صدقات اور خیرات کے ذریعے دوسرے انسانوں کی مدد

ڈاکٹر نعیم انور نعمانی

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلِاَنْفُسِکُمْ وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْہِ اللہِ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ.

(البقرة، 2: 272)

’’اور تم جو مال بھی خرچ کرو سو وہ تمہارے اپنے فائدے میں ہے اور اللہ کی رضاجوئی کے سوا تمہارا خرچ کرنا مناسب ہی نہیں ہے، اور تم جو مال بھی خرچ کرو گے (اس کا اجر) تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تم پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘

یہ آیہ کریمہ صدقات اور خیرات کے باب میں انفاق فی المال کی ضرورت و اہمیت کو واضح کرہی ہے کہ انسان کی ہر بدنی نیکی اور ہر مالی نیکی کا مقصود اپنی ذات کو ہی نفع و فائدہ پہنچاتا ہے مگر ہر نیکی کی روح اللہ کی رضا اور خوشنودی ہونی چاہیے۔ ہر عبادت کا اصل مقصد اللہ کو راضی کرنا ہو اور اس کی رضا طلبی ہو۔ رضائے الہٰیہ کا یہی اخلاص ہی انسان کو عبدیت میں کامل کرتا ہے اور ایسی نیکی ہی اللہ کی بارگاہ سے اپنا اجر کامل صورت میں اور عظیم ثواب کی صورت میں لاتی ہے۔

اللہ ہمارے عمل سے آگاہ ہے

باری تعالیٰ ہماری ہر نیکی کو اور ہماری ہر بدی کو خوب جانتا ہے۔ ہمارا کوئی بھی اچھا عمل اور ہمارا کوئی بھی برا عمل اس کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں۔ اس لیے وہ ارشاد فرماتا ہے:

وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللهَ بِہٖ عَلِیْمٌ.

(البقرة، 2: 272)

’’اور تم جو مال بھی خرچ کرو بے شک اللہ اسے خوب جانتا ہے۔‘‘

ہر نیکی انسان کی اپنی بھلائی اور خیر کے لیے ہے۔

اس لیے سورہ البقرہ ہی میں ارشاد فرمایا:

وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْهُ عِنْدَ اللہِ اِنَّ اللهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ.

(البقرہ، 2: 110)

’’اور تم اپنے لیے جو نیکی بھی آگے بھیجو گے اسے اللہ کے حضور پا لو گے، جو کچھ تم کر رہے ہو یقینا اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔‘‘

صدقات و خیرات انسان کی زندگی میں کچھ واجبہ ہیں اور کچھ نافلہ ہیں۔ صدقات واجبہ میں سے زکوٰۃ ہے، صدقات نافلہ میں سے ہر وہ انفاق ہے جو زکوٰۃ کے علاوہ ہے۔ صدقہ واجبہ اور زکوٰۃ کے لیے باری تعالیٰ نے قرآن حکیم ارشاد فرمایا:

وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکوٰۃَ.

(البقرة، 2: 110)

’’اور نماز قائم (کیا) کرو اور زکوٰۃ دیتے رہا کرو۔‘‘

سورہ توبہ میں ارشاد فرمایا:

اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُهُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللہِ وَاللهُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ.

(التوبۃ، 9: 60)

’’بے شک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کیے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لیے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرضداروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔‘‘

صدقات کے مستحقین

اس آیت کریمہ نے صدقہ واجبہ کے مستحقین کا تعین کردیا ہے اور اس صدقہ واجبہ کے مصرف کو مقرر کردیاہے اور اسے اللہ کی طرف سے صاحب نصاب لوگوں پر فرض قرار دیا گیاہے۔ انہیں ہر حال میں اس صدقہ واجبہ کا ادائیگی میں اہل ہونے پر اسے انفاق کرنا ہے۔

باری تعالیٰ ان صدقات و خیرات کو اپنی بارگاہ میں کبھی قرض حسنہ کا نام دیتا ہے اور کبھی ان کو زکوٰۃ کا نام دیتا ہے اورکبھی ان کو صدقہ کا نام دیتا ہے اور کبھی ان کو رزق کا نام دیتا ہے اور کبھی اس کو انفاق فی المال کا نام دیتا ہے اور کبھی اس کو خیر کا نام دیتا ہے۔ غرضیکہ صدقات و خیرات کے باب میں نام کوئی بھی ہو اس رب کا وعدہ ہے جو یہ صدقہ و خیرات کا عمل کرے گا تو میں اس کے رزق کو بڑھادوں گا۔ اس کے رزق کو کشادہ کردوں گا اور اس کے رزق کو دوگنا اور کئی گنا کردوں گا اور اس کے رزق کو حالت بسط عطا کردوں گا اور اس کا انفاق کا یہ عمل خیرہی خیر ہوگا اور یہ صدقہ اس بندے کے لیے اللہ کی بارگاہ میں بہت بڑے اجرو ثواب کا باعث ہوگا۔

قرض حسنہ کی طلبی میں راز

اس لیے سورہ البقرہ میں ارشاد فرمایا:

مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً وَاللهُ یَقْبِضُ وَیَبْسُطُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ.

(البقرة، 2: 245)

’’ کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے پھر وہ اس کے لیے اسے کئی گنا بڑھا دے گا، اور اللہ ہی (تمہارے رزق میں) تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔‘‘

اب اس آیہ کریمہ میں فی سبیل اللہ انفاق کرنے کو قرض حسنہ قرار دیا ہے اور فرمایا جو اللہ کے لیے خرچ کرتا ہے اور اللہ کی راہ میں انفاق کرتا ہے اور اللہ کی مخلوق پر اسی کی رضا کے لیے خرچ کرتا ہے تو اس کی مثال ایسے ہے جیسے وہ اللہ کو (سبحان اللہ) قرض حسنہ دے رہا ہے۔ کہاں وہ رب اور کہاں یہ بندہ اور اس بندے کے پاس جو کچھ ہے رب ہی کا عطا کردہ ہے مگر اس رب کی شان کریمی دیکھیں وہ خود دے کر اور خود ہی کچھ اپنی عطا کردہ توفیق کے مطابق اگر کچھ لے تو وہ اسے قرض حسنہ قرار دیتا ہے۔ حالانکہ وہ تو مالک ہے مالک تو دینے والا ہے اور بندے کے پاس سارا مال اسی مالک کا ہے مگر بندہ جب اس کے حکم کے مطابق اس کے ضرورت مند اور محتاج بندوں پر خرچ کرتا ہے تو وہ رب کہتا ہے ان ضرورت مند بندوں پر خرچ کرنا ایسے ہے جیسے کوئی مجھے قرض حسنہ دے رہا ہے۔

میں اس بندے کے اس قرض حسنہ کو لوٹاؤں گا اور اسے ہر حال میں واپس کروں گا۔ میں رب ہوکر اپنے بندے کے اس قرض حسنہ کی واپسی کا وعدہ کرتا ہوں مگر اس بندے کو ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی دیتا ہوں یہ قرض حسنہ اس کو کئی گنا کرکے اور اس کے مال میں کئی گنا اضافہ کرکے اور اس کے مال میں کئی گناہ برکت پیدا کرکے لوٹاؤں گا۔ اس لیے کہ بندے کے رزق میں کشادگی، فراخی، اضافہ و زیادتی اور اس کے ساتھ تنگی و کمی، قلت و دشواری پیدا کرنا میری ہی قدرت میں ہے۔ اس حقیقت کو یوں واضح کیا۔

اللہ کو قرض حسنہ دینا مال کو بڑھانا ہے

ارشاد فرمایا:

مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً وَاللهُ یَقْبِضُ وَیَبْسُطُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ.

(البقرة، 2: 245)

’’کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے پھر وہ اس کے لیے اسے کئی گنا بڑھا دے گا، اور اللہ ہی (تمہارے رزق میں) تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔‘‘

اس آیہ کریمہ میں واضح کیا جو اللہ کو قرض حسنہ اس کی ضرورت مند اور حاجت مند مخلوق پر خرچ کرنے کی صورت میں دے گا۔ باری تعالیٰ نے فرمایا جو میرے محتاج بندوں پر خرچ کرے گا اسے میں قرض حسنہ شمارکروں گا اور اس قرض حسنہ کو اس بندے کو اضعافاً کثیرۃ کئی گنا بڑھا کر عطا کروں گا۔ صدقات اور خیرات کی صورت میں خرچ کیے ہوئے مال کو بڑھانا اور اس مال میں برکت پیدا کرنا اور اس مال میں مسلسل اضافہ کرتے رہنا یہی عمل مشیت الہٰیہ ہے۔

اس لیے سورہ البقرہ میں ہی ارشاد فرمایا:

یَمْحَقُ اللهُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ وَاللهُ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ اَثِیْمٍ.

(البقرة، 2: 276)

’’اور اللہ سود کو مٹاتا ہے (یعنی سودی مال سے برکت کو ختم کرتا ہے) اور صدقات کو بڑھاتا ہے (یعنی صدقہ کے ذریعے مال کی برکت کو زیادہ کرتا ہے)، اور اللہ کسی بھی ناسپاس نافرمان کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

اسی تصور کو سورہ الحدید میں یوں واضح کیا ارشاد فرمایا:

اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَالْمُصَّدِّقٰتِ وَاَقْرَضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَهُمْ وَلَهُمْ اَجْرٌ کَرِیْمٌ.

(الحدید، 57: 18)

’’بے شک صدقہ و خیرات دینے والے مرد اور صدقہ و خیرات دینے والی عورتیں اور جنہوں نے اللہ کو قرضِ حسنہ کے طور پر قرض دیا ان کے لیے (صدقہ و قرضہ کا اجر) کئی گنا بڑھا دیا جائے گا اور اُن کے لیے بڑی عزت والا ثواب ہوگا۔‘‘

صدقہ اور خیرات کرنے والے اس دنیا میں اپنے مال میں اضافہ اور بڑھوتری پاتے ہیں اور اگلی دنیا جو آخرت ہے اس میں بڑا اجرو ثواب پانے والے ہیں۔ گویا صدقہ و خیرات کا عمل اس دنیا میں بھی مال میں خیرو برکت اور اضافے کا باعث ہے اور یہی عمل اخروی نجات کا سبب بھی ہے۔

صدقہ مال میں اضافے کا باعث ہے

بندے کو یہ سوچ کر کہ صدقے کے ذریعے مال میں کمی ہوجائے گی۔ خیرات کے ذریعے مال میں تنگی ہوجائے گی اور مالی حالت میں برتری اور دشواری آجائے گی۔ ان تصورات اور خیالات کی بنا پر بندے کو کبھی اپنا ہاتھ صدقہ و خیرات سے نہیں روکنا چاہیے۔ اس لیے کہ رزق میں اضافہ اور کمی رب کی مشیت اور رب کی قدرت اور رب کی عطا اور رب کی کرم نوازی اور رب کی خوشنودی اور رب کی ناراضگی سے ہوتا ہے۔ رزق کو بڑھانا اور رزق کو کم کرنا اس کی دست قدرت میں ہے۔

اس لیے وہ فرماتا ہے:

قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُ لَہٗ وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَهُوَ یُخْلِفُہٗ وَهُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ.

(السباء، 34: 39)

’’فرما دیجیے: بے شک میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رِزق کشادہ فرما دیتا ہے اور جس کے لیے (چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے، اور تم (اللہ کی راہ میں) جو کچھ بھی خرچ کرو گے تو وہ اس کے بدلہ میں اور دے گا اور وہ سب سے بہتر رِزق دینے والا ہے۔‘‘

یہ آیہ کریمہ اہل ایمان کو انفاق فی المال کے حوالے سے ہر اندیشے اور ہر خطرے اور ہر وسوسے سے امان اور تحفظ دیتی ہے کہ اللہ کے رزق میں سے جی بھر کر اللہ کی راہ میں خرچ کرو مال میں تنگی اور کمی کے اندیشے کو اپنے ذہن سے نکال دو۔ اس لیے کہ وہ رب ہی تمہارے رزق اور مال میں قوتِ بسط اور قوتِ قدر کا مالک ہے۔ مال میں فراخی بھی اس کی عطا ہے اور مال میں کمی بھی اس کی حکمت ہے۔ وہ بندے کے مال میں فراخی اور تنگی دونوں حالتوں پر قادر ہے اوریہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلو۔

وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَهُوَ یُخْلِفُہٗ وَهُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ.

(السباء، 34: 39)

’’اور تم (اللہ کی راہ میں) جو کچھ بھی خرچ کرو گے تو اللہ اس کا بہتر اور عمدہ بدل تمہیں اپنی بارگاہ سے عطاکرے گا اور وہ سب سے بہتر رِزق دینے والا ہے۔‘‘

اور وہ بہتر بدل کبھی مال میں برکت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور وہ عمدہ بدل کبھی مال میں اضعافاً کثیرۃ (کئی گنا اضافہ) کی صورت میں رونما ہوتا ہے اور اس تصور کو ہمیشہ ذہن میں رکھو تم طالب رزق ہو اور وہ مالک رزق ہے وہ جسے چاہے اس پر اپنے رزق کے دروازے کھول دے۔

صدقات و خیرات کے عمل کے ذریعے انسان کے گناہ معاف ہوتے ہیں انسان کو اللہ کی قربت اور رضا حاصل ہوتی ہے اور انسان کو اس صدقہ و خیرات کے ذریعے ہر خوف و حزن سے محفوظ کردیا جاتا ہے۔

صدقے کا عمل خیر ہی خیر ہے

اس لیے ارشاد فرمایا:

فَهُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَیُکَفِّرُ عَنْکُمْ مِنْ سَیِّاٰ تِکُمْ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ.

(البقرة، 2: 271)

’’ اور اللہ (اس خیرات کی وجہ سے) تمہارے کچھ گناہوں کو تم سے دور فرما دے گا، اور اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔‘‘

اور اسی طرح سورہ البقرہ میں ارشاد فرمایا:

فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ.

(البقرة، 2: 274)

’’پس ان صدقہ و خیرات والوں کے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور (روزِ قیامت) ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔‘‘

اب سوال یہ ہے کہ صدقہ و خیرات کا عمل کیسے کیا جائے اور اس میں کون سا طریقہ اپنایا جائے اور کس انداز سے دوسرے انسانوں کی مدد کی جائے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنْ تُبْدُوْا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا هِیَ وَاِنْ تُخْفُوْهَا وَتُؤْتُوْهَا الْفُقَرَآءَ فَهُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَیُکَفِّرُ عَنْکُمْ مِنْ سَیِّاٰ تِکُمْ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ.

(البقرة، 2: 271)

’’اگر تم خیرات ظاہر کر کے دو تو یہ بھی اچھا ہے (اس سے دوسروں کو ترغیب ہوگی) اور اگر تم انہیں مخفی رکھو اور وہ محتاجوں کو پہنچا دو تو یہ تمہارے لیے (اور) بہتر ہے، اور اللہ (اس خیرات کی وجہ سے) تمہارے کچھ گناہوں کو تم سے دور فرما دے گا، اور اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔‘‘

اسی مضمون کو دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:

اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ.

(البقرة، 2: 274)

’’جو لوگ (اللہ کی راہ میں) شب و روز اپنے مال پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں تو ان کے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے۔‘‘

صدقہ و خیرات کے ذریعے مال میں بےپناہ اضافہ

جو لوگ صدقہ و خیرات کو ہمیشہ اپنائے رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں ان کے مالوں میں کس طرح اور کیسے اضافہ ہوتا ہے۔ قرآن اسے ایک مثال کے ذریعے واضح کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا:

مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ وَاللهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ.

(البقرة، 2: 261)

’’جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال (اس) دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اگیں (اور پھر) ہر بالی میں سو دانے ہوں (یعنی سات سو گنا اجر پاتے ہیں) اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے (اس سے بھی) اضافہ فرما دیتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘

اسی حقیقت کو قرآن نے یوں بھی بیان کیا:

من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا والی سبعۃ مائۃ.

قرآن حکیم اس آیات کریمہ کے ذریعے انسانوں کو انفاق فی المال، فی سبیل اللہ کی اہمیت اور افادیت سمجھا رہا ہے کہ تم اپنے مال سے ایک روپیہ خرچ کرتے ہو تو اللہ کی بارگاہ سے اس ایک رویے کا اجرو ثواب اور اس میں اضافہ و برکت سات سو روپوں کے برابر عطا ہوتی ہے۔ جیسے ایک حبہ ایک دانا ہے اس ایک حبہ سے سبع سنابل سات بالیاں نکلتی ہیں۔ ان سات بالیوں میں ہر بالی مائۃ حبۃ ایک سو دانے اپنے اندر رکھتی ہے۔ یوں سبع سنابل سبع مائۃ حبۃ سات بالیاں سات سو دانوں کو اپنے اندر پیدا کرتی ہیں۔ اللہ کی راہ میں خرچ کیا گیا مال بھی اسی طرح ہمیشہ بڑھتا رہتا ہے اور اس میں مسلسل اضافہ اور برکت ہوتی رہتی ہے۔

صدقات و خیرات کے باب میں ان آیات کا مطالعہ اور قرآنی فہم ہمیں اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ ہم سے ہر ایک مسلمان صدقہ و خیرات کے عمل کو اپنی زندگی میں لازمی اختیار کرے۔

صدقہ ہر مسلمان پر لازم ہے

اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

عن ابی موسیٰ الاشعری قال قال النبی ﷺ علی کل مسلم صدقۃ.

(صحیح بخاری، کتاب الادب، باب معروف صدقۃ، 5: 2241، الرقم: 5676)

’’حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ہر مسلمان پر صدقہ کرنا لازم ہے۔‘‘

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی حدیث میں ارشاد فرمایا:

عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ کل سلامی من الناس علیہ صدقۃ کل یوم تطلع فیہ الشمس یعدل بین الناس صدقۃ.

(صحیح بخاری، کتاب الصلح، باب فضل الاصلاح بین الناس، 2: 964، الرقم: 12560)

’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر روز جس میں سورج طلوع ہوتا ہے لوگوں کے لیے اپنے ہر جوڑ کا صدقہ دینا ضروری ہے جو شخص لوگوں کے درمیان عدل کرتا ہے اس کا یہ عمل بھی صدقہ شمار ہوتا ہے۔‘‘

ہمارے جسم کے ایک ایک جوڑ پر صدقہ لازم ہے اور ہماری ہر صلاحیت اگر امانت و دیانت کے عین مطابق ادا ہو تو یہ

بھی صدقہ ہے۔ عدالتوں میں ججوں کا عدل و انصاف کے مطابق فیصلہ کرنا بھی صدقہ ہے۔متعدد احادیث مبارکہ میں صدقہ کی فضیلت کے باب میں یہ آتا ہے:

قال رسول اللہ ﷺ مانقعت صدقہ من بال.

(صحیح مسلم، کتاب البر والصلہ، باب استحیاب العف والتواضع، 4: 2001، الرقم 2588)

’’صدقہ مال میں کچھ کمی نہیں کرتا۔‘‘

عن ابی امامۃ ان ابی ذر قال قلت یانبی اللہ ارایت الصدقۃ ماذا ھی قال اضعاف مضاعفۃ وعنداللہ المزید.

(رواہ احمد والطبرانی) (مسند احمد بن حنبل، 5: 265، الرقم 242)

’’حضرت ابو امامہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوذرؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یانبی اللہ صدقے کی حقیقت کے بارے میں کچھ ارشاد فرمائیں تو آپ ﷺ نے فرمایا یہ مال و دولت کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے اور اس کا اللہ تعالیٰ کے ہاں اور بھی زیادہ اجرو ثواب ہے۔‘‘

صدقے میں جلدی کرنے کا حکم

اس لیے حضرت جابر بن عبداللہؓ روایت کرتے ہیں:

قال خطبنا رسول اللہ ﷺ فقال ایھا الناس بادروا بالاعمال الصالحۃ قبل ان تشغلوا۔۔۔ وکثرۃ الصدقۃ فی السر والعلانیۃ ترزقوا وتنصروا تجبروا.

(سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ باب فی فرض الجمعۃ، 1: 343، الرقم1081)

’’حضرت جابر بن عبداللہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے لوگو! اس سے قبل تم کسی طبعی و جسمانی عارضہ کے باعث غفلت کا شکار ہوجاؤ اعمال صالح کرنے میں جلدی کرو اس کے بدلے تمہیں مزید رزق دیا جائے گا تمہاری مدد کی جائے گی اور تمہیں سربلند اور طاقت ور کیا جائے گا۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

عن انس بن مالک قال قال رسول اللہ ان الصدقۃ لتطفی غضب الرب وتدفع عن میتۃ السو.

(جامع ترمذی، کتاب الزکاۃ، باب فضل الصدقۃ، 3: 52، الرقم: 664)

’’بے شک صدقہ اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے۔‘‘

حضرت کثیر بن عبداللہؓ المزنی روایت کرتے ہیں:

قال قال رسول اللہ ﷺ ان صدقۃ المسلم تزید فی العمر وتمنع میتۃ السوء ویذھب اللہ بھا الکبر والفخر.

(طبرانی، معجم الکبیر، 17: 22، الرقم: 31)

’’حضرت کثیرؓ اپنے دادا حضرت عمرو بن عوفؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا صدقہ مسلمان کی عمر میں اضافہ کرتا ہے۔ بری موت کو روکتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس صدقے کے ذریعے انسان کے تکبر اور غرور کو ختم کرتا ہے۔‘‘

حضرت رافع بز خدیج بیان کرتے ہیں:

قال قال رسول اللہ ﷺ الصدقۃ تسد سبعین باباً من السو ء.

(طبرانی، المعجم الکبیر، 4: 273، الرقم 4402)

’’صدقہ برائی کے ستر دروازے بند کرتا ہے۔‘‘

اور دوسری حدیث میں فرمایا:

انھا حاجب من النار.

’’یہ دوزخ و جہنم سے انسان کو بچاتاہے۔‘‘