خندہ روئی اور کشادہ پیشانی مترادف الفاظ ہیں۔ خندہ روئی اصل میں فارسی زبان کا لفظ ہے۔ کشادہ جبیں، فراخ پیشانی، شگفتہ پیشانی، خندہ پیشانی اور کشادہ پیشانی سب اس کے مترادفات ہیں۔ خندہ روئی ایک اہم انسانی صفت ہے۔ اس صفت کا حامل شخص ہمیشہ خوش و خرم رہتا ہے اور دوسرے انسانوں کے ساتھ کھلے دل اور خوشی سے پیش آتا ہے۔ غصے اور غم کی کیفیات میں بھی خود پہ کنٹرول رکھتا ہے۔ ایسے شخص کے چہرے سے ہر وقت شگفتگی اور خلوص ظاہر ہوتا ہے۔ ہنس مکھ اور مسکراتا رہتا ہے۔ کسی کے ساتھ رنجیدہ اور نارض نہیں ہوتا ہر ایک سے کھلے دل سے ملتا ہے۔
لوگوں کے ساتھ خندہ روئی اورکشادہ پیشانی سے پیش آنا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ اصل میں یہ اعلیٰ اخلاق کی نشانیوں میں سے ہے۔ اس عمل پر انسان کو دنیوی اجر کے ساتھ ساتھ اخروی ثواب و اجر بھی ملتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت اور ان کا قرب نصیب ہوتا ہے۔
خندہ روئی اور کشادہ پیشانی پیغمبرانہ صفت ہے
خندہ روئی اور کشادہ پیشانی کارِ رسالت کا اہم جزو رہا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء کرام علیہم السلام خندہ روئی اور کشادہ پیشانی کی صفات سے مزین تھے لیکن ان صفاتِ عالیہ کا اوجِ کمال ذات مصطفی ﷺ میں نظر آتا ہے۔
خندہ روئی اور کشادہ پیشانی ایک عبادت ہے
ہم یہ جانتے ہیں کہ تمام پیغمبر ان لوگوں کو خدا کی معرفت کروانے اور معاملات کی درستگی کے لیے مبعوث کے گئے۔ انھوں نے اپنا کارِ رسالت انجام دیتے ہوئے انسانوں کو نہ صرف معرفت خدا کروائی بلکہ آداب بندگی خدا بھی سکھائے۔ وہ تمام امور جو کوئی بھی پیغمبر اپنی امت کو سکھاتا رہا وہ خدا کی طرف سے عطا کیے گئے تھے ان تمام امور کو بروئے کار لانا اور ان کے مطابق زندگی گزارنا ہی عبادت کہلاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغام پر عمل کرنا ہی اصل اور عین عبادت ہے اور حضور اکرم ﷺ کا ارشاد اس کی تصدیق کرتا ہے کہ خندہ روئی اور کشادہ پیشانی ایک عبادت ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ
’’مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہے۔‘‘
اور آیت قرآنی آپ ﷺ کے اس مقام کی وضاحت کرتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ.
(القلم، 68: 4)
’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)۔‘‘
پیغمبر خدا کی اتباع اور پیروی میں جو بھی عمل کیا جائے وہ عبادت کہلائے گا۔ اس لحاظ سے خندہ روئی اور کشادہ پیشانی بھی عین عبادت ہے۔
قرآن مجید کی روشنی میں عبادت کیا ہے؟
اللہ رب العزت قرآن مجید میں عبادت کے مفہوم کی وضاحت میں ارشاد فرماتا ہے کہ
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰـکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰٓئِکَةِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَج وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِج وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَی الزَّکٰوةَ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْاج وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ ط اُولٰٓـئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ط وَاُولٰٓـئِکَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ.
(البقرة، 2: 177)
’’ نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص الله پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (الله کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور الله کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیز گار ہیں۔‘‘
اس آیہ کریمہ میں عبادت کو نیکی سے تعبیر کیا گیا ہے اور صرف نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کو عبادت نہیں کہا گیا بلکہ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاشرے کے تمام افراد کے ساتھ تعلقات استوار کرنے اور ان کے ساتھ خندہ روئی اور کشادہ پیشانی سے معاملات کرنے کو ہی اصل عبادت قرار دیا گیا ہے۔
احادیث مبارکہ کی روشنی میں خندہ روئی اور کشادہ پیشانی
ہمارے پیارے نبی ﷺ کی بہت سی احادیث خندہ روئی اور کشادہ پیشانی کی اہمیت و فضیلت کی وضاحت کرتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
’’نیکی کے کسی کام کو حقیر نہ سمجھو خواہ وہ نیک کام یہ ہو کہ تم اپنے بھائی سے کھلے ہوئے چہرے (خندہ روئی) سے ملو۔‘‘
یہ حدیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ خندہ روئی سے ملنا ایک نیکی ہے اور اس نیکی کو حقیر سمجھنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے انسان کے نامہ اعمال میں بڑے ثواب کا اضافہ ہوسکتا ہے۔
خندہ روئی اور کشادہ پیشانی کارِ رسالت کا اہم جزو رہا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء کرام علیہم السلام خندہ روئی اور کشادہ پیشانی کی صفات سے مزین تھے لیکن ان صفاتِ عالیہ کا اوجِ کمال ذات مصطفی ﷺ میں نظر آتا ہے
حضور نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
’’قیامت کے دن مومن بندے کے میزان میں کوئی چیز خوش خلقی سے زیادہ وزنی نہیں ہوگی اور اللہ تعالیٰ فحش گو اور بے ہودہ گو شخص کو ناپسند فرماتا ہے۔‘‘
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ
’’نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ سب سے زیادہ انسانوں کو جنت میں داخل کرنے والی چیز کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا تقویٰ اور خوش اخلاقی۔‘‘
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’مومن اپنے حسن اخلاق سے اس شخص کے درجے تک پہنچ جاتا ہے جو روزہ دار اور نماز میں کھڑا رہنے والا ہو یعنی فرض عبادتوں کے علاوہ نفلی عبادات کا بھی اہتمام کرتا ہے۔‘‘
آپ ﷺ کا ایک فرمان عالیشان ہے کہ
’’تم میں سے جو لوگ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں اور قیامت کے دن کی مجلس میں مجھ سے سب سے زیادہ قریب ہوں گے وہ لوگ ہیں جو تم میں سے اخلاق کے اعتبار سے سب سے بہتر ہوں۔‘‘
ان تمام احادیث میں خوش اخلاقی کے جس جزو کی فضیلت بیان کی گئی ہے وہ لوگوں کے ساتھ خندہ روئی اور کشادہ پیشانی سے پیش آنا ہے۔
سیرت نبوی ﷺ میں خندہ روئی اور کشادہ پیشانی سب سے اہم پہلو ہے جو سیرت مصطفی ﷺ کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہے۔
سیرت طیبہ میں خندہ روئی اور کشادہ پیشانی کے چند واقعات
نبی کریم ﷺ کی ساری زندگی خندہ روئی اور کشادہ پیشانی کی مثالوں سے عبارت ہے۔ آپ ﷺ نے اپنے قول و عمل سے تمام اچھے اخلاق کی فہرست مرتب کی اور زندگی کے تمام شعبوں پر اسے نافذ کیا اور ہر طرح کے حالات میں ان اصولوں پر کاربند رہنے کی ہدایت فرمائی۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
’’تم لوگوں کو اپنے اموال سے خوش نہیں کرسکتے لیکن تمہاری خندہ روئی اور خوش اخلاقی انھیں خوش کرسکتی ہے۔‘‘
حضرت انسؓ سے منقول ہے کہ
’’میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھا۔ آپ ﷺ پر ایک گاڑھے رنگ کی حاشیہ دار چادر تھی اس کو ایک اعرابی نے شدت و سختی کے ساتھ کھینچتا۔ یہاں تک کہ چادر کے حاشیہ کا اثر آپ ﷺ کی گردن مبارک پر نمودار ہوگیا پھر اس نے کہا اے محمد ﷺ میرے ان دونوں اونٹوں پر وہ مال لاد دو جو خدا نے تمھیں دیا ہے۔ کیونکہ تم مجھے نہ اپنے مال سے اور نہ اپنے باپ کے مال سے دیتے ہو۔ نبی کریم ﷺ خاموش رہے۔ آپ ﷺ نے صرف اتنا فرمایا کہ مال تو اللہ ہی کا ہے میں تو اس کا بندہ ہوں۔ پھر فرمایا اے اعرابی تم سے اس کا بدلہ لیا جائے گا۔ جو تم نے میرے ساتھ سلوک کیا ہے تو اس نے کہا یہ تو نہیں ہوسکتا۔ آپ ﷺ نے اس سے پوچھا کیوں نہیں ہوسکتا؟ تو اعرابی نے جواب دیا کہ آپ ﷺ کبھی برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے۔ اس کی بات پر آپ ﷺ مسکرادیئے اور حکم دیا کہ اس اعرابی کے ایک اونٹ کو جَو سے اور دوسرے کو کھجور سے بھردو۔‘‘
ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کبھی ظلم کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا۔ جب تک کہ کوئی اللہ کے محرمات کی بے حرمتی نہ کرے اور کبھی اپنے ہاتھ سے کسی کو نہ مارا سوائے اس صورت میں کہ آپ ﷺ جہاد فی سبیل اللہ فرمارہے ہوں۔ نہ آپ نے کبھی کسی خادم کو مارا اور نہ کسی بیوی کو۔‘‘
آپ ﷺ کو قریش کی طرف سے ایذاؤں اور مصیبتوں کا ہر وقت سامنا رہتا تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ان پر مظفر و فتحیاب کردیا۔ آپ ﷺ ان کے حاکم بنے اور خندہ روئی اور کشادہ پیشانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کو معاف کردیا۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا: تم کیا گمان کرتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟ انھوں نے کہا کہ ہم آپ ﷺ سے بھلائی کی امید کرتے ہیں کیونکہ آپ ﷺ سخی بھائی ہیں اور سخی بھائی کے بیٹے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں آج وہی کہتا ہوں جو میرے بھائی حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا کہ
لا تثریب علیکم الیوم.
’’آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں۔‘‘
جاؤ تم سب آزاد ہو۔ یہ آپ ﷺ کے اعلیٰ اخلاق کی بہترین مثال ہے۔ آپ ﷺ نے اپنے جانی دشمنوں کے ساتھ انتہائی خندہ روئی اور کشادہ پیشانی سے عفو و درگزر والا معاملہ فرمایا۔
زید بن سعنہ کا قبول اسلام خندہ روئی رسول ﷺ کی وجہ سے تھا
حضور ﷺ کی خدمت میں زید بن سعنہ حالت کفر میں آیا اور اپنے قرض کا تقاضا کیا اور آپ ﷺ کے کپڑے کو آپ ﷺ کے کندھوں سے کھینچ لیا اور سختی سے کلام کرنے لگا اور کہا کہ اے عبدالمطلب کے بیٹے تم دیر کرنے والے وعدہ خلاف ہو۔
ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کبھی ظلم کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا۔ جب تک کہ کوئی اللہ کے محرمات کی بے حرمتی نہ کرے اور کبھی اپنے ہاتھ سے کسی کو نہ مارا سوائے اس صورت میں کہ آپ ﷺ جہاد فی سبیل اللہ فرمارہے ہوں۔ نہ آپ نے کبھی کسی خادم کو مارا اور نہ کسی بیوی کو۔‘‘
حضرت عمرؓ نے اسے سختی سے جھڑکا لیکن نبی کریم ﷺ مسکراتے رہے پھر رسول خدا نے فرمایا:
’’اے عمرؓ تمھیں چاہیے تھا کہ تم مجھے نصیحت کرتے اور اس کی رقم ادا کرنے کا کہتے۔ اس کے قرض کی مدت میں ابھی ایک تہائی وقت باقی ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے حضرت عمرؓ کو حکم دیا کہ اس کا مال اسے دو اور اس کے علاوہ بیس صاع (مقدار کا پیمانہ) زیادہ ادا کرو کیونکہ تم نے اسے خوفزدہ کیا ہے۔‘‘
آپ ﷺ کی اسی خندہ روئی کے سبب زید نے اسلام قبول کرلیا۔ اس نے کہا کہ میں آپ ﷺ کی علامات نبوت کا مشاہدہ کرنا چاہتا تھا جو میں نے دیکھ لی ہیں آپ ﷺ ویسے ہی حلیم اور نرم ہیں جیسے میں نے کتب سماویہ میں پڑھا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ دیکھتے دیکھتے دشمنوں نے بھی ہتھیار ڈال دیئے اور اسلام قبول کیا اور خود بخود اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ مال و دولت اسلام کے لیے قربان کرنے سے بھی پیچھے نہ ہٹے۔ یہ تو خیر انسان کامل کی مثال ہے جو مجسمہ اخلاق بلکہ معلم اخلاق تھے۔ خود دنیا دار لیڈروں اور بڑے بڑے رہنماؤں میں بھی یہ خوبی موجود تھی۔
اس طرح کے بے شمار واقعات کتب سیرت و تاریخ کی زینت ہیں جو حضور اکرم ﷺ کے اعلیٰ اخلاق کے مظہر ہیں۔
آپ ﷺ کے اعلیٰ اخلاق، خندہ روئی اور کشادہ پیشانی کی وجہ سے آپ ﷺ کی حیات ظاہری میں اسلام دور دور تک پھیل گیا۔ تمام کافرو فاجر دشمن آپ کی خندہ روئی اور کشادہ پیشانی سے نہ صرف متاثر تھے بلکہ اس کا چرچا بھی کرتے تھے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ اخلاق کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اور دنیا و آخرت کی کامیابی کے حصول کے لیے اپنے نبی کریم ﷺ کی اتباع و پیروی کریں اور زندگی کے تمام معاملات میں خندہ روئی اور کشادہ پیشانی کا مظاہرہ کریں کیونکہ یہ ہمارے نبی ﷺ کی سنت ہے اور آخرت کی کامیابی کی کنجی ہے۔
خوش خلقی کے بغیر انسان کی شرافت مکمل اور کامل نہیں ہوسکتی
بغیر خوش اخلاقی کے انسان کی شرافت مکمل اور کامل نہیں ہوسکتی۔ انسان کتنا ہی شریف کیوں نہ ہو اگر وہ خوش اخلاق نہیں ہے تو اس کی شرافت واقعی مشکوک سمجھی جائے گی۔ ایک معمولی حیثیت کا آدمی اگرچہ وہ کسی شریف خاندان سے تعلق نہ رکھتا ہو لیکن اگر اس میں یہ جوہر موجود ہے تو ہر حالت میں اسے پسند کیا جائے گا اور اسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ اس لیے اگرچہ خوش اخلاقی انسان کی شرافت اور عظمت کی دلیل ہے پھر اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ عام طور پر جو لوگ خوش اخلاق ہوتے ہیں ان کے کردار کے پیچھے ایک شریف اور عظیم المرتبت روح کار فرما ہوتی ہے۔