حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے یعنی اس کنبہ کی پرورش کے حوالے سے جس جس کی ذمہ داری ہے وہ انجام دینے کا پابند ہے۔ نوزائیدہ بچے کی پرورش اور دیکھ بھال والدین کی ذمہ داری ہے اور جب بچہ بڑا ہو جائے تو اُسے تعلیم مہیا کرنا اور تعلیم مکمل ہونے پر اُس کی اہلیت کے مطابق روزگار فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ کوئی شخص اپنی ذمہ داریوں سے راہ ِ فرار اختیار نہیں کر سکتا۔ روزِ قیامت جس جس شخص کو انصاف کرنے، تحفظ دینے اور مفاد عامہ کے لئے کوئی عہدہ اور عوامی وسائل خرچ کرنے کا اختیار ملا تو روز قیامت اُس کے اِس اختیار اور تفویض کردہ ذمہ داریوں کے بارے میں کڑی باز پرس ہو گی۔
خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓنے فرمایا اگر ساحل فرات پر کوئی بے سہارا اونٹ مر جائے تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ مجھ سے اس کے بارے میں بازپرس کرے گا، ایک دوسری روایت میں بکری کے بچے کا ذکر آیا ہے ۔ اسلامی سلطنت کے سربراہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کے انتقال پر کچھ فقہا آپ کی اہلیہ کے پاس تعزیت کے لئے آئے تو انہوں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کے حالات جاننے کے لئے سوالات کئے تو آپ ؓکی اہلیہ محترمہ حضرت فاطمہ نے بتایا’’ بخدا! وہ تم میں سے کسی سے بھی زیادہ نمازیں پڑھنے والے اور روزے رکھنے والے نہیں تھے لیکن اللہ کی قسم! میں نے کسی بندۂ خدا کو عمر بن عبدالعزیز سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا نہیں دیکھا۔ انہوں نے اپنے جسم اور ذات کو لوگوں کے لئے وقف کر رکھا تھا۔ وہ دن بھر لوگوں کی حاجات کے لئے بیٹھے رہتے اگر دن گزر جاتا اور ابھی لوگوں کے کام باقی رہ جاتے تو وہ رات میں بھی لگے رہتے۔ ایک دن یوں ہوا کہ لوگوں کی حاجات سے دن ہی دن میں فارغ ہو گئے تو شام کو ایک چراغ منگوایا جسے وہ اپنے ذاتی تیل سے جلاتے تھے پھر انہوں نے دو رکعت نماز نفل ادا کی اور اپنا ہاتھ اپنی ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر اس حال میں سیدھے بیٹھے رہے کہ آنسوئوں کی لڑیاں رخساروں پر بہتی رہیں اور ساری رات یونہی بیٹھے روتے رہے۔ حتیٰ کہ سپیدۂ سحر نمودار ہوا تو انہوں نے روزے کی نیت کر لی میں نے پوچھا: امیر المومنین! آپ کس وجہ سے یوں بیٹھے روتے رہے؟ انہوں نے کہا: ہاں میرا حال یہ ہے کہ میں اسود و احمر تمام اُمتِ مسلمہ کا والی بنایا گیا ہوں۔ مجھے ملک کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے مساکین، فقراء ، محتاج قیدیوں اور ان جیسے مظلوم و مقہور لوگوں کی یاد آئی تو مجھے خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے بارے میں مجھ سے سوال کرے گا۔ حضور نبی اکرم ﷺ ان کے معاملے میں مجھ سے ضرور جھگڑا فرمانے والے ہوں گے تو میں اس بات سے ڈرتا تھا کہ اس وقت اللہ کے سامنے کوئی عذر نہ چل سکے گا اور نہ حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے کوئی حجت پیش کر سکوں گا۔ یہ سوچ کر میں ڈر گیا اور رونے لگ گیا۔ ( اس کے بعد ان کی اہلیہ نے کہا اللہ کی قسم!حضرت عمر بن عبدالعزیز بعض اوقات اپنے گھر میں ہوتے جس میں عام آدمی بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ خوشی محسوس کرتا ہے، اس دوران اگر انہیں اللہ کی پیشی یاد آجاتی تو وہ مضطرب ہو جاتے جس طرح وہ چڑیا مضطرب ہوتی ہے جسے پانی میں گرادیا گیا ہو۔ پھر اتنی بلند آواز سے آہ و بکا کرتے کہ میں ان پر رحم کرتے ہوئے اپنے سے اور ان سے لحاف ہٹا دیتی۔ پھر فاطمہ نے کہا اللہ کی قسم! میں اس وقت چاہتی کہ کاش ہمارے درمیان اور اس خلافت و امارت کے درمیان زمین و آسمان کی دوری ہوتی۔‘‘
رعیت کی ذمہ داری کا یہی وہ احساس تھا کہ خلفائے راشدین کے دور میں خلفاء اور عوام کے مابین کوئی دیوار کھڑی نہ کی گئی کہ رعایا کو اپنے کسی حق کی طلب میں کسی رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ جب حضرت عمر ؓ کے دور میں والی کوفہ حضرت سعد بن ابی وقاص نے اپنے رہنے کے لئے ایک محل بنوایا اور اس میں پھاٹک لگوایا تو امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ نے محمد بن مسلم کو بھیج کر اُسے آگ لگوادی۔ حضور نبی اکرمﷺ، خلفائے راشدین اسلامی سلطنت کے حاکمین ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ ملک چلانے کے لئے عام کے خون، پسینے کے ٹیکسوں کی کمائی سے جو وسائل جمع ہوتے ہیں ان پر پہلا حق عوام کا ہے کہ حکمران یہ پیسہ تعلیم و صحت کی سہولتیں دینے، جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے اور زندگی گزارنے کے اسباب کو گرانی سے بچانے کے لئے صرف کریں۔ عوام کے ٹیکسوں کی کمائی پر عیش و عشرت کی زندگی اسلام میں حرام اور قابل گرفت ہے۔ (بحوالہ اقتصادیاتِ اسلام تشکیلِ جدید ،صفحہ نمبر 509 ،از شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری)