شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی کے قلم سے مورخہ 20 جولائی 2005ء کو تکمیل پذیر ہونے والا عرفان القرآن اپنی نوعیت میں قرآن مجید کا ایک منفرد ترجمہ ہے، جو کئی جہات سے دیگر تراجمِ قر آن کی نسبت نمایاں مقام رکھتا ہے۔ اِس کی درج ذیل خصوصیات اسے دیگر تراجم پر فوقیت دیتی ہیں:
- ہر ذہنی سطح کے لیے یکساں قابلِ فہم اور منفرد اُسلوبِ بیان کا حامل ہے، جس میں بامحاورہ زبان کی سلاست اور روانی ہے۔
- ترجمہ ہونے کے باوجود تفسیری شان کا حامل ہے اور آیات کے مفاہیم کی وضاحت جاننے کے لیے قاری کو تفسیری حوالوں سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ یہ نہ صرف فہمِ قر آن میں معاون بنتا ہے بلکہ قاری کے ایقان میں اضافہ کا سامان بھی ہے۔
- یہ تاثیر آمیز بھی ہے اور عمل انگیز بھی۔ حبّی کیفیت سے سرشار اَدبِ اُلوہیت اور ادبِ بارگاہِ نبوی ﷺ کا ایسا شاہکار ہے جس میں حفظِ آداب و مراتب کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ اِعتقادی صحت و ایمانی معارِف کا مرقع ہے۔
- تجدیدی اہمیت کا حامل دورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق جدید ترین اُردو ترجمہ ہے، جس میں جدید سائنسی تحقیقات کو مدِنظر رکھا گیاہے۔یہ علمی ثقاہت و فکری معنویت سے لبریز ایسا شاہکار ہے، جس میں عقلی تفکر و عملیت کا پہلو بھی پایا جاتا ہے۔ روحانی حلاوت و قلبی تذکر کا مظہر ہے۔ اِس میں نہ صرف قر آنی جغرافیہ کا بیان ہے بلکہ سابقہ اقوام کا تاریخی پس منظر بھی مذکور ہے۔
- اب تک درج ذیل زبانوں میں عرفان القرآن کے تراجم شائع ہوچکے ہیں:
1۔اردو
2۔ انگلش
3۔ نارویجن
4۔فن لینڈ
5۔ ہندی
6۔سندھی
7۔یونانی
8۔بنگالی
9۔کشمیری
10۔پشتو
11۔فرانسیسی
12۔ڈینش
عرفان القرآن کے نام سے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب بانی و سرپرست منہاج القرآن انٹرنیشنل کا مقبولِ خاص و عام قرآن مجید کا اردو ترجمہ تحریک منہاج القرآن کشمیر کی حسنِ سعی سے اب الحمدللہ کشمیری زبان میں منصۂ شہود پر آچکا ہے۔ چند ایام قبل مجھے محترم شیخ مدثر صاحب (مہتمم پروجیکٹ) کی وساطت سے اس کی ایک کاپی وصول ہوئی ہے۔ خوبصورت گیٹ اپ کے ساتھ معیاری کاغذ استعمال کیا گیا ہے۔ دیکھ کر دل باغ باغ ہوا۔
دراصل یہ قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ دنیا بھر کی اکثر و بیشتر زبانوں میں اس کے تراجم اور تفاسیر عالمِ انسانیت کو بدستور ہدایتِ خداوندی سے آشنائی فراہم کررہے ہیں۔ تقریباً دنیا کی 114 زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم کا معرض وجود میں آنا قرآن کے اس بیان کی کھلی تائید و توثیق ہے:
اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَهٗ وَقُرْاٰ نَهٗ. فَاِذَا قَرَاْنٰـهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ. ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَهٗ.
(القیامة، 75: 17 تا 19)
’’بے شک اسے (آپ کے سینہ میں) جمع کرنا اور اسے (آپ کی زبان سے) پڑھانا ہمارا ذِمّہ ہے۔ پھر جب ہم اسے (زبانِ جبریل سے) پڑھ چکیں تو آپ اس پڑھے ہوئے کی پیروی کیا کریں۔ پھر بے شک اس (کے معانی) کا کھول کر بیان کرنا ہمارا ہی ذِمّہ ہے۔‘‘
چنانچہ قرآن کے معانی کا کھول کھول کر بیان کرنے کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے یوں بھی پورا کر دکھایا کہ دنیا کی مختلف زبانوں میں اس کے تراجم و تفاسیر میسر ہیں۔ ورنہ یہ بات اہلِ عرب کے لیے تو بجا تھی مگر عربی زبان سے ناآشنا عجمی ’’ھدی للناس‘‘ کی نعمتِ عظمیٰ سے یکسر محروم رہتے۔ اسی وعدہ الہٰی کے ماتحت کشمیری زبان کو بھی یہ سعادت عرصہ پہلے حاصل ہوچکی ہے جب کشمیر کے میر واعظ خاندان کے ایک چشم و چراغ مولوی محمد یوسف صاحب مرحوم نے کشمیری زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ اور مختصر تفسیر لکھی اور وہ 1889ء میں زیورِ طبع سے آراستہ ہوکر مقبولِ عام ہوئی۔ خوش قسمتی سے ایڈیٹر نصرت الاسلام سرینگر کی وساطت سے اس کی ایک کاپی مجھے تحفتاً ملی تھی۔
آج تقریباً بتیس سال کے بعد علامہ عصر پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب مدظلہ کے عرفان القرآن کا کشمیری ترجمہ بھی میرے ہاتھوں میں ہے۔ میں نے پچھلے چند دنوں میں اس کو کئی جگہوں سے پڑھنے کی سعادت حاصل کی تو محسوس ہوا کہ مولوی محمد یوسف صاحب مرحوم کے ترجمہ ’بیان القرآن‘ کے باوصف ’عرفان القرآن‘ کے کشمیری ترجمے کی اشد ضرورت تھی۔ خاص طورپر ان لوگوں کے لیے جو کشمیری زبان و ادب سے واقفیت اور شغف رکھتے ہیں۔ عرفان القرآن کا یہ کشمیری ترجمہ نہایت آسان، شستہ، رواں اور عام فہم ہونے کے ساتھ ساتھ عصری زبان میں لکھا گیا ہے جو قرآن کے معانی کو قاری کے دماغ میں باسہولت داخل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور دل کی تاروں کو چھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ترجمہ کار نے نہایت عرق ریزی سے کام لیتے ہوئے اور بہت ہی احتیاط کے ساتھ اردو ترجمہ کو کشمیری زبان کے لباس میں بعینہ منتقل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور یہ ترجمہ کار کی ذاتی دلچسپی اور فنی چابکدستی کا غماز ہے۔ اگر مناسب طریقے سے اس کی تشہیر کی گئی تو یہ ترجمہ بفضلِ الہٰی مقبولِ خاص و عام ہوگا کیونکہ عرفان القرآن ایک ایسی شخصیت کے شہوارِ قلم کا نتیجہ ہے جس کے متعلق موافق تو رہے مخالف بھی داد دیئے بغیر نہ رہ سکے۔
لہذا عرفان القرآن کو کشمیری زبان میں منتقل کرنے کا کارنامہ ایک ایسا قدام ہے جو نہ صرف کشمیری زبان و ادب و اہالیانِ کشمیر کے لیے ایک مژدہ جانفزا ہے بلکہ یہ خود کشمیری زبان و ادب کی خوش بختی ہے کہ اس کے لٹریچر میں ایک معتبر کشمیری ترجمۂ قرآن کا اضافہ ہوا ہے اور یہ اس کے علمی سرمایہ میں انتہائی خوبصورت، بابرکت اور گراں قدر تحفہ الہٰی ہے۔ جس عام فہم زبان اور جدید اندازِ اسلوب نیز سائنسی و روحانی حقائق کی روشنی میں یہ ترجمہ لکھا گیا ہے اس کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ بات بلاخوف و تردد کہی جاسکتی ہے کہ یہ ترجمہ قبل ازیں کے کشمیری تراجم سے ملتِ اسلامیہ کشمیر کو بے نیاز کرسکتا ہے۔
ضمناً یہ بات عرض کرتا چلوں کہ کشمیر میں گوجری زبان میں ترجمہ قرآن کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ میری تمنا ہے کہ کاش شیخ الاسلام کے عرفان القرآن کا گوجری زبان میں بھی ترجمہ کیا جائے تاکہ برصغیر ہندو و پاک کے کوہ و دمن اور میدانوں میں پھیلے ہوئے گوجری زبان بولنے والے قبائل کی ایک اشد ضرورت کو پورا کیا جاسکے اور یہ برادری جن کی اچھی خاصی آبادی ہے، اس فیضِ جاوداں سے محروم نہ رہے۔ امید ہے کہ منہاج القرآن اس طرف متوجہ ہوکر اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرکے عنداللہ ماجور اورعندالناس مشکور ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ منہاج القرآن کشمیر کے منتظمین، ترجمہ کار، ناشرین اور اس میں سعی کرنے والوں کو اجرِ عظیم سے نوازے اور ملتِ اسلامیہ کشمیر کے لیے اس ترجمہ کو باعثِ خیرو برکت اور نافع و شافع بنائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ