سوشل میڈیا کا ذمہ دارانہ استعمال

مومنہ ملک

انسانی زندگی خیالات، محسوسات، نظریات و جذبات کا ایک مرقع ہے جن کے باہمی میلان کا نام معاشرہ ہے۔ اپنے ان خیالات و نظریات کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے انسان ہمیشہ کسی ذرائع ابلاغ کا محتاج رہا ہے۔ اوائل دور میں یہ ذریعہ ابلاغ قلم، کاغذ تک محدود تھا جس کے ذریعے انسان اپنے نظریات و جذبات کا اظہار کرتا رہا ہے جس کے نتیجے میں کتب کا وجود آیا اہل علم اپنی فکر و آراء کو خوش نویسی اور خطاطی کے ذریعے قارئین تک پہنچاتے رہے۔ اوائل دور میں یہ کتب کا سلسلہ چند اہل علم تک محدود رہا بعد ازاں باقاعدہ کتب خانے اور اشاعت خانے قائم ہونے کی وجہ سے عام آدمی بھی اس سے مستفید ہوتا رہا۔ یوں یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔

لیکن اس ذریعہ ابلاغ کے علاوہ سائنسی ترقی اور خوب سے خوب تر کی تلاش نے مزید مختلف ذرائع ابلاغ جیسے ریڈیو اور ٹیلی وژن وغیرہ متعارف کروائے۔ یوں محسوسات، جذبات، نظریات و آراء کو دوسروں تک پہنچانے میں آسانی ہوتی چلی گئی اور ایک ملک میں رہنے والے عام افراد بھی ان سے مستفید ہوتے رہے۔ وقت کی رفتار کے ساتھ اور مزید سائنسی ترقی نے انٹرنیٹ سروسز کو جنم دیا۔

انٹرنیٹ سروس ایک ایسا جدید اور موثر ذریعہ تبلیغ ہے جس کے ذریعے نہ صرف دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے بلکہ سائنسی ترقی نے زمینی دریافتیں عبورت کرتے ہوئے خدا اور چاند سے دریافتیں شروع کررکھی ہیں۔ انٹرنیٹ سروسز مختلف تحقیقی و جدیدی پلیٹ فارمز پر مشتمل ہے جن میں عموماً زیادہ تر استعمال گوگل، یوٹیوب، جی میل، سکائپ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز وغیرہ شامل ہیں۔

سوشل میڈیا ایک جدید ترین اور تیز ترین ذریعہ تبلیغ ہے جس کے ذریعے بآسانی چند سیکنڈز کی رفتار میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پیغام پہنچایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا مختلف پلیٹ فارمز پر مشتمل ایک میڈیا پلیٹ فارم ہے جن میں فیس بک، انسٹا گرام، ٹویٹر، واٹس ایپ، یوٹیوب، ٹک ٹاک جیسے دیگر پلیٹ فارمز شامل ہیں۔

ابتداءً سوشل میڈیا کا تعارف ایک موثر ذریعۂ تبلیغ رہا جس کے ذریعے نہ صرف تعلیم عام ہوئی بلکہ ملکی سطح پر سائنس نے ترقی بھی کی۔ یہ اچھی معیشت کا ذریعہ بھی رہا لیکن فی زمانہ رفتار اس کے مزید پلیٹ فارمز کے تعارف نے بے شمار مسائل بھی پیدا کیے ہیں۔ انٹرنیٹ ہماری زندگیوں کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے کیونکہ اس کے بغیر تعلیم ناممکن بن چکی ہے۔ لہذا سوشل میڈیا بھی ہماری زندگی میں برق رفتاری کے ساتھ گھر کے ایک فرد کی طرح جگہ بنا چکا ہے جہاں اس نے تعلیم، سائنس کو عام کیا وہاں اس کے ذریعے اسلام سے دوری، معاشرتی بے راہ روی اور زندگیوں کی تباہی ایک معمول بن چکی ہے۔ سوشل میڈیا کا بے دریغ اور بلا ضرورت استعمال نہ صرف نوجوان نسل بلکہ ادھیڑ عمر افراد میں بھی پایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کا استعمال ایک نشہ بن چکا ہے جو انسانی دماغ میں موجود ڈوپامِن کو تسکین پہنچاتا ہے اور اس خلیے کی تسکین کا عمل انسانی زندگی کی تباہی کی بنیاد ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کی تحقیق کے مطابق جب کوئی شخص سوشل نیٹ ورکنگ کررہا ہوتا ہے تو اس دوران اس کے دماغ کا ایک مخصوص حصہ Iucleus accumbens متحرک ہوتا ہے۔ لہذا سوشل میڈیا ایک ایسا ہی بھیانک نشہ ہے جو کہ اپنے صارفین کو اس طرح سے اپنی گرفت میں لیتا ہے کہ فرد اپنے اہداف کے حصول کے بجائے اپنی ہی تخلیقی صلاحیتوں کا ضیاع کرتے ہوئے خود کو تباہ کردیتا ہے۔

بطور ذمہ دار شہری ہمیں ہر وقت چوکنا رہنا ہوگا۔ ہر گھر کے سربراہ کو آنکھیں کھلی رکھنی ہوں گی کہ اس کی زیر پرورش نسلِ نو بگڑنے نہ پائے۔ اس حوالے سے والدین کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کس عمر میں، کس حد تک اور کون سے پلیٹ فارمز پر بچوں کی رسائی ممکن ہونی چاہیے اور اس رسائی کے عمل کے دوران بچوں کی مناسب نگرانی اور تربیت بھی ایک لازمی امر ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں چونکہ تعلیمی امور میں ایک بڑا دخل والدین کا ہوتا ہے جہاں صرف اساتذہ نہیں بلکہ والدین بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے انٹرنیٹ وسوشل میڈیا کے ضروری اور موثر طریقہ استعمال سے اپنی اولاد کو نہ صرف تعلیم مہیا کرتے ہیں بلکہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ایج ریٹنگ (Age rating) کے مطابق دکھایا جاتاہے۔ Age Rating ایک ایسا نظام ہے جس کے تحت ملکی تعلیمی انتظامیہ نے یہ طے کیا ہوتا ہے کہ کس Age Group کے لیے کون سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور کتنے وقت کے استعمال کے لیے بہتر ہیں اور کس ایج گروپ کے بعد کن پلیٹ فارمز کا انتخاب کرنا ہے۔

پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہے جو کہ کلمہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا ہے جس کے مقاصد کے حصول میں ایک ۔ بہترین، باعمل مسلمان تیار کرنا ہے اور اس مقصد کے حصول میں تاحال ملکی انتظامیہ ناکام نظر آتی ہے جس کی بہت سی وجوہات ہیں ان وجوہات میں ایک بڑی اور اہم وجہ تاحال سوشل میڈیا کے ضروری اور موثر استعمال کی آگاہی سے نابلد ہونا ہے یہاں والدین اور اساتذہ بھی اپنا کردار اد اکرنے میں ناکام رہے ہیں جس کے نتیجے میں گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان نہ صرف اخلاقی گراوٹ بلکہ جرائم کا ایک گڑھ بن چکا ہے۔ والدین اوائل عمری میں اولاد کی تربیت کا فریضہ ادا کرنے کے بجائے ان کے ہاتھ میں موبائل دے دیتے ہیں جس کے نتیجے میں نہ صرف ذہنی بلکہ جسمانی تباہی کے سفر کا آغاز ہوتا ہے جو بعد ازاں معاشرتی برائیوں کا سبب بھی بنتی ہے۔

گزشتہ 8-10 سالوں سے سوشل میڈیا کے جدید سے جدید پلیٹ فارمز کے متعارف ہونے سے نوجوان نسل تعلیم و تربیت اور تعمیری و تخلیقی کاموں کے بجائے اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ موبائل پر صرف کرتے نظر آتے ہیں جو ان کے رجحانات کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں کچھ پلیٹ فارمز ایسے بھی ہیں جو آمدنی کا ایک معقول ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ ان پلیٹ فارمز پر کچھ افراد بہترین اور موثر معلومات فراہم کرتے ہیں جو نہ صرف معاشرہ کے لیے مفید ہے بلکہ بہترین آمدنی کا ذریعہ بھی بھی ہے وہیں دوسری طرف پیسہ اور شہرت کو دیکھتے ہوئے گزشتہ 5-6 سالوں کے درمیان نہ صرف نوجوان نسل بلکہ درمیانی عمر کے افراد بھی سوشل میڈیا کو نہ صرف غلط استعمال کرتے نظر آرہے ہیں بلکہ اس بے جا، غیر ضروری اور غلط طریقہ استعمال کو مسلسل وجہ شہرت اور پیسے کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں جو کہ مسلسل پاکستانی معاشرہ کی تخریب کاری اور تباہی کا ذریعہ بن چکا ہے۔

گزشتہ چند برسوں سے اسلام مخالف اور ریاست مخالف قوتیں سوشل میڈیا کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں اور ان مقاصد کے حصول کے لیے وہ نوجوان نسل کو استعمال کرتی ہیں کیونکہ نوجوان کسی بھی ریاست کے لیے آمدہ تعمیری مستقبل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل انہی مذموم مقاصد کے حصول کے لیے استعمال ہوتی نظر آتی ہے۔ دیکھنے میں آتا ہے ہماری نوجوان نسل بلاتفریق سوشل میڈیا کا استعمال کررہی ہے، جس سے نہ صرف ان کی ذہنی و جسمانی نشوونما متاثر نظر آتی ہے بلکہ ان کا ایمان، عقائد و نظریات تخریب کاری میں الجھے نظر آتے ہیں۔

آج کل سوشل میڈیا پر عملی ٹولز، جھوٹ اور سچ کی آمیزش، مبالغہ آرائی، بے جا نمود و نمائش، دین سے دوری اور والدین کی اس سب سے لاپرواہی ایک معمول بن چکا ہے۔ جس کے نتیجے میں گزشتہ 12-15 سالوں کے دوران پاکستان میں سائنسی و تعمیری کارناموں کے بجائے تخریبی واقعات زیادہ رونما ہوئے ہیں جس سے اسلام مخالف قوتوں کو اپنے مقاصد کا حصول آسان ہوتا نظر آتا ہے۔ مسلم معاشرہ کی وہ عمدہ صفات جو ایثار، قربانی، ادب و احترام، انصاف، حقوق کی منصفانہ تقسیم اور صلہ رحمی پر مشتمل ہوا کرتی تھیں اور ہمارے معاشرے کی ثقافت اور رہن سہن کی بنیاد تھیں، وہ آج سوشل میڈیا کے منفی اثرات کی نذر ہوتی جارہی ہیں۔ ان اثرات نے بزرگوں سے مہذب رویے اور شفقت جیسی خوبصورت صفات چھین لی ہیں اور نوجوانوں سے جذبہ تعمیر و عمل اور برداشت کے رویوں کو ختم کردیا ہے۔ اس سے نہ صرف والدین اور بچوں میں ذہنی ہم آہنگی کم ہورہی ہے بلکہ آئے روز نت نئے واقعات بھی رونما ہوتے نظر آرہے ہیں۔ بعض واقعات ایسے ہیں جن سے نہ صرف ریاست کو نقصان ہوا بلکہ اسلامی تشخص پر بھی سوالات اٹھے ہیں۔

ہم اپنے بچوں کو گیمز کھیلنے کے لیے موبائل دے دیتے ہیں۔ یہ معلومات کیے بغیر کہ آج کل آن لائن گیمز بھی سوشل میڈیا کا ہی حصہ ہیں جن میں دوسرے لوگ بھی شامل ہوکر کھیلتے ہیں۔

اسی سوشل میڈیا کے اثرات اور پیسے کی ہیر پھیر اور شہرت کی دوڑ میں گزشتہ سالوں میں ایسے گھناؤنے واقعات سرزد ہوچکے ہیں جو معاشرتی عدم تحفظ کو بڑھاچکے ہیں، جن سے عام آدمی کی نفسیات پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کیا جائے تو معاشرتی و سماجی بہتری اور ترقی کا یہی ذریعہ تمام ذرائع ابلاغ سے بہتر ہے ۔ بطور ذمہ دار شہری ہمیں ہر وقت چوکنا رہنا ہوگا۔ ہر گھر کے سربراہ کو آنکھیں کھلی رکھنی ہوں گی کہ اس کی زیر پرورش نسلِ نو بگڑنے نہ پائے۔ اس حوالے سے والدین کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کس عمر میں، کس حد تک اور کون سے پلیٹ فارمز پر بچوں کی رسائی ممکن ہونی چاہیے اور اس رسائی کے عمل کے دوران بچوں کی مناسب نگرانی اور تربیت بھی ایک لازمی امر ہے۔

ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ نہ صرف اساتذہ بلکہ والدین بھی سوشل میڈیا کے طریقہ استعمال سے لے کر اس کے مثبت و منفی اثرات ونتائج سے مکمل آگاہی رکھتے ہوں تاکہ وہ اس طرح سے نوجوان نسل کو کسی بھی قسم کی غیر صحت مند مہم جوئی کا ایندھن بننے سے روک سکیں اور اس حوالے سے دوسری اور اہم ذمہ داری ریاست کی بھی ہے کہ وہ ورک شاپس، سیمینار کے ذریعے عوام میں اس سے متعلق آگاہی پھیلائیں۔ گزشتہ 4-5 برس سے حکومت پاکستان نے فری لانسنگ کے بہت سے کورسز شروع کررکھے ہیں جو کہ آن لائن ایپلیکیشن کے ذریعے گھر بیٹھے فری سیکھے جاسکتے ہیں اور اس سے بہت سے نوجوانوں نے فائدہ بھی حاصل کیا ہے اور اپنے خاندان کی کفالت کے ساتھ ساتھ اپنے تعلیمی اخراجات بھی برداشت کرتے نظر آتے ہیں جو کہ معاشرتی رویے میں ریاستی سطح پر ایک مثبت عمل ہے۔ دورِ حاضر میں والدین کے لیے انٹرنیٹ سروسز کی آگاہی اور استعمال بچوں کو اور اپنے آپ کو moniter کرنے کے لیے ایک ناگزیر عمل ہے۔

سوشل میڈیا کے مضمرات پر ماہرین اس بات پر بحث کررہے ہیں کہ سوشل میڈیا کو عوامی بھلائی کا بہترین ذریعہ بنایا جانا چاہیے۔ اس سے قبل پاکستان کی وفاقی حکومت نے سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر نفرت آمیز اور فحش مواد پھیلانے اور جعلی خبروں اور اطلاعات کا راستہ روکنے کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے FIA کو مزید بااختیار بنانے کا فیصلہ کیا۔

وفاقی کابینہ نے ادارے کو مزید اختیارات دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے ایف آئی اے ایکٹ میں مزید ترامیم کی منظوری دی ہے۔ اس نئے مسودہ قانون کے تحت اسلام، دفاع پاکستان اور پبلک آرڈر میں غلط معلومات، اخلاق باختہ اور فحش مواد پر پابندی عائد ہوگی اور سوشل میڈیا کمپنیاں یا انٹرنیت سروسز پرووائیڈرز کمیونٹی گائیڈ لائنز تشکیل دیں گے۔

مندرجہ بالا تمام قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے امید کی جاسکتی ہے کہ آئندہ سالوں میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال ملکی ترقی کا باعث بنے گا اس سلسلے میں والدین اور اساتذہ اور نوجوانوں کو مل کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔