ارشاد باری تعالیٰ ہے:
بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ ِللهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَہٗ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ.
(البقرة، 2: 112)
’’ ہاں، جس نے اپنا چہرہ الله کے لیے جھکا دیا (یعنی خود کو الله کے سپرد کر دیا) وہ صاحبِ اِحسان ہوگیا تو اس کے لیے اس کا اجر اس کے رب کے ہاں ہے اور ایسے لوگوں پر نہ کوئی خوف ہوگا اورنہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔‘‘
یہ آیت کریمہ واضح کرتی ہے کہ مسلمان وہ ہے جو خود کو اللہ کے حضور جھکادے اللہ کے حضور جھکانا یہ ہے کہ انسان کے وجود سے صادر ہونے والا کوئی بھی فعل ہو یا کوئی بھی قول ہو، کوئی بھی خلق و عادت ہو یا کوئی بھی رویہ و طریقہ ہو، انسان کے ہر طرز عمل میں اور انسان کے ہر طرز گفتگو میں وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللهِ صِبْغَۃً (البقرة، 2: 138) کا رنگ نظر آئے۔ انسان اخلاق الهٰیہ اور اخلاق رسول ﷺ سے متصف نظر آئے۔
مسلم کون ہے؟
اس لیے باری تعالیٰ اپنے بندوں کو ایسے وجودوں سے متعارف کراتا ہے جنہوں نے خود کو اس کے حضور من اسلم وجہہ للہ اس کی بارگاہ میں جب خود کو جھکایا تو وہ مسلماً کا اعزاز پانے والوں میں سے ہوگئے تھے۔ اس لیے اس وجود مسلم کا تعارف کراتے ہوئے سورہ آل عمران میں ارشاد فرمایا:
مَا کَانَ اِبْرٰهِیْمُ یَھُوْدِیًّا وَّلَا نَصْرَانِیًّا وَّلٰـکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا.
(آل عمران، 3: 67)
’’ ابراہیم (علیہ السلام) نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی وہ ہر باطل سے جدا رہنے والے (سچے) مسلمان تھے۔‘‘
باری تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ایک مسلمان کا تعارف یہ کرایا ہے کہ وہ باطل سے جدا رہنے والا اور ہمیشہ حق سے وابستہ ہونے والا ہوتا ہے۔مسلمان وہ ہے جو شرک کو چھوڑتا ہے اور توحید پر خود کو قائم کرتا ہے۔ مسلمان وہ ہے جو جھوٹ سے بیزار ہوتا ہے اور سچ کا دلدادہ ہوتا ہے۔ مسلمان وہ ہے جو پیکر اطاعت ہوتا ہے وہ وجود شر نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ اس کو مسلمان ہونے کا نام اور مسلمان ہونے کا اعزاز اس لیے دیا گیا کہ یہ اللہ کے حضور جھک گیا۔ اسی عمل کے باعث اس کے وجود کا نام ہم نے قرآن میں مسلمان رکھا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
هُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِیْ هٰذَا.
(الحج، 22: 78)
’’اس اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے اس سے پہلے کی کتابوں میں بھی اور اس قرآن میں بھی۔‘‘
قول اور عمل احسن کا نام مسلم ہے
سورہ حم السجدہ میں ایک مسلمان کا سب سے بڑا تعارف کراتے ہوئے قرآن بیان کرتا ہے کہ ایک مسلمان کون ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ.
(حم السجدة، 41: 33)
’’ اور اس شخص سے زیادہ خوش گفتار کون ہو سکتا ہے جو الله کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے بے شک میں (الله اور رسول ﷺ کے) فرمانبرداروں میں سے ہوں۔‘‘
اس آیت کریمہ نے قول احسن اور عمل احسن کا نام کردار مسلم بتایا ہے۔ گویا جس ذات اور شخصیت میں قول احسن کی بہاریں ہیں اور جس وجود میں عمل احسن کے جلوے ہیں یقیناً یہی وہ وجود ہے جو پکارتا ہے اور اپنا تعارف تحدیث نعمت کے طور پر کراتا ہے۔ اننی من المسلمین میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا وفادار اور فرمانبردار ہوں۔ میری شناخت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت گزاری ہے۔ میں مسلمان اس لیے ہوں کہ میں اللہ کے حضور عبادت گزار ہوں اورمیں مسلمان اس لیے ہوں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کا عملدار ہوں اور ان کی سیرت و کردار کا وفاشعار ہوں۔
مسلم مظہر اطاعت ہے
اس لیے جب ہم مسلمان کا معنی عربی لغات میں دیکھتے ہیں تو ہم یہی معنی پاتے ہیں:
المسلم، ھو مظهر للطاعة.
- (ابن منظور، محمد بن مکرم بن علی افریقی)
- (لسان العرب، مادہ مسلم، بیروت، لبنان، دار صادر)
’’مسلمان وہ ہے جو سراپا اطاعت ہے۔‘‘
جس کا وجود اطاعت الٰہی اور اطاعت رسول ﷺ سے عبارت ہے۔ مسلمان وہ ہے جس کا وجود اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کے ظہور کا مظہر بنایا گیا ہے۔ اس کےو جود میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات کا رنگ نظر آتا ہے۔
المسلم ھو القام الاسلام.
(لسان العرب، ج: 12، ص: 293)
’’مسلمان وہ ہے جس نے خود کو اسلام میں ڈھال لیا ہے۔‘‘
جس کا وجود چلتا پھرتا اسلام ہے، اسلام کی تعلیمات کا عملی اظہار وجود مسلم سے ہوتا ہے۔ اس سے اسلام کے اعمال اور احوال اور اخلاق اور اس کی مجموعی تعلیمات کا ظہور اس لیے ہوتا ہے۔
ھو مومن بھا.
(لسان العرب، ج: 12، ص: 293، ماده مسلم)
وہ اسلام کی ساری تعلیمات پر ایمان رکھتا ہے۔ اس کو یقین حاصل ہے اسلام کا ہر ہر عمل اس کے نفع کے لیے ہے، جس عمل کو کرنا ہے اس میں بھی منفعت ہے اور جس سے رکنا ہے اس میں بھی نفع ہے۔
مسلم اللہ کے سامنے جھکنے والا ہے
اسی طرح ابن منظور افریقی لفظ مسلم کا ایک اور معنی یہ بیان کرتےہیں کہ مسلمان کون ہے۔
المسلم ھوالمستسلم لامر اللہ.
(لسان العرب، ج: 12، ص: 293)
مسلمان وہ ہے جو اللہ کے حکم کے سامنے جھک جائے جو اللہ کے حکم کو اپنے قول اور فعل میں قبول کرلے۔ مسلمان وہ ہے جو اللہ کے حکم کو اپنا قول و فعل اور اخلاق و کردار بنائے جو اپنے نفس امارہ کی خواہش سے اٹھنے والے حکم کو ترک کرے اور اس کی بجائے اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردے اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کو اپنا عمل بنالے۔ اللہ کے امر کو اپنا فعل بنالے، جب وہ اس عادت میں ڈھلتا ہے تو وہ مسلمان بنتا ہے۔
مسلم اللہ کی عبادت کرنے والا ہے
اسی طرح مزید برآں فرماتے ہیں:
المسلم ھو المخلص لله العبادۃ.
(لسان العرب، ج: 12، ص: 293)
جو عبادت کو اللہ ہی کے لیے خاص کرلے وہی مسلمان ہے مسلمان وہ ہے جو ایاک نعبد کا پیکر بن جائے جو صرف اور صرف اللہ ہی کی عبادت کرے۔ اس کے وجود سے عبادت غیر کی ہر صورت کا خاتمہ ہوجائے۔ شرک فی العبادۃ کا ایک ذرہ بھی اس کے وجود میں تلاش کرنے سے بھی میسر نہ آئے اور عبادت میں اس بندے کا اخلاص بڑھتے بڑھتے اس کو ایسا کردے کہ وہ بندہ المخلص اللہ کا پیکر بن جائے۔ اس کا ہر کام اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیےہو۔ ابتغاء مرضات اللہ۔ اللہ کی رضا و خوشنودی اس کے ہر فعل سے جھلکے اور اللہ کی رضا اس کے ہر قول میں محسوس ہو۔
لفظ کافر کا مفہوم
ہم لفظ مسلم کا معنی اس کی ضد سے بھی سمجھتے ہیں۔ اس کے مدمقابل لفظ کفر بولا جاتا ہے۔ جس کا معنی چھپانا اور ڈھانکنا ہے۔
(ابوبکر رازی، (م660) مختار الصحاح ماده کفر، بیروت، لبنان دار احیاء التراث العربی، ج: 1، ص: 239)
کافر کو کافر اس لیے کہتے ہیں کہ وہ ایمان کو دل میں چھپا لیتا ہے اور زبان و دل سے اس کا اظہار نہیں کرتا۔
اس معنی کو ائمہ عقیدہ امام ابوالحسن اشعری، ابو منصور ماتریدی اور علامہ تفتازانی نے بیان کیا ہے اور وہ کہتے ہیں:
الکفر ھی الجحد والانکار.
- (اشعری، ابوالحسن علی بن اسماعیل، 324، مقالات اسلامین، داراحیاءالتراث، بیروت، لبنان، ص: 140)
- (تفتازانی، سعدالدین سعود بن عمر عبداللہ (791)، شرح المقاصد فی علم الکلام، دارالمعارف النعمانیہ، ج: 2، ص: 268)
کفر کا معنی سخت اور کھلا انکار ہے۔ مسلمان ایمان کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ہر ہر حکم کو مانتا چلا جاتا ہے جبکہ کافر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ہر حکم کا انکار کرتا جاتا ہے۔ کافر کو کافر اس لیے کہتے ہیں کہ وہ اسلام کی ہر ہر حقانیت و صداقت پر مبنی شہادت اور حقیقت کو چھپاتا چلا جاتا ہے اور ہر ہر موقع پر تکذیب توحید الهٰی اور تکذیب نبوت و رسالت کا عمل دھراتا چلا جاتا ہے۔ اس لیے کافر ٹھہرتا ہے۔
کفر تکذیب الٰہی اور تکذیب رسالت کا نام ہے
اسی بنا پر امام ابن نجیم کہتے ہیں:
الکفر لغة الستر و شرعاً تکذیب محمد ﷺ فی شئی مما یثبت عنه او عادہ ضرورةً.
(ابن نجیم، شیخ زید بن ابراهیم بن بکرالحنفی، 970ھ، البحرالرائق شرح کنزالدقائق، مطبعہ علمیہ، مصر، ج: 5، ص: 129)
’’لغۃ اس کا معنی چھپانا ہے اور شرعاً حضرت محمد مصطفی ﷺ سے بحیثیت اللہ کے رسول ﷺ جو چیز بطور دعویٰ اسلام اور ضرورت اسلام کے طورپر ثابت ہو اس کا انکار کرنا کفر ہے۔‘‘
اور اس ضمن میں جمہور اہل اسلام کا یہ موقف بھی اپنے پیش نظر رکھیں کہ اصولاً کفر کا تعلق اعتقاد و عقیدہ سے ہے اگر کوئی شخص عقیدہ میں کافر نہیں اور اپنے عمل فی الاسلام میں تساہل کا طرز عمل رکھتا ہے تو اس بنا پر اس کو کافر نہیں قرار دیا جاسکتا۔
(اردو دائرہ معارف اسلامیة، ج: 17، ص: 34)
کردار مسلم کی علامات
آیئے اب ہم کردار مسلم کی کچھ علامات، کچھ نشانیاں ایک مسلمان کے وجود میں تلاش کریں اور ان علامات اور نشانیوں کا تعین ہم اپنے اپنے تصورات اور نظریات سے نہیں کرتے بلکہ ہم جس ذات کی وجہ سے مسلمان ہیں اور جس ذات نے ہمیں اسلام کی راہ پر لگایا ہے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کی ذات و شخصیت ہے۔
آپ ﷺ نے ایک مسلم کردار کی پہلی علامت یہ بیان کی ہے:
من سلم المسلمون فی لسانه دیده.
(بخاری، الصحیح، کتاب الایمان، باب: 12 من سلم المسلمون، رقم: 11)
’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘
کردار مسلم یہ ہے کہ اس کے وجود سے دوسرے تمام انسان بھی محفوظ رہیں۔ اس کی زبان کسی بھی انسان کی دلآزاری نہ کرے اور اس کے ہاتھ کسی بھی انسان کا خون نہ بہائیں، کسی انسان کا مال نہ لوٹیں۔ اگر یہ علامات کسی وجود میں پائی جائیں تو وہ مسلم وجود ہے اس میں ایک مسلم کردار ہے
پہلی علامت ہماری زباں ہمارے ایمان کی پہچان ہے
متعدد احادیث میں یہ کلمات مبارکہ آئے ہیں۔ من سلم المسلمون جس سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ دوسرے مسلمان اس مسلمان سے دو چیزوں میں محفوظ رہیں۔ من لسانہ اس کی زبان دوسروں کو تکلیف نہ دے، دوسروں کو کسی قسم کی اذیت نہ دے۔ اس کی زبان پر کسی کی تحقیر نہ ہو، وہ زبان فحش سے پاک ہو، وہ زبان سب و شتم سے دور ہو، وہ زبان گالی گلوچ سے محفوظ ہو، وہزبان طنز و تشنیع سے ماوراء ہو، وہ زبان طاہر ہو۔ لوگوں کے اذہان و قلوب کی تطہیر کرائی جائے۔ یہ زبان ہی لوگوں کے درمیان محبت پیدا کرتی ہے اور یہ زبان ہی لوگوں کے درمیان نفرت پیدا کرتی ہے۔ یہ زبان ہی جوڑتی بھی ہے اور یہ زبان ہی توڑتی بھی ہے۔ یہ زبان ہی دوست بناتی ہے اور یہ زبان ہی دشمن بناتی ہے۔ یہ زبان ہی رشتے توڑتی ہے اور یہ زبان ہی جذبات مجروح کرتی ہے، یہ زبان ہی چھری کانٹے، چاقو اور تلوار سے بھی زیادہ گہرا زخم لگاتی ہے۔ اس لیے کسی عربی شاعر نے زبان کی اس خاصیت کا اظہار یوں کیا:
جراحت الاسنان لها التیام
ولا یلتام من جرح باللسان
جو زخم چھری و تلوار سے لگایا جائے وہ بھر جاتا ہے اور جو زخم زبان سے لگایا جائے وہ نہیں بھرتا۔
معزز قارئین! آج ہماری معاشرتی زندگی، کاروباری زندگی، گھریلو زندگی، دفتری زندگی میں عدم سکون، پریشانی و اضطراب اور نااتفاقی و بے چینی، کا سب سے بڑا سبب ہماری نوک دار زبان ہے جو چھری اور تلوار سے بھی زیادہ تیز ہے۔ جو ایسا کاٹتی ہے کہ کسی کو دوستی سے ہی کاٹ دیتی ہے۔ کسی کو رشتے ہی سے فارغ کردیتی ہے، کسی کو دیرینہ تعلق سے محروم کردیتی ہے، کسی کی لازوال وفاؤں کو ایک لمحے میں خاکستر کردیتی ہے۔ یہ زبان بسانے پر آئے تو وفاؤں کے گلستاں آباد کرتی ہے اور یہ زباں اجاڑنے پر آئے تو پھر چہروں کو مرجھا اور جھلسا دیتی ہے۔
اس زبان کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جو شخص مجھے اپنی زبان کی ضمانت دے دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔
اس زبان کے شر سے ہم نے دوسرے مسلمانوں کو محفوظ کرنا ہے۔ تب ہماری مسلمانی مسلّم ہوگی اور اسی طرح متعدد اور مختلف احادیث میں المسلمون کی بجائے الناس کے کلمات مبارکہ بھی آئے ہیں۔
ہماری زبان سے تمام لوگ محفوظ رہیں
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من سلم الناس من لسانه ویده.
- احمد بن حنبل، المسند، 2، ص 187، رقم 6753
- طبرانی، المعجم الاوسط، 3: 287، رقم 3170
’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں۔‘‘
کردار مسلم یہ ہے کہ اس کے وجود سے دوسرے تمام انسان بھی محفوظ رہیں۔ اس کی زبان کسی بھی انسان کی دلآزاری نہ کرے اور اس کے ہاتھ کسی بھی انسان کا خون نہ بہائیں، کسی انسان کا مال نہ لوٹیں۔ اگر یہ علامات کسی وجود میں پائی جائیں تو وہ مسلم وجود ہے اس میں ایک مسلم کردار ہے۔
دوسری علامت ہاتھ سے دوسرے انسان محفوظ رہیں
کردار مسلم کی دوسری نشانی و علامت رسول اللہ ﷺ نے من سلم الناس من یدہ لوگ اس کے ہاتھ سے محفوظ رہیں۔ اس کے ہاتھ لوگوں کو شر نہ پہنچائیں، اس کے ہاتھوں سے فعل حرام سرزد نہ ہو، اس کا ہاتھ قتل و غارت میں ملوث نہ ہو، اس کا ہاتھ چوری و ڈکیتی میں مصروف نہ ہو، اس کا ہاتھ کرپشن، بدعنوانی اور حرام خوری کا خوگر نہ ہو، اس کا ہاتھ دجل، فراڈ، دھوکہ دہی میں آلہ کار نہ ہو، اس کا ہاتھ ظلم و ستم کرنے وحشت و بربریت بپا کرنے میں شاغل نہ ہو۔ اس کا ہاتھ فتنہ و فساد، خونریزی، قتل و غارت گری اور دہشت گردی میں ملوث نہ ہو۔ گویا جس کی زبان سلامتی والی ہے اور جس کے ہاتھ سلامتی والے ہیں وہی مسلمان ہے، وہی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا پسندیدہ اور محبوب ہے۔
کردار مسلم کی تشکیل اور رشتہ اخوت
کردار مسلم رشتہ اخوت سے تشکیل پاتا ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ہر مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی قرار دیا ہے۔ اس رشتہ اخوت کی بنیاد اخوت بالعقیدہ پر رکھی ہے۔ اخوت بالعقیدہ نظریے اسلام کی بنا پر اخوت بالدم خون کی بنا پر اخوت پر ترجیح حاصل ہے۔ اس لیے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
المسلم اخوالمسلم لایظلمه و لایسلمه.
(بخاری، الصحیح، کتاب المظالم، باب لا یظلم المسلم، 2: 862، رقم: 2310)
’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارومددگار چھوڑتا ہے۔‘‘
مسلمان دوسرے مسلمان پر رشتہ اخوت کی بنا پر ظلم نہیں کرتا اور نہ ہی اسے ضرورت کے وقت اپنی دوستی سے محروم کرتا ہے۔ ظلم کرنا یہ ہے کہ کسی انسان کو اس کے حق سے محروم کردیا جائے۔ انسان کسی کا مال ناجائز طریقے سے ہڑپ کرلے کسی کو اس کی جائیداد سے محروم کردے، کسی کی زمین پر قبضہ کرلے، کسی کا مال لوٹ لے، ہر وہ چیز ظلم ہے جو اس کا حق نہیں اور وہ اس چیز کو اس مظلوم سے اپنی قوت و طاقت اور ڈر و دہشت کی بنا پر جبراً اور اکراہً لے۔ اس دینے میں مظلوم کی مرضی شامل نہ ہو تو یہ ظلم ہے۔ ظلم بالواسطہ ہو یا بلاواسطہ ہو اس کی ہر صورت ظلم ہے اور اسلام نے اس سے منع کیا ہے۔
تیسری علامت۔ ہر مسلمان کے مال، جان اور عزت کی حفاظت
مسلمان کا کردار سلامتی والا ہے اور ہر ظلم سے پاک ہے۔ اسی کردار مسلم کا تقاضا ہے کہ ہر مسلمان اپنے اندر اسلام کی یہ علامات پیدا کرے کہ وہ خود کو سراسر سلامتی والا، پرامن اور ہر ظلم سے پاک بنائے اور اس کی عملی تعبیر اپنے وجود سے یوں ظاہر کرے جسے رسول اللہ ﷺ نے یوں بیان کیا:
کل المسلم علی المسلم حرام دمه وماله وعرضه.
(رواہ مسلم) (مسلم، الصحیح، کتاب البر والصلة، باب تحریم ظلم، 4: 1986، رقم: 2564)
’’ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت حرام ہے۔‘‘
دوسری حدیث مبارکہ میں یہ کلمات کچھ یوں آئے ہیں۔ آپ نے فرمایا:
کل المسلم علی المسلم حرام عرضه و ماله و دمه.
(ترمذی، السنن، کتاب البر والصلة، باب ماجاء فی شفقة المسلم، 4: 325)
’’ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی عزت، اس کا مال اور اس کا خون حرام ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ کے یہ ارشادات اور یہ کلمات مبارکہ اطاعت رسول ﷺ کی صورت میں اگر ہماری زندگیوں میں آجائیں، ہماری سیرت رسول اللہ ﷺ کی سیرت کی پیروی میں آجائے۔ ہمارا عمل قول رسول کی اتباع میں آجائے، ہمارا کردار فرمان رسول سے روشنی پائے تو ہمارے معاشرے سے زیادہ پُرامن معاشرہ، بقائے باہمی کا معاشرہ، سلامتی و آشتی والا معاشرہ محبت و پیار والا معاشرہ، تحمل و رواداری والا معاشرہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔
ہمارے کردارمسلم کا زوال یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات ہماری شخصیات میں اترتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔ ہم نام کے تو مسلمان ہیں مگر عمل میں اسلام نظر نہیں آتا۔
صحیح مسلم میں رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:
کونوا عباداللہ اخواناً.
(مسلم، الصحیح، کتاب البر والصلة باب تحریم ظلم، 4: 1986، رقم 2564)
’’اے اللہ کے بندو! باہم بھائی بھائی بن جاؤ۔‘‘
کردار مسلم اور متفرق علامات
اب سوال یہ ہے کہ اخوت بین المسلمین کیسے اور کس طرح قائم ہوسکتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کا طریقہ بھی
خود بتادیا ہے۔ ارشاد فرمایا۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں:
قال رسول اللہ ﷺ لاتحاسدوا و لاتناجشوا و لاتباغضوا و لاتدابروا و لا یبیع بعضکم علی بیع بعض.
’’رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور ایک دوسرے سے منہ نہ موڑو اور تم میں سے کوئی شخص دوسرے کے سودے پر اپنا سودا نہ کرے۔‘‘
مزید برآں فرمایا مسلمان وہ ہے جو دوسرے مسلمان پر
و لایظلمه و لایخذله و لایحقره.
نہ تو ظلم کرتا ہے نہ اسے ذلیل کرتا ہے اور نہ اسے حقیر جانتا ہے۔
دوسری حدیث مبارکہ جامع ترمذی میں فرمایا:
لا یخونه ولایکذیه ولایخذله.
(ترمذی، السنن، کتاب البر والصله باب ماجاء فی شفقة المسلم، 4: 325)
’’مسلمان دوسرے مسلمان سے نہ خیانت کرتا ہےا ور نہ اس سے جھوٹ بولتا ہے اور نہ اسے ذلیل کرتا ہے۔‘‘
آج ہم اپنے وجودوں میں اس مسلمان کو تلاش کرنا چاہتے ہیں جس کی علامات اور نشانیاں رسول اللہ ﷺ نے بیان کی ہیں۔ یہی علامات اور صفات اگر ہمارے وجودوں میں پائی جائیں تو تبھی ہم کردار مسلم کے حامل ہوسکتے ہیں اور اس آیہ کریمہ کے ھو سمکم المسلمین کے مصداق ہوسکتے ہیں۔
حسد نہ کرنا
ان ہی نشانیوں میں سے ایک لاتحاسدوا ہے۔ مسلمان دوسرے مسلمان سے حسد نہیں کرتا۔ اس لیے حسد انسان کو نفرت دیتا ہے اور حسد انسان میں عداوت پیدا کرتا ہے، حسد انسان کی نیکیوں کو ختم کرتا ہے، حاسد محروم رہتا ہے۔ اس لیے اسلام حسد کی بجائے رشک کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ دوسروں کی نعمتوں پر جلا نہ کرو بلکہ وہ نعمتیں اپنے لیے خدا سے مانگا کرو۔
دھوکہ نہ دینا
ایک اور علامت و لاتناجشوا ہے ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو دھوکہ نہ دے۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ فراڈ نہ کرے۔ دھوکے سے مال نہ بنائے۔ دھوکے کا مال انسان کو اللہ کی نفرت اور برکت سے محروم کرتا ہے۔ دھوکہ انسان کو دجال بناتا ہے اور دجال کے طبقے میں لاتا ہے۔
بغض نہ رکھنا
ولاتباغضو ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو۔ بغض دل کا میل ہے۔ بغض عداوت کو جنم دیتا ے، عداوت انسان دشمنی کا عمل ہے۔ عداوت انسان کو اللہ کی رحمت اور فضل سے محروم کرتی ہے۔
بےاعتنائی نہ کرنا
و لاتدابروا ایک دوسرے سے رخ نہ موڑو۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے کسی بھی بنا پر رخ نہ موڑے۔ کسی صورت میں قطع تعلقی نہ کرے کسی کے وجود میں اگر شر ہے تو اس کے شر سے بچے اس کے وجود سے نفرت نہ کرے اور خود اس مسلمان اور اس انسان کو حقیر نہ جانے، اسلام ہر حال میں صلہ رحمی کا حکم اور قطع تعلقی سے منع کرتا ہے۔
رسوا نہ کرنا
و لایخذلہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو رسوا نہ کرے۔ ہر نفس عزت کا مستحق ہے، کسی بھی انسان کی تذلیل نہ کی جائے، کسی کو بھی رسوا نہ کیا جائے، کسی کو بے حیثیت نہ جانا جائے۔ انسان سے بحیثیت انسان پیار کیا جائے مسلمان کا بحیثیت مسلمان احترام کیا جائے۔
کسی کو بے عزت نہ کرنا
اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر ایک شرابی پر حد لگوائی۔
فلما انصرف قال بعض القوم اخزاک اللہ قال لا تقولوا ھکذا لا تعینوا علیہ الشیطان. (رواه البخاری)
’’وہ سزا کے بعد جانے لگا تو کچھ لوگوں نے اسے کہا اللہ تجھے رسوا کرے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اسے یوں نہ کہو اور اس طرح کہہ کر اس پر شیطان کو مسلط نہ کرے۔‘‘
خلاصہ کلام
یہ ہے وہ کردار مسلم جو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سکھایا ہے اور فرمایا ایک شرابی ہے سزا یافتہ ہوگیا ہے پھر بھی اس کی عزت نفس کا پاس کرو، اس کو بھی کسی قسم کی گالی نہ دو اور اس کو برا بھلا نہ کہو۔ کہیں ایسا نہ ہو تمہارے اس طرح کہنے سے وہ برائی پر ثابت قدم ہوجائے وہ اپنی توبہ و استغفار سے پھر جائے۔ تمہارے اس طرح کہنے سے اس کی عزت نفس مجروح ہوگی۔ درست ہے وہ گناہگار ہے مگر مسلمان ہے، مسلمان قابل احترام ہے اور انسان ہے وہ قابل تکریم ہے۔
باری تعالیٰ ان قرآنی اور نبوی تصورات کو اپنی زندگی میں ہمیں اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ