منہاج القرآن ویمن لیگ کی تاریخ ان محنتی، پرخلوص، باکردار اور بے لوث خواتین سے بھری پڑی ہے جنہوں نے محنت شاقہ سے منہاج القرآن ویمن لیگ کو ایک پودے سے ایک تنا ور درخت بننے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان میں سے بعض تو تاریخ کے اوراق میں اپنا نام رقم کر گئیں جبکہ اکثر نام تاریخ کے گمنام دریچوں میں بکھر گئے۔ آج جب ماہنامہ دختران اسلام ان مبارک خواتین کے کارناموں کے لئے تاریخی دستاویز مرتب کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے تو یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ ان روشن ستاروں میں سے چند کے تاثرات ’’کارکن کارنر،، میں پیش کئے جائیں جن سے نئی کارکنان اور رفیقات کو Motivation حاصل ہو کہ وہ کون سے عوامل تھے جنہوں نے انہیں تحریک کی وابستگی اختیار کرنے پر مجبور کیا، حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ہمہ گیر شخصیت کے متعلق ان کے تاثرات کیا ہیں، مصطفوی مشن کے بارے میں ان کی خدمات و جذبات کیا رہے ہیں اور سب سے اہم بات کہ اس خصوصی اشاعت میں وہ عالم اسلام کی خواتین کو دختران اسلام کے ذریعے کیا پیغام دینا چاہتی ہیں؟
ذیل میں صفحات کی تنگیٔ داماں کے پیش نظر چیدہ چیدہ خواتین کے تاثرات شائع کئے جارہے ہیں۔ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا تھا :
لطف کلام کیا جو نہ ہو دل میں درد عشق
بسمل نہیں ہے تو تُو تڑپنا بھی چھوڑ دے
(بانگ درا : 117)
محترمہ شاہدہ مغل۔ کراچی
منہاج القرآن ویمن لیگ، ایک قافلہ دختران اسلام ہے جو اقامت دین کا علم لئے بے حسی اور بے حیائی کے اس دور میں سوئے منزل (مصطفوی انقلاب) رواں دواں ہے۔ میرا نصیب کہ مولا نے اس عظیم مشن کی چاکری کا شرف بخشا اور تپش حیات کے اس سود وزیاں میں قائد دختران ملت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہر القادری کی سرپرستی کی گھنی چھاؤں عطا فرمائی جس کی ٹھنڈک رگ وجاں میں اب تک محسوس کرتی ہوں۔ سفر کرتے کرتے گرد سفر ہو جانے کی خواہش لئے لمحہ لمحہ جدوجہد میں گزارنے کی کوشش رہی لیکن اب بھی میرا مضمحل وجود منزل کے لئے تشنہ ہے۔ ایک آگ ہے جو بجھتی ہی نہیں۔ موجودہ ویمن لیگ کی کارکنان کو اپنے وجود کا حصہ اور اپنا تسلسل سمجھتے ہوئے التجا ہے کہ ہمہ وقت للہیت کے ساتھ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ردا کے سائے تلے ہونے کا احساس لئے اس دور فتن میں اپنے کردار کی مضبوطی کے ذریعے اقامت دین کی انقلابی جدوجہد کریں اور قائدانقلاب کا فخر بنیں۔
محترمہ مسز صفیہ صغیر۔ لاہور
مجھے تحریک کا سفر شروع کئے ہوئے اٹھائیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس سفر کی ابتدا 1980 ء میں میرے قریبی عزیز میاں بشیر احمد سے ملنے والی حضو ر شیخ الاسلام کے خطاب کی کیسٹ سے ہوئی۔ پھر میں نے اپنے قریبی عزیز سے کہا کہ مجھے ان کی زیارت کرنی ہے تو انہوں نے بتایا کہ قادری صاحب شادمان لاہور میں درسِ قرآن دے رہے ہیں لہذا حضور شیخ الاسلام کی زیارت اور ان کے لیکچرز سننے کے لئے میں اور میرے شوہر شادمان میں محترم محمد علی صاحب کے گھر گئے اور قائد محترم کے دروس قرآن Attend کئے۔ اس کے بعد پابندی سے نماز جمعہ اتفاق مسجد میں پڑھنا شروع کر دیا ۔ قائد محترم کے خطاب سے پہلے شبیر گوندل کا درود پاک پڑھنے کا انداز آج بھی میرے کانوں میں گونج رہا ہے۔ وقت گزرتا گیا اور یہ سلسلہ جاری رہا قبلہ حضور کا یہ فرمانا کہ ’’تحریک کو افرادی قوت کی بہت ضرورت ہے،، نے میرے اندر ایک آگ لگا دی۔ یوں گناہوں کی زندگی سے نکل کر دین مبین کے فروغ واشاعت کی نوکری پر لگ گئے۔ ہمیں سوتے جاگتے بس ایک ہی دھن رہتی کہ شیخ الاسلام کی کیسٹ کسی نہ کسی کو سنانی ہے، کسی نہ کسی کو رفیق بنا نا ہے جو خاتون کسی سفر، کسی دعوت یا بازار میں ملتی، میں ایک ہی بات کرتی۔ آؤ منہاج القرآن کے لئے بھی تھوڑا وقت نکالو۔ پھر PAT کا دور آیا تو تقریباً ہر روز تین سو گھر دعوت دینے جاتی۔ اس دوران بہت مشکل کے ساتھ اور بڑے ضبط کے ساتھ وقت گزارا مگر اللہ کا شکر ہے اور قائد محترم کی نظر کرم ہے کہ انتہائی مشکل حالات میں بھی قدم نہیں ڈگمگائے اور ہم استقامت کے ساتھ کام کرتی رہی ہیں۔
منہاج القرآن ویمن لیگ کی اس خصوصی اشاعت کے موقع پر دختران اسلام کے ذریعے میں اپنی تمام تحریکی بہنوں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ آپ بھی منہاج القرآن کے اس مشن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیں۔ اس پیغام محبت کو پالینے کے بعد اب جمود کی گنجائش نہیں ہے۔ اب اس پیغام کوہر خاص وعام تک پہنچانا ہماری زندگی کا اولین مقصد ہونا چاہئے۔ لہذا حضور شیخ الاسلام کو زیادہ سے زیادہ خود سنیں اور پھر دوسری بہنوں کو سنائیں اور ان کی باتوں پر عمل کریں۔ اس نوکری کے صدقے اللہ تعالیٰ آپ کی تمام پریشانیوں کو دور کر ے گا ۔ اللہ ہم سب کو مرتے دم تک منہاج القرآن کے اس عظیم مشن پر قائم رکھے۔ آمین
محترمہ پروین غضنفر۔ اوکاڑہ
میں 1988ء کے اوائل میں منہاج القرآن سے وابستہ ہوئی۔ میرا تعلق ضلع اوکاڑہ سے ہے۔ تحریک منہاج القرآن سے میری باقاعدہ رفاقت اور وابستگی قائد محترم کی آڈیو اور ویڈیو کیسٹس کے ذریعے ہوئی۔ میں گھر میں روٹین کے امور سرانجام دیتے وقت حضور شیخ الاسلام کے خطابات کی آڈیو کیسٹس کو خود بھی سنتی اور آنے والے مہمانوں کو بھی سناتی۔ تحریک میں شمولیت کے ساتھ ہی مجھے اپنے عزیز و اقارب اور خاندان کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن میں ثابت قدمی سے کام کرتی رہی۔ مشن کے ساتھ محبت اور استقامت کا نتیجہ تھا کہ جب بھی حضور قائد محترم اوکاڑہ تشریف لاتے تو ہمارے گھر کو شرف میزبانی بخشتے۔ اوکاڑہ شہر میں ہمارا گھر تحریک منہاج القرآن کے مرکز کی علامت بن چکا تھا۔ میرے پاس صدر ویمن لیگ ضلع اوکاڑہ کی ذمہ داری بھی رہی۔ اسی ذمہ داری کے تحت میں نے ضلع اوکاڑہ کی تحصیلی تنظیمات بنائیں اور ضلع بھر میں دعوتی و تنظیمی دورہ جات بھی کئے۔ اس دوران ہفتہ وار درس قرآن، ماہانہ گیارہویں شریف، ماہانہ تنظیمی اجلاس، لائبریری نیٹ ورک، فری ٹیوشن سنٹر نیٹ ورک، ویلفیئر پیکجز، ضلعی سطح پر قومی و اسلامی Events پر سیمینارز کا انعقاد اور سالانہ محفل میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی سرگرمیاں نظم و ضبط اور باقاعدگی سے ہوتی رہیں۔ ویمن لیگ کے ضلعی دفتر کا قیام اور اس میں تنظیمی دعوتی و تربیتی سرگرمیاں باقاعدگی سے جاری رہیں۔ میں نے اپنی پوری فیملی تحریک منہاج القرآن کے لئے وقف کردی۔ میرے شوہر آغا غضنفر اقبال 1990ء میں PAT کے ضلعی صدر رہے اور 90ء کے الیکشن میں اہل خانہ سمیت سرگرم عمل رہے۔ 1994ء میں جب منہاج گرلز کالج لاہور کی بنیاد رکھی گئی تو حضور قائد محترم نے میری بڑی بیٹی رافعہ کو کالج اور ویمن لیگ کی مرکزی ذمہ داریوں کے لئے اوکاڑہ سے بلوایا تو میں نے ایک لمحے کی تاخیر کئے بغیر اسے مرکز روانہ کر دیا۔ میرے بچوں کی ازدواجی زندگی کے فیصلے بھی خاندان، برادری مال و نسب کی بجائے مصطفوی انقلاب کے عظیم لشکر میں تاقیامت شمولیت کی خاطر حضور شیخ الاسلام کی رضا مندی سے طے ہوئے ہیں۔ تحریک اور قائد تحریک سے کامل وابستگی اور مزید قربت کی خاطر ہم اب جوہر ٹاؤن لاہور میں مستقل سکونت اختیار کرچکے ہیں یہ جگہ اب عرفان القرآن سنٹر اور حلقہ درود کی شکل میں مشن کے تعارف اور دین کی خدمت و اشاعت کے لئے وقف ہے۔ یہاں بے شمار نئی تعلیم یافتہ خواتین تحریک میں شمولیت اختیار کرچکی ہیں اور یہ سلسلہ فروغ پذیر ہے۔
محترمہ ڈاکٹر نوشابہ حمید۔ لاہور
یہ منہاج القرآن کا اوائل دور تھا شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شادمان (لاہور) میں ہفتہ وار درس تصوف کا سلسلہ شروع کیا۔ آپ کے باون لیکچرز میں نے باقاعدگی سے سنے۔ جوں جوں تصوف پر یہ لیکچر سنتی گئی، دل پر پڑا زنگ اترتا چلا گیا۔ یوں لگتا تھا کہ کوئی کھرچ کھرچ کر میرے دل سے زنگ کو اتار رہا ہے ۔ آخری لیکچر پر عالم یہ تھا من سے ساری میل کچیل دھل گئی، سوچوں کے سارے دھارے بدل گئے، اب صرف ایک ہی تڑپ ہے کہ مصطفوی انقلاب آ جائے ۔ ستائیس سال کا طویل سفر گزر گیا۔ یہ مشکلات پریشانیوں اور رکاوٹوں کی ایک لمبی داستان ہے، راہ حق میں پریشانیاں اور مشکلات نہ آئیں تو روشنیوں کا سفر آگے نہیں بڑھتا۔
لاہور میں کنوینئر کے طور پر کام کیا۔ پی پی 128 کی صدر بنی، پھر لاہور کی صدر نامزد ہوئی، اپنی روح کی بے چینی اور تڑپ کو لیے قریہ قریہ، گاؤں گاؤں یہ پیغام پہنچانے کے لئے پھرتی رہی گھر والوں، رشتہ داروں، عزیز واقارب سب کی مخالفتوں کے باوجود پائے استقامت میں لغزش نہ آئی، آگے بھی بڑھتی چلی گئی، پیچھے مڑ کر نہ دیکھا، یہ سب میرے مولا کریم کا فضل ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیضان ہے اور میرے قائد کی نظر کرم اور شفقت ہے کہ انہوں نے مجھ پر اللہ تعالیٰ اور حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا ایسا رنگ چڑھا دیا جو کسی کے اتارنے سے بھی نہ اتر سکا۔ نوجوانی سے اس سفر کا آغاز کیا، بڑھاپے میں قدم رکھ دیا ہے۔ خواہش ہے کہ زندگی کا ہر لمحہ اور ہر سانس مشن مصطفوی کے فروغ کے لئے وقف ہو جائے۔
محترمہ نفر فاطمہ۔ لاہور
اللہ رب العزت اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لطف و کرم نے اپنے قرب وصال کی تشنگی دور کرنے کا ارادہ فرمایا تو مجھے 1988 ء کی ایک روشن صبح دروازہ فیض رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پہنچا دیا اور قائد محترم عزت مآب جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کے سایے میں مجھے پناہ عطا فرمائی۔ بقول اقبال رحمتہ اللہ علیہ
آنکھ وقفِ دید تھی، لب مائل گفتار تھا
دل نہ تھا میرا، سراپا ذوق استفسار تھا
بہت سی تحریکیں احیاء اسلام کے لئے اپنے اپنے انداز فکر کے اعتبار سے سرگرم عمل تھیں، مگر تحریک منہاج القرآن کا جو امتیاز مجھے اس کی جانب لایا وہ امت مسلمہ کے احیاء واتحاد کی عظیم فکر تھی کیونکہ میرے ادنیٰ خیال کے مطابق غلبہ اسلام اتحاد امت کے بغیر ناگزیر تھا۔ اصلاح امت کے لئے قائد محترم کے انقلاب آفریں خطابات نہ صرف میرے قلب وروح کو سیراب کرتے چلے گئے بلکہ عمل کی شمع ہاتھ میں اٹھائے گھر گھر جا کر خواتین اسلام کو اس پیغام سے متعارف کروایا۔ بالیقین اس اخلاقی اور روحانی زبوں حالی کے دور میں دختران امت کی اس تحریک سے وابستگی کشاں کشاں انہیں کردار کی عظمت ورفعت کی منزل عطا کرے گی۔ مصطفوی انقلاب ہی دراصل وہ منزل ہے جو عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سرشاری کے بغیر ناممکن ترین ہے۔
اے منزل مراد کی طالبو! آؤ! تحریک منہاج القرآن کا دریائے عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں اپنی آغوش میں لے کر تمہاری روح کی تمام آلودگیاں پاک کرنے کے لئے بے تاب ہے ۔
محترمہ رافعہ علی قادری۔ لاہور
میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد میں اپنے گھر سے قریب ایک مذہبی خاتون سے قرآن حکیم ترجمہ و تفسیر پڑھا کرتی تھی بعد ازاں انہی کی ترغیب پر کالج میں آتے ہی جمعیت طالبات کی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا اور دو سالوں میں، میں نے ڈگری کالج اوکاڑہ میں جمعیت طالبات کی تنظیم قائم کر لی تھی۔ جمعیت میں رہ کر میری تنظیمی تربیت تو ہو چکی تھی لیکن میرے عقائد اپنے گھر والوں سے خاصے مختلف تھے۔ پھر ہوا یوں کہ ایک دن میں نے گھر میں حضور پیر صاحب قبلہ سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی تصویر دیکھی۔ میں حیرت انگیز طور پر اسے دیر تک دیکھتی چلی گئی اور مجھے محسوس ہوا کہ میرے دل و دماغ میں خیالات و نظریات کی ٹوٹ پھوٹ ہورہی ہے۔ میرے اندر اس لمحے عجیب روحانی کیف کروٹ لے رہا تھا۔
جب مجھے معلوم ہوا کہ یہی پیر صاحب تحریک کے روحانی سرپرست اور قائد محترم کے شیخ طریقت ہیں تو خود میرے اندر تحریک کی طرف توجہ مبذول ہوتی چلی گئی۔ پھر آہستہ آہستہ تحریک میرے اندر گھر کرنے لگی اور جمعیت طالبات کے امور میں دلچسپی مَحو ہونے لگی۔ حتیٰ کہ مجھے خواب میں حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی نہایت ہی پرکیف زیارت ہوئی بعد ازاں ایک اور خواب میں حضور پیر سیدنا طاہر علاؤالدین رحمتہ اللہ علیہ اور قائد محترم کی زیارت نصیب ہوئی اور انہوں نے خواب میں ہی مجھے بیعت کیا۔ اس واقعہ کے بعد میں کلیتاً جمیعت چھوڑ کر تحریک میں سرگرم ہوگئی اور بی۔ اے کا دورانیہ (دو سالہ) تحریک کے مشن کو پھیلانے میں دن رات ایک کرتے ہوئے صرف کردیا۔ اس دوران 1990ء میں قائد محترم ہمارے گھر دوبارہ تشریف لائے۔ ہمارے گھر کو ہی قیام کا شرف بخشا۔ وہ موقع میرے لئے نہایت پرمسرت تھا۔ قائد محترم کے جانے کے بعد کئی روز تک میں ان کی مہک محسوس کرتی رہی۔ اس کے بعد مجھے تحریک کے کاموں میں اتنا روحانی سکون میسر آیا کہ میں اب اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔
بہر حال کئی سالوں تک یہ سلسلہ جنون اوکاڑہ اور گرد و نواح میں دعوتی کام کرواتا رہا۔ پھر جب 1994ء میں مرکز میں گرلز کالج کے قیام کا فیصلہ ہوا تو قائد محترم نے پورے پاکستان سے جن تین بیٹیوں کو بلایا ان میں سے ایک میں بھی تھی۔ میرے ساتھ کراچی سے محترمہ شاہدہ مغل اور گجرات سے محترمہ گل فردوس کو بلایا گیا تھا۔ بعد ازاں ہماری اس تین رکنی ٹیم میں میانوالی سے محترمہ روبینہ میروی بھی شامل کر لی گئیں جو بھیرہ سے دینی تعلیم حاصل کر چکی تھیں۔ (اس کے بعد کے واقعات مضمون ویمن لیگ کا تاریخ ساز سفر میں موجود ہیں) مجھے مرکز میں کالج کی لیکچرر کے ساتھ ساتھ دختران اسلام کی مدیرہ کی ذمہ داریاں دی گئیں اسی دوران 1995ء میں حضور قائد محترم نے میرا نکاح مرکز میں موجود ماہنامہ منہاج القرآن کے چیف ایڈیٹر محترم علی اکبر قادری الازہری صاحب سے کروا دیا۔ میں نے اپنی رہائش مرکز کی دیوار کے ساتھ ہی رکھی ہوئی ہے اور میں یہاں سے جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ اللہ پاک نے ہمیں تین بچوں سے بھی نواز رکھا ہے۔ اس عرصہ میں مجھے قائد محترم کی جو محبت شفقت حاصل رہی ہے، وہی میری زندگی کا اثاثہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسی ایمانی سنگت میں رکھے اور ہم سب کا جینا مرنا مصطفوی انقلاب کے لئے ہی وقف فرمائے رکھے۔
محترمہ مسز فریدہ سجاد۔ لاہور
دین مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خصوصی لگاؤ تو بچپن سے تھا جس کے لئے کالج اور پھر جامعہ میں پڑھتی رہی، علم تو حاصل ہوا مگر زندگی جمود اور تعطل کا شکار اور عمل کی دولت سے محروم رہی۔ میں نے اپنی والدہ محترمہ کے توسط سے قبلہ شیخ الاسلام کے دینی وروحانی، علمی و فکری، روح پرور اور پرمغز خطابات سنے۔ جس کے بعد میں تحریک منہاج القرآن سے وابستہ ہوئی اور بعد ازاں منہاج القرآن ویمن لیگ کی ممبر شپ لی۔ تحریک سے وابستہ ہونے کے بعد مجھے عملی شعور کی بالیدگی کے بے شمار ذرائع میسر آئے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد میں توازن رکھتے ہوئے بامقصد زندگی گزارنے کا نصب العین ملا ۔ جس سے میرے اندر انقلابی فکر نے جنم لیا، یوں میری دلچسپیاں پسند و ناپسند، دوستیاں، دشمنیاں، نشست و برخاست، شب و روز کے معاملات بدل گئے حتی کہ اس فکر نے میری زندگی کی کایا پلٹ دی۔
تو خاک میں مل اور آگ میں جل
جب خشت بنے تب کام چلے
یہی شعر میرا اوڑھنا بچھونا بن گیا اور اسی جذبے کے تحت میں نے اپنی تحریکی زندگی کا آغاز کیا۔ یہ فقط اللہ رب العزت کا بے پایاں کرم اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عنایات ہیں کہ الحمدللہ 1984 ء سے لے کر آج 24 سال ہونے کو ہیں لیکن کسی طرح کے معاملات بھی پائے استقامت میں تزلزل کا باعث نہیں بن سکے اور میری یہ بڑی خوش قسمتی ہے کہ قبلہ شیخ الاسلام کے قدموں کے صدقے میری شادی بھی مشن میں ہوئی۔ محترم سجادالعزیز صاحب بھی 1986 ء سے مشن و تحریک سے وابستہ ہیں اور 1994 ء سے قبلہ شیخ الاسلام کے پرسنل اسسٹنٹ اور 2001ء سے بطور پرسنل سیکرٹری خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ گویا اس طرح بفضل خدا و حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم میاں بیوی اپنے بچوں سمیت اس عظیم مشن کے ادنی کارکن کی سعادت سے مالا مال ہیں۔
منہاج القرآن ویمن لیگ کی اس خصوصی اشاعت کے موقع پر دختران اسلام کے ذریعے میں اپنی ماؤں اور بہنوں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ بحیثیت تحریک کے کارکن، عہدیدار ہونے کے ہمیں چاہئے کہ ہم اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی اشاعت اور مصطفوی انقلاب کے لئے اپنے اندر سیرت وکردار کی پختگی کے ساتھ ساتھ صالحیت اور تقویٰ و طہارت کی ایسی صفات پیدا کریں کہ جس کی مہک سے ہم جہاں کہیں بھی رہیں۔ ہم سے ملنے والے، ہمیں سننے اور دیکھنے والے ہمارے قول، عمل اور کردار سے تحریک منہاج القرآن کی حقانیت کو پہچانیں اور اس کی ممبر شپ لینے پر مجبور ہو جائیں کیونکہ اس مادیت پرستی کے دور میں یہی وہ در، وہ نسبت، وہ سنگت اور وہ عظیم قیادت ہے جس سے وابستہ ہو کر نہ صرف دنیوی نعمتیں بلکہ اخروی کامیابی بھی حاصل ہوسکتی ہے۔
محترمہ صغریٰ بیگم۔ راولپنڈی
1983ء سے فہم القرآن کے عنوان سے شیخ الاسلام قبلہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے پاکستان ٹیلی ویژن سے خطابات کا آغاز کیا تو ہم لوگ اس دن سے حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے شیدائی ہو گئے۔ ایسی شخصیت صدیوں بعد جنم لیتی ہے، ہم خوش نصیب تب بنے، جب 1989ء میں میرے بیٹے عاصم محمود قادری باقاعدہ اس تحریک کے رکن بن گئے اور ہم مرکز کے ہر پروگرام میں باقاعدگی سے شامل ہونے لگے۔ جب میرے بیٹے نے جو آج اس دنیا میں نہیں ہے، 25 مئی کو تحریک میں شمولیت اختیار کی تو اس کے یہ الفاظ تھے کہ "میں آج مسلمان ہوا ہوں" شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی شخصیت سے ہم لوگ اتنے قریب ہو گئے ہیں کہ زندگی کا ہر لمحہ ان کے نام پر وقف کر دیا ہے۔ حضور شیخ الاسلام کو دنیا بھر میں ایک عظیم اسکالر، اتحاد امت کے داعی، بہبود انسانیت، رواداری، بیداریٔ شعور، انسانی آزادی اور عالمی امن کے سفیر اور پیامبر کے طور پر پہچانا جاتا ہے، ان کی سنگت میں گزرا ہوا زندگی کا ایک ایک لمحہ سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے ۔ تحریک منہاج القرآن کا جو فیض ہمیں ملا ہے وہ ہماری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہے۔
آج جب میرا بیٹا اس دنیا میں نہیں ہے، جس کے جنازے میں خاص طور پر حضور شیخ الاسلام نے فرمایا کہ "اللہ تعالیٰ میرے حصے کی سب نیکیاں میرے بیٹے عاصم محمود کے حصے میں ڈال دے اور اگر اس کے کوئی ایسے ناقابل معافی گناہ ہیں تو وہ میرے حصے میں ڈالے دے" انہو ں نے ایسی شہادتیں پیش کیں کہ ہمارے دلوں کو یقین ہو گیا کہ جنت کے ٹکٹ تقسیم کرنے والا 25 مئی کو مسلمان ہونے والا جس کی قبر کی پہلی رات بھی 25 مئی کو ہی ہوئی وہ بلا حساب وکتاب جنت میں پہنچ گیا ہے یہ وہ زندہ مثال ہے جو میں نے آپ کے سامنے پیش کی۔ میں آپ سب قارئین کو دعوت دیتی ہوں کہ اگر آپ میرے بیٹے عاصم محمود کی طرح دنیا اور آخرت دونوں کو سنوارنا چاہتے ہیں تو آج ہی اس تحریک کی رفاقت لے لیں اور یہ تحریک منہاج القرآن جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا پرچار کرنے والی ہے اس میں شریک ہو کر اسلام کو مزید تقویت پہنچائیں اور آپ اس محبت سے تحریک میں شامل ہوں کہ آپ کا جینا مرنا اسی تحریک کی خاطر ہو جائے۔
محترمہ مسز روبینہ معین۔ پشاور
1997 ء میں محترمہ صابرہ شاہ نے ہمارے ممبر شپ فارم پُر کروائے اور ہمیں منہاج القرآن ویمن لیگ میں شامل کیا۔ محترم حفیظ بنگش نے ہمیں قائد محترم کا خطاب "اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم" سننے کے لئے دیا۔ پہلی بار دل و دماغ کے دریچے وا ہوئے اور تاجدارکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عقیدت روح کو مہکاتی چلی گئی۔ آج الحمد للہ ہماری پہچان منہاج القرآن ہے ہم چاروں بہنوں نے خود کو منہاج القرآن کے لئے وقف کر دیا ہے۔ میرا ایمان ہے کہ یہ ایک ایسی سچی تحریک ہے جو آپ کا تعلق مدینہ سے یوں جوڑتی ہے کہ آپ صرف اور صرف حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی پر ہی فخر اور شکر کرتے رہتے ہیں۔ اگر ہم اس تحریک سے وابستہ نہ ہوتے تو شاید دنیاداری، بے حیائی کا عفریت ہمیں نگل چکا ہوتا۔ میں دختران اسلام کی تمام قارئین بہنوں کو یہی پیغام دینا چاہوں گی کہ اس وقت جبکہ فتنوں اور بے حیائی کا دور دورہ ہے اور دل و دماغ پر شیطانیت قبضہ جمائے ہوئے ہے۔ تحریک کے دامن سے وابستہ ہو جائیں۔ قائد محترم جو عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مے لٹاتے جا رہے ہیں۔ اس کے جام بھر بھر کر پی لیں ۔ ایسا قائد اور ایسی تحریک دوسری کوئی نہیں جو آپ کو مدینہ کے تاجدار سے وابستہ کر دے اور آپ کا حال و قال بدل ڈالے۔
محترمہ پروین ملک۔ کراچی
یہ بات مجھے اچھی طرح سمجھ آتی ہے کہ اللہ کی مخلوق سے محبت ہی دراصل خالق سے محبت کا سبب بنی۔ زندگی میں شعور کی آنکھ کھولتے ہی احساس ہوا کہ ہمارے معاشرے میں اور بالخصوص خواتین میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کا شعور، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور زندگی میں نظم وضبط اور مقصد حیات کی کمی ہے۔وہ گود جو پہلی درسگاہ ہوتی ہے خود ہی علم و عمل سے خالی ہے۔ عورت جو نسلوں کی امین ہے خود ہی صاحب رائے نہیں۔عورت کی سوچ کا پیمانہ ظاہر داری اور دنیا داری تک محدود رہ گیا ہے۔
ان تمام باتوں نے دل و دماغ پر ایسی دستک دی کہ میں نے حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری جیسے عظیم قائد کے زیر سرپرستی چلنے والی تحریک منہاج القرآن کو ہی دور حاضر کی متوازن اور سچی تحریک جانتے ہوئے اس کی رفاقت اختیار کی اور عملی طور پر اپنی بساط اور ہمت کے مطابق اب تک جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہوں۔ قائد تحریک، جس فہم و فراست سے لاکھوں کارکنوں کو لے کر چلے، یہ ان کی صلاحیتوں کا اعتراف ہے کہ بہترین ٹارگٹس بغیر جانی اور مالی نقصان کے حاصل کئے اور کارکنوں میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچا تعلق غلامی کا احساس پیدا کیا اور اسی احساس نے کارکنوں کو اللہ کی مخلوق سے پیار کرنا اور ان کی خدمت کرنا سکھایا۔ عالم اسلام کے لئے ضروری ہے کہ اس امت کی ہر بہن، بیٹی اپنے آپ کو دین کی سچی مجاہدہ محسوس کرتے ہوئے دین کی اقدار کی سربلندی کے لئے اپنی صلاحیتوں، مال، وقت اور جان کو اللہ کی راہ میں وقف کردے اور سیرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا پر چلتے ہوئے اپنی نسلوں کو اللہ کی راہ پر قربان کریں تاکہ ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سرخرو ہو سکیں۔
محترمہ بیگم شاہین فیض الرحمن درانی
حضورشیخ الاسلام کی ہدایت کے مطابق جب میرے میاں نے گورنمنٹ کے ایک اعلیٰ عہدے سے استعفیٰ دیا اور ہم لاہور آ رہے تھے، تو ہمارے دوست اور خاندان والے بہت حیرت زدہ تھے ۔ وہ ہم سے کہتے تھے، بیس گریڈ سے استعفیٰ دینا، جبکہ آگے مزید ترقی کے واضح امکانات ہیں، تم لوگ یہ کیا کر رہے ہو؟ پورا خاندان، قبیلہ گھر بار چھوڑ کر پردیس جانا، یہ سب کیا ہے؟ تمہارے بچوں کے مستقبل کا کیا ہو گا؟ صاحبزادہ درانی صاحب مسکرا کر کہتے، بھئی ایک چھوٹے خاندان سے ہم ایک بہت بڑے خاندان، محمدطاہر القادری کے عالمی خاندان میں شامل ہونے جا رہے ہیں، اتنا بڑا وسیع خاندان روئے زمین پر کہیں ہو تو بتائیں، جہاں تک بچوں کے مستقبل کا تعلق ہے تو پروفیسر محمد طاہر القادری سے بڑھ کر روئے زمین پر اگر کوئی معلم ہو، اتالیق ہو، بزرگ ہو، اپنے رفقاء کے بچوں اور خاندان کے مستقبل کی فکر کرنے والا ہو، تو بتائیں، بابا میں اپنے بچوں کو سچا اور عملی مسلمان بنانے کے لئے ادارہ منہاج القرآن لے جا رہا ہوں، جو ان کا حقیقی مستقبل ہے، جہاں انہوں نے انسان بننا ہے، بفضل خدا وہی کچھ ہوا، بحمد اللہ تعالی ہمارے بچے حضور شیخ الاسلام کے فیضان نظر سے ایسے نیک دیندار مسلمان نوجوان بن گئے ہیں، جن کا مستقبل گنبدخضرا سے وابستہ ہے، وہ حضور شیخ الاسلام کی درسگاہ تحفیظ القرآن اور منہاج یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں، مجھے یقین ہے کہ اس دنیا سے ہمارے رخصت ہونے کے بعد بھی وہ ہمارے لئے اللہ سبحانہ کی بارگاہ میں دست بدعا رہیں گے اور آنے والے عظیم مصطفوی انقلاب کے ہراول دستہ کے سپاہی ہوں گے۔
اللہ تعالی ہماری کم مایہ فیملی کو حضور شیخ الاسلام کے عظیم تحریکی خاندان سے جوڑے رکھے، حضور شیخ الاسلام اور ان کے فرزندگان ارجمند اور اعلیٰ ظرف فیملی کا خنک سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رہے اور ہمیں اسلامی انقلاب کے اس قافلے کے ساتھ عزم مصمم سے چلنے کی توفیق عطا فرمائے، اپنی سب تحریکی بہنوں اور اہل خانہ کے لئے بھی میں اللہ تعالی کے حضور اسی دعا کی طالب ہوں۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
محترمہ ہما رحیق عباسی صاحبہ
یہ 2000ء کی بات ہے جنوری کا مہینہ تھا، رمضان کا موقع تھا، اعتکاف کے دن تھے، مجھے کالج سے واپس آئے ابھی صرف آدھا گھنٹہ ہوا تھا کہ میرے قائد حضور شیخ الاسلام کا فون آگیا۔ حضور قائد انقلاب نے میرے والد محترم سے بات کی اور فرمایا کہ یہ ایک رشتہ ہے ہما بیٹی کے لئے۔۔۔ مگر بیٹی کو شادی کے بعد پاکستان رہنا ہوگا۔ میرے والد محترم نے کہا حضور یہ بیٹی ہی آپ کی ہے۔ جہاں چاہیں بھیجیں ہمیں منظور ہے حضور قائد محترم نے فرمایا نہیں۔ آپ پھر بھی بیٹی اور اس کی والدہ محترمہ سے پوچھ لیں۔ والدہ محترمہ اعتکاف پر بیٹھی تھیں۔ ان سے پوچھا تو انہوں نے بھی فوراً ہاں کردی۔ میرے والد گرامی قدر نے جب مجھ سے پوچھا تو پہلے تو مجھے دکھ اور افسوس ہوا کہ مجھ سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیونکہ جہاں میرے قائد نے اشارہ بھی کردیا میرے لئے پتھر پر لکیر ہے۔
میرے والد محترم نے فرمایا یہ میں نہیں پوچھ رہا بلکہ یہ حضور قائد انقلاب پوچھ رہے ہیں۔ یہ جواب سن کر میں نے اپنے والد محترم کو ہاں کہہ دی۔ دوسرے دن جب میں کالج گئی تو میں نے اپنی دوستوں کو بتایا کہ میری Engagement ہوگئی ہے۔ وہ بہت حیران اور پریشان ہوکر سوال کرنے لگیں؟ کیا کس طرح؟ اچانک کیسے؟ کیوں؟ کیا مطلب؟ کیا مذاق ہے؟ کون ہے؟ تم جانتی ہو؟ کبھی ملی ہو؟ کبھی دیکھا بھی ہے؟ پاکستان جاؤ گی؟ کیسے وہاں رہو گی؟ تم نے سوچنے کا ٹائم ہی نہیں مانگا؟ میں سب سوالوں کا جواب دیتی رہی۔ پھر جب میری ایک فرینڈ نے یہ کہا کہ ٹھیک ہے تم اپنے شیخ سے بہت پیار کرتی ہو مگر ایک فون Phone Call پر اتنا بڑا فیصلہ اور پوری زندگی کا سودا کیسے کردیا؟ It doesn't make any sense اس کو میں نے جواب دیا کہ اگر میں نے Sense سے کام لینا ہوتا تو اتنی معتقد نہ ہوتی اور جان تو میں نے پہلے خطاب پر ہی ان کے نام کردی تھی کہ انہوں نے خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہچان اور محبت میں مجھے رونا سکھادیا تھا۔ اب تو خدا نے مجھے تھوڑی سے خدمت کرنے کا موقع دیا ہے۔ قربانی میری نہیں قربانی تو میرے قائد کی ہے جنہوں نے اپنے اتنے قیمتی وقت میں سے کچھ لمحے نکال کر رمضان کے مہینے میں اپنے اعتکاف کے دوران مجھ جیسی ناکارہ اور گناہ گار کو یاد کیا اور جن سے میں نے سیکھا ہے کہ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اور آخرت کیسے سنواری جاتی ہے؟ ان سے بڑھ کر میری جان اور میری زندگی پر کس کا حق ہوسکتا ہے؟ میری فرینڈ میری طرف دیکھنے لگی اور سر ہلا کر کہنے لگی :
This is not love! This is Madness!!
میں آج بھی یہ Sentence یاد کرکے فخر محسوس کرتی ہوں کہ کسی نے مجھے اپنے قائد کے عشق میں دیوانی کہا تھا!
محترمہ طیبہ طاہرہ۔ لاہور
قائد تحریک کی شخصیت کے اتنے گوشے ہیں کہ ان کی بدولت ہمیں ملنے والے فیضان یعنی تحریک منہاج القرآن کی اتنی جہتیں ہیں کہ بطور کارکن کسی ایک گوشے یا کسی ایک جہت کے حوالے سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس گوشے یا اس جہت نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ مجھے جامد سے متحرک انسان بنا کر رکھ دیا۔ لیکن میں یہ کہنا چاہوں گی کہ کنفیوژن اور Imbiguity کے اس دور میں مجدد عصر حضور شیخ الاسلام نے جو فکری واضحیت دی اور ہر شعبہ کے حوالے سے جو علمی اور عملی راہنمائی فراہم کی اس کی Precedent پوری تاریخ اسلام میں ملنی مشکل ہے۔ سب سے بڑھ کر شعور مقصدیت جیسی نعمت ہمیں حضور شیخ الاسلام کے فیضان سے ملی، اسلام کی برکات صرف قائد محترم کے ذریعے ہم تک پہنچیں۔ عالمگیریت اور آفاقیت کا حامل Vision، اتحاد امت کا درس، اعتدال و توازن، زندہ اور بیدار تصوف، اخلاص اور محنت کی عملی مثال ایسی چیزیں ہیں جو شیخ الاسلام اور تحریک منہاج القرآن کے سوا کہیں نہیں ملیں، ان چیزوں نے گرویدہ بنا لیا اور آج الحمدللہ تحریک ہی اوڑھنا بچھونا ہے۔
منہاج القرآن ویمن لیگ فکر قائد کو عوام الناس تک پہنچانے میں شبانہ روز اخلاص کے ساتھ سخت محنت کر رہی ہے لیکن میں دختران اسلام کے توسط سے وابستگان و کارکنان اور جملہ مسلم امہ کو یہ پیغام دینا چاہوں گی کہ ہمیں عظیم نعمت جو شیخ الاسلام کی شکل میں ملی ہے، اس کی قدر کریں اور اپنے عہد کی اس نابغہ روزگار ہستی کا پیغام اتنا عام کر دیں کہ حشر کے دن کسی فرد کو یہ گلہ نہ رہے کہ ہمیں رہبر اور رہنما نہ ملا۔ کاش کہ ہم ہر فرد تک حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شناخت پہنچانے میں کامیاب ہو جائیں۔
محترمہ شوقیہ تبسم۔ شور کوٹ
حضور قبلہ قائد محترم لرننگ کیمپ میں تشریف لائے۔ ان کے خطابات سنے تو دل نے گواہی دی کہ مجھے ایسے پیر مغاں کی تلاش تھی گپ شپ، شعر و شاعری، رومانوی ناول پڑھ کر وقت گزارنے کو مشغلہ سمجھنے والی شوقیہ کو اب ایک ارفع و اعلیٰ مقصد مل گیا۔ پھر دل چاہا کہ اعتکاف کے رنگوں کو دیکھا جائے اللہ کا کرم ہوا ایک گھڑی ایسی نصیب ہوئی کہ دل و جان ہار آئے۔ اعتکاف گاہ میں حضور شیخ الاسلام تشریف لائے ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کوئی بہن بھائی شور کوٹ سے بھی آئے ہیں۔ بس پھر کیا تھا واپس لوٹے تو شب و روز کے معمولات بدل گئے۔ شب بیداری کرنے لگے، فلموں کی جگہ خطابات نے لے لی۔ ناولوں اور ڈائجسٹوں کی جگہ قائد محترم کی کتب اور ماہنامہ دختران اسلام نے لے لی۔ گانوں کی جگہ نعتوں نے لے لی۔ ویمن لیگ کے قافلے میں شمولیت نے مجھے بولنے کا ہنر دے دیا۔ اس تحریک نے خواتین میں سیدہ کائنات کانفرنس، میلاد فیسٹیول، ہر علاقے، گلی، محلے میں حلقہ درود کے ذریعے، محافل ذکر و نعت کے ذریعے ایک شعور بیدار کر دیا ہے۔ QTV پر حضور شیخ الاسلام کے خطاب نے لوگوں کو بتا دیا ہے کہ آپ اس وقت عرب و عجم میں مفسر و محدث، فقیہہ اور مجتہد کی صورت میں آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے امت مسلمہ کے لئے خاص انعام ہیں جن کے لئے علامہ اقبال نے فرمایا تھا۔
مہرو مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر
ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر
میں دختران اسلام کے ذریعے اپنی بہنوں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ امت کی بیٹیو! اپنی صلاحیتوں، اپنے وقت، اپنے مال، اولاد کو دین اسلام کے لئے وقف کردو۔ بس ایک دھن، ایک لگن، ایک شوق ہی روح میں سما جائے جو ساقی کوثر کے قدموں میں لے جائے اور پھر ملائکہ بھی کہیں گے۔
کون ہے یہ دیوانہ، کس کا ہے یہ دیوانہ
محشر میں بھی کہتا ہے جانا ہے مدینے میں
یہی صراط مستقیم ہے۔ اسی میں دنیوی و اخروی کامیابی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں استقامت عطا فرمائے اور حق بندگی ادا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔
محترمہ کنیز فاطمہ۔ لاہور
اس تحریک کے ساتھ منسلک ہونے سے پہلے ہم کسی بھی ایسی تحریک سے وابستہ نہیں تھے، البتہ اس کی تلاش میں ضرور تھے۔ میں فلموں کے بہت خلاف تھی ایک رات ایسا ہوا کہ میرے میاں اور بیٹے نے کہا کہ آج تمہیں ایک فلم دکھانی ہے تو وہ قائد محترم حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خطاب تھا (اللہ سے معافی مانگو) جب سنا اور جیسے جیسے سنتی گئی خطاب کے الفاظ روح میں اترتے گئے اور میرے دل کی کایا ہی پلٹ گئی۔ 1988ء سے الحمدللہ اس تحریک سے وابستہ ہوئی ہوں یہ ان ہی کا کرم ہے کہ ہم استقامت کے ساتھ مشن کی خدمت کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارا جینا، مرنا مشن مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کردے۔
محترمہ نفیس فاطمہ افتخار۔ ڈنمارک
یورپ میں ڈنمارک وہ واحد ملک ہے جس کو منہاج القرآن کے پہلے ادارے کی تشکیل کا شرف حاصل ہوا، اسی طرح خواتین کے لئے بھی ویمن لیگ کا آغاز بھی سب سے پہلے ڈنمارک سے ہی ہوا چنانچہ قبلہ قائد محترم نے 1988ء میں پاکستان میں تحریک منہاج القرآن کی ویمن لیگ کی داغ بیل ڈالی اور فرمایا کہ ویمن لیگ تحریک منہاج القرآن میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کے فرمان کے عین مطابق، سب سے پہلے ڈنمارک میں خواتین کی شاخ قائم کرنے کے لئے رفاقت سازی کی مہم چلائی گئی اور 1990ء میں تقریباً پچیس، تیس خواتین نے باقاعدہ رفاقت حاصل کرکے اپنی خدمات مصطفوی انقلاب کے لئے پیش کردیں۔ اس کے بعد باقاعدہ تنظیم سازی کی گئی جو ابتدائی طور پر دس خواتین پر مشتمل تھی۔
ویمن لیگ ڈنمارک کی تنظیم کئی نشیب و فراز سے گزری مگر الحمدللہ اب صورت حال یہ ہے کہ خود قبلہ قائد تحریک ڈنمارک کی ویمن لیگ کی مثالیں دیتے ہیں اور ان سے رہنمائی لینے کی ترغیب دیتے ہیں۔ تحریک ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے، جس طرح ایک سمندر مردار کو قبول نہیں کرتا، اسی طرح ہمارا مشن بھی کسی ایسے کارکن کو قبول نہیں کرتا جس کے دل میں انقلاب مصطفوی کے اجالے کی بجائے کوئی اور ذاتی مفاد یا حرص و ہوس کا شائبہ بھی ہو۔
حالات کے قدموں میں قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی ستارہ تو زمیں پر نہیں گرتا
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ویمن لیگ پر عنایت و کرم فرمائے، رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت عطا ہو اور حضور شیخ الاسلام کی شفقت و رہنمائی ہمارے ساتھ رہے اور ہم اسی طرح سیسہ پلائی دیوار کی مانند مشن کے فروغ کے لئے مصروف عمل رہیں۔
محترمہ فریدہ خانم ڈار۔ برطانیہ
دین اسلام کا عظیم مرکز تحریک منہاج القرآن نے گذشتہ چند سالوں کے عرصہ میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ منفرد اور بے مثال ہیں اور بھی بہت سے دینی اور علمی مراکز ہیں مگر منہاج القرآن جیسے نورانی مراکز نہیں دیکھے جہاں پیغام حق اور تبلیغ دین کے لئے جدوجہد کی جا رہی ہے اور جس احسن طریقے سے روحانی غذا دی جاتی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں منہاج القرآن نے شہرت حاصل کی ہے۔ یہ واحد ایسا مشن ہے جس میں مرد اور خواتین اور بچے اور بچیاں اپنے قائد کے شانہ بشانہ دین اسلام کی تبلیغ کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔ عالمی سطح پر سوسے زائد ممالک کے ہر خطے میں ایسے مثالی مراکز قائم ہیں، جہاں ہماری ویمن لیگ کی خواتین اپنی اپنی حدود کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے اپنے شعبے میں آزادانہ کام کر رہی ہیں۔ ہمارے قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے 1986ء میں خواتین کے لئے سلسلہ وار درس قرآن میں شروع کروایا تھا جس کا مقصد مسلم خواتین کے شعور کو بیدار کرنا ہے۔ ہمارے قائد کی محنتوں اور کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ خواتین میں یہ شعور بیدار ہو گیا کہ وہ بھی طاغوتی طاقتوں سے لڑ سکتی ہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں اس راہ پر چل کر یہ دینی فریضہ بھی انجام دے سکتی ہیں۔ یہ شعور بیدار ہوتے ہی دروس قرآن اور محافل ذکر و نعت ہونے لگیں۔ الحمدللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کے صدقے ویمن لیگ کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں دنیا بھر میں موجود خواتین اس مشن کے تعلیمی و تربیتی نظام سے فائدہ اٹھارہی ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے ہمارے قائد قبلہ ڈاکٹر صاحب کو عمر خضر عطا فرمائے اور ان کی قیادت میں ہمیں اس عظیم مشن کو کامیابیوں سے ہمکنار کرے (آمین)
مسز محفوظ خالد۔ لندن
میں دس سال سے تحریک منہاج القرآن کے ساتھ ہوں۔ اس دیار کفر میں حضور قائد انقلاب نے اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق سے سرشار کیا۔ میں زندگی میں کسی انسان سے اتنا متاثر ہوئی ہوں تو وہ حضور شیخ الاسلام ہیں۔ اور عالمی سطح پر جو کام آپ سرانجام دے رہے ہیں، وہ بہت بڑا ہے خاص کر گوشہ درود کا جو سلسلہ شروع کیا ہے یہ بہت عظیم کام ہے جس کا یہاں میں ان بہن بھائیوں جو ابھی منہاج القرآن کے ساتھ وابستہ نہیں ہوئے انہیں میں وثوق کے ساتھ کہہ رہی ہوں یہ پر امن چھتری ہے جس کا سایہ اتنا وسیع ہے کہ ہمیں زندگی میں ہی نہیں آخرت میں بھی کام دے گا۔ حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے جس طرح مصطفوی انقلاب کے اس مشن کے لئے اپنی زندگی وقف کررکھی ہے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ا س کام کے لئے ہماری زندگیاں بھی لگادے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
محترمہ سلمیٰ ظفر سیال۔ ناروے
حضور شیخ الاسلام نے نہ صرف یہ کہ دور حاضر میں سوئی ہوئی قوم کو جگایا ہے بلکہ کئی صدیوں تک کے لئے اس امت کو غیرت اور یقین کے ساتھ جینے کا سلیقہ دیا ہے۔ بلاشبہ حضور شیخ الاسلام مجدد رواں صدی ہیں۔ آپ نے فکر و کردار پر پڑی ہوئی تشکیک کی گرد کو جھاڑ کر عقائد اور اعمال کو اصلیت بخشی ہے اور شراب کہن در جام نو کے اصول کے تحت نئی نسلوں کو اسلاف کے عقائد و اعمال سے جوڑ دیا ہے اور عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جام پلا کر امتیوں کو آستانہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حضوری کا سلیقہ سکھا دیا ہے۔ بقول علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ
عطا اسلاف کا جذب دروں کر
شریک زمرہ لایحزنوں کر
خرد کی گھتیاں سلجھا چکا میں
میرے مولا مجھے صاحب جنوں کر
ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے قائد کو عمر خضر عطا فرمائے اور ان کا وجود مسعود ہمیشہ ملت پر سایہ فگن رہے۔
ایگزیکٹو ممبران منہاج القرآن ویمن لیگ (آف اریزو اٹلی)
ہم تمام بہنوں کی طرف سے بانی و سرپرست اعلیٰ منہاج القرآن انٹرنیشنل شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو مبارک باد پیش کرتی ہیں کہ منہاج القرآن ویمن لیگ کے تنظیمی و تحریکی نیٹ ورک کے 19 سال مکمل ہوچکے ہیں اور یہ سب کچھ حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی محنت اور کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ آج دیار غیر اور دیار کفر میں رہتے ہوئے اسلامی تعلیمات اور علوم ہماری دسترس میں ہیں، جس کی بدولت ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اسلام سے روشناس کروا سکیں گی اور ان ممالک میں اسلام کے فروغ کا سہرا بلاشک و شبہ حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو جاتا ہے۔ خداوند تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کو برکات والی زندگی عطا کرے۔ آج کے اس دور میں اس وابستگی اور لگن سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں۔
محترمہ صائمہ نورین۔ اٹلی
ہر صدی کے آغاز پر ایک مجدد کی ضرورت پیش آتی ہے کیونکہ معاشرہ مسلسل ارتقاء پذیر رہتا ہے۔ موجودہ دور میں اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کی اصلاح کے لئے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو منتخب فرمایا جنہوں نے دعوت و تبلیغ حق، اصلاح احوال امت، تجدید و احیائے دین اور اقامت اسلام پر مبنی تحریک منہاج القرآن اور اس کے بعد منہاج القرآن ویمن لیگ کی بنیاد رکھی اور خواتین کو یہ بتایا کہ وہ معاشرے کا ایک اہم جزو ہیںاور ایک پاکیزہ معاشرے کے قیام میں ان کا کردار بنیادی ہے۔ موجودہ دور میں باطل طاقتوں کے قریب سے ان کو اسلام کی روحانی، اخلاقی اور انقلابی اقدار سے دور کیا جارہا ہے، آزادیٔ نسواں کے نام پر معاشرے کو تنزلی سے محفوظ رکھنے کے لئے ویمن لیگ کا عظیم پلیٹ فارم دیا، جہاں سے وہ ہر قسم کی دینی، فکری اور تحریکی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہیں اور مشن کے جملہ امور میں مردوں کے شانہ بشانہ عظیم انقلاب کے لئے کام کررہی ہیں۔ قائد تحریک نے خواتین میں یہ شعور اجاگر کیا کہ اسلامی اقدار کا تحفظ ان کا اپنا تحفظ ہے اور اسی صورت تجدید دین کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ آپ نے آنے والی نسلوں کے لئے علمی اور فکری بنیاد فراہم کر دی ہے۔ آج اندرون ملک اور بیرون ملک لاکھوں مرد و خواتین مشن سے وابستہ ہوکر اسلام کو دین امن کے طور پر متعارف کروا رہے ہیں۔ قیادت، علمی و تحقیقی کام اور تنظیمی نیٹ ورک موجود ہے۔ ضرورت صرف عزم کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس قافلے کا تیز رو مسافر بنا دے تاکہ ہم جلد از جلد اپنی منزل مراد تک پہنچ سکیں۔ (آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)