نوجوانوں کا عالمی دن اور ملک کے بڑھتے ہوئے چیلنجز

رانا وحید شہزاد

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور

پاکستان کی آبادی میں 70 فیصد نوجوان ہیں۔ جو کل آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا طبقہ ہے۔ ملک کی ترقی اور قوم کا مستقبل انہیں پر منحصر ہے۔ الحمدللہ ذہانت اور قابلیت کے اعتبار سے پاکستان کا نوجوان کئی قوموں سے آگے ہے۔اگر ان کی صلاحیتوں کو بروقت بروئے کار لایاجائے اور ان کے لئے ان کے متعلقہ شعبہ جات میں مواقع فراہم ہوں تو یہ نوجوان اپنے ان شعبہ جات میں انقلاب بپا کر سکتے ہیں۔ ترقی پسند قومیں اپنے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دے کر ان کی مہارتوں کو نکھارتی ہیں۔ ان کی شخصیت سازی کرتی ہیں ان کی اخلاقیات کو سنوار کر انہیں مہذب بناتی ہیں۔ ان کی ذہنی دلچسپی اور صلاحیت کے مطابق ان کے مستقبل کے لئے راہنمائی کرتی ہیں۔ کیونکہ قوموں کا مستقبل انہی نوجوانوں کی بدولت روشن ہوتا ہے۔

لیکن انتہائی افسوس کہ پاکستان کا مستقبل ’’پاکستان کے نوجوان‘‘ آج مایوسی کا شکار ہیں۔ دورِ رواں میں پاکستان کے نوجوانوں کو کئی قسم کے چیلنجز کا سامناہے جن میں سب سے پہلا چیلنج ناخواندگی ہے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد فرسودہ نظام تعلیم سے عاجز آکر اور موجودہ مہنگائی کے دور میں وسائل کی کمی کی وجہ سے تعلیم سے دور ہے۔لاکھوں نوجوان ایسے ہیں جو میٹرک پاس بھی نہیں ہیں۔ اور ان نوجوانوں کا بڑا طبقہ عام مزدوری کرکے اپنا گھر چلانے میں مصروف ہے۔

دوسرا بڑا چیلنج مذہبی انتہا پسندی ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی مفادات کے لئے پاکستان کے اندر رات و رات مذہبی جماعتیں وجود میں آتی ہیں جنکا ایجنڈا انتشار ،بدامنی اور محض ہنگامہ آرائی ہوتا ہے۔ ایسی جماعتوں کا ٹارگٹ وہ ان پڑھ نوجوان ہوتے ہیں جو بڑی آسانی سے کسی جذباتی نعرے کے جھانسے میں آکر اس جماعت کی منفی اور ملک دشمن سرگرمیوں کا حصہ بن جاتے ہیں اور بالآخر انتہا پسندانہ ماحول میں بڑھتے بڑھتے انتہا پسندی کی سوچ حامل ہوجاتے ہیں۔ اور یوں انکے جذبات کا استعمال کرکے انہیں قتل و غارت گری اور دنگے فسادات میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔

تیسرا اور سب سے بڑا چیلنج پاکستان کے اندر نام نہاد جمہوریت کے نام پر ہونے والی مکرو سیاست ہے۔ جسکا شکار سب سے زیادہ ہمارا نوجوان۔ منہگائی اور بے روزگاری کے عذاب سے دو چار نوجوان حالات کی تبدیلی کے لئے کبھی ایک جماعت تو کبھی دوسری جماعت کے کھوکھلے نعروں کے پیچھے بھاگتے نظر آتے ہیں بدقسمتی سے جن کا حاصل کچھ بھی نہیں ہے۔

حالیہ چند سال اسکی بہت بڑی مثال ہیں جن میں بہت بڑی تعداد کبھی تبدیلی کےنام پر توکبھی آزادی کے نام پر لاکھوں نوجوانوں کو جلسوں اور مارچز میں جھونک دیاگیا اور آخر پر اس ملک کے نوجوانوں کے ہاتھ سوائے ذلت و رسوائی کے اور کچھ نہیں۔ جس کی بنیادی وجہ نظریہ کی بنیادوں کا کھوکھلا ہونا ہے۔ بلکہ ہزاروں پڑھے لکھے اور اچھے گھرانوں کے نوجوان اسوقت جیلوں میں دہشت گردی ایکٹ کے تحت سزائیں بھگت رہے ہیں اور انکا پرسان حال کوئی نہیں ہے۔

پاکستان کا نوجوان ان حالات میں بری طرح متاثر ہے۔ آج ہمارے نوجوان اس قدر مایوس ہوچکے ہیں کہ انہیں یہ وطن اپنا وطن نہیں لگتا اور یہاں رہتے ہوئے اسے اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے ایسے میں وہ پستول اٹھا کر راہزن بننے اور لوگوں کو لوٹنے پہ مجبور ہیں یا غیرقانونی طریقے سے کشتی پر سوار ہوکر دوسرے ملک بھاگنے پر مجبور ہیں اور وہ کشتی یونان کے سمندر میں ڈوب جاتی ہے اور سینکڑوں نوجوانوں کی شکل میں اس ملک کا مستقبل پانی میں غرق ہوجاتاہے۔ اور جاتے جاتے اس ملک میں مروجہ فرسودہ ،فاسقانہ ، ظالمانہ نظام پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان چھوڑ جاتا ہے۔ اقبال نے زندہ قوموں کاتعارف کرواتے ہوئے نوجوانوں کا ذکر کچھ یوں کیا۔

اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد

جس نوجوان کا ذکر اقبال نے کیا اسکی شخصیت کی بنیاد خودی پر رکھی۔ اقبال نے قوموں کی ترقی کو تلوار کی بجائے کردار سے جوڑا۔ اور اس کردار کی بنیاد اور اساس خودی کو قرار دیا۔

دور حاضر میں بہت ضروری تھا کہ اقبال کے اس تصورخودی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوئی ایسی لیڈرشپ میسر آئے کہ جو نہ صرف اقبال کے فلسفۂ خودی کی امین ہو بلکہ خود اس کی عملی تصویر بھی ہو اور اس کی خودداری کی مثال اپنے پرائے سبھی دیتے ہوں۔ ایسا لیڈر جس نے لاکھوں نوجوانوں کی تربیت کرکے انہیں خودی ، خوداری اور اعلی کردار کا عملی نمونہ بنا ڈالاہو۔

پاکستان میں یوں تو نظر دوڑائیں تو ہر کوئی نوجوانوں کا رہبرو رہنما ہونے کا دعویدار ہے لیکن ایسا لیڈر جسکی ساری عمر نوجوانوں کی شخصیت سازی اور کردار سازی کرتے گزری ہو تو ہمیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جیسے نڈر، بےباک اور خودار لیڈر کے سوا کوئی لیڈرشپ نظر نہیں آتی۔

ڈاکٹر طاہر القادری نے تحریک منہاج القرآن کے سب سے پہلے فورم منہاج یوتھ لیگ کی بنیاد 1988 میں رکھی، اور اس فورم پر جمع ہونے والے نوجوانوں کی دینی ، سیاسی , سماجی اور روحانی تربیت کرکے انہیں ایک عظیم کردار دیا جو انہیں معاشرے کے دیگر نوجوانوں سے مختلف کرتا ہے۔

منہاج یوتھ لیگ کے نوجوان پچھلے 35 سال سے اس ملک میں حقیقی تبدیلی و انقلاب کے لئے ڈاکٹر طاہر القادری کے شانہ بشانہ عملی طور پر اس عظیم جدوجہد کے لئے دن رات محنت کررہے ہیں۔

عوام کے شعور کی بیداری کی بات ہو تو یہ منہاج یوتھ لیگ کے نوجوانوں کی شبانہ روز جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ 23 دسمبر 2012 کو مینار پاکستان میں ہونے والا تاریخی جلسہ جسکا ریکارڈ آج تک کوئی جماعت نہیں توڑ سکی اس میں پاکستان کے لاکھوں نوجوانوں نے شرکت کرکے اس کی کامیابی میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔

2013 میں ہونے والے لانگ مارچ میں منہاج یوتھ لیگ کے نوجوانوں نے تحریک کا ہر اول دستہ ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے نہ صرف راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کیا بلکہ کئی راتیں ٹھٹھرتی ہوئی سردی میں اس قوم کے خوشحال مستقبل کے لئے ڈٹ کر کھڑے رہے۔

17جون 2014 میں اس ملک میں حقیقی تبدیلی و انقلاب کے لئے اٹھنے والی آواز کو دبانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر اس وقت کی حکومت کے حکم پر رکاوٹیں ہٹانے کے جعلی آپریشن کے نام پر پنجاب پولیس کی طرف سے حملہ کیا گیا اور ریاستی دہشت گردی کرتے ہوئے 100سے زائد لوگوں کو زخمی کر دیا گیا اور 14 لوگوں کو شہید کر دیاگیا۔

اس ظلم و بربریت کا مقابلہ کرنے والوں میں بہت بڑی تعداد نوجوانوں کی تھی جنہوں نے سینے پر گولیاں کھا کر اس ملک میں رائج فرسودہ نظام کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ان نوجوانوں میں منہاج یوتھ لیگ کے عظیم نوجوانوں عاصم حسین شہید اور خاور رانجھا کے نام سر فہرست ہیں۔

منہاج یوتھ لیگ کا یہ خاصہ ہے کہ اس سے منسلک نوجوان کبھی اپنے مشن سے روگرداں نہیں ہوئے۔ ان کے شب و روز پاکستان کے نوجوانوں کی تعلیم تربیت اور شعور کی بیداری کے لئے گزر رہے ہیں جسکے لئے یونین کونسل لیول تک منہاج یوتھ لیگ کا نیٹ ورک قائم کیاگیا ہے۔

منہاج یوتھ لیگ نے نوجوانوں کو علم و عمل کے ساتھ جوڑنے کے لئے کتاب دوستی کے کلچر کو عام کیا اور اس سلسلہ میں یونین کونسل لیول تک یوتھ سٹڈی سرکلز کا اہتمام کیا۔

سرسبز پاکستان کے عنوان سے شجر کاری مہم کا آغاز کیا اور لاکھوں کی تعداد میں پاکستان میں درخت لگا کر پاکستان کو ماحولیاتی آلودگی سے پاک کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔

حلقات درود قائم کرکے لاکھوں نوجوانوں کے دلوں میں عشق مصطفیٰﷺ کے چراغ روشن کئے اور انہیں اس عظیم مصطفوی مشن کے قافلے کا حصہ بنایا۔

اگر فلاحی سرگرمیوں کو دیکھیں تو 2008ء کے زلزلہ سے حالیہ سیلاب تک منہاج یوتھ کے نوجوان ہمہ وقت منہاج ویلفئیر فاونڈیشن کے شانہ بشانہ دن رات کام کرتے نظر آتے ہیں۔

منہاج یوتھ لیگ نے پاکستان میں پہلی مرتبہ ایک پرائیویٹ آرگنائزیشن کے ہوتے ہوئے اسلام آباد میں نیشنل یوتھ ایوارڈ منعقد کرکے پاکستان کے ٹیلنٹڈ نوجوانوں کو ایوارڈز دے کر حوصلہ افزائی کرنے کی ایک عظیم مثال قائم کی۔

اسوقت منہاج یوتھ لیگ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی راہنمائی میں مراکز العلم کے پراجیکٹ پر کام کر رہی ہے جن کے ذریعے یونین کونسل لیول تک ہفتہ وار کلاسز کا آغاز کیا جارہا ہے جن کا مقصد نوجوانوں کی شعوری اصلاح اور ان میں معاشرتی اقدار کو بحال کرکے ایک مصطفوی معاشرے کا قیام ہے جسکی بنیاد امن، بھائی چارہ اور جذبہ ایثار ہوگا۔

اس ساری بحث و تبصرے کے بعد یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ منہاج یوتھ لیگ کے نوجوان جو بظاہر موجودہ نظام سیاست کا حصہ نہیں۔ انکے قائد اور انکا مقصد حکومت و اقتدار نہیں تو پھر کیوں یہ نوجوان شب وروز پاکستان کے قریہ قریہ اور بستی بستی مارے مارے پھرتے ہیں تو اسکا ایک ہی مقصد ہے کہ اس ملک کا نوجوان حقیقت میں اقبال کا خودار نوجوان بن جائے اور اسکی خودی فقط خودی نہیں بلکہ صورت فولاد ہو تاکہ وہ ہر مشکل وقت میں جوانمردی کے ساتھ کھڑا نظر آئے اور ان نوجوانوں کی بدولت پاکستان کا مستقبل مضبوط اور مستحکم ہو اور اسے ایک آزاد اور خود مختار اسلامی فلاحی ریاست بنایا جاسکے۔

اس بات کو اگر دولائنوں میں ختم کرنا ہو تو یہی کہنا کافی ہوگا:

خون دل دے کر نکھاریں گے رخ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے