فقہی مسائل: پیشہ ورانہ ضرورت کے سبب اسلامی لباس ترک کرنا

دارالافتاء تحریک منہاج القرآن

سوال: ثقافتی یا پیشہ ورانہ ضرورت کے سبب اسلامی لباس ترک کرنے کا کیا حکم ہے؟

کیا مسلمان کو نوکری حاصل کرنے کے لیے اپنا لباس بدلنا چاہیے یا اپنے نفس کے اطمینان کے مطابق آگے بڑھنا چاہیے؟ یہ بتانا دلچسپ ہے کہ تین چھوٹی بیٹیاں ہونے کے باوجود میرا بھائی اسی مسئلے کی وجہ سے بے روزگار ہے اور کسی بھی یونیورسٹی میں پڑھانے کی مناسب نوکری کی تلاش میں ہے۔ جزاک اللہ

جواب: اسلام کی تعلیمات زندگی کے ہر شعبے کو محیط ہیں، زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جس کے بارے میں شریعتِ اسلامیہ نے راہنمائی فراہم نہ کی ہو۔ ’لباس‘ انسانی زندگی کا اہم گوشہ اور رہن سہن کا ضروری پہلو ہے، اس لیے قرآن و سنت نے اس کے بارے میں بھی اصولی اور معتدل تعلیمات عطاء فرمائی ہیں اور اس سلسلے میں کچھ بنیادی اصول اور مقاصد مقرر کر دیے ہیں جن کا لحاظ رکھنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کیلئے کسی خاص وضع یا ہیئت کا لباس مقرر نہیں کیا کہ ہر شخص بس یہی لباس پہنے اور جو کوئی اس ہیئت اور صورت سے ہٹ کر پہنے گا وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا، بلکہ اسلام نے اس سلسلے میں اصولی راہنمائی کی ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًا وَ لِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِكَ خَیْرٌ ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ.

(الْأَعْرَاف، 7 : 26)

اے اولادِ آدم! بیشک ہم نے تمہارے لئے (ایسا) لباس اتارا ہے جو تمہاری شرم گاہوں کو چھپائے اور (تمہیں) زینت بخشے اور (اس ظاہری لباس کے ساتھ ایک باطنی لباس بھی اتارا ہے اور وہی) تقوٰی کا لباس ہی بہتر ہے۔ یہ (ظاہر و باطن کے لباس سب) اللہ کی نشانیاں ہیں تاکہ وہ نصیحت قبول کریں۔

اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے لباس کے تین مقاصد بیان فرمائے ہیں:

  • سترِ عورت یعنی شرمگاہ کو چھپانا: لباس کا سب سے بنیادی مقصد ’’ستر عورت‘‘ ہے، مرد اور عورت کے جسم کے کچھ حصوں کو ’’عورت‘‘ قرار دیا گیا ہے، یعنی وہ چھپانے کی چیز ہے۔ مردوں کیلئے ناف سے لے کر گھٹنوں تک کا حصہ ستر ہے، اور عورت کا سارا جسم ستر ہے سوائے چہرے اور گٹوں تک ہاتھوں کے۔ لہٰذا لباس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ شریعت کے مقرر کئے ہوئے ستر کے حصوں کو چھپالے، جو لباس اس مقصد کو پورا کر رہا ہو شریعت کی نگاہ میں وہ لباس جائز ہے اور جو اس مقصد کو پورا نہ کرے شرعاً وہ لباس ہی نہیں، کیونکہ وہ اس بنیادی مقصد کی تکمیل نہیں کر رہا جس کے لئے اسے بنایا گیا ہے۔
  • زینت اور خوبصورتی: لباس کا دوسرا مقصد زیب و زینت اور خوبصورتی ہے۔ اس لیے لباس ایسا ہونا چاہئے جسے زیبِ تن کرنے سے انسان کی زینت اور خوبصورتی میں اضافہ ہو۔ ایسا گھٹیا، پھٹا پرانا، بے ڈھنگا اور بدہیت لباس نہ ہو کہ جس کو دیکھ کر دوسروں کو کراہت محسوس ہو۔
  • تقویٰ و پرہیزگاری: ظاہری لباس کے ذریعے ستر پوشی اور زینت و تجمل کے حصول کا اصل مقصد تقویٰ اور خوف خدا تعالیٰ ہے، جس کا ظہور انسان کے لباس میں اس طرح ہونا چاہئے کہ اس کے لباس میں فخر و غرور کا انداز نہ ہو بلکہ تواضع کے آثار ہوں۔

مفسرین نے اس آیتِ مبارکہ کی روشنی میں کہا ہے کہ لباس ایسا ہونا چاہیے جس میں پوری ستر پوشی ہو، کہ قابل شرم اعضاء کا پورا پردہ ہواور لباس بدن پر ایسا چست بھی نہ ہو جس میں اعضاء نمایاں طور پر نظر آئیں، نیز اس لباس میں فخر و غرور کا انداز بھی نہ ہو بلکہ تواضع کے آثار ہوں، اسراف بیجا بھی نہ ہو، ضرورت کے موافق کپڑا استعمال کیا جائے۔

اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَّ جَعَلَ لَكُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْكُمُ الْحَرَّ.

(النَّحْل، 16 : 81)

اور اس نے تمہارے لئے (کچھ) ایسے لباس بنائے جو تمہیں گرمی سے بچاتے ہیں۔

اس آیتِ مبارکہ میں لباس کی چوتھی مصلحت بیان ہوئی ہے کہ لباس موسم کی شدت سے انسان کو محفوظ رکھنے والا ہونا چاہیے۔

صاحب حیثیت انسان کا اچھے کپڑے پہننا شرعاً پسندیدہ عمل بلکہ جس شخص کی آمدنی اچھی ہو ،اس کے لیے خراب قسم کا کپڑا اور گھٹیا قسم کا لباس پہننا ممنوع ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے دور کے عرب کلچر کے مطابق بہترین لباس زیب تن فرمائے اور اسی بات کا صحابہ کرام کو درس بھی دیا۔ چنانچہ حضرت ابو الاحوص عوف بن مالک الجشمی فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت مالک بن نضلہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے، آپ ﷺ نے دیکھا کہ انہوں نے گھٹیا قسم کپڑے پہنے ہوئے تھے، نبی اکرم ﷺ نے اُن سے پوچھا:

أَلَكَ مَالٌ ؟قَالَ: نَعَمْ. قَالَ مِنْ أَيِّ الْمَالِ؟ قَالَ: قَدْ آتَانِي اللَّهُ مِنْ الْإِبِلِ وَالْغَنَمِ وَالْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ قَالَ فَإِذَا آتَاكَ اللَّهُ مَالًا فَلْيُرَ أَثَرُ نِعْمَةِ اللَّهِ عَلَيْكَ وَكَرَامَتِهِ.

(ابی داؤد، السنن، كِتَابُ اللِّبَاسِ، بَابٌ فِي غَسْلِ الثَّوْبِ وَفِي الْخُلْقَانِ، رقم الحدیث: 4063)

کیا تمہارے پاس مال ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ آپﷺ نے پوچھا کس قسم کا؟ انہوں نے عرض کیا کہ اللہ نے مجھے اونٹ، بکریاں، گھوڑے، غلام اور ہر طرح کا مال عنایت فرمایا ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالی نے تمہیں مال دیا ہے تو اس کے انعامات کا کچھ اثر تمہارے لباس سے بھی ظاہر ہونا چاہیے۔

شارحینِ حدیث نے اس حدیثِ مبارکہ سے اخذ کیا ہے کہ انسان کا اپنی حیثیت کے مطابق مناسب لباس پہننا مستحب اور اظہارِ شکر کا ایک ذریعہ ہے۔ مگر اس سلسلے میں نمائش اور دکھاوا جائز نہیں، بلکہ حرام ہے۔ آیات و روایت سے لباس سے متعلق شرعی اصولوں کا خلاصہ درج ذیل چار اصول ہیں:

  • لباس ساتر (شرمگاہ کو چھپانے والا) ہو
  • حدود شریعت میں رہتے ہوئے اس کے ذریعے زیب و زینت حاصل ہو
  • نمائش اور دکھاوا مقصود نہ ہو
  • اس کے پہننے سے دل میں تکبر پید انہ ہو۔

اسی طرح لباس کے تین عیب ہیں جو لباس کے بنیادی مقاصد کو پورا کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں، درج ذیل ہیں:

  • لباس اتنا چھوٹا ہو کہ پہننے کے باوجود ستر نہ ڈھانپ سکے
  • اتنا باریک ہو کہ اس سے اندر کا بدن جھلکتا ہو
  • لباس اتنا چست ہو کہ پہننے کے باوجود جسم کی بناوٹ اور ابھار نظر آرہا ہو

لہذا ہر انسان کو ایسا لباس پہننا چاہیے جو شرم و حیا، غیرت و شرافت اور جسم کی ستر پوشی کے ساتھ ساتھ موسم کے تقاضوں کے مطابق ہو۔ نیز جس سے تہذیب نفس ، سلیقے و قرینے ، عزت و شرافت اور زینت و جمال کے ساتھ وقار انسانیت اور احترام آدمیت کا بھی اظہار ہو۔ اسلام ایسی سادگی کا حکم نہیں دیتا جس سے زمانے کے تقاضے پورے نہ ہوسکیں۔ سائل نے واضح نہیں کیا کہ اسلامی لباس سے ان کی کیا مراد ہے؟ وہ کس لباس کو اسلامی اور کس کو غیراسلامی کہہ رہے ہیں! یاد رکھیں کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو لباس کی کسی خاص کیفیت اور وضع کا پابند نہیں کیا، بلکہ اس کے مذکوہ بالا اصول، حدود اور مقاصد طے کرکے اسے ہر علاقہ اور ملک کے لوگوں کے مزاج اورضرورت پہ چھوڑ دیا ہے ۔ ان متعین حدود کی رعایت رکھتے ہوئے جو لباس بھی زیب تن کیا جائے وہ اسلامی و شرعی لباس ہی کہلائے گا۔ اس لیے مذکورہ بالا تعلیمات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سائل کے بھائی جو بھی لباس پہنیں گے وہ شرعاً جائز ہے، اس لیے انہیں کسی خاص لباس کو اپنی ضد نہیں بنانا چاہیے۔ اگر وہ اپنی ضد کی وجہ سے کسی ملازمت یا منفعت سے محروم ہو رہے ہیں وہ سماج یا اسلام کو موردِ الزام نہ ٹھہرائیں۔

سوال: کیا کپڑے الٹے رکھنے سے ان میں شیاطین آ جاتے ہیں؟

جواب: کپڑے الٹا رکھنے سے ان میں شیاطین آنے والی بات درست نہیں ہے۔ کسی حدیث یا کسی امام کے قول میں اس بات کا شائبہ تک نہیں ہے کہ جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جائے کہ کپڑے الٹے رکھنے سے ان میں شیاطین آ جاتے ہیں۔ البتہ احادیثِ مبارکہ میں رسول اللہ ﷺ نے لباسِ شہرت پہننے سے منع فرمایا ہے، جیساکہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ لَبِسَ ثَوْبَ شُهْرَةٍ فِي الدُّنْيَا أَلْبَسَهُ اللهُ ثَوْبَ مَذَلَّةٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ أَلْهَبَ فِيهِ نَارًا.

(ابن ماجہ، السنن، رقم الحدیث: 3607)

جو شخص دنیا میں شہرت کا لباس پہنے گا، اللہ تعالیٰ اُسے قیامت کے دن ذلت کا لباس پہنائے گا، پھر اس میں آگ بھڑکا دے گا۔

شہرت کے لباس سے مراد یہ ہے کہ لباس یا تو بہت قیمتی ہو کہ لوگ مرعوب ہو جائیں اور اُس کے مال و دولت اور ثروت و امارت کی شہرت ہو جائے یا لباس اتنا ہلکا اور کمتر ہو کہ لوگوں میں اُس کے زہد اور بزرگی کی شہرت ہو۔ اسی طرح علماء نے لباس مقلوب یعنی الٹے کپڑے پہننے کو بھی شہرت کے لباس میں شمار کیا ہے، اس لئے کہ اس سے آدمی کی تحقیر کی شہرت ہوتی ہے۔ اسی بناء پر علماء نے الٹا لباس پہننے کو ناجائز شمار کیا ہے، مثلاً شلوار یا پتلون کو الٹا پہننا جائز نہیں کیونکہ اس میں انسان کی تحقیر ہوتی ہے اور وہ لوگوں کی نگاہ میں ذلیل ہوتا ہے۔

لہذا تحقیر کا باعث بننے کی صورت میں الٹے کپڑے پہننے کی ممانعت تو بہرحال ہے مگر الٹے کپڑوں میں شیاطین کے آنے کی بات قطعی طور پر من گھڑت ہے۔ اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔

سوال: کسی موجد کی ایجاد کا فارمولا چرا کر اُس سے فائدہ حاصل کرنا کیسا ہے؟

جواب: اسلامی ضابطہ حیات ہر قسم کی چوری، خیانت اور دھوکہ دہی کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ اسلام میں جس طرح کسی کا مال چوری کرنا منع ہے اسی طرح کسی کی محنت چوری کرنے کی بھی ممانعت ہے۔ اس لیے کسی کا ایجاد کردہ سافٹ ویئر، فارمولا یا شائع کردہ کتاب سے مواد چوری کر کے بیچنا اور اپنے نام سے شائع کرنا جائز نہیں ہے۔