یہ نومبر 1990ء کی ایک بابرکت اور باسعادت گھڑی تھی جب خوش قسمتی نے میرے درو دیوار اور دل و دماغ پر دستک دی۔ سیدی و مرشدی حضور قدوۃ الاولیاء سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی البغدادی رحمۃاللہ علیہ کی لاہور تشریف آوری ہوچکی تھی اور آج آپ نے حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی رہائش گاہ پر تشریف لا کر غوثیہ پارک میں خوش قسمت خواتین و حضرات کو بیعت سے مستفیض فرمانا تھا۔ تمام خواتین و حضرات محو انتظار تھے کہ چند لمحات کے بعد حضور پیر صاحب رحمۃاللہ علیہ، پنڈال کے اندر تشریف لائے ان کے ساتھ حضور شیخ الاسلام بھی تھے۔ وہ کیسا سہانا دلفریب منظر تھا۔۔۔ کیسے خوش بخت نظارے تھے۔ ان ناقابل بیان لمحات اور وجدانی کیفیات کو پھر کسی تحریر کے لئے اٹھا رکھتی ہوں۔ مختصراً یہ کہ اس مجلس میں مجھے بیعت کی سعادت نصیب ہوئی۔ بعد ازاں حضور پیر صاحب رحمۃاللہ علیہ کو حضور شیخ الاسلام کی رہائش گاہ پر لے جایا گیا۔ ہم بھی ہمراہ گئے، سب سے پہلے ہمیں برآمدے میں حضور قائد محترم کے چھوٹے صاحبزادے محترم حسین محی الدین قادری ملے۔ غالباً ان کی عمر اس وقت چھ یا سات سال کے لگ بھگ ہوگی۔ آپ اپنی توتلی زبان میں ہمیں اس فائرنگ کا بتا رہے تھے جو حضور قائد محترم کی رہائش گاہ پر کروائی گئی تھی اور اس شدید فائرنگ کے نتیجے میں ہونے والے متوقع نقصان سے اللہ پاک نے حضور قائد محترم اور آپ کی فیملی کو معجزانہ طور پر بچا لیا تھا۔ انہوں نے ہمیں اس واقعہ سے مکمل طور پر آگاہ کیا۔ ہم ان کے اس غیر معمولی اعتماد اور جرأت مندانہ انداز سے بہت متاثر ہوئے۔ بعد ازاں اندر جانے کا شرف حاصل ہوا تو ایک انتہائی بردبار، سنجیدہ اور پروقار ہستی کو جس بلند ہمتی اور حوصلہ مندی کے ساتھ فائرنگ کے اس واقعہ سے متعلق خواتین کے ساتھ گفتگو کرتے دیکھا تو میں سمجھ گئی کہ اس چھوٹے انقلابی حسین محی الدین کو اعتماد اور تربیت دینے والی یہی ہستی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ بچے کی تربیت کو ایک خاص نہج پر ڈالنے والی قوت ماں کے سوا کوئی نہیں ہوسکتی۔ یہ تھا ان کی شخصیت سے میرا پہلا تعارف۔ اس عظیم شخصیت کا نام ہے بیگم رفعت جبیں قادری۔
آپ کی سب سے پہلی خوش بختی تو یہ ہے کہ قدرت نے آپ کو حضور شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی اہلیہ بننے کا غیر معمولی شرف عطا فرمایا۔ رشتے میں آپ حضور قائد محترم کی چچا زاد بھی ہیں۔ حضور قائد محترم کے والد گرامی فرید ملت فرید روزگار حضرت ڈاکٹر علامہ فریدالدین قادری رحمۃاللہ علیہ، جو بیگم رفعت جبیں قادری کے تایا جان تھے آپ سے انتہائی شفقت اور والہانہ محبت فرماتے اور ان کی ہی بھرپور خواہش پر آپ کی نسبت دور طالب علمی میں ہی حضور قائد محترم سے طے کر دی گئی۔ ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃاللہ علیہ کا آپ سے خصوصی تعلق، روحانی نسبت، توجہات اور نوازشات کا اب تک ختم نہ ہونے والا ایک ایسا سلسلہ قائم ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃاللہ علیہ آپ کو کتنا عزیز رکھتے تھے اور ان کی توجہ وصال کے بعد بھی ایک لمحے کے لئے بھی آپ سے جدا نہیں ہوئی۔ آپ کو ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃاللہ علیہ کی صرف چہیتی اور لاڈلی بہو ہی نہیں بلکہ ایک مریدہ باصفا اور شاگردہ ہونے کا درجہ بھی حاصل ہے۔ جب آپ کی حضور قائد محترم سے نسبت طے ہوئی تو آپ کی عمر اتنی زیادہ نہیں تھی چنانچہ اسی چھوٹی عمر سے ہی حضرت ڈاکٹر فریدالدین رحمۃاللہ علیہ آپ کو دیکھ کر اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ’’بیٹا آپ پر مستقبل میں بہت بھاری ذمہ داریاں آنے والی ہیں، اللہ پاک آپ کو ہمت و طاقت عطا فرمائے‘‘۔ ان کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے یہ الفاظ آپ کی نگاہ بصیرت کے مصداق ہیں۔ جب آپ کی حضور قائد محترم سے شادی ہوئی تو شادی سے چند ہفتے قبل حضرت ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃاللہ علیہ کا وصال ہوگیا۔ حضور شیخ الاسلام کی والدہ محترمہ تو آپ کے بچپن کے زمانے میں ہی وصال فرما چکی تھیں۔ غرضیکہ حضرت ڈاکٹر فریدالدین رحمۃاللہ علیہ کا وصال پا جانا ان ایام میں جب شادی کی تاریخ رکھی جا چکی ہو اور ان کی دلی تمنا، شدید آرزو اور خواہش ہو کہ رفعت بیٹی کو میں جلد از جلد بہو کے روپ میں اپنے گھر میں دیکھ سکوں مگر مرض الموت نے آپ کو اپنی ظاہری آنکھوں سے یہ خوشی دیکھنے کی مہلت نہ دی۔ آخری ایام میں حضرت فرید ملت رحمۃاللہ علیہ نے ایک دن باجی جان (بیگم رفعت جبیں قادری) کو اپنے پاس ہاسپٹل بلوایا اور دیر تک آپ اپنی لاڈلی بھتیجی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر روتے رہے اور فرماتے جاتے تھے کہ ’’شاید اللہ پاک نے اپنے ہاتھوں سے آپ کو بہو بنا کر لے جانا میری قسمت میں نہیں لکھا‘‘ یہ بات کرتے اور روتے جاتے حتی کہ آپ کی ہچکی بندھ گئی اور طبیعت زیادہ خراب ہونے لگی تو آپ گھر واپس چلی گئیں۔
آپ کے رنج و غم کا عالم کیا ہوگا کہ جب ایسی محبتیں اور چاہتیں لٹانے والی ہستی ایسے موقع پر داغ مفارقت دے جائے جبکہ ان کی رہنمائی اور ان کی پدرانہ شفقت اور دعاؤں کی قدم قدم پر ضرورت ہو۔ پس ایسے حالات اور غم زدہ ماحول میں جیسے ہی آپ کی حضور قائد محترم سے شادی ہوئی تو گھر کی بڑی اور اکلوتی بہو ہونے کے ناطے آپ نے ساری ذمہ داریاں اپنے نازک کندھوں پر اٹھالیں۔ قائد محترم کی ہمشیرگان کی شادیوں اور گھریلو امور کی ذمہ داریوں سے لے کر تحریک کے مکمل سفر میںآپ نے ایک مجاہدہ کی سی زندگی کا روپ دھار لیا۔ والد گرامی کے وصال کے بعد خاندان کی ساری ذمہ داری قائد محترم پر آن پڑی تھی۔ چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت اور شادی بیاہ کے معاملات ان کے ذمے تھے۔ ان دنوں قائد محترم کالج میں اسلامیات کے لیکچرر تھے۔ ان کی پوسٹنگ جھنگ سے دور حسو بلیل (میانوالی) کے علاقے میں تھی، جہاں سے آنا جانا مشکل تھا۔ اسی لئے جھنگ یا اس کے مضافات میں تبادلہ چاہتے تھے مگر متعلقہ دفتر میں رشوت کا مطالبہ کیا گیا تو آپ نے وہ جاب ہی چھوڑ دی۔ یوں وہ ذریعہ روزگار بھی وقتی طور پر چھوٹ گیا۔ پھر جھنگ میں ہی لاء پریکٹس شروع ہوئی تو ظاہر ہے فوری طور پر وکالت کے ذریعے آمدن کا سلسلہ شروع نہیں ہوا ہوگا۔ یہ کافی مشکل اور کٹھن دور تھا جب نوبیاہتی دلہن کی حیثیت سے آپ نے یہ سب کچھ برداشت کیا۔ پھر 1976ء میں قائد محترم نے محاذِ حریت کے نام سے دعوت انقلاب کا باقاعدہ پلیٹ فارم بھی قائم کر لیا۔ دن کو عدالت میں اور شام ڈھلتے ہی تقریروں اور خطابات کے لئے چلے جانا، رات گئے گھر واپس لوٹا، آکر آرام کرنا، اگلی صبح پھر نماز تہجد کے لئے اٹھ کھڑے ہونا، ان کے روز مرہ معمولات میں شامل تھا۔ ایسے حالات میں بھی باجی جان نے ایک شریک سفر اور سلیقہ شعار خاتون خانہ کی طرح نبھا کیا۔ گھر کے سارے معاملات، خاندان کے ساتھ میل جول، بہن بھائیوں کی ضروریات کی دیکھ بھال، یہ سب کچھ شروع سے ہی باجی جان نے اپنے ذمے لے رکھا تھا۔
اسی دوران آپ کی بڑی صاحبزادی محترمہ قرۃ العین فاطمہ کی ولادت ہوئی، ادھر سے حضور شیخ الاسلام کی دعوتی مصروفیات بڑھ گئیں۔ 1977ء میں تحریک نظام مصطفی چل رہی تھی جس میں قائد محترم نے جھنگ اور اس کے مضافات میں لیڈنگ رول ادا کیا۔ خطابات کئے اور اپنی پہلی کتاب ’’نظام مصطفی۔ ایک انقلاب آفریں پیغام‘‘ بھی لکھی۔ پھر فیملی کے ساتھ جب آپ پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں بطور لیکچرر متعین ہوئے تو آپ کے دوسرے بچے حسن محی الدین قادری کی ولادت بھی ہوچکی تھی۔ دو چھوٹے بچوں کے ساتھ دن بھر گھر کے کاموں کی انجام دہی کے علاوہ کئی کئی راتوں تک گھر میں اکیلے رہنا پڑتا کیونکہ اس وقت لاہور میں دروس قرآن کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ تحریک کا باقاعدہ قیام عمل میں آچکا تھا اور قائد محترم کا دعوت کے سلسلے میں لاہور سے کئی کئی دن باہر دور دراز شہروں میں جانے کا معمول شروع ہو چکا تھا۔ کبھی اسلام آباد کبھی کراچی، کبھی پشاور، کبھی کوئٹہ اور کبھی کہیں۔ ابتداء میں قائد محترم لاہور آ کر کرائے کے مکانوں میں رہتے رہے پھر یونیورسٹی کے ہاسٹل میں سکونت پذیر ہوگئے مگر قائد محترم کی مصروفیات میں ہر نئے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا تھا۔ یونیورسٹی میں لیکچرر کی تنخواہ میں دورے بھی ہوتے تھے، مہمان نوازی بھی ہوتی تھی اور گھریلو ضروریات بھی پوری کرنا پڑتی تھیں۔ یہاں پھر باجی جان کی کفایت شعاری، شدید تنگ دستی پر صبر اور قناعت پسندی کا امتحان ہوا اور کئی سالوں تک ہوتا رہا۔اگست / ستمبر 1982ء میں قائد محترم سمن آباد کے ایک چھوٹے سے گھر میں قیام فرما تھے، جہاں آپ کے ہاں حسین محی الدین قادری کی ولادت ہوئی۔ اس سے قبل بھی ان کے بہن بھائی موجود تھے۔ ادھر منہاج القرآن کا ایک وسیع حلقہ بھی بن چکا تھا۔ یہی دور تھا جب قائد محترم کو شدید عارضہ قلب لاحق ہوا۔ اس وقت اتفاق مسجد میں نماز جمعہ کا خطبہ شروع ہو چکا تھا اور اتفاق اسلامک اکیڈمی کی شکل میں جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کی کلاسوں کا اجراء بھی ہوگیا تھا۔
جب قائد محترم علاج کی غرض سے بیرون ملک تشریف لے گئے تو باجی جان کی عمر بہت کم تھی۔ آپ نے اپنی نوجوان بیوی کو تین بچوں کے ساتھ اللہ کے سہارے چھوڑتے ہوئے نصیحت کی تھی کہ ’’چونکہ میرے دل کا آپریشن ہوگا خدا جانے زندگی ہے یا نہیں میں زندہ واپس نہ آسکا تو آپ نے بیوگی کی حالت میں زندگی نہیں گزارنی، شادی ضرور کرلینا‘‘۔ قائد محترم کے یہ کلمات بہت ہی تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ یہ ایک مشکل وقت اور جاں گسل لمحات تھے اور اس وقت میں حالات کی اس شدت کا احساس باجی جان کے علاوہ اور کسے ہوسکا ہوگا؟
اس کے بعد اللہ پاک نے قائد محترم کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کرم نوازیوں کے طفیل صحت و تندرستی عطا فرمائی۔ آپ بخیرو عافیت عمرہ اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے بعد لاہور واپس تشریف لے آئے۔ معمول کی مصروفیات دوبارہ شروع ہوگئیں۔ کچھ عرصہ بعد سمن آباد والے گھر کو فروخت کرکے قائد محترم نے مرکز کے قریب موجودہ رہائش تعمیر کروالی تھی۔86-1987ء میں آپ بچوں سمیت منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے قریب موجودہ رہائش میں منتقل ہوگئیں۔ اب دورہ جات کا سلسلہ بیرون ملک تک پھیل گیا۔ گھر میں رشتہ داروں اور تحریکی خواتین و حضرات کی آمد کا سلسلہ زیادہ ہوگیا لیکن حضور شیخ الاسلام کو گھریلو معاملات میں آپ نے بدستور بے نیاز رکھا۔ اس دوران بچوں کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع تھا۔ محترمہ قرۃ العین خدیجہ بھی پیدا ہو چکی تھیں اب آپ پر پانچ بچوں کی تربیت اور نگہداشت کی ذمہ داری پہلے سے بڑھ چکی تھی۔ آپ فرماتی ہیں میں نے کبھی قائد محترم کو اپنی کسی حاجت یا بچوں کی کسی چیز کے لئے بازار جانے کی فرمائش نہیں کی۔ اس دوران بھی آمدن حسب سابق محدود تھی۔ کاروبار میں حصہ داری چل رہی تھی جو کئی بار معطل ہوئی، رقم ڈوبتی رہی۔۔۔ کبھی رقم آجاتی، کبھی نہ آتی جو تھوڑا بہت ہوتا اسی میں گزارا کرنا پڑتا۔
موجودہ مرکزی سیکرٹریٹ کے لئے جب قطعہ اراضی منتخب کیا گیا تو حضور شیخ الاسلام سمن آباد والی رہائش میں مقیم تھے۔ جب آپ جگہ دیکھنے کے لئے آئے تو آپ کے ساتھ باجی جان اور دو بچے محترمہ قرۃ العین فاطمہ اور حسین محی الدین بھی تھے۔ اس وقت اس جگہ کھیت تھے۔ ابھی حضور پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مرکز کا سنگ بنیاد نہیں رکھا تھا۔ قائد محترم نے مصلیٰ بچھا کر سب سے پہلے یہاں دو نفل ادا کئے اور ساتھ ہی محترمہ باجی جان نے بھی اپنا مصلیٰ بچھا کر دو نفل ادا کئے۔ آج جو عظیم الشان مرکز ہمیں نظر آ رہا ہے، جہاں ہزاروں لوگ آتے جاتے ہیں درجنوں شعبے اور کئی فورمز کام کر رہے ہیں۔ یہ انہی دعاؤں کا ثمر ہے جو اس ویران جگہ پر ان پاکیزہ نفوس نے اللہ پاک کی بارگاہ سے کی تھیں۔ جب اللہ کے فضل و کرم سے مرکز تعمیر ہو گیا، ملک بھر میں دروس کا سلسلہ بھی قائم ہوگیا تو آپ نے بیرون ملک حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے ساتھ جانا شروع کردیا جہاں مردوں سے تو قائد محترم خود خطاب کرتے مگر خواتین کو باجی جان بریفنگ دیا کرتی تھیں۔ 1988ء میں لندن ویمبلے کانفرنس کے موقع پر بھی باجی جان قائد محترم کے ساتھ تھیں اور انہوں نے یورپ میں مقیم رفقاء کی بیگمات کو مشن میں شامل کرنے کے لئے بے تحاشا محنت کی۔ الغرض اس وقت ناروے، ڈنمارک اور دیگر یورپی ممالک میں دعوتی اور تبلیغی دوروں میں شامل ہوتی تھیں، یہ سلسلہ 1995ء تک چلتا رہا۔
یہ تو قائد محترم کے ساتھ قدم قدم پر آپ کے تعاون کا ایک پہلو تھا۔ جبکہ آپ کی اصل قربانی یہ تھی کہ آپ نے قائد محترم کا گھر سنبھال رکھا تھا۔ گھر میں پرسکون حالات اور سازگار ماحول قائم رکھنے کی حتی المقدور کاوشیں جاری رکھیں۔ آپ نے پانچوں بچوں کی تربیت اتنے اچھے ماحول میں کی کہ وہ اگر یورپ میں بھی رہتے ہیں تو ان بچوں کی تہجد قضا نہیں ہوتی۔ سب بچے ایک سے بڑھ کر ایک خوش اخلاق، خوش خصال، ملنسار، دین کی خدمت کے امین اور اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و اطاعت کے جذبے سے مالا مال ہیں۔ تمام بچے اب ماشاء اللہ بڑے ہوچکے ہیں۔ تین بڑے بچوں کی شادیاں بھی ہوگئی ہیں لیکن باجی جان ابھی تک اپنی شفیق ممتا کے دامن میں سب کو سمیٹے ہوئے آگے بڑھ رہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گھر کے اس ماحول میں انوار و برکات اور تقدس کی بڑی وجہ حضور قائد محترم کی ذات گرامی ہے مگر اس تقدس اور برکت کو قائم رکھنے میں آپ کا نمایاں کردار ہے۔ بہت سی مذہبی شخصیات کے گھروں کا ماحول مثالی نہیں بن سکتا۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کی مصروفیات بچوں کی تربیت سے محرومی کا سبب بن جاتی ہیں اور بچوں پر ماں کی سیرت اثر انداز نہیں ہوتی یا پھر اثر انداز ہونے کی تاثیر سے ہی محروم ہوتی ہے۔ ایسا عام طور پر وہاں ہوتا ہے جہاں ایسی شخصیات کی بیگمات کمزور اور ناپختہ سیرت کی مالک ہوتی ہیں۔ لیکن یہاں ایسا ہر گز نہیں۔ قائد محترم کے گھر اور بچوں میں دینداری، مشنری اور خوشگوار ماحول کے پیچھے باجی جان کا وجود اللہ پاک کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے اور یہی ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃاللہ علیہ کے حسنِ انتخاب کا کمال ہے۔
آج منہاج القرآن ویمن لیگ اگر اس مقام پر پہنچی ہے تو قدم قدم پر اسے بھی آپ کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ آپ اپنے بچوں کی طرح کارکنان کی بہنوں بیٹیوں کو پیار اور شفقت دیتی ہیں۔ میں نے ہمیشہ انہیں اپنی ماں سے بڑھ کر اپنے ساتھ محبت و شفقت کرتے دیکھا ہے۔ ان کا یہ سلوک صرف میرے ساتھ ہی نہیں بلکہ تحریک میں شامل ہر بہن کے ساتھ ہے۔ وہ ہمارے دکھوں کو اپنا دکھ سمجھتی ہیں۔ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کی تینوں صاحبزادیاں بھی ویمن لیگ کی بہنوں کے ساتھ حقیقی بہنوں جیسا برتاؤ کرتی ہیں۔
باجی جان کی شخصیت واقعتا ایک جامع، مکمل اور پرکشش شخصیت ہے۔ حقوق اللہ کی ادائیگی ہو یا حقوق العباد کی، وہ دونوں محاذوں پر کامیابی سے گامزن ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ان کے انگ انگ میں کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ قائد محترم کو وہ صرف تحریکی قائد ہی نہیں اپنا روحانی مربی بھی سمجھتی ہیں۔ وہ خود شب زندہ دار اور عبادت گزار ہیں اس لئے ا ن کے سارے بچے بھی عبادت و ریاضت میں اپنے والدین کی تصویر ہیں۔ تحریک منہاج القرآن اگر آج ایک شجرِ سایہ دار اور بلند قامت مینارۂ نور بن چکا ہے تو عزیمت کے اس طویل سفر میں قائد محترم کے ساتھ آپ کی قربانیوں کا حصہ بھی موجود ہے۔ آپ کا خاموش کردار وہی حیثیت رکھتا ہے جو کسی بلند و بالا عمارت کی بنیادوں میں لگے ہوئے پتھروں کا ہوتا ہے جو نظر تو نہیں آتے مگر پوری عمارت انہی پر کھڑی ہوتی ہے۔