تربیت اولاد سیرتِ نبوی کے آئینے میں

مسز مصباح عثمان

تربیتِ اولاد بظاہر دو الفاظ کا مرکب ہے تاہم معنوی افادیت کے اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ بالعموم والدین اس امر کو تعلیم کے ساتھ ہی منسلک کردیتے ہیں اور کسی اچھے سکول یا ادارے کا انتخاب انہیں اپنی ذاتی ذمہ داریوں سے آزاد کر دیتا ہے وہ بزعمِ خویش اس خیال میں بچوں کی زندگی کا قیمتی وقت گزار دیتے ہیں کہ ہمارے منتخب کردہ تعلیمی ادارے سے بچہ تعلیم یافتہ، مہذب اور اخلاق و آداب سے مزین ہو کر نکلے گا۔ جب کہ اس حقیقت کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے کہ تعلیم اور تربیت دو الگ الفاظ اور اہمیت کے لحاظ سے خاص مرتبہ کے حامل ہیں۔ دونوں بچے کی شخصیت کو خوبصورت بنانے کے لیے اس قدر لازم و ملزوم ہیں کہ اگر کوئی ایک پہلو بھی نظر انداز ہو جائے تو بچے کی شخصیت نامکمل اور ناتمام رہتی ہے اور وہ معاشرے کا مفید اور کارآمد شہری بننے سے محروم رہ جاتا ہے۔

تعلیم کا لفظ معلومات کے حصول اور حقیقت کے ادراک سے متعلق ہے جب کہ تربیت کا لفظ وسیع المعنی ہےجو بچے کی مناسب پرورش، مہذب نگہداشت، اچھے اخلاق و آداب اپنانے کی ترغیب اور رذائل سے بچاؤ کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔ لہذا جب بچوں کی تعلیم و تربیت کی بات کی جائے گی تو اس سے فقط یہ مرادلینا کہ وہ کتنا تعلیم یافتہ اور علوم میں مہارت رکھنے والا ہےکافی نہ ہو گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان اخلاق و آداب کا رنگ بھی اس کی شخصیت میں نظر آنا چاہیے کہ وہ کس قدرمہذب، باکردار، اچھے اخلاق اور نیک اوصاف کا حامل ہے۔ اگر یہ دونوں پہلو اس کی شخصیت میں متوزان نظر آئیں تو اس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے وہ اچھی تعلیم و تربیت کا مالک ہے۔

معزز قارئین: بچے کسی بھی قوم کا مستقبل اور بیش قدر سرمایہ ہوتے ہیں۔ ان طفلانِ ملّت کے لیے اَعلیٰ تربیت، عمدہ تعلیم، مناسب پرورش، مہذب نگہداشت اور خصوصی دیکھ بھال والدین اور اساتذہ کی اَوّلین ذمہ داری ہوتی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ماں کی آغوش کو پہلی درس گاہ قرار دے کر اس پر صداقت کی سند ثبت کر دی ہے۔ بچے کو اس عمر میں کسی کتاب یا دیگر علمی ذخیرے کے بغیر براہِ راست علمی نور حاصل ہوتا ہے۔ اس حوالے سے والدین، خصوصاً والدہ کی اَوّلین ذمہ داری اِسلامی تعلیمات اور بچوں کی نفسیات کے مطابق اُن کی تربیت کرنا اور انہیں تعلیم دینا ہے۔

ذیل میں سیرتِ نبوی ﷺ کے آئینے میں چند خاص امور پیشِ نظر ہیں جن کو اپنا کر والدین اپنے بچوں کی احسن انداز میں تربیت کر سکتے ہیں۔

بچے میں قوتِ گویائی آنے کے بعد سب سے پہلا عمل

والدین کا فرض ہے کہ جب بچے میں قوت گویائی آجائے اور زبان سے کلمات ادا کرنے لگے تو سب سے پہلے اسے کلمہ طیبہ سکھائیں اور اس کے ننھے منھے دماغ میں اس کا مطلب بھی راسخ کر دیں کہ کلمہ ہی اسلام کی بنیاد ہے۔ احادیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے تلقین فرمائی کہ بچہ جب بولنے لگے تو اسے کلمہ طیبہ سکھایا جائے۔

حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

إِذَا أَفْصَحَ أَوْلَادُکُمْ، فَعَلِّمُوْھُمْ لَا إِلٰهَ إِلاَّ اللہُ، ثُمَّ لَا تُبَالُوْا مَتٰی مَاتُوْا.

(ابن السني، عمل الیوم واللیلة، 1: 373، رقم: 423)

جب تمہاری اولاد بولنے لگے تو ان کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہُ سکھاؤ پھر ان کی موت آنے تک فکر مت کرو (یعنی شروع میں جب عقیدہ ٹھیک کر دیا اور اسلام کا عقیدہ اس کو سکھا دیا تو اب کوئی ڈر نہیں۔ ایمان کی پختگی اسے ایمان ہی پر زندہ رہنے دے گی اور اسی پر ان شاء اللہ اس کی موت آئے گی)۔ ‘‘

بچوں کو اچھے آداب سیکھانے کی ترغیب

والدین بچوں کی اچھی تربیت کر کے اور انہیں اچھے آداب و تہذیب سکھا کر برائی سے بچا سکتے ہیں۔ اگر بچے کو والدین کی توجہ و نگہداشت، ان کی سرپرستی و راہنمائی حاصل نہ ہو تو بچے کا بگڑ جانا یقینی بات ہے، ایسا بچہ کیونکر نیک اور اچھا انسان بن سکتا ہے۔ والدین کو تربیتی ذمہ داریوں کی ترغیب حضور نبی اکرم ﷺ کی حدیث مبارکہ سے بھی ملتی ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

أَکْرِمُوْا أَوْلَادَکُمْ وَأَحْسِنُوْا أَدَبَهُمْ.

(ابن ماجه، السنن، کتاب الأدب، باب برالولد والإحسان إلی البنات، 2: 1211، رقم: 3671)

اپنی اولاد کی عزت افزائی کیا کرو اور اُنہیں اچھے آداب سکھایا کرو۔

لہٰذا والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کو معمولی تصور نہ کریں بلکہ اس سلسلے میں اپنے فرائض خلوص و لگن کے ساتھ سر انجام دیں۔ ان کے اندر اچھے آداب و صفات پروان چڑھائیں، ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو جلا بخشیں ان میں کجی اور سطحیت پیدا نہ ہونے دیں۔ ان کے اندر وسعت قلبی، صداقت و دیانت، صبر و استقامت، ایثار و قربانی، ہمدردی و غم گساری، تواضع و انکساری اور مہمان نوازی و فیاضی کی صفات پیدا کریں۔ نیز گالی گلوچ، غیبت، چغل خوری، کذب، خوف، بزدلی جیسے رذائل اخلاق سے بچائیں۔

بچوں کو طہارت اور وضو سیکھانے کا حکم

بچوں کوصاف ستھرا رہنے اور طہارت و پاکیزگی اختیار کرنے کی ترغیب دی جائے۔ انہیں قضائے حاجت کے آداب سکھائے جائیں۔

عملی مشقیں

قضائے حاجت کے وقت بیت الخلاء میں داخل ہوتے وقت بایاں پاؤں پہلے اندر داخل کیا جائے پھر دایاں اور جب باہر آئیں تو پہلے دایاں پاؤں باہر رکھا جائے۔ قضائے حاجت کے وقت حتی المقدور اپنے آپ کو چھپایا جائے اور اپنے ستر کی حفاظت کی جائے۔ پیشاب کے چھینٹوں سے کپڑوں کو بچایا جائے۔ قضائے حاجت کے بعد ہاتھوں کو اچھی طرح دھو کر پاک کیا جائے۔

بچوں کو وضو اور غسل کے آداب سیکھائے جائیں۔ والدین کوشش کریں کے عملی طور پر وضو کر کے بچوں کو وضو کا طریقہ سیکھائیں کیونکہ عملی صورت میں بچے جلدی سیکھ سکتے ہیں۔

دائیں ہاتھ سے امورِ خیر کے آغاز کی ترغیب

حضور نبی اکرم ﷺ نے دائیں ہاتھ سے کام کرنے کو نہ صرف پسند فرمایا بلکہ اس کا حکم بھی دیا ہے اس لیے بچوں کو کھانے، پینے، لکھنے، کوئی چیز لینے اور بھلائی کے ہر کام میں دائیں ہاتھ سے کام کرنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:

حضور نبی اکرم ﷺ دائیں ہاتھ کے استعمال کو پسند فرمایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ دائیں ہاتھ کے ساتھ پکڑتے اور دائیں ہاتھ کے ساتھ دیتے اور آپ ﷺ اپنے تمام کاموں میں دائیں ہاتھ کا استعمال ہی پسند فرماتے تھے۔

(نسائی، السنن الکبری، 5: 411، رقم: 9321)

سو معلوم ہوا کہ حضور نبی اکرم ﷺ ہر کام میں دائیں ہاتھ کا استعمال فرماتے تھے۔ یہی آپ ﷺ کی سنت اور یہی آپ کا حکم ہے، لہٰذا بچوں کو بھی دائیں ہاتھ کے استعمال کی ترغیب دینی چاہیے اور اس بات کا پابند بنانا چاہیے کہ روزمرہ کے کاموں اور معاملات میں اپنے دائیں ہاتھ کا استعمال کریں۔

کھانے اور پینے کے آداب

بچے کی شخصیت کی تعمیر میں کھانے پینے کی ابتدائی تربیت کا بڑا عمل دخل ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ بچوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق کھانے پینے کے آداب سے روشناس کروائیں۔ کھانا کھانے کے دوران بچہ اگر ناشائستہ طریقہ اختیار کرے تو اسے نہایت محبت اور پیار سے سمجھائیں۔

عملی مشقیںں

بچوں کو کھانا کھانے کے درج ذیل آداب سکھائے جائیں:

1۔ کھانا کھانے سے قبل اور بعد میں ہاتھ دھوئے جائیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا برکت کا باعث ہے۔ ‘‘

(أحمد بن حنبل، المسند، 5: 441، رقم: 23783)

دو زانو یا چار زانو بیٹھ کر کھانا کھایا جائے۔ بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کیا جائے۔ کھانا دائیں ہاتھ سے کھایا جائے اور اپنے سامنے سے کھانا کھایا جائے۔ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

میں لڑکپن میں حضور نبی اکرم ﷺ کے زیرکفالت تھا (آپ ﷺ کے ساتھ کھانا کھاتے وقت) میرا ہاتھ پیالے میں ہر طرف چلتا رہتا تھا۔ (ایک مرتبہ جب میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ دسترخواں پر بیٹھا تھا) تو آپ ﷺ نے (مجھے سمجھاتے ہوئے) فرمایا: بیٹے! (پہلے) بسم اللہ پڑھو، پھر دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھایا کرو۔ اس کے بعد ہمیشہ میں اسی طریقہ سے کھاتا ہوں۔

(بخاری، الصحیح، کتاب الأطعمة، باب التسمیة علی الطعام والأکل بالیمین، 5: 2056، رقم: 5061-5063)

کھانا کھانے کے دوران ٹیک لگانے سے اجتناب کیا جائے۔ کھڑے ہو کر کھانے پینے سے اجتناب کیا جائے۔ کھانے پینے میں اسراف نہ کیا جائے۔

اسی طرح بچوں کو سیکھایا جائے کہ پانی پینے سے پہلے بسم اللہ پڑھنی چاہئے۔ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

آپ ﷺ نے (مجھے کھانے کے آداب سمجھاتے ہوئے) فرمایا: بیٹے! (پہلے) بسم اللہ پڑھو۔

(بخاری، الصحیح، کتاب الأطعمة، باب التسمیة علی الطعام والأکل بالیمین، 5: 2056، رقم: 5061-5063)

پانی بیٹھ کر پینا چاہیے۔ ’’حضور نبی اکرم ﷺ نے کھڑے ہو کر پانی پینے سے منع فرمایا۔ ‘‘

(مسلم، الصحیح، کتاب الأشربة، باب کراهیة الشرب قائما، 3: 1600، رقم: 2024)

پانی تین سانسوں میں پینا چاہیے اورپانی پینے کے بعد الحمد للہ کہنا چاہیے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

حضور نبی اکرم ﷺ پیتے وقت (برتن سے باہر) تین مرتبہ سانس لیا کرتے تھے۔

(بخاري، الصحیح، کتاب الأشربة، باب الشرب بنفسین أو ثلاثة، 5: 2133، رقم: 5308)

اسی طرح ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے فرمایا۔

اونٹ کی طرح ایک ہی سانس سے نہ پیو بلکہ دو یا تین مرتبہ (سانس لے کر) پیو۔ پانی پیتے وقت بسم اللہ پڑھو اور فراغت پر الحمد ﷲ کہو۔

(ترمذی، السنن، کتاب الأشربة، باب ماجاء في التنفس في الإناء، 4: 302، رقم: 1885)

پانی میں پھونک نہیں مارنی چاہیے۔ پانی پینے کے دوران پانی میں سانس نہیں لینا چاہیے بلکہ برتن کو دور کر کے سانس لینا چاہیے۔

(بخاري، الصحیح، کتاب الأشربة، باب النهي عن التنفس في الإناء، 5: 2133، رقم: 5307)

سونے کے آداب اور عملی مشقیں

تعلیماتِ نبوی ﷺ کے مطابق دائیں کروٹ پر دایاں ہاتھ رخسار کے نیچے رکھ کر سویا جائے۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

حضور نبی اکرم ﷺ جب اپنے بستر پر تشریف لاتے تو دائیں کروٹ پر سوتے تھے۔

(بخاری، الصحیح، کتاب الدعوات، باب النوم علی الشق الأیمن، 5: 2327، رقم: 5956)

سونے سے قبل مسنون دعائیں پڑھی جائیں۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

حضور نبی اکرم ﷺ رات کے وقت جب خواب گاہ میں جاتے تو اپنا ہاتھ رخسار کے نیچے رکھ لیتے پھر کہتے: اے اللہ! میں تیرے نام کے ساتھ سوتا اور جاگتا ہوں۔

(بخاری، الصحیح، کتاب الدعوات، باب وضع الید الیمنی تحت الخد الیمنی، 5: 2327، رقم: 5955)

عموماً چھوٹی عمر میں والدین بچوں کے سونے کے طریقے کو معمولی سمجھتے ہیں اور ان کے الٹے، سیدھے یا نازیبا طریقے سے سونے کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جب کہ یہی چھوٹی عمر ہی وہ سٹیج ہے جہاں بچوں کو آداب سیکھائے جاتے ہیں اور ان پر مسلسل عمل اس عادت کو ان کی فطرتِ ثانیہ بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے، لہذا ضروری ہے کہ سونے کے آداب بھی سیرتِ نبوی ﷺ کے آئینے میں بچوں کو سیکھائے جائیں اور دائیں طرف سونےکی عادت ڈالی جائے اور قبلہ رخ ٹانگیں پھیلا کر بیٹھنے یا سونے سے باز رکھنا چاہیے۔

چھینک اور جمائی کے آداب

بچوں کو چھینک اور جمائی کے آداب سکھائے جائیں تاکہ انہیں معلوم ہو کہ اس کے بارے میں دین کے احکامات کیا ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

بیشک اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند اور جمائی کو نا پسند فرماتا ہے۔ پس جب کسی کو چھینک آئے تو وہ اَلْحَمدُ ِللهِ کہے اور ہر مسلمان پر حق ہے کہ جو اسے سنے تو یَرْحَمُکَ اللہ کہے۔ جمائی شیطان کی طرف سے ہے، لہٰذا جہاں تک ہو سکے اسے روکنا چاہیے، کیونکہ جمائی لینے والا جب ’ہا‘ کہتا ہے تو شیطان ہنستا ہے۔

(بخاری، الصحیح، کتاب الأدب، باب ما یستحب من عطاس وما یکره من التثاؤب، 5: 2297، رقم: 5869)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

جب تم میں سے کوئی شخص چھینکے تو {اَلْحَمدُ ِللهِ} کہے، اور اس کا بھائی یا دوست (جو بھی سنے) وہ جواباً {یَرْحَمُکَ اللہ} کہے۔ جب اس کا بھائی {یَرْحَمُکَ اللہ} کہے تو پھر وہ کہے: {یَھْدِیْکُمُ اللہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ} ’اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت دے اور تمہارے حالات کو سنوارے۔ ‘

(بخاري، الصحیح، کتاب الأدب، باب إذا عطس کیف یشمت، 5: 2298، رقم: 5870)

آداب مجلس سے شناسائی

بچوں کو آدابِ مجلس سے روشناس کروانا والدین کا فرض ہے تاکہ ان کے بچے جس مجلس میں بھی جائیں وہاں ادب کا مظاہرہ کریں نہ کہ نادانی کی وجہ سے مجلس میں کسی نازیبا حرکت کے مرتکب ہوں اور بے ادبی کا سبب بنیں۔

عملی مشقیں

بچوں کو درج ذیل آدابِ مجلس سکھائے جائیں:

مجلس میں جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جائیں، تاخیر سے پہنچ کر لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے جانے کی کوشش نہ کی جائے۔ حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

جب ہم حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تو جہاں مجلس ختم ہو رہی ہوتی وہیں بیٹھ جاتے۔

(أحمد بن حنبل، المسند، 5: 98، رقم: 20967)

جب کسی مجلس میں دو آدمی بیٹھے ہوں تو بلا اجازت ان کے درمیان حائل نہیں ہونا چاہیے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

دو آدمیوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر نہ بیٹھو۔

(أبو داؤد، السنن، کتاب الأدب، باب فی الرجل یجلس بین الرجلین بغیر إذ نھما، 4: 262، رقم: 4844)

مجلس سے کسی شخص کو اُٹھا کر اس کی جگہ پر نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جائیں۔ کسی کو اس کی نشست سے اٹھایا نہ جائے اور مجالس میں کشادگی اور وسعت پیدا کی جائے۔

بڑوں کے ادب و احترام کی تلقین

بچوں کی تربیت میں بڑوں کا ادب و احترام کرنے کی تعلیم کا خصوصی خیال رکھا جائے۔

عملی مشقیں

اُنہیں سکھایا جائے کہ جب وہ بڑوں کے ساتھ چلیں تو ان کے آگے نہ چلیں۔ جب وہ بڑوں کے ہمراہ ہوں تو بڑوں سے پہلے گھر میں داخل نہ ہوں۔ بڑوں سے مراد صرف گھر کے بڑے افراد اور والدین نہیں بلکہ اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جو عمر میں بچے سے بڑا ہو۔ والدین تو لائقِ تعظیم ہوتے ہیں ان کا احترام کرنا، ان کا ادب کرنا اور ان کا حکم ماننا تو بچوں کا فرض ہوتا ہے لیکن اس کے علاوہ کوئی بھی بڑا بزرگ ہو اس کا بھی ادب و احترام بچوں کو کرنا چاہیے۔ سکول میں اکثر معمر افراد ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا چاہیے۔ ہمسایوں میں ایسے افراد رہتے ہیں ان کے ساتھ بھی اخلاق اور ادب و احترام سے پیش آنا چاہیے۔ کوئی بھی بڑا بزرگ ہو اس کے ساتھ بچوں کو ادب اور تعظیم سے پیش آنا چاہیے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے بڑوں کے ساتھ ادب، عزت اور تعظیم سے پیش آنے کی تلقین فرمائی ہے اور بڑوں کا یہ حق قرار دیا کہ بچے اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کا احترام کریں اور ان کے مرتبے کا خیال رکھیں۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یُوَقِّرْ کَبِیْرَنَا وَیَرْحَمْ صَغِیْرَنَا.

(أحمد بن حنبل، المسند، 2: 207، رقم: 6937)

جو ہمارے بڑوں کی توقیر نہ کرے اور ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔

اولاد کو رسول اللہ ﷺ اور آلِ رسول سے محبت کی تلقین

محبتِ رسول ﷺ کامل ایمان کی علامت ہے اور بچوں میں حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت اور اطاعت پیدا کرنا والدین کا شرعی فریضہ ہے اور یہ حدیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

أَدِّبُوْا أَوْلَادَکُمْ عَلٰی ثَـلَاثِ خِصَالٍ: حُبِّ نَبِیِّکُمْ وَحُبِّ أَهْلِ بَیْتِهٖ وَقِرَائَةِ القُرْآنِ.

(سیوطی، الجامع الصغیر، 1: 25، رقم: 311)

اپنی اولاد کو تین چیزیں سکھاؤ: اپنے نبی کی محبت، حضور نبی اکرم ﷺ کے اہل بیت اطہار علیہم السلام کی محبت اور قرآن کی تلاوت۔

عملی مشقیں

لہذا ضروری ہے کہ والدین جس طرح دیگر امور بچوں کو سیکھانے کے متمنی اور خواہش مند ہوتے ہیں اس سے کئی زیادہ اہتمام اور شوق کے ساتھ بچوں میں محبتِ رسول ﷺ اور اطاعتِ رسول ﷺ پیدا کرنے کا ماحول اور مؤثر طریقے بچوں کو فراہم کریں۔ مثلاً

1۔ بچوں کو حضور نبی اکرم ﷺ کے احترام، ادب اور عزت و توقیر کی ترغیب دیں۔

2۔ بچوں کو سیرتِ رسول ﷺ کے واقعات سنائے جائیں۔

3۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی بچوں کے ساتھ محبت و شفقت کے واقعات سنائے جائیں۔

4۔ والدین اپنے بچوں کے دل میں حُبِ نبی ﷺ پیدا کرنے کے لیے رات کو سونے سے پہلے یا فارغ اوقات میں حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی سیرت مطہرہ پر لکھی گئی مختلف کتب سے حضور نبی اکرم ﷺ کے فضائل و کمالات، حسن و جمال اور اخلاق حسنہ پر مبنی منتخب واقعات و عبارات پڑھ کر سنائیں۔

5۔ والدین بچوں کو درود و سلام پڑھنا سکھائیں اور اس کے اجر و ثواب کی اہمیت کو اُجاگر کریں۔

6۔ بچوں کو بتائیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ کا نام مبارک لیا جائے تو ’صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘ کہا جائے۔

7۔ والدین زیادہ سے زیادہ ایسی محافل کا انعقاد کریں جن میں تذکارِ سیرت و رسالت ہوں۔ بالخصوص ربیع الاول کے مبارک ماہ کی آمد کی بھرپور تیاری اور محرم الحرام کے آداب سے متعلق بچوں کے ساتھ گھر کی سطح پر منتخب موضوعات پر تبادلہ خیال کریں۔

8۔ نعت کی سماعت حضور نبی اکرم ﷺ سے فروغ محبت کا بڑا پُر اثر ذریعہ ہے چنانچہ بچوں کو نعتیں سماعت کرنے اور پڑھنے کی ترغیب دی جائے اور ایسی محافل نعت کا انعقاد کیا جائے جن میں بچوں کو بھی نعت پڑھنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔

9۔ مائیں گھروں میں بچوں کو حضور نبی اکرم ﷺ کے پسندیدہ کھانوں کی پیار بھرے انداز میں ترغیب دیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ایسے کھانے خود کھا کر ان کی حوصلہ افزائی کریں۔

والدین جب بچوں میں اوائل عمری سے ہی حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ یک گونہ ذہنی و جذباتی وابستگی پیدا کرنے کے لیے انہیں اس طرح کا ماحول دیں گے تو باشعور ہونے تک ان کے قلوب و اذہان میں حضور ﷺ کی محبت، تعظیم و توقیر اور اطاعت و اتباع کے پہلو راسخ ہو چکے ہوں گے۔

حاصلِ کلام

مذکورہ بالا بحث سیرتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں تربیتِ اولاد کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے۔ بچوں کی چھوٹی عمر کو عموماًنظر انداز کر دیاجاتا ہے اور اس طرح کے جملے سننے کو ملتے ہیں:

ابھی وہ چھوٹے ہیں جب بڑے ہوں گے تو خود سیکھ جائیں گے۔

ابھی ناسمجھ ہیں بڑے ہو کر نماز پڑھ لیں گے۔

ابھی ساری عمر پڑی ہے بچیوں کے سر پر دوپٹہ اوڑھنے اور لباس کی درستگی کے لیے۔

ابھی بچے چھوٹے ہیں بڑے ہو کر ادب و احترام سیکھ لیں گے وغیرہ وغیرہ۔

والدین کا یہ طرزِ عمل ان کے بچوں کی تربیت کے حوالے سے انتہائی خطرناک نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ جو والدین بچپن میں تربیتی پہلوؤں کو نظر انداز کر دیتے ہیں ان کے پاس ساری زندگی سوائے افسوس اور پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ لہذا ضروری ہے کہ والدین اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور سیرتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں بچپن کے معصوم دور سے ان کے اخلاق و عادات سنوارنے کی کوشش کی کریں تاکہ ان کی بقیہ زندگی اسی تربیت کے سائے میں بسر ہو سکے۔

نوٹ: زیرِ نظر آرٹیکل کو لکھنے کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مد ظلہ العالی کی بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے تین کتب:

  1. بچوں کی پرورش اور والدین کا کردار (رحمِ مادر سے ایک سال کی عمر تک)
  2. بچوں کی تعلیم و تربیت اور والدین کا کردار (دو سے دس سال کی عمر تک)
  3. بچوں کی تعمیرِ شخصیت (گیارہ سے سولہ سال کی عمر تک)

پر مشتمل سیریز سے استفادہ کیا گیا ہے۔ قارئین تفصیلی رہنمائی ان کتب سے حاصل کر سکتے ہیں۔