و سنت کی تلقین ملے گی۔ ذیل میں چند اولیاء و صوفیاء کے اقوال اسی ضمن میں درج کیے جارہے ہیں:
1۔ مشہور صوفی حضرت خواجہ جنید بغدادیؒ اس منزل کی رسم و راہ کا اعلان اس طرح کرتے ہیں:
’’یہ راہ تو صرف وہی پاسکتا ہے جس کے سیدھے ہاتھ میں قرآن مجید ہو اور بائیں ہاتھ میں سنتِ مصطفی ﷺ اور ان دونوں چراغوں کی روشنی میں راستہ طے کرے تاکہ نہ تو شبہ کے گڑھوں میں گرے، نہ بدعت کے اندھیرے میں پھنسے۔‘‘ (خواجہ فریدالدین عطار، تذکرۃ الاولیاء)
2۔ مشائخ نے جگہ جگہ اپنے متعلقین اور مریدین کو ہدایت کی ہے کہ اگر کسی شخص کی روحانی عظمت کا اندازہ لگانا ہو تو اس کی زندگی کو شریعت و سنت کے آئینہ میں دیکھا جائے۔ حضرت کلیم اللہ دہلوی ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں:
’’اے برادر! اگر تم آج فقراء کے مراتب کا پتہ لگانا چاہو تو ان کے اتباعِ شریعت پر نظر کرو کہ شریعت معیار ہے۔ اسی کسوٹی پر فقیر کی حقیقت روشن ہوجاتی ہے۔‘‘ (مکتوبات کلیمی، ص72، مکتوب95)
3۔ شیخ حسین نوریؒ فرماتے ہیں کہ:
’’اگر ایک شخص کو دیکھو کہ خداوند تعالیٰ کے ساتھ ایسی حالت کا دعویٰ کرتا ہے جو اس کو علمِ شریعت کی حد سے نکال دیتا ہے تو اس کے قریب نہ جاؤ اور اگر ایک شخص کو دیکھو کہ وہ ایک ایسی حالت کا دعویٰ کرتاہے جس کی کوئی دلیل نہیں اور ظاہری احکام کی پابندی اس کی شہادت نہیں دیتی تو اس کے دین پر تہمت لگاؤ۔‘‘ (علامہ ابن جوزی، تلبیس ابلیس، ص178۔179)
4۔ امام ابوالقاسم القشیری کا فرمان ہے کہ:
’’جان رکھو اولیاء اللہ کی سب سے بڑی کرامت اطاعتِ الہٰی پر ہمیشگی اور معاصی ومنکراتِ شریعت سے محفوظ رہنا ہے۔‘‘ (رسالہ قشیریہ، ص: 623)
5۔ خود صوفیاء کے نزدیک حسی کرامتوں کی اتنی اہمیت نہیں جتنی کہ عام لوگوں نے سمجھ لی ہے اور کرامت ہی کو معیارِ ولایت ٹھہرالیا گیا ہے۔ بقول معروف صوفی حضرت بایزید بسطامی:
ولایت کا معیار تو سراسر اتباعِ شریعت، اوامر و نواہی کی پابندی، حدودِ الہٰی کی محافظت اور اتباعِ سنت ہے۔ اگر کوئی آدمی کسی ایک سنت کا بھی تارک ہے تو وہ ولایت کے درجہ پر فائز نہیں ہوسکتا۔ (ابن خلکان، وفیات الاعیان، ج: 2، ص: 213)
شاید ہی دنیا میں کسی پیغمبر یا مذہبی رہنما کے احوالِ زندگی کی اتباع اس محبت اور عقیدت کے ساتھ کی گئی ہو جیسا کہ صوفیاء نے رسول اکرم ﷺ کی سنت کا تتبع کیا ہے۔ انھوں نے حیاتِ قدسی کی ایک ایک ادا اور اس کی ایک ایک سنت کو اخلاق و انسانیت کی معراج سمجھا ہے اور اس سے نزدیک ہونے کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی سعادت اور ماحصل قرار دیا ہے۔