سید ہجویر، مخدوم امم، سید علی بن عثمان ہجویریؒ کا شمار نہ صرف برصغیر پاک و ہند کے کبار صوفیاء میں ہوتا ہے بلکہ عالمِ اسلام میں بھی تصوف و روحانیت کی تعلیم کے فروغ اور اصلاحِ احوال کے باب میں آپ منفرد و ممتازمقام و مرتبہ کے حامل ہیں۔ آپؒ کی تعلیمات کا عظیم منبع کشف المحجوب کی صورت میں آج تقریباً ایک ہزار سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ سالکینِ تصوف و روحانیت کے لیے ہدایت و رہنمائی کا باعث ہے۔ ’’کشف المحجوب‘‘ کا ایک ایک حرف بلاشبہ ہماری زندگیوں میں ہدایت کے چراغ جلاتا ہے، ہمیں جادۂ حیات میں صراطِ مستقیم پر گامزن کرتا ہے اور ہمیں اللہ کی معرفت و قربت اور عبادت و طاعت کی تعلیم دیتا ہے۔
سرزمین لاہور پر حضرت علی بن عثمان ہجویریؒ کا مزار آج بھی مخلوقِ خدا کو توحید و رسالت اور دینِ اسلام کا پیغام ایک زندہ و تابندہ دعوت و تبلیغ اسلام کی صورت میں دے رہا ہے۔ آج بھی ہزاروں لوگ ان کے در سے اسلام کی حقیقی معرفت اور اسلام کی آفاقی ہدایت کی دولت پا رہے ہیں۔ اقبال بھی آپ کے آستاں سے فیضیاب ہوا تو یوں عقیدت کا اظہار کرنے لگا:
سید ہجویر مخدوم امم
مرقد او پیر سنجر را حرم
خاک پنجاب از دم او زندہ گشت
صبح ما از مہر او تابندہ گشت
علامہ محمد اقبالؒ اپنی عقیدت کا اظہار کبھی سیدِ ہجویر کہہ کر کرتے ہیں۔۔۔ اور کبھی مخدومِ امم کہہ کر اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔۔۔ کبھی پاسبانِ عزتِ ام الکتاب کہہ کر اپنا نذرانۂ عقیدت پیش کرتے ہیں۔۔۔ اور کبھی کہتے ہیں کہ اس زمینِ ہند میں تخم سجدہ (سجدوں کے بیج) تو آپ نے بوئے ہیں۔۔۔ کبھی کہتے ہیں کہ یہ پنجاب کی سرزمین آپ کے ہی دم قدم سے روشن ہے۔۔۔ اور کبھی کہتے ہیں کہ ہماری صبحِ حیات کی کل روشنی بھی آپ سے ہے۔
یقیناً آج اس سرزمین پاکستان پر سجدوں کی فصل، نماز کے قیام کا وصل اور نماز کے رکوعوں کا تسلسل آپ ہی کی دعوت و تبلیغِ دین کا نتیجہ ہے۔ حتی کہ اس سرزمین پاکستان کا حصول بھی آپ کے آستاں کی خیرات ہے۔ اس مرکزِ تجلیات سے ہی اقبال مصور پاکستان بنے۔
پروفیسر مسعود الحسن اپنی انگریزی کتاب حضرت داتا گنج بخش میں بیان کرتے ہیں کہ میں 1930ء میں لاہور آیا۔ حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار کے قریب رہائش رکھی۔ علامہ اقبالؒ اکثر نماز فجر سے قبل حضرت داتا گنج بخشؒ کے در پر حاضری دیا کرتے، وہیں پر میری آپ سے ملاقات رہتی تھی۔ میں نے علامہ اقبالؒ کے ارشاد کے مطابق ان کے لیے انگریزی میں کچھ کام کیا اور ان کی تقاریر لکھنے میں مدد کی جن میں ایک خطبہ الہ آباد بھی شامل تھا۔ میرے پوچھنے پر علامہ اقبالؒ نے بتایا کہ انہیں مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا خیال حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار کی زیارت اور یہاں عبادت کے دوران آیا۔
کشف المحجوب میں مذکور محبوبانِ خدا کے تذکار
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ نے کشف المحجوب میں اللہ کے مقرب بندوں کا ذکر کرتے ہوئے طبقہ تابعین میں سے چند تابعین اور ان کی تعلیمات کا ذکر کیا ہے۔ ذیل میں ہم اصلاحِ احوال کے باب میں اِن میں سے حضرت اویس قرنی علیہ السلام، حضرت امام حسن بصری علیہ السلام اور حضرت سعید بن مسیب علیہ السلام کے اقوال و فرامین کا مطالعہ کرتے ہیں:
1۔ حضرت اویس قرنی علیہ السلام کے فرامین
حضرت اویس قرنی علیہ السلام کے فرامین کا مطالعہ کرنے سے قبل اُن کے مقام و مرتبہ کا علم ضروری ہے تاکہ ہمارے دلوں میں ان کے فرامین کی اہمیت جاگزیں ہوسکے اور ہم اصلاحِ احوال کے باب میں اِن فرامین پر عمل پیرا ہوسکیں۔
حضرت اویس قرنی علیہ السلام وہ شخصیت ہیں کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کا ظاہری حیات کا زمانہ پایا ہے مگر آپ ﷺ کے جمال جہاں آراء کی دید نہ کرسکے۔ اس کی دو وجوہ بیان کی گئی ہیں:
1۔غلبۂ حال
2۔ والدہ کے حقِ خدمت کی ادائیگی
رسول اللہ ﷺ نے حضرت اویس قرنی کا ذکر اپنی حیات اقدس میں صحابہ کرامؓ کے سامنے کرتے ہوئے فرمایا کہ قرن میں ایک اویس نامی مرد خدا ہے جس کی شفاعت سے قیامت کے دن قبیلہ ربیعہ اور قبیلہ مضر کی بھیڑوں کے بالوں کی تعداد کے برابر میری امت کے لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔
اس کے بعد رسول اللہ ﷺ ؛ حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت علیؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور حضرت اویس قرنی علیہ السلام کی نشانی بتاتے ہوئے فرمایا: ان کا قد کچھ پست ہے، بال لمبے ہیں اور ان کے دائیں جانب ایک چھوٹا سفید رنگ کا نشان ہے اور یہ سفیدی برص کی نہیں ہے اور اسی طرح کا نشان ان کی ہتھیلی پر بھی ہے۔ جب تم اس سے ملو تو میرا سلام کہنا اور کہنا میری امت کے لیے دعا کریں۔
رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت علیؓ مکۃ المکرمہ حج پر آئے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے خطبہ دیا اور نجد کے لوگوں سے پوچھا کہ تم میں سے قرن کا رہنے والا اویس کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ مجنون ہے، وہ آبادی میں رہتا ہے اور نہ کسی سے ملتا جلتا ہے۔ عام طور پر جو لوگ کھاتے ہیں، وہ نہیں کھاتا حتی کہ وہ غم و خوشی کو بھی نہیں جانتا۔ جب لوگ ہنستے ہیں تو وہ روتا ہے اور جب لوگ روتے ہیں تو وہ ہنستا ہے۔
حضرت عمر فاروق علیہ السلام نے فرمایا کہ میں اس سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ لوگوں نے کہا کہ وہ جنگل میں ہمارے اونٹوں کے پاس رہتا ہے۔ حضرت عمر فاروق علیہ السلام اور حضرت علی المرتضیٰ علیہ السلام اس دیوانے اور مجذوب سے ملنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کے حکم پر قرن کی طرف چل پڑتے ہیں۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ ان کے پاس اس حال میں جاپہنچے کہ وہ نماز میں مصروف تھے۔ یہ دونوں عظیم المرتبت صحابہ ان سے ملاقات کے لیے انتظار کرتے ہیں۔ وہ نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے سلام عرض کیا اور رسول اللہ ﷺ کی بتائی ہوئی نشانیاں ان کے جسم اقدس میں دیکھیں۔ جب ساری نشانیوں کو جان لیا تو دونوں نے حضرت اویس قرنیؓ کو رسول اللہ ﷺ کا سلام پہنچایا اور امت کے لیے دعا کی وصیت پہنچائی۔
کچھ دیر یہ دونوں صحابہ ان کے پاس بیٹھے رہے۔ حضرت اویس قرنی علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ نے تشریف لانے کی بڑی تکلیف اور زحمت اٹھائی ہے، اب جایئے، قیامت قریب ہے، ہمیں وہاں ایسا دیدار نصیب ہوگا کہ جو کبھی منقطع نہ ہوگا۔ اب میں قیامت کا راستہ بنانے اور اسے صاف کرنے میں مشغول ہوتا ہوں۔
ان دونوں جلیل القدر صحابہ کی ملاقات کے بعد حضرت اویس قرنی علیہ السلام کا مقام و مرتبہ اہلِ قرن پر ظاہر ہوا اور وہ حضرت اویس علیہ السلام کی بہت زیادہ عزت افزائی اور قدرو منزلت کرنے لگے۔ اس واقعہ کے بعد حضرت اویس قرنی کوفہ چلے گئے۔ بعد ازاں جنگ صفین میں حضرت علی المرتضیٰؓ کی حمایت میں جہاد کے لیے نکلے اور لڑتے لڑتے جام شہادت نوش کیا۔ انہوں نے اطاعتِ الہٰی اور اطاعتِ رسول ﷺ میں عمدہ و پسندیدہ زندگی گزاری اور شہادت کے مقام پر فائز ہوئے۔
- کشف المحجوب میں مذکور حضرت اویس قرنی علیہ السلام کے کچھ فرامین ذیل میں درج کیے جارہے ہیں:
(1) خلوت میں سلامتی ہے
حضرت اویس قرنیؓ فرماتے ہیں:
السلامة فی الوحدة.
(کشف المحجوب، ص: 165)
انسان کی سلامتی وحدت کے جلووں میں گم ہونے میں ہے۔
انسان کے ظاہر و باطن میں وحدت کا غلبہ رہے تو وہ نہ صرف شیطان اور نفس کے غلبے سے محفوظ ہوجائے گا بلکہ تمام دنیوی اندیشوں اور خطروں سے بھی مامون ہوجائے گا۔ جس شخص کو خلوت گزینی اور تنہائی کی عادت ہوجائے تو وہ مجلس میں بیٹھا ہوا بھی وحدت کے جلووں میں گم رہتا ہے۔ اس لیے وحدت میں سراسر سلامتی ہی سلامتی ہے۔(کشف المحجوب، ص165)
مزید برآں فرماتے ہیں:
لان الوحدة صفة عبد صاف.
(کشف المحجوب، ص: 165)
ایک صاف دل بندے کا وصف وحدت ہے۔
وحدت کی اسی حقیقت کو باری تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں بھی بیان کیا ہے:
اَلَیْسَ اللهُ بِکَافٍ عَبْدَهٗ.
(الزمر، 39: 36)
’’کیا اللہ بندے کے لیے کافی نہیں۔‘‘
خلوت پسند بندے کے لیے اللہ کافی و شافی ہوجاتا ہے۔ جسے خلوت کی معرفت ہوجاتی ہے، اسی کے دل میں خلوت کی محبت عیاں ہوجاتی ہے۔
(2) دل کی نگہداشت کرو
حضرت ہرم بن حبان علیہ السلام منبع صفا اور معدنِ وفا ہیں۔ آپ اکابرِ طریقت و معرفت ہیں اور صحابہ کرامl کے ہم مجلس رہے ہیں۔ آپ نے حضرت اویس قرنیؓ کی ملاقات کے لیے بہت کاوشیں کیں، کبھی ان کے پیچھے کوفہ پہنچے اور کبھی بصرہ کا ارادہ کیا۔ اچانک دریائے فرات کے کنارے جبے میں ملبوس وضو کرتے ہوئے حضرت اویس قرنی علیہ السلام سے ملاقات ہوجاتی ہے۔ حضرت ہرم بن حبان علیہ السلام کی اس سے پہلے حضرت اویس قرنی علیہ السلام سے کوئی ملاقات نہیں۔ حضرت ہرم نے جب آگے بڑھ کر سلام پیش کیا تو حضرت اویس قرنی علیہ السلام نے جواب دیا: وعلیک السلام یا ہرم بن حبان۔ حضرت ہرم بن حبان علیہ السلام نے پوچھا: آپ نے مجھے کیسے پہچانا کہ میرے بتائے بغیر میرے نام سے مجھے مخاطب کررہے ہیں؟ حضرت اویس قرنیؓ نے جواب دیا:
عرفت روحی روحک.
(کشف المحجوب، ص: 166)
’’میری روح نے تیری روح کو پہچان لیا۔ ‘‘
حضرت ہرم بن حبان علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس موقع پر حضرت اویس قرنی علیہ السلام نے مجھے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث بیان کی کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
انما الاعمال بالنیات ولکل امری مانویٰ.
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو وہ ثمر ملتا ہے، جس کی اس نے نیت کی۔ (صحیح بخاری، کتاب الایمان)
اس کے بعد حضرت اویس قرنیؓ نے ہرم بن حبان علیہ السلام کو نصیحت کی اور ارشاد فرمایا:
علیک بقلبک.
(کشف المحجوب)
تم پر فرض ہے کہ اپنے دل کی نگہداشت کرو تاکہ کسی غیر کی فکر میں مبتلا نہ ہو۔
یہ حدیث اور قول بیان کرکے السید الشیخ علی بن عثمان ہجویریؒ ہمیں یہ پیغام دیتے ہیں کہ مومن و صوفی وہ ہے جس کی نیت اچھی ہو، عمل عمدہ ہو اور دل ایسا ہو کہ جس میں صرف محبوب حقیقی کی چاہت ہو اور وہ دنیا و ماسواء کی ہر چاہت سے ماوراء ہو۔
سید علی ہجویر حضور داتا گنج بخشؒ فرماتے ہیں کہ دل کی نگہداشت اور نگرانی کے دو معنٰی ہیں:
1۔ ایک معنی یہ ہے کہ بندہ اپنے دل کو ریاضت و مجاہدے کے ذریعے اطاعتِ الہٰی میں ہر لمحہ مصروف رکھے۔
2۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ بندہ خود کو دل کے تابع کردے۔ دل پر نگرانی کرنا، ارادت مندوں کا کام ہے جبکہ خود کو دل کے تابع کرنا، یہ عارفوں اور کاملوں کا کام ہے۔
پہلے معنی کے اعتبار سے دل میں خواہشات کی کثرت ہوتی ہے، ہوائے نفس کی زیادتی ہوتی ہے، ناموافق خطرات اور اندیشے دل کی زمین پر ظاہر ہوتے ہیں۔ ان سب چیزوں پر دل کی نگرانی کی جائے تاکہ دل اللہ کی محبت کی آماجگاہ اور مرکز و محور بن جائے۔
دوسرے معنی کے اعتبار سے خود کو دل کے تابع کرنے سے مراد یہ ہے کہ حق تعالیٰ عرفاء کے دلوں کو اپنے نورِ جمال سے منور کردیتا ہے۔ تمام اسباب و علل سے انھیں پاک کرکے بلند مرتبہ اور مقام رفیع عطا کردیتا ہے، اپنی قربت کی خلعت عطا کرتا ہے، اپنے لطائف و تجلیات سے روشن کرتا ہے اور اپنے مشاہدہ کے قرب سے نوازتا ہے۔
2۔ حضرت امام حسن بصریؒ کے فرامین
حضور داتا گنج بخش علی ہجویریؒ نے کشف المحجوب میں حضرت امام حسن بصریؒ کے اقوال کا ذکر بھی فرمایا ہے۔ حضرت امام حسن بصریؒ امام عصر اور یگانہ زمانہ ہوئے ہیں۔ اہلِ طریقت کے ہاں ان کو بڑی قدرو منزلت حاصل ہے اور مسلم سلوک میں آپ کے اشارات بڑے ہی لطیف ہیں۔ ذیل میں آپ کے چند ارشادات نذرِ قارئین ہیں:
(1) صبر؛ نصیب پر قناعت اور
اللہ کی رضا پر راضی رہنے کا نام ہے
ایک مرتبہ ایک اعرابی آپؒ کی خدمت میں آیا اور آپ سے صبر سے متعلق سوال کیا۔ آپ نے ارشاد فرمایا: صبر دو طرح کا ہوتا ہے:
1۔ کسی مصیبت و آفت اور بلاء و پریشانی پر صبر کرنا۔
2۔ ان چیزوں پر صبر کرنا جن کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔ یعنی حرام چیزوں کو چھوڑنے اور ان کو قدرت و طاقت کے باوجود ترک کرنا صبر کرنا ہے۔گویا محرمات کا عدمِ ارتکاب بھی صبر ہے۔
اس پر اعرابی نے کہا:
یا شیخ انت زاهد، مارایت ازهد منک.
آپ زاہد ہیں اور میں نے آپ سے بڑھ کر کسی کو زاہد و عبادت گزار نہیں دیکھا۔
(کشف المحجوب، ص: 168)
اعرابی کی یہ بات سن کر حضرت امام حسن بصریؒ نے فرمایا: اے بندہ خدا! تو میرے زہد کی بات کر رہا ہے، میرا زہد تو مرغوب و پسندیدہ چیزوں میں ہے اور میرا صبر تو حالتِ اضطراری اور حالتِ بے قراری میں ہے۔ میرا صبر بھی کوئی مثالی صبر ہے، یہ تو اپنی مرضی کا صبر ہے۔ یہ خدا کا پسندیدہ صبر نہیں بلکہ یہ تو من پسند صبر ہے۔ اعرابی نے کہا: میں آپ کی بات سمجھا نہیں، اس کی وضاحت فرمائیں۔
آپ نے فرمایا: دنیوی بلاؤں، مصیبتوں اور آفتوں پر میرا صبر کرنا اور اللہ کی منع کردہ، حرام چیزوں سے بچنا، یہ صبر بربنائے طاعت و بندگی ہے۔ یہ صبر آتشِ دوزخ سے بچنے اور اس آگ کے خوف کی وجہ سے ہے۔ یہ حالتِ اضطراری، حالتِ بے قراری اور مجبوری کا صبر ہے۔ اسی طرح دنیا میں میرا زہد، عبادت و ریاضت اور طاعت، یہ حسنِ آخرت اور آخرت کی رغبت کی بنا پر ہے۔
فرمایا: میرا صبر تو ایسا ہونا چاہیے تھا کہ میں دنیا میں اپنے نصیب پر قناعت کرتا، ہر حال میں اپنے نصیب اور اللہ کی رضا پر راضی رہتا۔ تب میرا صبر اللہ کے لیے ہوتا۔ دوزخ کی آگ سے بچنے کے لیے یا جنت پانے کے لیے صبر کرنا، صبر کا اعلیٰ مقام نہیں بلکہ اللہ کے ہر امر کو بجا لانے میں صبر کرنا تاکہ وہ رب راضی ہوجائے، اللہ کی رضا ہمارے ہر کام کا مقصود ہوجائے تو ایسا صبر فی الحقیقت صبر ہے۔ بصورت دیگر ہمارا صبر؛ صبرِ مجبوری ہے، صبرِ رضائے الہٰی نہیں ہے۔
(کشف المحجوب، ص: 168)
(2) نیک لوگوں کی صحبت سے دوری کی وجہ
حضرت امام حسن بصریؒ لوگوں کی راہنمائی کرتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں کن لوگوں کے ساتھ دوستی و رفاقت کا تعلق قائم کریں اور کن لوگوں کی دوستی سے خود کو دور رکھیں۔ اس حوالے سے فرماتے ہیں:
ان الصحبة الاشرار تورث سوء الظن بالاخیار.
(کشف المحجوب، ص: 169)
بروں کی دوستی و صحبت نیکوں کی دوستی و رفاقت کے بارے میں بدگمانی پیدا کرتی ہے۔
حضرت مخدوم امم الشیخ السید علی ہجویریؒ فرماتے ہیں کہ یہ نصیحت فی زمانہ درست اور صحیح ہے اورلوگوں کے حالات کے عین مطابق ہے۔ اللہ کی بارگاہ کے تمام مقبولوں کے انکار کرنے والوں پر یہ نصیحت صادق آتی ہے۔ عوام کی نیک لوگوں سے دوری کی وجہ یہ ہے کہ لوگ نقال صوفیوں اور منتر خواں عاملوں کی صحبت و سنگت میں جاتے ہیں تو وہاں ان کی خیانت کے واقعات، جھوٹ کے قصے، اور غیبت بھری مجلسیں دیکھتے اور سنتے ہیں، انھیں دنیوی کھیل و کود میں مشغول پاتے ہیں، ان کے بے ہودہ افعال کا مشاہدہ کرتے ہیں، ان میں لغویات و فضولیات کو دیکھتے ہیں، ان کو دنیوی خواہشات اور شہوات میں غرق پاتے اور حرام و مشتبہ مال کا حریص دیکھتے ہیں تو ان نقال صوفیوں کو دیکھ کر اصل صوفیوں کا بھی انکار کردیتے ہیں۔ ذہن میں یہ تصور قائم کرتے ہیں کہ کل طبقہ صوفیاء ایسا ہی ہوتا ہے اور تمام صوفیوں کا طریقِ حیات اور طریقِ تصوف و طریقت یہی ہے۔
فرماتے ہیں کہ ان چند نقالوں کو دیکھ کر اور ان کے برے اعمال کا مشاہدہ کرکے اصل صوفیوں پر اس نتیجے کو منطبق کرنا کسی طرح بھی درست نہیں۔ نقال صوفیوں کا طریق اصل صوفیوں کا طریق ہرگز نہیں ہے۔ اصل صوفیاء کے تمام افعال طاعتِ الہٰیہ میں سر زد ہوتے ہیں۔۔۔ محبتِ الہٰی کی وجہ سے ان کی زبانوں پر کلمۂ حق جاری ہوتا ہے۔۔۔ ان کے قلوب محبتِ الہٰیہ کا مسکن ہوتے ہیں۔۔۔ ان کے کان کلامِ حق سنتے ہیں اور ان کی آنکھیں مشاہدۂ جمالِ الہٰی میں کھوئی ہوتی ہیں۔۔۔ ان کے ہاں کبھی خیانت، جھوٹ، غیبت، کھیل کود، بے ہودہ پن، لغویات و شہوات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں بھر کے اولیاء اور صوفیاء کو نقالوں کی وجہ سے برا سمجھنا، یہ عقلمندوں اور دانشمندوں کا طریق نہیں۔ جو شخص خود برا ہے، وہ بروں کی صحبت اختیار کرتا ہے اور جو شخص نیک ہے، وہ نیکوں کی دوستی اختیار کرتا ہے۔ اگر دل میں نیکی کا مادہ ہو تو انسان نیکوں کو اپنا دوست رکھتا ہے۔ اس لیے وہی شخص مستحقِ ملامت ہے جو نالائق اور نااہلوں کی صحبت اختیار کرتا ہے۔
سید ہجویر فرماتے ہیں کہ صوفیاء و اولیاء کو نہ ماننے کی دوسری وجہ یہ ہے جب دنیا دار لوگ صوفیاء کو اپنی خواہشاتِ نفس کے خلاف پاتے ہیں تو ان کے مقاماتِ رفیعہ کا انکار کرنے لگتے ہیں۔ رفتہ رفتہ اپنی خواہشاتِ نفس سے مغلوب ہوکر منکروں کے ہم زبان بن جاتے ہیں۔
سید ہجویرؒ فرماتے ہیں کہ یہ بات یاد رکھ لو! وہ لوگ جو اولیاء و صلحاء اور عرفاء و صوفیاء کا انکار کرتے ہیں، وہ مخلوقِ خدا میں شریر ترین لوگ ہیں اور غایت درجہ کے ذلیل اور کمینے ہیں۔ اس لیے کہ اولیاء اللہ کے وجود پر قرآن اور سنت رسول ﷺ گواہ و شاہد ہیں۔ اولیاء و صلحاء اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں۔ ان کا طریقِ حیات جہاں بھر میں پسندیدہ ہے۔ ان کے مبارک وجودوں کی برکت سے لوگوں کو دونوں جہاں کی مرادیں حاصل ہوتی ہیں۔ یہ طبقہ اولیاء و صلحاء تمام لوگوں میں ممتاز و منفرد ہے۔ (کشف المحجوب، ص: 169)
انسان کو جو کچھ ملتا ہے وہ صحبت و سنگت کی وجہ سے ملتا ہے اچھوں کی صحبت انسان کو اچھا بنادیتی ہے اور بروں کی دوستی انسان کو برا بنادیتی ہے۔ انسانی نفس جب انسان پر حاکم بن جاتا ہے تو وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے اسے جگہ جگہ پھراتا اور دوڑاتا ہے۔ انسان خواہشاتِ نفس کے سامنے مجبورہوجاتا ہے اور پھر اپنے ہم جنسوں، ہم مزاجوں اور ہم طبیعتوں کو تلاش کرنا شروع کردیتا ہے۔ یوں اپنے اندر کے میلان کی بناء پر خارج میں اطمینان پیدا کرتا ہے یا طوفان بپا کرتا ہے۔ انسان کے ظاہر کے پیچھے اس کا باطن ہے۔ طریقت؛ باطن کی اصلاح کا نام ہے اور شریعت؛ ظاہر کی اصلاح کا نام ہے۔
3۔ حضرت سعید بن مسیّب علیہ السلام کے فرامین
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ نے طبقہ تابعین کے ائمہ تصوف و طریقت میں سے حضرت سعید بن مسیب علیہ السلام کے احوال بھی ذکر فرمائے ہیں۔ حضرت سعید بن مسیب علیہ السلام رئیس العلماء، فقیہ الفقہا عظیم المرتبت، رفیع المنزلت اور ہر دلعزیز سیرت و خصائل کے مالک ہیں۔ آپ کو علم تفسیر، علم حدیث، علم فقہ، علم لغت، شعرو نعت اور علم الحقائق میں یدطولیٰ حاصل ہے۔ وہ اپنے ظاہر میں ہوشیار اور طبیعت میں نیک سیرت تھے۔ یہی خوبی تمام مشائخ میں محمود اور مسعود ہے۔ ذیل میں آپ کے چند فرامین کا تذکرہ کیا جارہا ہے:
(1) قناعت؛ علاماتِ تصوف میں سے ہے
حضرت سعید بن مسیب علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
ارض بالقلیل من الدنیا مع سلامة دینک کما رضی قوم بکثیرها مع ذهاب دینهم.
(کشف المحجوب، ص: 171)
اے مرد مسلمان اپنی اس تھوڑی سی دنیا پر جو تجھے دین کے ساتھ حاصل ہوئی ہے اس پر اس طرح قناعت کر، جس طرح کثیر لوگ اپنا دین کھوکر مال کی زیادتی پر خوش ہیں۔
الشیخ السید علی بن عثمان ہجویری فرماتے ہیں کہ اگر تیرے فقر میں تیرے دین کی سلامتی ہے تو یہ اس دولت اور تونگری سے بہتر ہے جس میں غفلت طاری ہوجائے، دنیا پرستی آجائے اور تیرے ہاتھ سے تیرا دین جاتا رہے۔ فقیر جب سلامتی ایمان کے ساتھ اپنے دل کی طرف خیال کرتا ہے تو اپنے دل کو دنیا کی محبت اور مال کی محبت سے خالی پاتا ہے اور جو کچھ اسے میسر ہوتا ہے، اس پر ہی قناعت کرتا ہے جبکہ ایک دولت مند جب اپنے دل کی طرف خیال کرتا ہے تو وہ دل کو اللہ کی یاد کے بجائے مال کی حرص و طمع اور مال کی کثرت و زیادتی میں فکر مند پاتا ہے اور حصولِ دنیا کی خاطر ہر طرف ہاتھ پیر مارتا ہے۔
محبوبانِ خدا وہ ہیں جن کے دل میں ہر وقت یادِ الہٰی کا غلبہ ہوتا ہے، ان پر مال کی محبت کا غلبہ نہیں ہوتا بلکہ ان کی نگاہ ہر وقت خدا کی رضا کی طالب رہتی ہے جبکہ غافلوں اور دنیا پرستوں کی نظر ہر وقت دنیا پر رہتی ہے۔ دل میں اگر دولت کی حرص مولا کی حرص سے زیادہ ہو تو اس دل میں غرور پایا جاتا ہے، اس دل میں آفات کے ڈیرے ہوتے ہیں، اس دل میں ہر لمحہ حسرت بڑھتی رہتی ہے اور ہر لحظہ ندامت کے سائے فروغ پاتے رہتے ہیں۔ رفتہ رفتہ اس دل پر ذلت مسلط ہوجاتی ہے اور ہر آن اس میں معصیت ہی معصیت نظر آتی ہے۔
غافلوں پر جب بلاء و مصیبت نازل ہوتی ہے تو ا ن کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے جسم سلامت رہیں اور جب محبوبانِ خدا پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارا دین سلامت رہے۔ واقعہ کربلا میں بھی یہی روح کارفرما تھی۔ یہی وجہ ہے جب عرفاء کے جسم پر بلاء کا نزول ہوتا ہے اور ان کے دل میں بقا ہوتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں کہ بلاء کا جسم پر نزول ہوا ہے، دل پر نہیں ہوا۔ اس لیے کہ اگر دل میں غفلت اور عیش و عشرت ہے تو یہ موجبِ ذلت ہے۔ پس ایک بندے کے لیے مقامِ رضا یہ ہے کہ وہ کم دنیا کو زیادہ جانے۔
(کشف المحجوب، ص: 171)
(2) ذکرِ الہٰی کا مقام
حضرت سعید بن مسیب علیہ السلام سے کسی نے ایک مرتبہ قیامِ مکۃ المکرمہ کے دوران سوال کیا کہ مجھے ایسا حلال بتایئے جس میں حرام کا شائبہ نہ ہو اور مجھے ایسا حرام بتایئے جس میں حلال کا شائبہ تک نہ ہو۔ آپ نے ارشاد فرمایا:
ذکر الله حلال لیس فیه حرام و ذکر غیره حرام لیس فیه حلال.
(کشف المحجوب، ص: 171)
ذکر الہٰی ایسا حلال ہے جس میں کسی حرام کا شائبہ نہیں اور غیر اللہ کا ذکر ایسا حرام ہے کہ جس میں ایک ذرہ بھی حلال نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ذکرِ الہٰی میں انسان کی نجات ہے اور ذکرِ غیر میں انسان کی ہلاکت ہے۔
محترم قارئین! کشف المحجوب میں مذکور ہمیں ان عرفاء، صلحاء، اولیاء، علماء ربانیین کی تلاش ہے۔ اس لیے کہ قرآن مجید ہمیں ہر روز اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم کی صورت میں اِن ہی ہستیوں کی تلاش کی دعا کی تلقین کرتا ہے۔ ان نفوسِ قدسیہ کے نقوشِ پا کا مل جانا ہمارے لیے سعادت ہی سعادت ہے۔ باری تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر گامزن فرمائے اور اسلام کا صحیح فہم عطا کرے۔
آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ۔