ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنْ اَوْلِیَآئُهٗٓ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ.
(الانفال، 8: 34)
’’اس کے اولیاء (یعنی دوست) تو صرف پرہیزگار لوگ ہوتے ہیں۔‘‘
اللہ رب العزت نے اس آیتِ مبارکہ میں ولایت اور تقویٰ دونوں کو لازم و ملزوم قرار دیا ہے۔ تقویٰ کے بغیر ولایت کا کوئی وجود نہیں۔ تقویٰ ہی بندے کو ولایت کے مقام پر فائز کرتا ہے۔ عام طور پر تقویٰ کا مطلب اللہ سے ڈرنا ہے لیکن یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ بابرکات کا ڈر اس طرح کا نہیں کہ جیسے ہم زندگی میں مختلف چیزوں سے ڈرتے ہیں کیونکہ اس طرح کے ڈر سے موانست کی بجائے وحشت اور خوف پیدا ہوتا ہے۔ بندہ اپنے مالک و مولا کے قریب ہونے کے بجائے دور ہوتا چلا جاتا ہے جبکہ ولایت دوری نہیں بلکہ قرب چاہتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جو ولی ہوتا ہے وہ اللہ سے دور نہیں بلکہ اس کے قریب ہوتاہے۔
تقویٰ کیا ہے؟
اب اس امر پر غور کرنا ہوگا کہ تقویٰ کون سا ڈر ہے جو قربت کو بڑھاتا اور دوری کو مٹاتا ہے۔۔۔؟ تقویٰ کا مختصر اور جامع معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس جگہ پر، جس مقام پر اور جس کام میں ہمیں دیکھنا چاہتا ہے، وہاں پر ہم حاضر ہوں اور جہاں پر وہ ہمیں نہیں دیکھنا چاہتا، وہاں حاضر نہ ہوں۔ یعنی جس مقام پر وہ چاہتا ہے کہ ہم موجود ہوں، وہاں سے ہم غائب نہ ہوں اور جس مقام پر وہ چاہتا ہے کہ ہم موجود نہ ہوں، وہاں ہم حاضر نہ ہوں۔ اگر یہ دو چیزیں انسان کی زندگی میں آجائیں تو اسے تقویٰ کہتے ہیں اور ان کا حامل انسان متقی ہے۔
اب کسی کے متقی ہونے کے لیے کسی خاندان کی شرط نہیں، کسی امیری غریبی، کسی شہر اور محلے، کسی قصبے اور گائوں، کسی قد و قامت اور گورے و کالے رنگ اور زبان و بولی کی شرط نہیں۔ جس شخص میں اس نے اس طرز پر تقویٰ پالیا تو اسی لمحے اس نے اس کے ساتھ دوستی کرلی، اور جس کے ساتھ اللہ نے اپنی دوستی کا فیصلہ کرلیا، وہ ولی ہوگیا۔
ہماری زندگی میں کئی کام ایسے ہیں کہ جن کے بارے میں اللہ چاہتا ہے کہ وہ کام ہم کریں اورکئی کام ایسے ہیں کہ جن کے بارے میں اللہ چاہتاہے کہ وہ کام ہم نہ کریں۔ مثلاً: نماز کا وقت آگیا، اب اللہ چاہتا ہے کہ ہم اللہ کے حضور اس کی بارگاہ میں موجود ہوں، اگر ہم وقتِ نماز اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضر رہے تو تقویٰ نہ رہا۔ اسی طرح اللہ چاہتا ہے کہ ہم سخت کلامی نہ کریں، کسی پر تہمت اور الزام نہ لگائیں، گالی گلوچ نہ کریں، ایک دوسرے کے ساتھ کرخت لب و لہجے سے بات نہ کریں۔ اگر ہم میں سے کوئی گالی گلوچ اور طعن و تشنیع کررہا ہے، دوسرے بندے پر سختی کررہا ہے، الزام تراشی کررہا ہے، برا بھلا کہہ رہا ہے، اس سے نفرت کررہا ہے تو لازمی بات ہے کہ یہ امور اور افعال اللہ کو پسند نہیں، لہذا ان افعال کا مرتکب ہونے سے ہم حاملینِ تقویٰ نہ رہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہمارے دل میں دنیا، جاہ و منصب اور مال و دولت کی طلب و حرص اور لالچ نہ ہو، اگر اس نے ہمارے دل کو حرص و لالچ اور طلب و رغبت کی جگہ پر موجود پایا تو یہ تقویٰ اور ولایت نہیں ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ میرا بندہ دنیا سے بے نیاز ہو، مجھ سے محبت کرے، میرے بندے میں تواضع و انکساری ہو، اس کے دل میں صدق و اخلاص ہو، اس کے پاس وفا، تقویٰ، طہارت اور پاکیزگی ہو، جب یہ سب کچھ وہ اپنے بندے میں موجود پاتا ہے تو اس بندے کو متقی کے لقب سے ملقب کرتا ہے۔
جب اللہ رب العزت کسی کا ولی ہوجاتا ہے تو وہ ہر روز ستر مرتبہ اپنے اس بندے کے دل کو دیکھتا ہے۔ وہ بندے کے دل کو اس لیے دیکھتا ہے کہ اس کا دل میری یاد سے غافل نہ رہے۔ جس شخص کے دل کو اللہ رب العزت ستر مرتبہ روزانہ کی بنیاد پر دیکھے اور اگر اس دل کو اپنی یاد سے غافل پائے تو سوچنے کا مقام ہے کہ کیا وہ اس کے ساتھ تعلق اور دوستی قائم رکھے گا؟
ولایت ؛ خالق اور مخلوق کے درمیان دوہرے رشتے کا نام ہے
انسانی جسم کے تمام اعضاء، دل، آنکھ، پیٹ، ہاتھ، پائوں، کان، جسم و جان، سوچ و فکر، دماغ الغرض جسم کے ہر ظاہری اور باطنی عضو کا تقویٰ ہے۔ جب انسان کو تقویٰ نصیب ہوجائے اور وہ بندہ اپنے حال کی نگرانی کرے تو وہ تقویٰ بندے کو ولایت تک پہنچاتا ہے اور ولایت سے جوڑتا ہے۔
ولایت کے دو معانی ہیں اور قرآن مجید میں بھی دو جگہ اس کا ذکر آیا ہے۔ ایک مقام پر فرمایا:
اَ لَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللهِ لَاخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَاهُمْ یَحْزَنُوْنَ.
’’خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے۔‘‘
(یونس، 10: 62)
دوسرے مقام پر فرمایا:
اَللهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ.
’’اللہ ایمان والوں کا کارساز ہے وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے۔‘‘
(البقرة، 2: 257)
پہلی آیت مبارکہ کے مطابق بندہ؛ اللہ کا ولی ہے اور دوسری آیت کے مطابق اللہ؛ بندے کا ولی ہے۔ یعنی بندہ بھی ولی ہے اور اللہ بھی ولی ہے۔ معلوم ہوا کہ ولایت خالق اور مخلوق کے درمیان ایک دوہرے رشتے کا نام ہے۔ یکطرفہ تعلق سے ولایت نہیں بنتی۔ لہذا جب تک بندہ؛ اللہ کا دوست اور اللہ؛ بندے کا دوست نہ ہوجائے اور دوستی دونوں اطراف سے قائم نہ ہوجائے، تب تک ولایت وجود میں نہیں آتی۔
ولی؛ اللہ کے اوامر و نواہی کا نگران ہوتا ہے
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ بندہ؛ اللہ کا ولی کیسے ہوتا ہے؟ اور اللہ؛ بندے کا ولی کیسے ہوتا ہے؟ اس کے جواب میں ولی کا معنی سمجھنا ضروری ہے:
ولی کا ایک معنی نگران ہے۔ اگر بچہ یا بچی یتیم ہوجائے تو اس کا ایک ولی ہوتاہے جو اس کی نگرانی کرتا ہے، اس کا دھیان رکھتا ہے اور اس کے معاملات کو سنوارتا ہے۔ اسی طرح نکاح کی تقریب میں لڑکی کی طرف سے ایک ولی بناتے ہیں، وہ ولی؛ لڑکی کی نمائندگی کرتا ہے، اسے بھی نگران کہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر بندہ؛ اللہ کا ولی ہوا تو وہ کس شے کا نگران ہوا؟ اور اگر اللہ؛ بندے کا ولی ہوا تو وہ بندے کی کس شے کا کا نگران ہوا؟
بندہ جب اللہ کا ولی ہوتا ہے تو وہ اپنی زندگی میں اللہ کے ہر حکم کا نگران اور پہرے دار ہے، یعنی ولی وہ ہے جو اللہ کے اوامر و نواہی کا پہرے دار ہوتا ہے۔ اگر ہم رات کے وقت کسی کو پہرے دار مقرر کریں اور وہ رات کو سوجائے تو کیا ہم اسے اپنا پہرے دار مانیں گے؟ نہیں، بلکہ ایسے بندے کو نگران و پہرہ دار رکھیں گے جو ہمارے تفویض کردہ امور کی صحیح نگرانی کرے۔ معلوم ہوا کہ نگرانی اور غفلت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اسی طرح نگرانی اور نافرمانی بھی ساتھ ساتھ نہیں چلتے۔ بندہ نگران ہوگا یا پھر نافرمان ہوگا۔ اگر بندہ اللہ کے حکم کا نگران ہے تو پھر اللہ کے حکم کا نافرمان نہیں ہوسکتا۔
ولی کبھی غافل و بے ادب نہیں ہوتا
پس بندے کے اللہ کے ولی ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ اللہ کے ہر امر کی نگرانی کرتا ہے اور دیکھتا ہے کہ کس کام میں اللہ راضی ہوتا ہے اور کس کام میں ناراض ہوتا ہے۔ بندہ دیکھتا ہے کہ کون سا عمل مجھے اللہ کے قریب لے جائے گا اور کون سا عمل اللہ سے دور کردے گا۔ وہ اللہ کے قریب اور اس سے دور لے جانے والے امور کی نگرانی کرتا ہے۔۔۔ اللہ کی رضا اور ناراضگی کے معاملے کی نگرانی کرتا ہے۔۔۔ اس کی اطاعت اور معصیت کے معاملے کی نگرانی کرتا ہے۔ پھر بندہ ایسا کام نہیں کرتا جس میں اللہ کی نافرمانی ہو۔ اگر اللہ کے کسی حکم کی نافرمانی ہوگئی تو گویا بندہ اللہ کے امر کا نگران اور پہرے دار نہ رہا۔ اس لیے ولی کبھی شریعت کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔ جو شخص شریعت کے خلاف زندگی بسر کرے یا شریعت کے خلاف ایک قدم بھی اٹھائے، وہ ولی نہیں ہے۔
حضرت سلطان العارفین بایزید بسطامیؒ سے لوگوں نے کہا کہ فلاں شخص بہت بڑا ولی ہے۔ آپ نے فرمایا: چلو پھر اس کی زیارت کو چلتے ہیں۔ مریدین کو ساتھ لے کر طویل سفر طے کرنے کے بعد جب اس شہر میں پہنچے جہاں لوگوں میں مشہور و مقبول ولی رہتا تھا تو حضرت بایزید بسطامیؒ نے اسے اس وقت دیکھا جب وہ مسجد میں داخل ہورہا تھا۔ لوگوں میں مشہور ولی کو ایک ہی نظر میں دیکھنے کے بعد حضرت بایزید بسطامیؒ نے اپنے شاگردوں اور مریدوں سے اسی وقت کہا کہ چلو واپس چلتے ہیں۔ انھوں نے کہا: حضور! آپ اتنا طویل سفر کرکے آئے ہیں، اس سے سلام دعا بھی نہیں کیا اور واپس چلنے کا حکم فرمارہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ہم اس کی ولایت دیکھنے آئے تھے مگر یہ ولی نہیں ہے۔ پوچھا: وہ کیسے؟ فرمایا: ولایت اور دوستی مولا سے ادب کا رشتہ ہے۔ جسے اللہ کے گھر کا ادب نہیں ہے، اسے اس مولا کا ادب کیا ہوگا؟ میں نے اسے مسجد میں اس حال میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا کہ اس نے پہلے بایاں پائوں مسجد کے اندر رکھا۔ سو جسے اس کے گھر کا ادب معلوم نہیں، وہ اس کی دوستی کا ادب کیا جانتا ہوگا؟
دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے اسے دیکھا کہ جب اس نے تھوکا تو اس کا رخ قبلہ کی سمت تھا۔ جسے اپنے مولا کے گھر کی سمت کا بھی ادب نہیں، اسے اپنے مولا کی دوستی کا ادب کیا ہوگا اور وہ اپنے مولا کی دوستی کے راز کیا جانے؟
عام آدمی اور ولی میں فرق ہی یہ ہے کہ عام آدمی بے دھیانی کرتا ہے، جبکہ ولی بے دھیان نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ وہ مالک کے تعلق، دوستی، محبت، ادا اور وفا میں اتنا فنا ہوتا ہے کہ اگر وہ چاہے بھی تو بے دھیانی نہیں کرسکتا۔ یعنی ولی سے مالک کی نسبت میں بے ادبی ہو ہی نہیں سکتی۔ وہ اللہ کے امر، اس کے ادب، اس کی شریعت اور اس کے حکم کی اتنی نگرانی کرتا ہے کہ بے دھیانی اس کے پاس سے بھی نہیں گزرتی۔
میرا ایک گارڈ تھا، ایک مرتبہ وہ سٹیج پر ڈیوٹی کررہا تھا کہ خطاب کے دوران وہ وجد میں آگیا۔ میں نے اسے ڈیوٹی سے فارغ کردیا اور کہا: اگر وجد کرنا ہے تو فقیر بن اور اگر گن مین بننا ہے تو دھیان کر۔ یعنی گن مین کا کام وجد کرنا نہیں بلکہ دھیان رکھنا ہے۔ یہ دھیان کیا ہے؟ جیسی ڈیوٹی ہو، اسی طرح کا دھیان ہوتا ہے۔ اسی طرح ولی بھی ایک ڈیوٹی پر ہے اور اس کی ڈیوٹی یہ ہے کہ ہر وقت اپنے محبوب اور دوست کا دھیان رکھے۔ وہ ہر وقت یہی دیکھتا رہتا ہے کہ میرا دوست کس شے میں راضی ہوتا ہے۔۔۔؟ اسے کیا کام پسند ہے اور کیا ناپسند ہے۔۔۔؟ اس کے کہنے کے مطابق وہ سوتا، جاگتا، چلتا، پھرتا، کھاتا، پیتا اور پہنتا ہے۔ یعنی ولی ہمہ وقت اپنے دوست اور محبوب کی رضا و خوشنودی کے دھیان میں فنا رہتا ہے اور جسے محبوب کے دھیان کے سوا کسی شے کا خیال ہی نہ ہو وہ اس کے امر کو کیسے توڑ سکتا ہے۔
بعض لوگ جہالت کی وجہ سے اور بعض اپنی نفس پرستی کو چھپاتے ہوئے یہ تصور کرتے ہیں کہ ولی شریعت سے بے نیاز ہوتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شریعت کی پیروی تو مولویوں اور ظاہربینوں کا کام ہے، ولی تو اس سے بلند ہوتا ہے۔ یاد رکھیں! یہ تصور سراسر گمراہی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ سے بڑا کوئی ولی نہیں اور نہ ہوسکتا ہے، جب اللہ کا نبی شریعت کے خلاف نہیںہوسکتا تو اس کی امت کے ولی کی کیا مجال ہے کہ شریعت کو پسِ پشت ڈال دے۔ ایک ولی تو کیا اگر دس کروڑ ولی بھی ہوجائیں تو تاجدار کائنات ﷺ کے نعلینِ اقدس کی گرد کے برابر نہیں ہوسکتے۔ جو شریعت کو پسِ پشت کرتا ہے، وہ شریعت کو نہیں کرتا بلکہ صاحبِ شریعت کو پسِ پشت کرتا ہے۔ لہذا ولی کا معنی یہ ہے جو ہمہ وقت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ہر امر کا نگران رہے۔ ولی سے اللہ کے حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہی نہیں۔
اللہ بھی اپنے ولی کے احوال کا نگران ہے
اب آیئے! ولی کے دوسرے مفہوم کی طرف کہ اللہ بھی ولی ہے۔ ارشاد فرمایا:
اَللهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ.
’’اللہ ایمان والوں کا کارساز ہے وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے۔‘‘
(البقرة، 2: 257)
اس کا مطلب ہے کہ اللہ بھی نگران ہے۔ جیسے ولی اپنے مولا کے ہر ہر حکم کا نگران اور پہرے دار ہے، اسی طرح اللہ بھی اپنے ولی کی زندگی کو اپنی پسند کے مطابق رکھنے پر پہرے دار اور نگران ہے۔ یعنی جب اللہ کسی بندے کو اپنا ولی بناتا ہے تو پھر اسے اپنی حفاظت میں لے لیتا ہے۔۔۔ اپنے ولی کے دل میں ایسی کوئی خواہش نہیں آنے دیتا جو اسے پسند نہیں۔۔۔ وہ اپنے ولی کی زبان سے ایسی کوئی بات نکلنے نہیں دیتا جو لب و لہجہ اس کو پسند نہیں۔۔۔ اپنے ولی کی زندگی میں ایسا کوئی کام صادر نہیں ہونے دیتا جو اسے پسند نہیں۔۔۔ اپنے ولی کی زندگی میں ایسا قال اور حال نہیں آنے دیتا جو اسے ناپسند ہو۔
لہذا ولی کی زندگی کے سارے معاملات پر اللہ تعالیٰ خود نگران ہوتا ہے۔۔۔ اسے اپنی طاعت پر قائم رکھتا ہے۔۔۔ معصیت سے بچاتا رہتا ہے۔۔۔ اس کے دل کی حفاظت کرتا ہے۔۔۔ اس کی سوچ کی حفاظت کرتا ہے۔۔۔ اس کے ہر قول و فعل کی حفاظت کرتا ہے۔۔۔ اس کے اسوہ، وطیرہ اور مزاج کی اس قدر حفاظت کرتا ہے کہ ولی کا مزاج بھی اللہ کی رضا کے مطابق ڈھل جاتاہے۔
اللہ کو صرف اخلاقِ محمدی ﷺ پسند ہیں، وہ چاہتا ہے کہ میرا ولی میرے محبوب کے اخلاق، اسوہ، شیوۂ زندگی اور میری رضا کا پیکر بن جائے۔ ولی کی زندگی میں پائے جانے والے یہ پہلو وہ ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نگرانی کرتا ہے۔ الغرض بندہ اللہ کی رضا کا نگران رہتا ہے اور اللہ اپنی رضا کے مطابق بندے سے اپنے اوامر و نواہی پر عمل درآمد کرنے کی توفیق کا نگران رہتا ہے۔
نفس اور روح کے مابین دل پر قبضہ کی جنگ
اللہ تعالیٰ نے بندے کو دو چیزوں ’’جسم اور روح‘‘ کا مرکب بنایا ہے: انسان کے جسم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
اِنِّیْ خَالِقٌم بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ.
’’میں سِن رسیدہ (اور) سیاہ بودار، بجنے والے گارے سے ایک بشری پیکر پیدا کرنے والا ہوں۔‘‘
(الحجر، 15: 28)
پھر فرمایا:
فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَنَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ.
’’پھر جب میں اس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لا چکوں اور اس پیکر (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس کے لیے سجدہ میں گر پڑنا۔‘‘
(الحجر، 15: 29)
پتہ چلا کہ جسم کا تعلق اس مٹی کی دنیا سے ہے اور اس میں وہی خاصیتیں ہیں جو اس مادی مٹی کی دنیا کی ہیں جبکہ روح کا تعلق اللہ کی بارگاہ سے ہے۔ لہذا اس میں بھی وہی خاصیتیں ہیں جو عالمِ ملکوت، عالمِ لاہوت اور عالمِ جبروت کی ہیں۔ روح ایک نور ہے جبکہ جسم ایک مادہ ہے۔ اللہ نے مادے کے پردے میں نور کا چراغ جلایا ہے۔ اب جسم یہ چاہتا ہے کہ میرے اندر موجود دل پر میرا قبضہ ہو اور وہ میرے جیسا ہوجائے۔ یعنی دل کی خوبیاں، صلاحیتیں اور صفات میرے جیسی ہوں جبکہ دوسری طرف روح بھی جنگ لڑ رہی ہے کہ دل میرے جیسا ہوجائے۔ اگر دل جسم جیسا ہوجائے تو سیاہ ہوجائے گا اور اگر روح جیسا ہوجائے تو روشن ہوجائے گا۔
جسم اور روح کی آپس میں یہ جنگ جاری رہتی ہے۔ جسم؛ دل کو اپنے جیسا بنانے کی جنگ لڑتا رہتا ہے اور اس کا اپنا لشکر اور فوج ہے جس کے ذریعے وہ دل کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ روح؛ دل کو اپنے جیسا کرنے کی جنگ لڑتی ہے، اس کے پاس بھی اپنا لشکر ہے۔ گویا دل میدان جنگ ہے جہاں ہر وقت ایک معرکہ رہتا ہے اور اس معرکہ کے دوران دل کبھی اِدھر جاتا ہے اور کبھی اُدھر جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ہر وقت کہتے ہیں کہ کیا کروں، دل نہیں لگتا۔۔۔ نماز کی بڑی کوشش کرتا ہوں مگر دل نہیں جمتا۔۔۔ تلاوت کرتا ہوں، اس میں دل نہیں لگتا۔۔۔ عبادت کرتا ہوں مگر دل کو سکون نہیں ملتا۔ یعنی جب کبھی اچھی محفل میں آجائیں تو دل آخرت کی طرف پرواز کرنا شروع کردیتا ہے اور اللہ کی طرف رجوع کرلیتا ہے اور جب بری صحبت میں بیٹھیں تو دل تباہی کی طرف پروازکرنا شروع کردیتا ہے اور شیطان کے بہکاوے میں آجاتا ہے۔
الغرض دل تقویٰ کی طرف بھی جاتا ہے اور فسق و فجور کی طرف بھی جاتا ہے۔۔۔ دل نیکی اور اطاعت کی طرف بھی جاتا ہے اور گناہ و معصیت کی طرف بھی جاتا ہے۔۔۔ یعنی دل دونوں طرف کی ہوا کی کشش میں رہتا ہے۔ ایک طرف مال، دولت، دنیا، عزت، جاہ و منصب، شہوت، غرور، تکبر، نفرت، بڑا پن اور میں ہے، دل کبھی اِدھر جھکتا ہے جبکہ ایک دنیا دوسری طرف بھی ہے جس میں اللہ کا ذکر، اس کی طاعت، عبادت، سجدہ، فاقہ، عشق، مستی، حضور ﷺ کی اتباع، متابعت، قربِ الہٰی، توکل ہے، دل اِدھر بھی جھکتا ہے۔ گویا اِدھر حرص، اُدھر بے نیازی۔۔۔ اِدھر لالچ اُدھر زہد۔۔۔ اِدھر دنیا کی پستی اُدھر روح کی بلندی۔۔۔ اِدھر دنیا ہے اور اُدھر آخرت ہے۔ الغرض دل دنیا میں جس طرح کی مجلس میں جاتا ہے، ادھر اڑنے لگتا ہے۔
دل کبھی اسفل سٰفلین بنتا ہے، کبھی احسن تقویم بنتا ہے۔۔۔ کبھی بلندی کی طرف اڑتا ہے کبھی پستی اور گراوٹ کی طرف جاتا ہے۔۔۔ دل کو ایک طرف جسم کھینچ رہا ہے تو دوسری طرف روح کھینچ رہی ہے۔ بالآخر جس نے قبضہ کرلیا، دل اسی کے حق میں چلا گیا۔ اس کو اس مثال سے سمجھیں کہ اگر کوئی شہر کی حفاظت کرنے والا گھوڑے پر سوار ہوجائے تو گھوڑا اس سے شہر کی حفاظت کی خدمت کروائے گا، اگر اسی گھوڑے پر چور، ڈاکو، لٹیرا سوار ہوجائے تو وہ لوٹ مار کروائے گا، اگر جان بچانے کے لیے کوئی گھوڑے پر بیٹھ جائے تو یہی گھوڑا لوگوں کی جان بچانے کے طور پر استعمال ہوگا اور اگر کوئی اسے قتل و غارت کے لیے استعمال کرے تو گھوڑے کی کیا مجال جو سوار کے حکم پر نہ چلے۔ لہذا جو سوار ہوجائے، گھوڑا اسی کا ہے۔ اسی طرح جو دل پر قبضہ کرلے، دل اسی کا ہے۔ گناہ قبضہ کرلے تو دل گناہ کا۔۔۔ اگر اس کی طاعت اور بندگی قبضہ کرلے تو دل اس کی طاعت کا۔۔۔ اگر جسم قبضہ کرلے تو دل جسم جیسا تاریک۔۔۔ اگر روح قبضہ کرلے تو دل روح جیسا روشن۔
یہی وجہ ہے کہ کئی لوگوں کے دل ناسوتی ہوتے ہیں۔۔۔ کئی لوگوں کے دل انسانی ہوتے ہیں۔۔۔ کئی لوگوں کے دل حیوانی ہوتے ہیں۔۔۔ اور کئی لوگوں کے دل شیطانی ہوتے ہیں۔ دل اگر پستی کی طرف چل پڑے تو شیطانی ہے اور اگر بلندی کی طرف چل پڑے تو انسانی ہے۔ اسی طرح کئی لوگوں کے دل روحانی اور رحمانی بھی ہوتے ہیں۔۔۔ کئی لوگوں کے دل ملکوتی اور جبروتی ہوتے ہیں۔۔۔ کئی لوگوںکے دل گناہوں کی گندی فضاء میں لت پت پھرتے ہیں۔۔۔ اور کئی لوگوں کے دل فرشتوں سے بھی بلند مالا اعلیٰ کی ہوائوں میں اڑتے ہیں۔
یہ جسم و روح کی جنگ ہے اس میں انسان کو اختیار ہے کہ وہ دل کو کس کے حوالے کرتا ہے۔ اس جنگ میں ہم چاہیں تو روح کو فتح دلادیں، چاہیں تو جسم کو فتح یاب کرکے دل اس کے حوالے کردیں۔
جسم اور روح کی غذا
جسم اور روح کی غذا الگ الگ ہے۔ اِن دونوں کو جس قدر اِن کی غذا ملے گی اتنے ہی یہ طاقتور ہوں گے اور دل کو اپنے قبضہ میں کرنے کے قابل ہوں گے۔جسم چاہتاہے کہ زیادہ کھائے اور طرح طرح کے طعام سے لطف اندوز ہو جبکہ روح اس مالا اعلیٰ سے آئی ہے جہاں طرح طرح کے پکوان نہیں ہیں۔۔۔ جسم چاہتا ہے زیادہ سوئے جبکہ روح اس وطن سے آئی ہے جہاں سونے کا تصور ہی نہیں تھا۔۔۔ گویا روح کی خوراک اور تھی، جسم کی خوراک اور ہے، جسم کی خوراک وہ ہے جو ہم کھاتے پیتے ہیں مگر روح کی خوراک مولا کا ذکر اور اس کی قربت ہے۔ روح کی خوراک اس کی طاعت، اس کا سجدہ، اس کی عبادت، ذکر اور اس کا نور ہے اور روح اس میں مست ہے۔ جس قدر جسم کو خوراک ملتی ہے، وہ توانا ہوتا ہے، اسی طرح روح کو جتنا نور ملتا ہے وہ اتنا توانا ہوتی ہے۔
جسم چاہتا ہے دل بھی میری طرح غافل ہوجائے جبکہ روح چاہتی ہے کہ دل میری طرح شاغل ہوجائے۔ جب روح دل پر قابض ہو کر دل کو اپنے جیسا بنالے تو دل پر روح کا رنگ چڑھ جاتا ہے اور روح ترقی کرکے سِر بن جاتی ہے اور دل ترقی کرکے روح بن جاتا ہے۔ یعنی دل؛ روح کے مقام پر آجاتا ہے اور روح سِر کے مقام پر اور اس طرح دل منزلیں طے کرتا چلا جاتا ہے۔ جب انسان کا دل؛ روح کے رنگ میں رنگا جائے تو فرش پر چلنے والا انسان عرشی بن جاتا ہے اور جب فرشی انسان کا من اندر سے عرشی بن جائے تو سمجھ لیں وہ انسان ولی اللہ ہوگیا ہے۔ اس کا تن فرشی ہوتا ہے مگر مَن عرشی ہوجاتا ہے۔ جب یہ کیفیت نصیب ہوجائے تو اس کیفیت اور حالت کو ولایت کہتے ہیں اور ایسے انسان کو ولی کہتے ہیں۔
علامتِ ولایت
ولی کی علامت اور نشانی کیا ہے؟ ولی کی نشانی یہ ہے کہ اس کا دل سخی ہوجاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر کے دوران میں ایک نخلستان سے گزرا، جہاں میں نے ایک جوان دیکھا جس کے چہرے پر معرفت اور ولایت کے آثار تھے۔ میں اس کے پاس بیٹھ گیا۔ میں نے اسے بغور دیکھا تو یوں لگا کہ اس نے کئی دن سے کھانا نہیں کھایا۔ میرے پاس تین روٹیاں تھیں، میں نے تینوں روٹیاں اس جوان کو دے دیں کہ وہ انھیں کھاکر اپنی بھوک مٹاسکے۔ اس نے وہ روٹیاں لے کر اپنے پاس رکھ لیں۔ تھوڑی دیر میں ایک کتا آیا اور اس جوان کے قریب بیٹھ گیا۔ اس جوان نے ایک روٹی اٹھائی اور کتے کو ڈال دی۔ کتے نے روٹی کھالی اور پھر جوان کی طرف دیکھنے لگا۔ اس نے دوسری روٹی بھی کتے کو ڈال دی۔ کتے نے دوسری روٹی بھی کھالی اور پھر اس جوان کی طرف دیکھنے لگا۔ اس نے تیسری روٹی بھی اس کتے کو ڈال دی۔ کتے نے تیسری روٹی کھائی اور سیر ہوکر واپس بھاگ گیا۔
حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس جوان کے قریب گیا اور کہا: اے جوان! آپ ان تینوں روٹیوں میں سے ایک روٹی کتے کو دے دیتے، دو اپنے لیے رکھ لیتے۔ بہت زیادہ کرتے تو اس کو دو دے دیتے اور ایک اپنے لیے رکھ لیتے، آپ نے تینوں روٹیاں اس کو دے دیں، اب آپ خود کیا کریں گے؟ اس جوان نے کہا کہ اس توفیق کی لذّت پر اللہ کا شکر ادا کروں گا۔ یعنی اس نے جو توفیق دی اب دن بھر اس کی لذّت میں رہوں گا اور شکر اد اکروں گا۔ اس جوان نے کہا کہ میں نے ساری روٹیاں اس کتے کو اس لیے دیں کہ ہماری یہ زمین نخلستان ہے، یہ زمین کتوں کی زمین نہیں ہے۔ ہمارے قصبے کے اردگرد دور دور تک کتے نہیں ہوتے۔ میں نے جب اس کتے کو دیکھا تو میں سمجھ گیا کہ یہ کتا کہیں دور سے روٹی کی تلاش میں آیا ہے اور بھوکا تھا۔ اس کے باربار سر اٹھانے سے مجھے اندازہ ہوا کہ اس کی بھوک ابھی ختم نہیں ہوئی۔ مجھے شرم آئی کہ خود اپنے لیے روٹی رکھ لوں اور کتے کو بھوکا واپس بھیج دوں۔
اس واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ولی کتے کے جذبات کا اتنا خیال کرتا ہے تو انسان کے جذبات کا کس قدر خیال رکھتا ہوگا۔ ولی کا شیوہ اور وطیرہ یہ ہے کہ وہ کسی انسان کا دل نہیں توڑتا۔۔۔ کسی کو گالی نہیں دیتا۔۔۔ کسی کو حقیر نہیں جانتا۔۔۔ کسی کو اوئے توئے نہیں کرتا۔۔۔ کسی کے ساتھ سخت لہجے میں بات نہیں کرتا۔۔۔ ولی لینے والا نہیں ہوتا بلکہ دینے والا ہوتا ہے۔ ولی کا ہاتھ اوپر ہوتا ہے، نیچے نہیں ہوتا۔۔۔ ولی معاف کرنے والا ہوتا ہے۔۔۔ ولی کنجوس نہیں ہوتا۔ لہذا جس کو کنجوس دیکھو، اس کو غلطی سے بھی ولی نہ سمجھو۔ اس لیے کہ جب ولایت کے باب میں بندے اور اللہ کا دوہرا رشتہ قائم ہوجاتا ہے تو ولی کی عادات بدل جاتی ہیں اور بشری و انسانی گھٹیا عادات کی جگہ ملکوتی عادات آجاتی ہیں۔
- حضرت شقیق بلخیؒ مدینہ طیبہ میں حضرت جعفر الصادق رضی اللہ عنہ کی زیارت کے لیے حاضر ہوئے تو سیدنا امام جعفر الصادقؓ نے فرمایا: شقیق تم بلخ (افغانستان) سے آئے ہو۔ تمہارے ہاں فتوت (ولی کی عادت) کا معنی کیا ہے؟ یعنی ولی کا طریقہ کیا ہے؟
حضرت شقیق بلخی نے جواب دیا کہ وہاں ولی کی فتوت کا معنی یہ ہے کہ ملے تو شکر کرے، نہ ملے تو صبر کرے۔ آپ نے فرمایا کہ ہمارے شہر یعنی مدینہ میں کتوں کا یہی حال ہے۔ کتوں کو ملے تو شکر کرتے ہیں، دم ہلاتے ہیں اور اگر نہ ملے تو صبر کرتے ہیں۔
حضرت شقیق بلخی نے کہا تو پھر حضرت آپ رضی اللہ عنہ کے ہاں فتوت کیا ہے؟ فرمایا: ہمارے ہاں فتوت یہ ہے کہ ملے تو بانٹ دے، نہ ملے تو شکر کرے۔
ملے تو بانٹ دینا سمجھ میں آتا ہے مگر نہ ملنے پر شکر سمجھ نہیں آتا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ولی نہ ملنے پر شکر اس لیے کرتا ہے کہ اگر حرام ملے تو عذاب ہے اور اگر حلال ملے تو حساب ہے۔ولی کو اگر نہیں ملتا تو شکر اس لیے کرتا ہے کہ حساب سے بچ گئے۔ کیونکہ مولیٰ کی بارگاہ کا حساب بڑا سخت ہے، وہ شکر کرتے ہیں کہ مولا تو نے نہ دے کر حساب سے بچالیا۔
یہ ولی کا شیوۂ زندگی ہے۔ جو اللہ کی دوستی کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں، ان کے شیوے اور طور طریقے بشری اور ناسوتی نہیں رہتے بلکہ ملکوتی ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اولیاء کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ