اسلام نے مرد و زن کے لئے حصول علم لازم ٹھہرایا ہے، اسلام نے مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی تعلیم پر بھی زور دیا ہے اور خواتین کو بھی انفرادی اور اجتماعی سطح پر ترقی کے دھارے میں شامل کرنے کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی ہے بلکہ اس ضمن میں آسانیاں بھی پیدا کی ہیں۔ اسلام نے جہاں خواتین کے لئے تعلیم کے دروازے کھولے ہیں وہاں اس کے تحفظ اور وقار کو قائم و دائم رکھنے کے لئے پردے کے واضح احکامات بھی جاری کئے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات اور احکامات کا کوئی ایک حرف بھی حکمت سے خالی نہیں ہے۔حضور نبی اکرم ﷺ نے ریاست مدینہ کے اندر خواتین کی تعلیم و تربیت کا اہتمام بھی فرمایا اور خواتین کو ایک خاص پردے کے ساتھ مساجد میں نماز کی ادائیگی کی اجازت بھی دی۔ خواتین غزوات میں بھی شریک ہوتی تھیں۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ مکہ کی ایک معروف تاجرہ تھیں اور حضور نبی اکرم ﷺ ان کی کاروبار میں معاونت فرماتے تھے۔ اسی طرح علمی و تحقیقی اسلامی تاریخ میں قابل عزت و قابل قدر معتبر خواتین کا ذکر بھی ملتا ہے۔ خواتین علوم الحدیث کے فروغ کے لئے بطور معلمہ و مبلغہ اپنا کردار ادا کرتی تھیں۔ ان میں سے ایک نمایاں نام ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا بھی ہے۔ مسجد نبوی میں ہمہ وقت اصحاب رسول ﷺ کا ہجوم رہتا تھا جو حضور نبی اکرم ﷺ سے براہ راست کسب علم و فیض کرتے تھے۔ خواتین نے بھی درخواست کی کہ مرد علم میں سبقت لے جائیں گے ہمیں بھی وقت عنایت فرمائیں تو حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک دن خواتین کے لئے مختص فرما دیا، نیز علم و ہنر اور کسب معاش کا کوئی ایسا شعبہ نہیں تھا جس میں خواتین کےعملی کردار کی حوصلہ افزائی نہ کی گئی ہو۔ آج جدید دنیا نے تو اسے ایک اٹل حقیقت اور قانون کے طور پر اختیار کر لیا ہے کہ ملکوں اور قوموں کی ترقی میں خواتین کا تعلیمی، سماجی، معاشی کردار ناگزیر ہے اور خواتین کو تعلیم و ترقی کے دھارے سے باہر رکھ کر خوشحالی کا کوئی ہدف حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ عہد رسالت مآب ﷺ میں خواتین کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ کا ایک باقاعدہ تاریخی پس منظر تھا۔ آپ ﷺ کی بعثت سے قبل عرب معاشرے میں خواتین کو خرید و فروخت کی ایک چیز سمجھا جاتا تھا، ان کے کوئی حقوق نہیں تھے، انہیں سرے سے انسان ہی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ کچھ عرب جہلا قبائل بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی دفن کر دیتے تھے۔ بیٹیوں پر تعلیم و تربیت کے دروازے بند رکھےجاتے تھے۔ اسی جاہلانہ سوچ کو بدلنے کے لئے حضور نبی اکرم ﷺ نے خواتین کو سوسائٹی کا ایک فعال ممبر قرار دیا اور اس پر تعلیم و تربیت کے دروازے کھولے اور ان کے تحفظ کے لئے انسانیت کو زریں قواعد و ضوابط اور اصول بھی دئیے۔ اگر ہم تاریخی اعتبار سے جائزہ لیں تو خواتین کے استحصال کے حوالے سے آج بھی جاہلانہ سوچ سے کسی نہ کسی شکل میں واسطہ پڑتا ہے۔ آج 21 ویں صدی میں بھی ایسی فرسودہ سوچ موجود ہے جو خواتین کی تعلیم اور معاشی سرگرمیوں کو برا سمجھتی ہے۔ خواتین کو چار دیواری کے اندر قید رکھنے کی حیلے بہانے تراشتی ہے۔ یہی فرسودہ سوچ غیرت کے نام پر خواتین کو جان سے مار دینے کو بھی روا جانتی ہے۔ خواتین کے حوالے سے اس فرسودہ سوچ اور متشدد رویوں کو بدلنے کے لئے مصطفوی تعلیمات کا فروغ ضروری ہے۔ آج بھی خواتین پر تعلیم و ترقی کے راستے مسدود کرنے کے لئے خواتین دشمن مجرمانہ ذہنیت نت نئے طریقے اختیار کرتی ہے اس رویے کو بدلنے کے لئے خواتین کو پہلے سے زیادہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے اور خواتین خود کو اسلامی بودوباش اور تعلیم و تربیت کے اخلاقی سانچے میں ڈھال کر ایسی تمام سازشوں کا راستہ روک سکتی ہیں۔ حال ہی میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے حوالے سے افسوسناک واقعات میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آرہے ہیں۔ ان کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ان واقعات نے والدین اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کے لئے تشویش پیدا کی ہے۔ بہر حال اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ان واقعات میں ملوث تمام کرداروں کو عبرتناک سزا دی جائے تاکہ خواتین کی تعلیم و تربیت کے ماحول کو خراب کرنے والے کیفر کردار کو پہنچ سکیں۔