ترانہ منہاج القرآن ویمن لیگ
ہم خون جگر دے کر گلشن کو سجادیں گی
ہر نقشِ خزاں کو پھر منظر سے ہٹادیں گی
مایوسی کے یہ بادل چھٹ جائیں گے بالآخر
امید کے رستوں میں اک دیپ جلادیں گی
اسلام کا پرچم پھر لہرائے گا دنیا میں
قرآن کی عظمت کا پیغام سنادیں گی
اسی ظلم کی نگری میں ہم اپنے عمل سے پھر
دیوار تظلم کو ٹھوکر سے گرادیں گی
سرکار دو عالم کے قدموں سے عَلَم لے کر
باطل کی قیادت کا ہر نقش مٹادیں گی
گونجیں گی صدائیں پھر ان پاک فضاؤں میں
اس دیس کی خاطر ہم جاں اپنی لٹادیں گی
(اشتیاق احمد شاد، جرس کارواں، 1154)
اے قائد کی بیٹی تجھے سلام لکھتی ہوں
اے قائد کی بیٹی تجھے سلام لکھتی ہوں
تمہاری سادگی کو نظم کا عنوان لکھتی ہوں
ہوں اعتکاف کی رونقیں کہ کیمپس کی بہاریں
ہوں چشم تر کی آبشاریں کہ خطابات کے چشمے
یا ہوں محفل مصطفی کے چراغاں، جھیل جھرنے آبشاریں
آقا کے دین کی بیٹی کے نام لکھتی ہوں
سیدہ کائنات کانفرنس کے پر لطف نظارے
ہوں میلاد فیسٹیول کے پر مغز اشارے
حلقہ ہائے قرآن ہو، درود ہو، سبھی شہ پارے
آقا کے دین کی بیٹی کے نام لکھتی ہوں
سربلندی دین مصطفی کی جو تیری خدمات ہیں
قربانیاں ہیں تیری، تیری ذات کے کرشمات ہیں
یہ علم و ہنر سب قائد کے قدموں کی سوغات ہیں
اسی قائد کی بیٹی تجھے میں سلام لکھتی ہوں
تم ردائے زہرا کی امین بھی ہو
تم نوائے زینب کی سفیر بھی ہو
تم معصوم سکینہ کی دلگیر بھی ہو
اے درۃ الزہراء تجھے سلام لکھتی ہوں
سفر انقلاب کے راستوں کی مجاہدات ہو
ہو خوبیوں کا پیکر مزکّٰی و صفات ہو
ہے حسن تیرے ہر فکر و عمل میں عیاں
اے راہیہ انقلاب میں تجھے سلام لکھتی ہوں
عزم و عمل سے سب کو روشناس کرادیا
بے راہ روی کی ہواؤں کو رخ موڑنا سکھا دیا
بے ہنر و بے ثمر رداؤں کو پر اثر بنادیا
اے داعیہ مبشرات میں تجھے سلام لکھتی ہوں
(شکیلہ خانزادہ)
تو مصطفوی ہے
اسلام کا فرزند ہے تو مصطفوی ہے
تو قوتِ ایماں سے ہی لاریب قوی ہے
رہبر تیرا وہ سید مکی، مدنی ہے
دامن ترا وابستہ فرمان نبی ہے
حامی ترا ہر گام پہ ہو صاحبِ معراج
قرآن کا منہاج پیمبر کا ہے منہاج
اسلام ترا دیں ہے خدا اس کا نگہباں
آفاق میں ہے اس کے ہی دم سے تری پہچاں
قرآن میں ہے مضمر ہر درد کا درماں
اے کاش کہ ہوجائے ترا قلب مسلماں
اللہ پہ کر تکیہ نہ ہو غیر کا محتاج
قرآن کا منہاج پیمبر کا ہے منہاج
کر فرقہ پرستی کے تو مسلک سے کنارا
اور تھام لے اللہ کی رسی کو خدارا
یکجہتی ملت ہی خدا کو ہے گوارا
ہر شب کی سحر ہو، ہے یہ فطرت کا اشارا
تابندہ ہو فردا ترا، روشن ہو ترا آج
قرآن کا منہاج، پیمبر کا ہے منہاج
تقویٰ ہے تری ڈھال یقیں ہے تری شمشیر
گر زیست تری نکتہ ایماں کی ہو تفسیر
پھر انتم الاعلون نہ ہو کیوں تری تقدیر
ہیں ختم رسل شارع آئینِ جہاں گیر
زیبا ترے سر خاتم اقوام کا ہے تاج
قرآن کا منہاج، پیمبر کا ہے منہاج
اسلام کی روح اصل میں ہے عدل و مساوات
باطل کو بھی ہے حق کے مقابل میں سدا مات
لازم ہے کہ تبدیل ہوں جمہور کے حالات
اسلامی معیشت کے نظر آئیں کرشمات
سرمایہ پرستی کے سب آثار ہوں تاراج
قرآن کا منہاج، پیمبر کا ہے منہاج
(ضیاء نیّر)
منہاج القرآن ویمن لیگ کی نذر
ہماری مائیں
ہماری بہنیں
ہماری یہ بیٹیاں وطن میں
بہار نا آشنا چمن میں
قضا کے جلتے ہوئے بدن میں
عظیم لمحوں کی داستان ہیں
ہماری ماؤں
ہماری بہنوں
ہماری ان بیٹیوں نے آقا (ص)
اپنا لیا ہے دعا کو مرہم
سروں کے آنچل کو اپنا پرچم
نصاب ان کا جہاد پیہم
یہ حرف رفعت کا آسماں ہیں
ہماری مائیں
ہماری بہنیں
ہماری یہ بیٹیاں جو مولا
مہیب شب میں علم اٹھائے
یہ عزم نو کے دیئے جلائے
ہتھیلیوں پر سحر جلائے
رواں دواں ہیں رواں دواں ہیں
عطا ہو ان کو دعا کی چادر
حیا کے کنگن وفا کا زیور
ہماری ماؤں
ہماری بہنوں
(انتخاب: فریحہ خان)
ماں
اک ماں کے عوض ارض و سماوات کے مالک
دے ساری خدائی بھی تو میں لے نہیں سکتا
سب کچھ مجھے مل سکتا ہے یارب تیرے در سے
اک ماں کا بدل کوئی بھی مجھے دے نہیں سکتا
(اشتیاق چوہدری)
اے دختر انقلاب! کی کیا منزل کی جستجو تو نے
اے دختر انقلاب! کی کیا منزل کی جستجو تو نے؟
وہ کیا لوگ تھے جن کی ہے نسبت تجھ سے؟
وہ شب زندہ دار تھے تیری شب خموش
اسی مستی بے خودی میں کیا ہوگیا مدہوش
وہ اہل عشق و وفا کی مجلس روٹھیں
جس گردوں کا ہے تو تارا صبحیں جہاں سے پھوٹیں
اپنے من میں جھانک اور پالے خود سے خود کو
یہی ہے وقت کی پکار پاجا اپنی منزل کو
آقا حضور نے جو تجھے سبق دیا وہ یاد کر
جوانی کو اپنی آہ سحر گاہی سے آباد کر
قید حیات سے نکل دوڑا یہ اسپ تازی
جہاں تھے بایزید بسطامی و رومی و رازی
(شکیلہ خانزادہ)
روشن راہیں
انا کے جھوٹے خول سے نکل کر
دل و دماغ کے روشن دریچوں سے
قدرت کے سنہری ضابطوں سے
ہمیں اپنی زندگی کی کچھ راحتیں متعین کرنا ہیں
اس کائنات کا سکون
واپس لوٹانا ہے
ان بے راہ، بے مقصد اور بے سکوں لوگوں کی زندگیوں میں
ایک بار پھر سے
بھرپور زندگی اور امید کی شمع کو روشن کرنا ہے
ایک بے مقصد ہجوم کو
بامقصد قوم بنانا ہے
اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے
اس سے پہلے کہ ہر فرد اپنی شناخت کھودے اور
اس تباہی کا حصہ بن جائے
ہمیں اپنے حصے کا کام کرنا ہے
اپنے عہد کا کام کرنا ہے
لوگوں کو
علم دے کر
زندگی کاڈھنگ دے کر
ایمان کی دولت دے کر
خود انحصاری کے ساتھ
اعتماد پیدا کرکے
شعور پیدا کرکے
محبت پیدا کرکے
انسانیت کی خدمت کرکے
نسلی امتیازات ختم کرکے
فرقوں کو یکسر توڑ کر
نئی امنگ اور نئے جذبے کے ساتھ
ہمیں آگے بڑھنا ہے
ہمیں یہ کام کرنا ہے
یہ کام محنت طلب اور
کٹھن ضرور ہے
مگر!
ناممکن نہیں
ہمیں یہ کرنا ہے!
روشنی بن کر
راہیں متعین کرنا ہیں
یہ کام ہمارا ہے
اور ہمیں یہ کرنا ہے!!!
(انتخاب: رابعہ عروج ملک)
اے دختر اسلام تجھے خود کو جگانا ہے
اے دختر اسلام تجھے خود کو جگانا ہے
ظلمت و جہالت کی ہر دیوار کو ڈھانا ہے
بارشِ سنگ ہو یا جبر کی فصلیں
ناموسِ دیں کو تمہیں بچانا ہے
اے دختر اسلام تجھے خود کو جگانا ہے
ہمارے بعد بھی گذریں گے کتنے کارواں
ان کی راہوں میں بچھائیں کہکشاں
ہاں، اپنے افکارو کردار کی لو سے
نئی راہوں کو جگمگانا ہے
اے دختر اسلام تجھے خود کو جگانا ہے
کسی ظلم کسی جبر سے نہیں ڈرنا
بہار کی خاطر ہے خزاؤں سے لڑنا
سینچ کر اپنے لہو سے ہر کلی
گلشن دین کو سجانا ہے
اے دختر اسلام تجھے خود کو جگانا ہے
(عظمی ریاض صائت۔ بورے والا)
*******
ہمیں رستے نہیں بھاتے ہمیں منزل پہ جانا ہے
مٹا کر رنجشیں ساری دلوں میں قرب لانا ہے
اگرچہ ولولے تو ہیں مگر ہیں منتشر سارے
انہی بکھرے ہوئے قطروں سے اک دریا بنانا ہے
میرے آقاA ہمارے حال پہ نظر کرم کرنا
کہ آقاA عاصی امت پر بڑا مشکل زمانہ ہے
ملا ہے رب سے جو کچھ بھی ملا ہے آپA کی خاطر
فقط اس نام پر ہی تو ہمیں سب کچھ لٹانا ہے
ہوئے ہیں آج ہم رسوا تو یہ اعمال اپنے ہیں
تمہارے ہاتھ ہی آقاAبس اب بگڑی بنانا ہے
(انتخاب: راضیہ شاہین)
انتظار
جب انتظار کے بند ٹوٹ گئے
بے چینی حد کو پہنچ گئی
تو چڑھتے ہوئے سورج سے میں نے کہا
تیرا ہر طلوع اک امید ہے
پھر کیوں؟
کیوں ہر چہرہ اداس ہے؟
یہ پھول بن باس ہے
کیوں پھیلے پھیلے چند رنگوں میں
پیلاہٹ ہر سو چھاتی ہے
کیوں کچے پکے چند رشتوں میں
نفرت کی بو سی آتی ہے
کیوں آنسو ہیں سب آنکھوں میں
کیوں پھول ہیں رلتے راہوں میں
ہے ہر سو ظلمت چھائی کیوں
ابھی کوئی روشنی نہیں آئی کیوں
سرگوشی کی سورج نے بھی یہ
ہے میرے من میں بھی اک آس
چلو کچھ دیر انتظار کریں
کچھ دیر انتظار
اک نئے دن کا
جس دن سب کچھ بدلے گا
پھولوں میں خوشبو لوٹے گی
رشتوںمیں چاہت پھیلے گی
آنسو بھری ان آنکھوں میں
امید کی کرنیں چمکیں گی
پیلے بے رنگ ان چہروں پر
خوشیوں کی رنگت ناچے گی
ظلمت کو آخر جانا ہوگا
کرنیں پھر سے راج کریں گی
مگر
ہم اپنی کاوش مت چھوڑیں
امید کے دھاگے مت توڑیں
آؤ
چلو کچھ دیر انتظار کریں
(میمونہ اشرف)