آزادی پر ترانے لکھنے والے شعراء

سمیہ اسلام

یوم آزادی پاکستان یا یوم استقلال ہر سال 14 اگست کو پاکستان میں آزادی کے دن کی نسبت سے منایا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب پاکستان 1947ء میں انگلستان سے آزاد ہو کر معرض وجود میں آیا۔ 14 اگست کا دن پاکستان میں سرکاری سطح پر قومی تہوار کے طور پر بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے پاکستانی عوام اس روز اپنا قومی پرچم فضا میں بلند کرتے ہوئے اپنے قومی محسنوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ملک بھر کی اہم سرکاری عمارات پر چراغاں کیا جاتا ہے۔ اسلام آباد جو پاکستان کا دارالحکومت ہے، اس کو خاص طور پر سجایا جاتا ہے، اس کے مناظر کسی جشن کا سماں پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔ اور یہیں ایک قومی حیثیت کی حامل تقریب میں صدر پاکستان اور وزیرآعظم قومی پرچم بلند کرتے ہوئے اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم اس پرچم کی طرح اس وطن عزیز کو بھی عروج و ترقی کی بلندیوں تک پہنچائیں گے۔ ان تقاریب کے علاوہ نہ صرف صدارتی اور پارلیمانی عمارات پر قومی پرچم لہرایا جاتا ہے بلکہ پورے ملک میں سرکاری اور نیم سرکاری عمارات پر بھی سبز ہلالی پرچم پوری آب و تا ب سے بلندی کا نظارہ پیش کر رہا ہوتا ہے۔ یوم آزادی کے روز ریڈیو، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ پہ براہ راست صدر اور وزیراعظم پاکستان کی تقاریر کو نشر کیا جاتا ہے اور اس عہد کی تجدید کی جاتی ہے کہ ہم سب نے مل کراس وطن عزیز کو ترقی، خوشحالی اور کامیابیوں کی بلند سطح پہ لےجانا ہے۔ سرکاری طور پر یوم آزادی انتہائی شاندار طریقے سے مناتے ہوئے اعلیٰ عہدہ دار اپنی حکومت کی کامیابیوں اور بہترین حکمت عملیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے عوام سے یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنے تن من دھن کی بازی لگا کر بھی اس وطن عزیز کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھیں گے اور ہمیشہ اپنے رہنما قائد اعظم محمد علی جناح کے قول "ایمان، اتحاد اور تنظیم" کی پاسداری کریں گے۔

کسے خبر نہیں کہ 1947 میں ہمارا پیارا وطن انگریزوں کے ناپاک چنگل سے آزاد ہوا اور یہاں کے بسنےوالے سبھی رنگ و نسل کے لوگوں کو آزادی کی زندگی میسر آئی۔ آزادی انسان کا فطری حق ہے ، انسان اپنے بنانے والے خالق حقیقی کے سوا کسی کی غلامی قبول نہیں کر سکتا، یہ اسکے مزاج کے خلاف ہے ، انسان صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی اور غلامی کرنے کا مکلف ہے ، بلکہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی غلامی باعث فخر ہے۔ اس لیے کہ وہ سب سے بڑا ہے، سب سے زیادہ طاقتور ہے ، سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ،اور سب سے بڑا مہربان ہے غرضیکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے ، لیکن اگر کوئی انسان اپنے جاہ و جلال اور مال ودولت کے باعث چاہے کہ دوسرے لوگ اس کی غلامی کریں ،ہر کام میں اس کی اتباع کریں تو یہ فطرت انسانی کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں بڑے بڑے ترم خان آئے جنہوں نے یہ چاہا کہ اس دنیا کو اپنا غلام بنا کر رکھا جائے ، بڑے بڑے بادشاہ گزرے جنہوں نے چاہا کہ انسانوں سے اپنی پرستش کرائیں لیکن بالآخر ناکام و نامراد ہو کر رہ گئے ، ذلت و رسوائی اور قوموں کی بغاوت نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا ، خدا کے عذاب نے انہیں ایسا گھیرا کہ وہ رہتی دنیا تک کے لیے نشان عبرت بن کر رہ گئے۔ آج سے تقریباً ڈھائی سو سال قبل ہمارے ملک پر اانگریزوں نے اپنا تسلط قائم کر لیا تھا۔ 1750 تک پورا خطہ انگریز کا غلام ہو چکا تھا۔ مسلمانوں کے اسلاف و اکابرین ، علماء و مشائخ نے آزادی کے لیے ان گنت قربانیاں دیں۔

ہندووں اور مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت،افکار و خیالات اور تاریخ سب جداگانہ تھے اور ہیں۔ اس لئے ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے الگ وطن کی ضرورت تھی جہاں وہ اپنے مذہبی عقائد کے حساب سے آزادی سے رہ سکتے۔ دو قومی نظریے کے پیش نظر ایک طویل جہدوجہد کے بعد 14 اگست کو پاکستان وجود میں آیا۔ اس کے لئے بہت قربانیاں دی گئیں اور مسلمان مرد، خواتین اور بچوں نے مل کر تحریک پاکستان میں حصہ لیا۔ پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا پاکستان تو اس ہی دن معرض وجود میں آگیا تھا جس دن پہلے مقامی باشندے نے اسلام قبول کیا تھا۔

تحریک پاکستان کے کارکنان کی عملی، فکری، سیاسی نظریاتی جنگ اور قربانیوں کی بدولت پاکستان ہمیں ملا۔ اس تحریک آزادی میں مردوں، عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے حصہ لیا تھا۔ بنا کسی فوج یا اسلحے کے عوام نے اخوت و اتحاد کے ساتھ آزادی کی جنگ لڑی اور آزاد وطن کےخواب کو حقیقت کا رنگ دیا۔ اس میں ہر طبقے ہر عمر کے لوگ شامل تھے جنہوں نے خون پسینہ ایک کرکے انگریز حکومت اور ہندو تسلط کے خلاف پرامن جدوجہد کی اور 14 اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔

یوم آزادی سے پاکستان کو ایک خاص مناسبت ہے جس کو ملک بھر میں خوشی اور جذبات کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ یہ دن ملک کی آزادی کی یاد تازہ کرتا ہے اور قومی شعور کو بحال کرتاہے۔ شاعری ایک مشہور فن ہےجس میں ہر قسم کاموضوع سمایا ہوا ہے۔ یوم آزادی پر اردو شاعری ایک خاص اہمیت رکھتی ہے کیونکہ یہ موضوع اور ان شعراء کو ملکی احساسات و جذبات کو شعر کے ذریعے ظاہر کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس دن کے لئے کئی شعراء نے خوبصورت نظمیں لکھی ہیں جو پاکستان کی تاریخ، قومیت اور آزادی کے بارے میں ہیں۔ آئیے چند شعراء کو جانیں جنہوں نے یوم آزادی پر اردو شاعری کرکے اس دن کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ ظلم سے آزادی حاصل کرنے کے لیے چند قابل ذکر شعراء درج ذیل ہیں:

علامہ اقبال (1877ء)

یوں تو اقبال پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے پہلے ہی خالقِ حقیقی سے جاملےلیکن آپ ہی وہ عظیم شخصیت تھے جنہوں نے ایک الگ وطن کا خواب دیکھا جہاں مسلمان آزادی کی زندگی بسر کر سکیں۔ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے آپ نے اپنے فن شاعری کے ذریعےعوام میں آزادی کے جذبے کو ابھار اوریہ احساس دلانے کی کوشش کی کہ غلامی میں رہتے ہوئے ہم کبھی بھی دین کی اقدارو روایات کو بحال نہیں رکھ سکیں گے۔ لہٰذا یہ طریقہ کار نہایت کار گر ثابت ہوا اور ہندوستان کے مسلمانوں میں آزادی کی لہر دوڑ گئی جو بالآخر پاکستان کی شکل میں سامنے آئی۔ اقبال بھی آزادی پر اردو شاعری کرنے والے شعراء میں شامل ہوتے ہیں۔ ان کی نظموں میں آزادی کے بعد ملک کے تحفظ اور ترقی کی تصورات بیان کیے گئے ہیں۔ ان کی شاعری میں قومی یکجہتی، محبتِ وطن اور خوشحالی کے جذبات خوبصورتی سے پیش کیے گئے ہیں۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

اسی طرح مسلمانوں کو اتحادِ ملی کا درس دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

منفعت ایک اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

اختر شیرانی (1905ء)

اختر شیرانی نے بھی 1938ء کے بعد تقریباً 1947ء (قیام پاکستان) کے حوالے سے ولولہ انگیز اور قابلِ ذکر شاعری کی:

او دیس سے آنے والا ہے بتا
او دیس سے آنے والے بتا
کس حال میں ہیں یاران وطن
آوارۂ غربت کو بھی سنا
کس رنگ میں ہے کنعان وطن
وہ باغ وطن فردوس وطن
وہ سرو وطن ریحان وطن
او دیس سے آنے والے بتا

فیض احمد فیض (1911ء)

آمریت، ظلم و بربریت کے خلاف دبنگ اظہارِ خیال کے حامی، فیض احمد فیض کو کون ہیں جانتا؟

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
تیرا تیرا شہر ان جسم ہے تیرا
بول کہ جان اب تک تیری ہے

غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کا تصور دیتے ہوئے یہ کہتے ہیں:

جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی کوئی بات نہیں

اسی طرح ملک و قوم کی بہتری کے لیے دعا گو ہیں کچھ یوں فرماتے ہیں کہ:

تاریخ پھرنئی رقم ہوگی یا کھلے گا باب نیا
دشمن سے تاک میں اور اپنے ہیں خفا خفا
رحم کر میرے مالک اب تو ہے بس یہی دعا
ملک و قوم کے لیے جو ہو بہتر کرشمہ وہ کر دکھا

تخلص استاد دامن (اصل نام چراغ دین (1911ء)

درویش صفت، پنجابی شاعر، استاد دامن نے بھی قیام پاکستان کی کہانی کو اپنے اشعار میں کچھ یوں سمویا ہے:

اینہاں آزادیاں ہتھوں برباد ہوئے
موئے تسی وی او، موئے اسی وی آں
بھانویں مونہوں نہ کہییے پر وچوں وچ
روئے تسی وی او، روئے اسی وی آں

اس آزادی کو حاصل کرنے کے لیے آپ نے بھی قربانیاں دیں اور ہم نے بھی قربانیاں دیں۔ چاہے زبان سے کہیں یا نہ کہیں روئے آپ بھی ہیں روئے ہم بھی ہیں۔

احمد ندیم قاسمی (1916ء)

احمد ندیم قاسمی کی عمدہ شاعری سے کون واقف نہیں۔ احمد ندیم قاسمی (20 نومبر 1916ء تا 10 جولائی 2006ء) پاکستان کے ایک معروف ادیب، شاعر، افسانہ نگار، صحافی، مدیر اور کالم نگار تھے۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ نمایاں مصنفین میں شمار ہوتا تھا اور اسی وجہ سے دو مرتبہ گرفتار کیے گئے۔ 1934ء اور 1937ء کے دوران ان کی متعدد نظمیں روزنامہ انقلاب لاہور اور زمیندار لاہور کے سرورق پر شائع ہوتی رہیں اور جن سے انہیں عالمِ نوجوانی میں ہی غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔ وطن کی محبت اور سلامتی کی دعا سے سرشار ایک مشہورِ زمانہ نظم آپ ہی کے قلم کا شاہکار ہے:

خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

فیاض ہاشمی (1926ء)

فیاض ہاشمی 18 اگست 1920ء کو کلکتہ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے فلمی گیتوں میں اُردو اور ہندی کی آمیزش سے ایک نیا انداز اپنایا جس کی وجہ سے ان کے گیتوں کو لازوال شہرت عطا ہوئی۔ فیاض ہاشمی کی شاعری کے علاوہ موسیقی میں بھی شُد بُد رکھتے تھے۔ فیاض ہاشمی کا نام ہندوستان بھر میں ایک کم عمر گیت نگار کے طور پر پہچانا جانے لگا۔

1948ء میں وہ پاکستان منتقل ہو گئےاور لاہور میں قیام کیا۔ 1956ء میں وہ کراچی آ گئے، لیکن 1960ء میں ایس ایم یوسف انہیں دوبارہ لاہور لے آئے اور وہ ان کے ادارے سے وابستہ ہو گئے۔

آپ کی تصانیف میں سہیلی،آشیانہ،اولاد،دل کے ٹکڑے،سہاگن،لاکھوں میں ایک،زمانہ کیا کہے گا،عید مبارک،سویرا،ہزار داستان،ایسا بھی ہوتا ہے شامل ہیں۔ جبکہ اس کے علاوہ آپ نے بہت سے گیت اور ملی نغمات بھی لکھے۔

آپ کے مشہور ملی نغمات میں درج ذیل ہیں:

یوں دی ہمیں آزادی کے دنیا ہوئی حیران
اے قائدِ اعظم تیرا احسان ہے احسان
ہر سمت مسلمانوں پہ چھائی تھی تباہی
ملک اپنا تھا اور غیروں کے ہاتھوں میں تھی شاہی
ایسے میں اٹھا دین محمد کا سپاہی
اور نعرہ تکبیر سے دی تو نے گواہی
اسلام کا جھنڈا لیے آیا سر میدان
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
تیرا احسان ہے تیرا احسان

ایک اور مشہور زمانہ کلام جو کہ پاکستانیوں کے دلوں میں بسا ہوا ہے:

ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے

اس کے علاوہ ’’سورج کرے سلام، چندا کرے سلام‘‘اور’’آؤ بچو سیر کرائیں تم کو پاکستان کی‘‘جیسی لازوال نظمیں آپ ہی کی تخلیق ہیں۔

فیاض ہاشمی 29 نومبر، 2011ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پا گئے۔ وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

خود مختار ریاست کا قیام

یقیناً وطن پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے تاریخی دریچوں سے حقائق سامنے لائے جاتے ہیں تو یہ جشن ہم سے بہت سارے تقاضے کرتا ہے۔ اہم نقطہ یہ ہے کہ ہمیں اس ملک کے بنائے جانے میں اتنی قربانیوں کا مدعا جاننا چاہیے۔ یہ وہ واحد ریاست ہے جو اسلام کے نام پر ریاست مدینہ کے بعد معرض وجود میں آئی۔ جس کا مطلب ہی لا الہ الا اللہ ہے۔ قائد اعظم نے واشگاف الفاظ میں کہا:ہمارے پیش نظر ایک ایسی آزاد اور خود مختار ریاست کا قیام ہے جس میں مسلمان اپنے دین کے اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں پھر خطابات تقاریر میں واضح پیغام دیا کہ ملک کا آئین و دستور قرآن و سنت کے تابع ہوگا جب قائد اعظم سے دستور و آئین کے متعلقہ استفسار کیا گیا تو سنہری حروف سے لکھے جانے والے الفاظ میں جواب دیا: ’’ہمارا دستور وہی ہے جو قرآن کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال قبل ہمیں عطا فرمایا‘ یہ ایک زمین کا ٹکڑا نہیں بلکہ اسلامی تجربہ گاہ ہے ’جہاں ہم اسلام کو نظام زندگی کے طور پر اپنا سکیں گے اور اپنی زندگیاں قرآن و سنت کے مطابق گزاریں گے۔

قومی زیست کے مقدس لمحات کی یادیں ہمیشہ تازہ رہنی چاہئیں کہ ان سے قلب و روح کو مسرت اور تسکین حاصل ہوتی ہے۔ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ملک پاکستان جو رمضان المبارک کی 27 ویں کو معرض وجود میں آیا۔ آزادی ہند کے ایکٹ میں ہندوستان اور پاکستان کی آزادی کی تاریخ 15 اگست درج کی گئی تھی۔ قائداعظم نے 13 اگست 1947 ء کو کراچی میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے اعزاز میں ضیافت کے موقع پر تقریر میں فرمایا ”آج ہندوستان کے لوگوں کو مکمل اقتدار منتقل ہونے والا ہے اور 15 اگست 1947 ء کے مقررہ دن دو آزاد اور خودمختار مملکتیں پاکستان اور ہندوستان معرض وجود میں آ جائیں گی“۔

قائداعظم نے اپنے 13 اگست 1947 ء کے خطاب میں فرمایا ”اب ہمارے سامنے ایک نئے باب کا آغاز ہو رہا ہے۔ ہماری کوشش یہ ہوگی کہ ہم برطانیہ اور ہمسایہ مملکت ہندوستان اور دیگر برادر اقوام کے ساتھ بھی خیر سگالی اور دوستی کے تعلقات استوار کریں اور انہیں برقرار رکھیں تاکہ ہم سب مل کر امن، امن عالم اور دنیا کی خوشحالی کے لیے اپنا عظیم ترین کردار ادا کرسکیں“۔

قائداعظم نے خیر سگالی، دوستی ’امن اور خوشحالی کا جو پیغام دیا تھا وہ ہی آزادی کی روح تھا۔ مکار بھارت نے قائداعظم کے پرخلوص جذبے کی قدر نہ کی اور ہندو ذہنیت تبدیل نہ ہوئی۔ بھارت آج بھی سرحدی کشیدگی پیدا کر کے اپنا اصل چہرہ دکھا رہا ہے‘ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں اس روح کو قید کس نے کیا؟ قائداعظم نے 14 اگست 1947 ء کو مجلس دستور ساز پاکستان کے افتتاح کے موقع پر اپنے خطاب میں فرمایا ”ہماری پیہم کوشش یہ ہوگی کہ ہم پاکستان میں آباد تمام گروہوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں اور مجھے توقع ہے کہ ہر شخص خدمت خلق کے تصور سے سرشار ہوگا۔

وہ جذبہ تعاون سے لیس اور ان سیاسی اور شہری اوصاف سے سرفراز ہوں گے جو کسی قوم کو عظیم بنانے اور اس کی عظمت کو چار چاند لگانے میں ممد و معاون ہوتے ہیں۔ قائداعظم نے اپنے اسی خطاب میں فرمایا“ عظیم شہنشاہ اکبر نے تمام غیر مسلموں کے ساتھ رواداری اور حسن سلوک کا مظاہرہ کیا۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی اس کی ابتداء آج سے تیرہ سو برس پہلے بھی ہمارے پیغمبر ﷺ نے کردی تھی۔ آپ ﷺ نے زبان سے ہی نہیں بلکہ عمل سے یہود و نصاریٰ پر فتح حاصل کرنے کے بعد نہایت اچھا سلوک کیا ان کے ساتھ رواداری برتی اور ان کے عقائد کا احترام کیا”۔ قائداعظم نے خود حضور اکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ (امانت ’دیانت‘ صداقت اور شجاعت) پر عمل کر دکھایا۔

ہم آزادی کی روح سے انحراف کر کے مسلسل بھٹک رہے ہیں۔ ہمارا چالاک اور مکار ہمسایہ بھی ہمارے لیے مصائب پیدا کر رہا ہے۔ قائداعظم نے اپنے اسی پیغام میں فرمایا ”اے میرے ہم وطنو آخر میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان بیش بہا وسائل کی سرزمین ہے لیکن اس کو ایک مسلم قوم کے شایان شان ملک بنانے کے لئے ہمیں اپنی تمام توانائیوں کی ضرورت ہوگی“۔ آج بیش بہا وسائل کے باوجود پاکستان زوال پذیر ہے۔

قائد اعظم نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ ان کے پاکستان میں وہ دن بھی آئے گا جب مسلم اور غیر مسلم دونوں محفوظ نہیں ہوں گے اور کلمہ گو مسلمان ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہوں گے۔ کیا آج ہم سرور کائنات ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کر رہے ہیں؟ جب پاکستان ہم سب کا گھر ہے تو پھر اس کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں سمیت ہر قسم کی حفاظت بھی ہمارے ذمہ داری ہے۔ اگر بنظر غائز جائزہ لیں تو اس وقت پاکستان پر ہر طرف سے اور ہر لحاظ سے دشمن کی یلغار ہے۔ استعماری طاقتیں پاک وطن کو کمزور کرنا چاہتی ہیں۔ اسی وجہ سے ملک میں قومیت ’عصبیت‘ صوبائیت ’لسانیت اور فرقہ واریت کو فروغ دلوایا جا رہا ہے‘ جس کی وجہ سے پورے ملک میں انتشار ’انارکی‘ بدامنی ’خوف‘ بے یقینی اور افراتفری کی فضا موجود ہے۔ پاکستان ہمارا وطن ہے، ہمیں مل کر اس کو بچانا ہوگا۔

یوم آزادی کا سبق اور پیغام یہ ہے کہ نوجوان قائداعظم کی اساسی تعلیمات اور آزادی کی روح کے مطابق پاکستان کی تشکیل نو کی جدوجہد کا آغاز کریں اور سیرت رسول ﷺ کے خلاف چلنے والوں اور قائداعظم کے ذہنی اور فکری مخالف عناصر کا بے دریغ اور بلا امتیاز قلع قمع کر کے آزادی کی روح کو بازیاب کرائیں۔ انقلابی عوامی جدوجہد کے بغیر پاکستان کو غاصبوں اور ظالموں کے قبضے سے نجات دلانہ ممکن نہ ہوگا۔ جب تک آزادی کی روح بحال نہ ہو جائے ہم اپنے مسائل سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔

االطاف حسین حالی نوجوانوں کو وقت کی قدر کرتے ہوئے کچھ اچھا کر گزرنے کے لیے فرماتے ہیں کہ

اب بہہ رہی ہے گنگا، کھیتوں کو دے لو پانی
کچھ کرلو نوجوانو، اٹھتی جوانیاں ہیں