سوال: کیا قبروں پر پانی کا چھڑکاؤ کرنا جائز ہے؟
جواب: قبروں پر پانی چھڑکنا جائز ہے، اس میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے ایسا کرنا مباح یعنی جائز امر ہے یہی اس کی حقیقت ہے، پانی صفائی، کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
دوسرا اس کا بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ قبر پر سبزہ اُگ جاتا ہے اور یہ سبزہ اللہ تعالی کی تسبیح کرتا ہے اور اللہ کی تسبیح کرنے سے قبر والے کے عذاب میں تخفیف ہوتی۔ کتب احادیث میں کثرت کے ساتھ یہ حدیث بیان ہوئی ہے۔
جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو عذاب ہو رہا ہے اور عذاب بھی کسی کبیرہ گناہ کی وجہ سے نہیں ہو رہا۔ ان میں سے ایک پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا لوگوں کی چغل خوری کرتا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر سبز ٹہنی کے دو ٹکڑے کیے اور دونوں قبروں پر ایک ایک ٹکڑا لگا دیا اور فرمایا جب تک ٹہنی کے یہ ٹکڑے اللہ کی تسبیح کرتے رہیں گے ان کے عذاب میں تخفیف رہے گی۔ (مفتی: حافظ محمد اشتیاق الازہری)
سوال: کیا صدقہ کی رقم اپنے پالتو جانور پر خرچ کی جاسکتی ہے؟
جواب: نفلی صدقات کے مصارف میں وسعت ہے۔ نفلی صدقہ ثواب اور رضائے الٰہی کی نیت سے ہر جائز مد پر خرچ کیا جاسکتا ہے۔ تاہم صدقاتِ واجبہ یعنی زکوٰۃ، فطرانہ یا نذر وغیرہ کے مصارف مقرر ہیں۔ صدقاتِ واجبہ اُن مصارف کے علاوہ کسی مصرف پر خرچ نہیں ہوسکتے۔
فلھٰذا صورتِ مسئلہ میں اگر سائل نے زکوٰۃ یا فطرانہ کی رقم کا مصرف پوچھا ہے یا کوئی رقم یا جنس صدقہ کرنے کی نذر یا منت مانی تھی اور اس کے مصرف کے متعلق استفسار کیا ہے تو واضح ہو کہ یہ صدقاتِ واجبہ ہیں، ان کا مصرف مستحقینِ زکوٰۃ ہیں، جن کی تفصیل اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بیان کی ہے۔ ان صدقات کی رقم جانوروں کی خوراک پر خرچ نہیں کی جاسکتی۔ اگر سائل نے نفلی صدقات کے متعلق پوچھا ہے تو نفلی صدقہ کی رقم سے پالتو جانوروں کی خوراک کا اہتمام کیا جاسکتا ہے، اور اس پر اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید بھی رکھی جاسکتی ہے۔ (مفتی: محمد شبیر قادری)
سوال: کیا شوہر کی اجازت کے بغیر پیسے جمع کر کے کسی کی مدد کی جاسکتی ہے؟
جواب: آپ کے سوال کے مطابق اگر شوہر آپ کو پورا خرچ نہیں دیتا یا اتنے پیسے دیتا ہے جس سے آپ کی ضروریات پوری نہیں ہو سکتیں تو ایسی صورت میں آپ ایسا کر سکتی ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آّپ کی نیت غلط نہ ہو۔ ضرورت سے زیادہ پیسہ نہ نکالیں۔ فضول خرچی نہ کریں۔ اگر واقعی ضرورت کے لیے آپ ایسا کرتی ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے یہ آپ کا حق ہے یہی سوال حضرت ہندہ زوجہ ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو سفیان کنجوس آدمی ہے مجھے اتنا خرچ نہیں دیتے جس سے میری ضروریات اور میرے بیٹے کی ضروریات پوری ہوں تو میں ان کے مال سے بغیر بتائے مال نکال لیتی ہوں تو کیا ایسا کرنے سے مجھ پر کوئی گناہ ہے آپﷺ نے فرمایا اس کے مال سے اتنا نکال کیا کرو جتنا تمہارے اور تمہارے بیٹے کے لیے کافی ہو۔ (صحيح مسلم)
لہذا آپ اپنی ضرورت کے مطابق نکال سکتی ہیں اور اس مال سے صلہ رحمی بھی کر سکتی ہیں۔ دوسروں کی مدد بھی کر سکتی ہیں اس سے آپ کو اجرو ثواب ملے گا۔ (مفتی: حافظ محمد اشتیاق الازہری)
سوال: کیا صدقہ کی رقم قبرستان کے کسی کام میں استعمال کر سکتے ہیں؟
جواب: شرعِ متین میں صدقات دو طرح کے ہیں: ایک نفلی صدقات ہیں اور دوسرے واجب۔ زکوۃ، عشر، فطرانہ اور کفارات وغیرہ واجب صدقات ہیں جن کے مصارف اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بیان فرما دیے ہیں، یہ صدقات صرف انہیں مصارف پر خرچ ہو سکتے ہیں۔ البتہ نفلی صدقات کے مصارف بیان نہیں کیے گئے، یہ فلاحی کاموں میں بھی خرچ کیے جاسکتے ہیں اور حاجت مندوں کو بھی دیے جاسکتے ہیں، اسی طرح نفلی صدقات کی رقم قبرستان کے کام میں بھی خرچ کی جاسکتی ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللهِ وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ.
(التَّوْبَة، 9: 60)
بیشک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔
درج بالا آیتِ مبارکہ میں صدقاتِ واجبہ کا ساتواں مصرف ’فی سبیل اللہ‘ بیان ہوا ہے جس کی وضاحت کرتے ہوئے امام کاسانی حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
و فی سبيل الله عبارة عن جميع القرب فيدخل فيه کل من سعیٰ فی طاعة الله تعالیٰ و سبيل الخيرات اذا کان محتاجا.
(الکاسانی، بدائع الصنائع، 2: 45، بيروت، لبنان، دارالکتاب العربی)
فی سبیل اللہ سے مراد نیکی کے تمام کام ہیں۔ اس سے میں وہ شخص بھی شامل ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور نیک کام کے لیے تگ و دو کرے جبکہ غریب اور حاجتمند ہوں۔
اس عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’فی سبیل اللہ‘ کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اس میں فلاحِ عامہ کے کام بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ اس لیے جب پورے علاقے میں ایک بھی شخص قبرستان کا کام کروانے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس صورت میں واجب صدقات ’فی سبیل اللہ‘ کی مد میں قبرستان پر خرچ کیے جاسکتے ہیں۔ (مفتی: عبدالقیوم خان ہزاروی)