مرتبہ: نازیہ عبدالستار
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَآ اَفَآءَ اللهُ عَلٰی رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰی فَلِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَةًم بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْکُمْط وَمَآ اٰتٰـکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاج وَاتَّقُوا اللهَط اِنَّ اللهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ.
(الحشر، 59: 7)
’’ جو (اَموالِ فَے) اللہ نے (قُرَیظہ، نَضِیر، فِدَک، خَیبر، عُرَینہ سمیت دیگر بغیر جنگ کے مفتوحہ) بستیوں والوں سے (نکال کر) اپنے رسول (ﷺ) پر لوٹائے ہیں وہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے لیے ہیں اور (رسول ﷺ کے) قرابت داروں (یعنی بنو ہاشم اور بنو عبد المطّلب) کے لیے اور (معاشرے کے عام) یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لیے ہیں (یہ نظامِ تقسیم اس لیے ہے) تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مالداروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے) اور جو کچھ رسول (ﷺ) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو (یعنی رسول ﷺ کی تقسیم و عطا پر کبھی زبانِ طعن نہ کھولو)، بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘
مال فئے اور مال انفال یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے لیے ہے۔ یہ مال حضور علیہ السلام نے تقسیم فرمایا ہے۔ یہ قرابت داروں کے لیے اور معاشرے میں جو بے سہارا لوگ ہیں ان کے لیے ہے۔ ہر قسم کے حاجت مندوں کے لیے ہے جو اپنی کاوشوں کے باوجود اپنی ضرورتوں کی کفالت نہیں کرسکتے اور اجنبی و مسافروں کے لیے ہے۔
یہ مال و دولت وسائل و ذرائع اس لیے تقسیم کرنے کا حکم دیا جارہا ہے تاکہ یہ دولت صرف امیروں کے ہاتھوں میں ہی نہ گھومتی رہے بلکہ معاشرے کے تمام مستحق طبقات تک پہنچے اگر دولت سارے معاشرے تک نہیں پہنچتی۔ تمام وسائل سے سارا معاشرہ فیض یاب نہیں ہوتا۔ صرف امیر لوگوں کے ہاتھوں میں دولت گھومتی ہے تو دولت کے اس ارتکاز کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے کہ دولت چند لوگوں کے ہاتھوں میں گھومتی رہے وہ معاشرہ میں ٹرینڈ سیٹ کریں لیکن معاشرے کا 80% فیصد حصہ اس سے محروم رہے تو اس کا حکم یہ ہے:
وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللهِلا فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ.
(التوبة، 9: 34)
’’ اور جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں دردناک عذاب کی خبر سنا دیں۔‘‘
جو لوگ مال و دولت کو سونے چاندی کو کماتے ہیں، جمع کرتے ہیں خزانہ بناتے ہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ہیں۔ تمام ضرورت مند جو محروم ہیں ان پر خرچ نہیں کرتے بلکہ مال کا خزانہ جمع کرتے ہیں اس سے حرام کاری کرتے ہیں۔ معاشرے کے توازن کا قتل کرتے ہیں۔ جبکہ غریب طبقہ وہ بنیادی ضروریات سے محروم ہوکر اپنی اخلاقیات کا قتل کررہے ہیں۔ ایک طرف مال و دولت کی کثرت کے باعث ہلاکت ہے، دوسری طرف مال و دولت کی قلت کے باعث ہلاکت ہے ۔ یہ معاشرتی توازن کے خلاف ہے۔ مال و دولت اس لیے ہے کہ پورے معاشرے کا توازن ہو۔ طبقات ایک دوسرے کے ساتھ معاون ہوں۔ دولت معاشرے میں گردش کرے، وسیع تر پیمانے پر گردش کا نظام ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ حق دار کو ان کو ان کا حق ادا کرو۔
حق اور احسا ن دونوں میں فرق ہے۔ احسان کہتے ہیں کسی شخص کو وہ دیں جو اس کا حق نہیں تھا۔ بلکہ بطور فضل دیں جب کسی کا حق آجاتا ہے تو احسان نہیں ہتا بلکہ پہلی صورت میں فضل تھا، دوسری صورت میں فرض ہے۔
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے غریب لوگوں کی معاشی حد تک مال پورا کرنا مجھ پر فرض قرار دیا ہے۔‘‘ یہ کفالت عامہ ہے۔ اگر ہم اس کو پورا نہیں کررہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم دین و ایمان کے تقاضے پورے نہیں کررہے۔ اگر ہم یہ کام کریں اور معاشی تعاون کریں، محتاج غریب کسمپرسی میں پسے ہوئے لوگوں کی کفالت کرنے کا انتظام کریں تو اللہ تعالیٰ معاشرے میں معاشی استحکام و توازن بڑھائے گا اور اللہ کا کرم ہوگا
ہمارے معاشرے میں ریاست میں رائج غلط نظام کی وجہ سے ان کا حق چھن کر امیر کے ہاتھ میں آگیا جن کے ہاتھ میں مال کی کثرت ہے۔ 22 کروڑ کے ملک میں 22 لاکھ بنتے ہیں۔ اگر 10% فیصد ہوں جن کے ہاتھ میں مال کی کثرت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہاں ہے غربت ان کا عدد سوا دو کروڑ بنے گا۔ جن کی وجہ سے ان کو باقی 20 کروڑ نظر نہیں آرہے۔ مڈل کلاس میں کچھ اور لوگ جمع کرلیں تو یہ 20 فیصد پر پہنچ جاتے ہیں تو کچھ اور لوگ شامل کرلیں تو 25 فیصد ہوجائیں گے جن کے پاس آسودگی کی زندگی ہے جبکہ 70 سے 75 فیصد لوگ محرومی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔
وہ لوگ جن کی بنیادی ضروریات پوری نہیں ہوتیں باعزت زندگی گزارنا بچوں کو پڑھانا، گھر کا خرچہ، کرایہ، کپڑے، بچوں کی فیس جو بنیادی چیز یں ہیں وہ پوری نہیں ہوتیں۔ ایسا طبقہ بنیادی زندگی سے محروم ہے۔ دس فیصد وہ طبقہ ہے جو اپنے دولت حرام ذرائع سے کما کر اپنی وراثت سمجھنے والا ہے۔ اقتدار اسی 10 فیصد طبقہ کے ہاتھوں میں رہتا ہے۔ وہ جب سوچ بچار کرتے ہیں اور اسمبلیوں میں، دفاتر میں بیٹھ کر پالیسی بناتیں ہیں۔ قوانین بنتے ہیں جب وہ پالیسیاں بناتے ہیں ان کے ذہن میں 80 فیصد لوگوں کا وجود نہیں ہوتا وہ صرف اپنے اور اپنی نسلوں کے مفاد کا سوچتے ہیں۔ سارے ملک کو اپنی جائیداد سمجھتے ہیں، طاقت و دولت کا گٹھ جوڑ ہے جو دولت و طاقت کے دائرے سے خارج ہیں وہ ان کے ہاں انسان ہی نہیں ہے۔
جب ریاست کفالت نہ کررہی ہو تو ذمہ داری براہ راست صاحب استطاعت لوگوں پر آجاتی ہے۔ ریاست کی فکر میں اس ملک کا غریب طبقہ نہیں ہے۔ غریب، مسکین، یتیم نہیں ہیں پھر جن لوگوں کو اللہ رب العزت نے صاحب ثروت بنایا ہے تاجر ہیں صنعت کار ہیں۔ ان پر براہ راست ذمہ داری آجاتی ہے۔ اپنے قرابت داروں کو ان کا حق دیں۔ قرآن مجید میں ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
وَالَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ. لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ.
(المعارج، 70: 24-25)
’’ اور وہ (ایثار کیش) لوگ جن کے اَموال میں حصہ مقرر ہے۔ مانگنے والے اور نہ مانگنے والے محتاج کا۔‘‘
ان کے مال و دولت میں مانگنے والوں اور ضرورت مندوں کا حق ہے جو محروم ہیں۔ یہ صدقات واجب کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ آپ کے مال میں ضرورت مندوں کا حق ہے جو غلط نظام کی وجہ سے امیروں کے پاس آگیا ہے۔ معاشی عدم مساوات کی وجہ سے دوسروں کے پاس آگیا کہ دولت صرف چند ہاتھوں میں گھومتی نہ رہ جائے۔ یہ دولت صرف ان کی نہیں ہے بلکہ سارے معاشرے کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ اُولُوا الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی والْمَسٰکِیْنُ فَارْزُقُوْھُمْ مِّنْهُ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا.
(الاعراف، 7: 8)
’’اور اگر تقسیمِ (وراثت) کے موقع پر (غیر وارث) رشتہ دار اور یتیم اور محتاج موجود ہوں تو اس میں سے کچھ انہیں بھی دے دو اور ان سے نیک بات کہو۔‘‘
یتیم مسکین جن کا وراثت میں حق نہیں ان میں سے ان کو حصہ دو۔ زکوٰۃ سے ہٹ کر بھی تمہارے مال میں محروم طبقات کا حق ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ زکوٰۃ دے دی تو پورے مال و دولت کا حق ادا کردیا۔ زکوٰۃ کے علاوہ بھی غریبوں اور محروموں کے حق ہیں جو حق نہیں دیتا وہ خزانہ کررہا ہے ذخیرہ اندوزی کررہا ہے۔ اس کو اللہ کی طرف سے درد ناک عذاب کی بشارت دے دیں۔ اس کی وضاحت آقا علیہ السلام نے فرمائی۔
مسلمان مال داروں پر ان کے سرمایہ اور مال و دولت میں سے خرچ کرنا ہے ۔ (طبرانی)
غریبوں، محتاجوں اور ضرورت مندوں پر اس حد تک فرض کیا ہے جس سے معاشرے کے ضرورت مندوں کی ضرورت پوری ہوجائے۔ ہر شخص جو مال دار ہے وہ ایک یونٹ کی طرح ہے۔ جو معاشرے کے اہل ثروت ہیں ان پر فرض کیا ہے کہ وہ اس حد تک خرچ کریں کہ غریبوں کی حاجات و ضروریات پوری ہوجائیں۔ آپﷺ مختلف مواقع پر چھوٹی چھوٹی تفصیلات فراہم کرکے ذمہ داریوں کا تعین فرماتے تاکہ ایک دوسرے کے ساتھ معاشی تعاون ہو اور پورے معاشرے کو استحکام ملے۔
ایسا بھی ہوا آقا علیہ السلام نے فرمایا جس شخص کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہے وہ کھانے میں تیسرے کو ملائے، جن کے پاس تین لوگوں کا کھانا ہے وہ پانچویں اور چھٹے کو ملائے۔ (بخاری)
آقا علیہ السلام نے اتنی وضاحت فرمادی ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کا تعین خود کرسکتے ہیں کہ آپ کے اقربا میں کتنے ضرورت مند ہیں۔ پڑوسیوں میں، رشتہ داروں میں کتنے ہیں۔ اس لیے قرآن میں پوچھا گیا ہے:
وَیَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللهُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَ.
(البقرة، 2: 219)
’’اور آپ سے یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں؟ فرما دیں جو ضرورت سے زائد ہے (خرچ کر دو)، اسی طرح الله تمہارے لیے (اپنے) احکام کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو۔‘‘
وہ آپ سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں فرمایا جو تمہاری ضرورت سے زائد ہے وہاں تک بھی خرچ کرنے کی نوبت جاسکتی ہے۔ اگر کوئی شخص محرومی میں مررہا ہے اس کی جان یا ایمان جارہا ہے۔ آج کے معاشرے میں لوگ عزت کی روٹی کھانے کے لیے اپنی غیرت بیچ رہے ہیں۔ جس معاشرے میں عزتیں روٹی کے لیے بکنے لگیں اس معاشرے میں ہلاکت کے سوا کیا انجام ہوسکتا ہے۔ فلاح کہاں سے ہوگی۔ ان کی دعائیں کہاں سے قبول ہوں گی۔ جو اوپر بیٹھے ہیں وہ کہہ رہے ہیں غربت کہاں ہے؟ اللہ نے انھیں اندھا کردیا ہے حرص و ہوس نے مال و دولت کی لوٹ مار کرنے والے حرام خوری نے انھیں اندھا کردیا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے دین کا تصور رسومات بن گیا ہے۔ مخصوص مراسم کی ادائیگی سے ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری ذمہ داری مکمل ہوگئی۔ دیکھنا ہے ہماری پوری زندگی میں دین کہاں ہے؟ رشتہ داروں کے ساتھ، بول چال میں، چلنے پھرنے، گفتگو ہر جگہ دین کہا ہے؟
ہمارا دین مواقع پر ہے۔ ہم نے مخصوص اعمال انجام دینے کا نام نیکی رکھ لیا ہے۔ ارشاد فرمایا:
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ.
(البقرة، 2: 177)
’’ نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو۔‘‘
ہمارا نیکی کا ظاہر پسندانہ تصور ہے۔ قرآن نے اس تصور کو رد کیا اور فرمایا ان کے ذہن میں جو نیکی کا تصور تھا اس کو توڑا۔ یعنی رمضان میں اعتکاف کرلیا میلاد النبیﷺ پر میلاد کی محفل کرلی۔ نیکی اور دین یہ نہیں ہے۔ یہ چیزیں اپنی اپنی جگہ کریں اور پوری زندگی سے دین خارج کردیں تو کوئی نفع نہیں ملے گا۔ نیکی یہ ہے پہلے اپنے ایمان کو مکمل کرو پہلے اپنا مال قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکین، مسافروں، مانگنے والوں جو غلامی کی زندگی میں ہیں اُن پر خرچ کرو غریبوں کو محرومی سے نکالو۔ ضرورت مندوں کی کفالت کرو جس کے پاس دو لقمے ہیں اور وہ ایک لقمے سے زندہ رہ سکتا ہے۔ دوسرا ضرورت مند کو دے دے۔
اس وقت ہمارا آدھا معاشرہ غلامی میں ہے۔ پہلے جیسی غلامی نہیں رہی مگر شکل تبدیل ہوگئی ہے۔ یہ بھی غلامی ہے جس کی سوچ و ضمیر آزاد نہیں ہے۔ اس کا دین بک گیا ہے جھوٹ بولتا ہے، مرد حُر نہیں ہے۔ یاد رکھیں محتاجی و غربت سے بڑی کوئی غلامی نہیں ہے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا: نماز قائم کریں۔ زکوٰۃ ادا کریں جب وعدہ کریں تو وعدہ کو پورا کریں۔ تنگی و مشکل اور فراخی میں صبر کریں شکوہ نہ کریں۔ پانچ شرائط ایمان کی ہیں اور پانچ عملی شرائط ہیں۔ یہ کل دس شرائط ہیں جو لوگ ان شرائط کو پورا کرتے ہیں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ.
(البقرة، 2: 177)
’’ اور الله کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے۔‘‘
یہاں مال علی حبهٖ کا مرجع مال بھی ہوسکتا ہے۔ اللہ رب العزت نے مال کی محبت ہماری طبیعتوں میں ودیعت کی ہے۔ اللہ رب العزت نے سورۃ آل عمران میں فرمایا:
زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ.
(آل عمران، 3: 14)
’’ لوگوں کے لیے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے۔‘‘
ارشاد فرمایا:
وَّ تُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا.
(الفجر، 89: 25)
’’ اور تم مال و دولت سے حد درجہ محبت رکھتے ہو۔‘‘
حق اور احسا ن دونوں میں فرق ہے۔ احسان کہتے ہیں کسی شخص کو وہ دیں جو اس کا حق نہیں تھا۔ بطور فضل دیں جب کسی کا حق آجاتا ہے تو احسان نہیں ہتا بلکہ پہلی صورت میں فضل تھا، دوسری صورت میں فرض ہے
اس کا دوسرا معنی یہ ہے جو تمہاری محبت مال سے ہے۔ اس کی خاطر کی جانے والی تکلیف و مشقت تکلیف نہیں لگتی۔ جیسے ماں کو اولاد سے محبت ہوتی ہے، ساری رات بھی بچہ جگائے جاگتی ہے۔ اسے اذیت نہیں لگتی کیونکہ محبت سارے غم بھلادیتی ہے۔ جس شخص کو عبادت سے محبت ہے، جلوہ حق سے محبت ہے وہ اس کے لیے ساری رات جاگتا ہے۔ سارا دن اس کی رضا کے لیے بڑی محنتیں اور مشقتیں کرتا ہے۔ اسے تکلیف محسوس نہیں ہوتی ہے بلکہ راحت محسوس ہوتی ہے۔ اس میں ایک لگن ہے کہ میں اللہ کو راضی کررہا ہوں۔ آقا علیہ السلام کی مسکراہٹ کو پارہا ہوں یوں سوچتا ہے تو اس کے غم دکھ بھولتے چلے جاتے ہیں۔ یہ تسلسل ہر اس شے کے ساتھ ہوتا ہے جس چیز سے بھی محبت ہوتی ہے۔ اللہ کا حکم ہے کہ اخلاص نیت سے کیا جائے تو وہ عمل کو قبول بنادیتا ہے۔
اے لوگو! وہ محبت جو تمہیں اپنے مال سے ہے اس کو دوسروں کو دینے کی چھری سے ذبح کرو۔ جو محنت کرکے مال کمایا ہے کہ مال ضرورت مند کو دے دیں۔ ایمان کا یہ درجہ اللہ دیکھنا چاہتا ہے۔ جتنا خرچ کرتے ہو مال کی محبت ذبح ہوتی چلی جاتی ہے، اتنی عادت ڈالو کہ مال کی محبت ذبح ہوجائے۔ مال کو کماؤ ضرورت کے لیے لیکن اس کی محبت تمہارے دل و جان میں نہ رہے۔ مال کو خرچ کرنے کا حکم اس لیے دیا تاکہ عظمت کردار حاصل ہو۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا، حضرت حسن و حسین علیہما السلام نے روزہ رکھا ہوا تھا۔ کبھی مسکین آگیا کبھی قیدی آگیا انھوں نے اپنا کھانا اٹھا کر انھیں دے دیا۔ انھیں کھانے کی طلب تھی لیکن انھوں نے کھانا ضرورت مند کو دے دیا اسی طرح جب تک اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو نیکی کی گرد کو بھی نہیں پاسکتے۔ مال کا خرچ کرنانیکی کا لازمی حصہ ہے۔ مال کو ضرورت مندوں کی کفالت پر خرچ کرنا تاکہ معاشرے میں توازن پیدا ہو۔ اسی طرح مال کو خرچ کرنے کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کا حصہ قرار دیا۔ جو شخص مال خرچ کرکے تقویٰ حاصل کرتا ہے۔ مال خرچ کرنے سے اللہ کی محبت کو ہر چیز کی محبت پر فوقیت دیتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ میری زندگی میں اللہ کی محبت کتنی ہے اور مال خرچ کرنے سے مال کی محبت کو دینے کی چھری سے ذبح کردیتا ہے۔ ایسا کرنے سے انسان متقی ہوجاتا ہے۔ اس کے ساتھ اس نے اللہ کا پیغام توحید اور حضورﷺ کے نبوت و رسالت کی تصدیق کردی۔ مال دینے سے اللہ انسان کو تقویٰ عطا کرتا ہے۔ وہ دین کی تصدیق کرنے والا بناتا ہے جو شخص ایسا کرتا ہے اللہ پاک اس کے لیے آخرت کی زندگی کا راستہ آسان کردیتے ہیں۔
اس کے برعکس فرمایا جس نے بخل کیا مال کو روکے رکھا، مال کی محبت اللہ کی محبت میں قربان نہیں کی۔ جیسا کہ پورا معاشرہ ہے جس میں کسی کو کسی کی پرواہ نہیں ہے۔ پورا معاشرہ لٹ رہا ہے، کوئی مررہا ہے، مفلس ہے پریشان حال ہے۔ جب معاشرہ اتنا بے پرواہ ہوجائے تو اللہ اس کی پرواہ کیوں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ حدیث قدسی میں فرماتا ہے میں بھوکا تھا تو بندہ کہے گا مولا! تو خالق و مالک ہے، تو کیسے بھوکا تھا۔ اللہ فرمائے گا تیرے محلے میں فلاں شخص بھوکا تھا تو نے اس کو کھانا نہیں کھلایا۔ پھر فرمائے گا میں پیاسا تھا بندہ کہے گا وہ کیسے؟ اللہ فرمائے گا فلاں شخص پیاسا تھا تو نے اسے پانی نہیں پلایا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں بیمار تھا بندہ کہے گا وہ مولا تو کیسے بیمار تھا۔ اللہ پاک فرمائے گا تو نے فلاں بندے کی عیادت نہیں کی۔
رب ذوالجلال اگر بندوں کے احساسات کا اتنا خیال کررہے ہیں اور جس معاشرے میں ضرورت مندوں کی کفالت نہ ہورہی ہو۔ اہل ثروت توجہ نہ دے رہے ہوں تو پورا معاشرہ کیا جواب دے گا۔ جو حقوق العباد سے بے نیاز ہوجائے تو وہ اللہ کے دین کو جھٹلاتا ہے۔ اس کے لیے تنگی کا راستہ آخرت میں ہوگا ۔ اگر کوئی کسی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو مشرف و بلندی عطا کرتا ہے۔ من یقرض اللہ قرضا حسناً کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے دے۔ جب غریب کی مدد کرتے ہیں تو اللہ رب العزت کہتے ہیں کہ مجھے دے رہے ہو۔ حالانکہ وہ خود دینے والا ہے۔ فرمایا جو دوسروں پر خرچ کرتے ہیں وہ اللہ کو قرض دے رہے ہیں۔ سورۃ الماعون میں ارشاد فرمایا:
فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ. وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ.
(الماعون، 107: 2-3)
’’ تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (یعنی یتیموں کی حاجات کو رد کرتا اور انہیں حق سے محروم رکھتا ہے)۔ اور محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا (یعنی معاشرے سے غریبوں اور محتاجوں کے معاشی اِستحصال کے خاتمے کی کوشش نہیں کرتا)۔‘‘
صحابہ کرامؓ فرماتے ہیں جب ہم نے حکم سنا تو پھر ہنڈیا اور پلیٹوں کو بھی نہیں روکتے تھے۔ پھر فرمایا تم نیکی کو پا ہی نہیں سکتے جب تک وہ چیز خرچ نہ کردو۔ جس چیز سے تمھیں محبت ہے۔ اس میں خرچ سے مراد علم بھی خرچ کرو۔ جسمانی توانائی بھی خرچ کرو۔ اپنی وعظ و نصیحت بھی خرچ کرو۔ فکر و دانائی بھی خرچ کرو۔ اپنی عزت و شہرت بھی خرچ کرو تاکہ لوگ مضبوط ہوں۔ دین کی خدمت کرنے والے اپنے علم سے دوسروں کو نفع پہنچائیں۔ توازن پیدا کریں تو نیکی پاجائیں گے۔
حضور علیہ السلام نے فرمایا ایک اشعری قبیلہ تھا اس کے بارے میں فرمایا وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔ صحابہؓ نے پوچھا اس کی کیا وجہ ہے کہ آپﷺ نے اس قبیلے کو اتنا عظیم بنادیا ہے۔ فرمایا: جب ان کے پاس وسائل کم ہوجائیں تو سارے قبیلے والے سب کچھ ایک کپڑے میں جمع کردیتے ہیں۔ برابری کے ساتھ ہر گھر میں تقسیم کردیتے ہیں۔ یہ خوبی حضور علیہ السلام نے سیدنا امام مہدی علیہ السلام کی بیان کی۔
جب ریاست کفالت نہ کررہی ہو تو ذمہ داری براہ راست صاحب استطاعت لوگوں پر آجاتی ہے۔ ریاست کی فکر میں اس ملک کا غریب طبقہ نہیں ہے۔ غریب، مسکین، یتیم نہیں ہیں پھر جن لوگوں کو اللہ رب العزت نے صاحب ثروت بنایا ہے تاجر ہیں صنعت کار ہیں۔ ان پر براہ راست ذمہ داری آجاتی ہے کہ وہ اپنے قرابت داروں کو ان کا حق دیں
فرمایا میری امت میں محمد مہدی علیہ السلام آئے گا وہ دنیا میں عدل و انصاف قائم کرے گا۔ وہ مال و دولت کو برابری کےساتھ تقسیم کردے گا۔ کوئی محتاج اور مانگنے والا اس کے زمانہ حکومت میں نہیں رہے گا۔ کتنا بڑا مرتبہ ہے مال خرچ کرنے کا۔ آقا علیہ السلام ایک سفر پر جارہے تھے فرمایا: جس کے پاس ضرورت سے زائد سواری ہے وہ لوٹادے اسے جس کے پاس سواری نہیں ہے جس کے پاس ضرورت سے زائد سامان ہے وہ لوٹادے اسے جس کے پاس ضرورت کا سامان نہیں ہے۔ صحابہ کرامl فرماتے ہیں۔ حضور علیہ السلام ایک ایک کرکے نام گنواتے رہے یہاں تک کہ ہم نے سمجھا کہ ضرورت سے زائد کچھ بھی رکھنے کا حق نہیں ہے۔
دینا تب ہوتا ہے جب میری چیز ہو میں آپ کو دے دوں۔ جب کہا جائے لوٹا دے اس کا مطلب یہ ہے کہ چیز اسی کی تھی مگر زمانے کی ناانصافیاں نے وہ چیز تم تک پہنچادی۔ میں سمجھتا ہوں اس نظام سے سو سال تک قوم کی تقدیر نہیں بدلے گی۔ اس نظام کو چلانے والے، سارے وہ لوگ ہیں جن کی کرپشن اور بددیانتی کو یہ نظام تحفظ فراہم کرتا ہے۔
اب کرپشن گناہ نہیں رہی۔ لوگ حرام خوری کو گناہ نہیں سمجھتے۔ ان کے ہاں ان میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ اس نظام میں یہ شعور ہی نہیں ہے کہ غریب یہ سوچے کہ ہم پس رہے ہیں اور ہمارے حقوق کدھر گئے۔ نظام نے چھین کر طاقتوروں کو دے دیا۔ اسے لے کر واپس لوٹایا جائے۔ قحط کے زمانے میں سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے دعا کی۔ اللہ رب العزت نے بارش بھیجی خوشحالی آگئی اور قحط رفع ہوگیا۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ کی عزت کی قسم! اگر اللہ پاک قحط کو دور نہ فرماتے تو میں نے فیصلہ کرلیا تھا میں مسلمانوں کے گھروں کی مردم شماری کرتا اور گنتا ایک ایک گھر میں کتنا کھانا ہے۔ حکماً حکومت کی طرف سے ان گھر میں کھانا بھجواتا جن کے گھروں میں نہیں ہے تاکہ سب کھانا تقسیم کرکے کھائیں تاکہ کوئی بھوکا نہ مرے۔ (ادب المفرد)
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے غریب لوگوں کی معاشی حد تک مال پورا کرنا مجھ پر فرض قرار دیا ہے۔‘‘ یہ کفالت عامہ ہے۔ اگر ہم اس کو پورا نہیں کررہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم دین و ایمان کے تقاضے پورے نہیں کررہے۔ اگر ہم یہ کام کریں اور معاشی تعاون کریں، محتاج غریب کسمپرسی میں پسے ہوئے لوگوں کی کفالت کرنے کا انتظام کریں تو اللہ تعالیٰ معاشرے میں معاشی استحکام و توازن بڑھائے گا اور اللہ کا کرم ہوگا۔