آزادیٔ اظہار کے حق کو بنیادی حق تسلیم اور اس کا خیر مقدم کئے بغیر کوئی ملک، معاشرہ، تحریک، جماعت اور سیاسی، سماجی، مذہبی آرگنائزیشن عصری تقاضوں کے مطابق نہ صرف اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتی بلکہ اس کے لئے فکری اعتدال اور توازن قائم رکھنا بھی ممکن نہیں رہتا۔ اسلام کا نظامِ سیاست و معاشرت شورائیت کے اصولوں پر استوار ہے۔ مشاورت پر مبنی اقدار آزادیٔ اظہار کے حق کو بھی یقینی بناتی ہیں۔ سورہ شوریٰ میں اللہ رب العزت مومنین کے بارے میں فرماتا ہے: ’’اور ان کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے۔‘‘ ایک اور مقام پر فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’ اور (اہم) کاموں میں ان سے مشورہ کیا کریں‘‘۔
مغرب کی طرف سے عام طور پر عالمِ اسلام پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اسلام میں اظہارِ رائے کی آزادی محدود ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے سب سے پہلے اظہارِ رائے کی آزادی کا نا صرف فلسفہ و تصور دیا بلکہ اظہار و بیان کو ایک لازمی حق کے طور پر تسلیم کیا۔ البتہ آزادیٔ اظہار و بیان کے حق کو مسلّمہ اور محفوظ بنانے کے لئے کچھ شرائط بھی لاگو کیں تاکہ آزادیٔ اظہار کے حق کو استعمال کرتے ہوئے کسی دوسرے کا حق متاثر نہ ہو۔ کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہو اور چادر رچار دیواری کا تقدس پامال نہ ہو۔ نفوسِ قدسیہ کے حوالے سے کسی کے مذہبی جذبات مجروح نہ ہوں۔ اقتدارِ اعلیٰ اور مقدس اور منزہ عن الخطاء ہستیوں کی تقدیس پر حرف نہ آئے۔ اسی لئے قرآن مجید میں سورۃ الاحزاب میں آیت نمبر ۷۰ میں اللہ رب العزت نے فرمایا: ’’اے ایمان والو اللہ سے ڈرا کرو اور سیدھی بات کہا کرو۔‘‘ یعنی بات کرنے کی آزادی اور مکمل اجازت ہے البتہ یہ حق؛ حق گوئی کے ساتھ مشروط ہے اور اسلام نے بدگمانی، تہمت، غیبت، الزام تراشی اور تجسس سے سختی سے منع کیا ہے۔ آزادی ٔ اظہار کا حق ان اسلامی اور اخلاقی اصولوں و تعلیمات پر زور دیتا ہے۔
اسلام سے قبل لوگ غلامانہ زندگی بسر کرتے تھے، ان پر مختلف بادشاہ اور مطلق العنان افراد حکومت کرتے تھے اور انہی بادشاہوں اور مطلق العنان شخصیات کے زیر اثر معاشرہ اور اس کی اقدار ہوتی تھیں۔مطلق العنانی کا یہ عالم تھا کہ یہ بادشاہ مصنوعی خدائوں کا روپ دھار لیتے تھے اور ان کا کہا ہوا ہی حرفِ آخر ہوتاتھا اور حکم عدولی یا اختلاف رائے کرنے والے قابلِ گردن زدنی قرار دے دئیے جاتے تھے ۔ اسلام نے آزادی ٔ اظہار اور شورائیت کے نظام کے تحت سوسائٹی کو گفت و شنید کے راستے پر ڈالا۔
آزادیٔ اظہار ،احتساب اور خود احتسابی کی اقدار اسلامی نظامِ سیاست و معاشرت کی شان اور روح ہیں۔ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو یہ حق دیا ہے کہ وہ سیاسی، سماجی، معاشی امور و معاملات میں حاکمِ وقت سے سوال بھی کر سکتے ہیں اور مکالمہ بھی۔ اسلامی سربراہان مملکت کو قبل از اسلام اور قبل از مسیح کے ازمنہ کے فراعین کی طرز پر سیاہ و سفید کے مختار کلِ ہونے کا سٹیٹس نہیں دیا گیا۔ احتساب اور آزادی اظہار کی ایک اور قابلِ فخر نظیر اسلامی معاشرے کے اندر خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بڑے ایمانی جوش و خروش اور احساسِ تفاخر کے ساتھ بیان کی جاتی ہے کہ خلیفۂ وقت خطبہ کی ادائیگی کے لئے منبر پر جلوہ افروز ہوئے تو سوال کیا گیا: آپ رضی اللہ عنہ نے جو کپڑا زیب تن کررکھا ہے وہ ہمیں بھی ملا مگر پیمائش میں کم ہونے کے باعث ہماری ستر پوشی نہ ہو سکی جبکہ آپ قدوقامت میں ہم سے زیادہ ہیں تو آپ کا جوڑا کیسے بن گیا؟ تو اس کا جواب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرف سے اذن ملنے پر آپ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے دیا کہ جو کپڑا مجھے ملا تھا وہ بھی میں نے اپنے والد محترم کو دے دیا۔تب ان کا جوڑا بن سکا۔ تسلی بخش جواب میسر آنے پر آپ رضی اللہ عنہ خطبہ جاری رکھ سکے۔ تو گویا اسلام ہی کو آزادیٔ اظہار رائے اور احتساب کی ٹھوس اور مضبوط بنیادیں فراہم کرنے کا اعزاز اور امتیاز حاصل ہے۔
اسی طرح آزادیٔ اظہار اور محاسبہ کی ایک دوسری مثال بھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہدسے جڑی ہوئی ہے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں مصر کے حاکم تھے۔مصر کا ایک باشندہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: ’’اے امیر المومنین! میں ظلم سے آپ کی پناہ لینے آیا ہوں‘‘۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’تم نے ایسے آدمی کی پناہ حاصل کی جو تمہیں پناہ دے سکتا ہے‘‘۔
مصری بولا: ’’میں نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے کے ساتھ دوڑ میں مقابلہ کیا۔میں اس سے آگے بڑھ گیا تو وہ مجھے کوڑے مارنے لگا اور کہنے لگا: ’’میں شریف خاندان کا بیٹا ہوں۔‘‘ یہ شکوہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مصر کے حاکم حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ تشریف لائیں۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے کے ساتھ امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے پوچھا: ’’مصری کدھر ہے؟ ’’وہ سامنے آیا تو فرمایا: ’’یہ کوڑا لے اور مار۔‘‘ امیر المومنین کا حکم ملتے ہی مصری حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے پر کوڑا برسانے لگا اور امیر المومنین کہتے جا رہے تھے: ’’شریف خاندان کے بیٹے کو مارو۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مصری نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے کو کوڑے لگائے اور اللہ کی قسم! بہت مارا اور ہم اس کی پٹائی چاہتے بھی تھے لیکن مصری برابر مارے جارہا تھا حتی کہ ہماری خواہش ہوئی کہ اب اس کی پٹائی بند ہو جائے۔
پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مصری سے فرمایا: ’’کوڑا عمرو بن عاص ( رضی اللہ عنہ ) کے بھی لگاؤ (کہ ان کے بیٹے نے ان کی حاکمیت کے زعم میں ہی یہ سب کیا تو قصور وار وہ بھی ہیں)‘‘ مصری نے عرض کی: ’’اے امیر المومنین! ان کے بیٹے نے میری پٹائی کی ہے اور میں نے اس سے قصاص لے لیا۔‘‘
پھر امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنا تاریخی جملہ بیان فرمایا: ’’تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنا رکھا ہے جب کہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا؟‘‘
آج کل آزادیٔ اظہار اور احتساب کا بہت غلغلہ ہے۔ہر شخص اپنا مافی الضمیر بیان کرتے ہوئے اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اپنا مؤقف بیان کرنے اور اپنے اثاثوں کے تحفظ میں آزاد اور خودمختار ہے۔ یہ خودساختہ حق جدید صدی میں دوسروں کے حقوق سلب کرنے اور سوسائٹی کے اجتماعی امن کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں جبکہ قانون اور قرآن و سنت کی رو سے یہ حق مشروط ہیں۔ کسی شخص کو بھی اپنے نظریات، خیالات کے اظہار کے حوالے سے بزورِ طاقت نہیں روکا جا سکتا۔ تاہم اس بات کا خیال رکھنا ازحد ضروری ہے کہ اپنے آزادیٔ اظہار کے حق کو استعمال کرتے ہوئے دوسرے کی عزت اور جذبات کو مجروح نہ ہونے دیا جائے۔ آج سیاست کا سارا کاروبار الزام تراشی، بہتان طرازی، زبان درازی ، کردار کشی اور تہمت کے اردگرد گھوم رہا ہے۔ کسی کے ذاتی معاملات میں دخل دینا اور گروہی مفادات کے لئے رائے زنی کو آزادیٔ اظہار کے بنیادی حق کے پیرائے میں شامل کر لیاگیا ہے۔ آزادیٔ اظہار کے حق اور ہتک عزت کے مابین فرق کو قائم رکھنا ازحد ضروری ہے ۔ فی زمانہ یہ مبحث ناگزیر ہے کہ آزادی اظہار اور دوسروں کے سیاسی، مذہبی، سماجی، معاشی حقوق کا تحفظ کیسے کیا جائے اور اس ضمن میں قانون اور قرآن و سنت کی حدود و قیود پر عمل درآمد کیسے یقینی بنایا جائے؟ بلاشبہ اس ضمن میں اسلام نے مکمل فکری راہنمائی مہیا کی ہے اور آزادیٔ اظہار و بیان اور احتساب کے حوالے سے اسلام کے متعینہ اصول و قواعد پر عمل پیرا ہونے میں ہی آزادیٔ اظہار کے حق کی سلامتی اور سوسائٹی کا امن کارفرما ہے۔