عصر حاضر میں اسلام کو درپیش چیلنجز کی نوعیت ہمہ جہتی بھی ہے اور کئی اعتبار سے ماضی کے مقابلے میں زیادہ خطرناک، حساس اور پیچیدہ بھی۔ اس وقت انفرادی تشخص سے لے کر اجتماعی اقدار و روایات بھی انحطاط و زوال کا شکار ہیں۔ موجودہ تہذیبی تصادم کے مظاہر اس حقیقت کے عکاس ہیں کہ اسلام دشمنی کا یہ محاذ اب صرف جغرافیائی سرحدوں پر سرگرم نہیں بلکہ تہذیبی، ثقافتی، معاشی اور معاشرتی میدانوں میں بھی اس کھلے تصادم کی حدت بڑھ رہی ہے۔ جہاں معاشی طور پر پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ مغربی سامراج کا مقروض ہے، وہاں میڈیا میں جدت اور روشن خیالی کے نام پر اسے نوجوان کو ذہنی سطح پر بھی مرعوب بنادیا گیا ہے۔ سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلمانوں کو مغربی روایات کا اسیر بناکر اسلام کی لازوال اقدار سے برگشتہ کیا جارہا ہے، جس کا شکار ہونیوالوں میں صنف نازک سر فہرست ہے۔ فیشن پرستی نے نیم عریاں لباس پہننے پر مجبور کردیا ہے۔ اکبر الہ آبادی نے بڑے خوبصورت انداز میں اس صورتحال پر یوں تنقید کی۔
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمین میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو میں نے آپ کے پردے کو کیا ہوا؟
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
حالات کے اس نازک موڑ پر علمی اور ثقافتی محاذوں پر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی اقدار وروایات کو اپنی شان و شوکت سمیت زندہ رکھنا از حد ضروری ہے۔ منہاج القرآن ویمن لیگ نے صنف نازک کو غیر اسلامی روایات سے محفوظ رکھنے کے لئے اسلامی کلچر کو متعارف کروایا۔ خواتین میں اسلامی اقدار کے فروغ اور ان میں شعور حق کی جدوجہد بھی جاری ہے۔ دیگر کثیر التعداد سرگرمیوں اور پروگرامز کے علاوہ منہاج القرآن ویمن لیگ کی خواتین نے سروں کو ڈھانپ کر حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی چادر تطہیر اوڑھنے کی مثال زندہ کر دی ہے۔ اس عملی جدوجہد کا روشن ثبوت حجاب ہاؤس کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ حجاب ہاؤس کے قیام کا واحد اور بنیادی مقصد خواتین میں باپردہ پرکشش لباس کو فروغ دینا اور خواتین میں عملی مسلمان بننے کا جذبہ بیدار کرنا ہے۔
اسلام کی بیٹیوں کا طرہ امتیاز حیا اور پاکدامنی وصف اولین ہے جس کو زندہ رکھا جانا از حد ضروری ہے۔ اسلامک کلچر کے عین مطابق لباس دیدہ زیب، لانگ ڈریسز، اعبایا تیار کئے جاتے ہیں جو ستر اور باپردہ ہونے کے ساتھ معاشرے کے جدید تقاضوں کے پیش نظر تیار کئے جاتے ہیں۔
خواتین میں فروغ حجاب کے لئے ملک کے ہر شہر میں حجاب ہاؤس کے سٹالز لگائے گئے ہیں۔ جنہیں حد درجہ سراہا گیا ہے۔ ان میں لاہور، گوجرانوالہ، اسلام آباد، کراچی، ملتان میں بالخصوص حجاب ہاؤس کی برانچز کا قیام بھی عمل میں لایا جارہا ہے۔
بیرون ملک مسلم خواتین میں حجاب کے کلچر کو فروغ دینے کے لئے حجاب نمائش کا بھی اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔ انگلینڈ، ڈنمارک، ناروے، فرانس کی خواتین ان حجاب کو بہت پسند کرتی ہیں۔ جس سے اسلامی کلچر کو فروغ حاصل ہورہا ہے۔
اندرون ملک منہاج القرآن ویمن لیگ کی تنظیمات نے حجاب کو مسلم کلچر کے طور پر فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ بیداریٔ شعور مہم کے تحت حجاب مسلم خواتین کی وجہ امتیاز کے موضوع پر مختلف یونیورسٹیزاور کالجز میں ورکشاپس اور لیکچرز کا اہتمام کیا گیا اور مختلف رسائل و جرائد میں مضامین و آرٹیکلز بھی شائع کروائے گئے۔ نیز منہاج القرآن ویمن لیگ کی جملہ تنظیمات اپنی سالانہ و تحصیلی محافل میلاد میں حجاب ہاؤس کے سٹالز لگاتی ہیں جن کے ذریعے محافل اور پروگرامز میں شریک ہونے والی خواتین کے لئے ہر قسم کے حجاب دستیاب ہوتے ہیں۔
مسلم خواتین میں سنت حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کے مطابق یہ عملی دعوت منہاج القرآن ویمن لیگ کا ایک زریں اقدام ہے۔ یہ کوشش حصول منزل تک جاری رہے گی۔ حجاب ہاؤس میں ایرانی اعبایا، عربی اعبایا اور دیگر جدید ڈیزائن کے پرکشش اعبایا دستیاب ہیں۔ جہاں سے خواہشمند خواتین بآسانی حجاب حاصل کرسکتی ہیں۔