نوجوانوں کا عالمی دن اور نوجوان نسل کی رہنمائی

سمیہ اسلام

پاکستان کی ایک بڑی سیاسی طاقت نوجوان طبقہ ہے کیونکہ کسی بھی معاشرے کی ترقی کا بنیادی نکتہ نوجوان نسل کی ترقی سے جڑا ہوتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ ریاستی و حکومتی سطح پر زیاد ہ سے زیادہ مواقع اور سازگار ماحول کو یقینی بناکر ان کی ترقی کو ممکن بنانا ہوتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے کہ جب ریاستی و حکومتی سطح پر نوجوان طبقہ ان کی سیاسی ترجیحات کا حصہ ہوتا ہے۔ سیاسی ترجیحات سے مراد یہ ہوتی ہے کہ حکومتی سطح پر نوجوانوں کے تناظر میں وسائل کی منصفانہ تقسیم ہونی چاہیے اور نوجوانوں میں پڑھے لکھے، ناخواندہ، شہری اور دیہی لڑکے اور لڑکیاں، معذور، خواجہ سرا اور کمزور طبقات شامل ہونے چاہیے۔

اس وقت نوجوانوں کو سات سطحوں پر مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ اول تعلیمی نظام میں نوجوانوں کو درست سمت میں راہنمائی اور مارکیٹ سے جڑی ضرورتوں کو بنیاد بنا کر مستقبل کی منصوبہ بندی یا حکمت عملی کا تعین جس میں استاد اور والدین کا اہم کردار ہوگا۔ دوئم معاشی سطح پر نوجوان طبقہ کے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرنا بالخصوص خود سے روزگار پیدا کرنے کا رجحان پیدا کرنا، نوجوانوں کو حکومتی سطح سے ان کے لیے آسان شرائط اور بلاسود قرضوں کی فراہمی، سوئم سیاسی، سماجی شعور کی آگاہی اور معاشرے کی ترقی میں ان کی اپنی ذمہ داری اور حق، چہارم غیر نصابی اور کھیلوں کی سرگرمیوں کے آسان مواقع، پنجم ایک ایسا سازگار ماحول جو عملا نوجوان طبقہ کو بلاخوف، ججھک آگے بڑھنے کے مواقع جو میرٹ پر مبنی ہو، ششم ایسے نوجوان جو ناخواندہ ہیں، معذور ہیں یا یا دیگر محروم طبقات میں شامل ہیں ان کو ترجیحی بنیادوں پر ترقی کے دھارے میں شامل کرنا اہم ہوگا۔ ہفتم ہمیں نوجوانوں میں امید کا پہلو بھی پیدا کرنا چاہیے اور ان کو غیر یقینی یا عدم تحفظ کے احساس سے باہر نکالنا اور ان کو باور کروانا کہ وہ حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں نوجوانوں کی کیا راہنمائی کرنی چاہیے اور اس کا ایسا کونسا طریقہ کار ہونا چاہیے جو واقعی حقیقی معنوں میں ان نوجوانوں کی ترقی کو یقینی بناسکے۔ ہمیں اس حوالے سے سب سے پہلے نئی نسل کو یہ باور کروانا ہوگاکہ حالات سے مایوس ہونے کی بجائے وہ حالات سے مقابلہ کرنا سیکھیں۔ یقینی طور پر نوجوان نسل کو کئی سطحوں پر مختلف حوالوں سے چیلنجز کا سامنا ہے مگر ان کے لیے فوری طور پر کوئی بھی آئیڈیل ماحول فراہم نہیں کرسکے گا۔ ان ہی برے حالات اور مشکل صورتحال کا مقابلہ کرنا اور اس میں اپنے لیے محفوظ راستہ تلاش کرنا ہی ان کا اصل کام ہونا چاہیے۔ نوجوان بڑے خواب ضرور دیکھیں اور ان کو دیکھنا بھی چاہیے، لیکن حالات کا یہ بھی تقاضہ ہے کہ وہ حقیقی دنیا سے بھی آگاہ ہوں اور ترقی کے عمل میں چھوٹے عمل یا نچلی سطح سے اپنے کام کا آغاز کریں۔ یہ سوچ کہ صرف بڑا کام ہی کرنا ہے درست حکمت عملی نہیں بلکہ بڑے کام تک جانے کے لیے چھوٹے کاموں سے کام کا آغاز کرنا چاہیے۔ یہ جو نوجوان نسل ریاست اور حکومت پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے ا س کے مقابلے میں ایک متبادل سو چ کے ساتھ آگے بڑھیں اور خود سے اپنا کام کرنے کی کوشش کریں اور یہ سوچ اور فکر ان کو زیادہ آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرسکتی ہے۔

ایک مسئلہ بہت زیادہ ذہنی دباو، مایوسی اور لاتعلقی کا پیدا ہوتا ہے۔ یہ عمل دو خرابیاں پید ا کرتا ہے۔ اول ہر کام کو مایوسی کے تناظر میں دیکھنا اور معاملات سے لاتعلق ہونا، دوئم منفی سرگرمیوں کا حصہ بنا۔ ا س کے لیے ضروری ہے کہ نوجوان اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ غیرنصابی سرگرمی سمیت کھیل کا حصہ بنائیں۔ کیونکہ ایک صحت مند دماغ ہی صحت مند معاشرہ اور خود کو مثبت طو رپر پیش کرسکتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک میں لڑکوں اور بالخصوص لڑکیوں کے غیر نصابی یا کھیلوں کی سرگرمی کا عمل اتنا زیادہ کمرشل ہوگیا ہے کہ اب نوجوان طبقہ ان سہولیات تک رسائی نہیں رکھ پاتا اور ایسے میں حکومت کی لاتعلقی بھی مایوس کن ہے۔

ہمارے اہل دانش، ریاست اور حکومت کو بنیادی بات یہ سمجھنی ہوگی کہ نوجوان طبقہ کسی سیاسی وسماجی یا مذہبی واعظوں یا لوگوں کے موٹیوشنل عمل کو بنیاد بنانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اس کے لیے ریاست اور حکومت سمیت تمام فریقین کی سطح پر ایک بڑی سیاسی، سماجی، انتظامی اور مالی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ قومی سطح پر موجود قانون سازی، پالیسی اور حکمت عملی کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگااور اس میں نوجوانوں کی توانائیوں کو کو بنیاد بنا کر کچھ نئی سوچ اور فکر کو تقویت دینی ہوگی۔ مسئلہ قانو ن سازی نہیں بلکہ جو قانون موجود ہیں ان پر عملدرآمد کا نظام شفاف بنانا ہوگا۔ یہ جو اس وقت ہمیں امیری، غریبی یا حق اور حقوق کے نام پر محرومی یا عدم تحفظ کا احساس غالب نظر آتا ہے اس نے ریاست اور نوجوانوں کے درمیان ایک بڑی خلیج یا فاصلے پیدا کردیے ہیں۔

ریاست اور حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ ان کا حکمرانی کا نظام نوجوانوں میں زیادہ مایوسی اور لاتعلقی پیدا کرتا ہے اور ہم حکمرانی کے نظام میں اس نوجوان طبقہ کو شامل اور ان کی ترجیحات کا تعین کیے بغیر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ یہ حکمت عملی درست نہیں اور اس سے نوجوان طبقہ کی کوئی بڑی راہنمائی ممکن نہیں ہوسکے گی۔ کیونکہ ان کو ایسا نظام درکار ہے جو ان کے بنیادی حقوق کی ضمانت بھی دے سکے اور آگے بڑھنے کے تمام مواقع بھی فراہم کرسکے۔ یہ عمل یقینی طور پر منصفانہ اور شفاف حکمرانی کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔

اسی طرح نوجوانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ آج کی دنیا علم ا ور صلاحیت کی دنیا ہے اور اس دنیا میں وہی لوگ اپنے لیے جگہ بناسکیں گے جو علم اور اپنی صلاحیت کو بنیاد بنا کر اس میں رنگ بھرنے کی کوشش کریں گے۔ محض ڈگری کے حصول کی بنیاد پر ان کو کوئی بڑی کامیابی نہیں مل سکے گی اس کے لیے ان میں ڈگری سمیت ایسی صلاحیتوں کی ضرورت ہے جو اس وقت عملی طور پر معاشرے کو درکار ہے۔ اس میں ہمیں اپنے پورے تعلیمی نظام کی اصلاح کرنی ہے اور اس نظام کو ملکی اور مارکیٹ کی ضرورت کے تحت ڈھالنا ہے۔

ایک بنیادی مسئلہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیتی عمل کا فقدان ہے۔ معاشرے میں جس تیزی سے ہماری اخلاقی تربیت کا عمل کمزور ہوا ہے اس نے اخلاقی بحران بھی پیدا کیا ہے۔ ایک اچھا انسان کیا ہوتا ہے یہ اب ہمارے ایجنڈے کا حصہ کم اور زیادہ ہم بس ایک کامیاب انسان بننا چاہتے ہیں۔ کامیاب انسان اور اخلاقی معیارات کو علیحدہ علیحدہ خانوں میں دیکھنے کی بجائے ہمیں ایک ہی زوایہ سے سمجھنا ہوگا اچھے انسان کے لیے اچھے اخلاقی اصول بھی اہم ہوتے ہیں اور یہ اس کی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔

نوجوانوں کو اپنے ارد گرد کے ماحول کے بارے میں زیادہ باخبر ہونا چاہیے اور اس میں اسے اپنے اچھے اور برے کی تمیز کا فرق معلوم ہونا چاہیے۔ یہ جو حالات سے گمراہی کا عمل ہوتا ہے وہ ہمیں اندھیروں کی طرف دھکیلتا ہے اور روشنی میں آنے کے لیے ہمیں لوگوں کے ماضی کے تجربات سے سیکھ کر درست راستے کا چناؤ ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں دونوں میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے اور یہ عملی طور پر محنتی نوجوان ہیں جو بہت کچھ کرنے کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ لیکن خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہمیں عملی اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔ یہ عمل ہم نوجوانوں کو ایک بہتر گائیڈ لائن، تربیت اور قیادت کے طور پر دے سکتے ہیں۔ ہمیں بطور ریاست، حکومت اور معاشرہ نوجوان طبقہ کا ہاتھ پکڑنا ہے اور ثابت کرنا ہے کہ وہ اس ترقی کے سفر میں تنہا نہیں بلکہ مجموعی طور پر معاشرہ ان کے ساتھ کھڑا ہے، یہ عمل نوجوان طبقہ کی ترقی کی ضمانت بن سکے گا۔

12اگست کو اقوام متحدہ کے زیراہتمام دنیا بھر میں نوجوانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ نوجوان کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ پاکستان کی نصف آبادی کا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ مستقبل میں افرادی قوت کا بڑا حصہ ہونگے۔اس وقت پاکستان کی نصف آبادی اور دنیا کی تیس فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان سمیت دنیا اس وقت موسمیاتی تبدیلوں کا شکار ہے اور اس سے پوری دنیا کو مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ اگر ہم نئ نسل کو ایک اچھا ماحول دینا چاہتے ہیں تو ہمیں انکو قدرتی ماحول کے قریب کرنا ہوگا۔ پاکستان کی یوتھ کو خاص کرکھیلوں اور شجرکاری کی طرف راغب کرنا ہوگا۔ پاکستان میں تو پہاڑوں کا وسیع سلسلہ موجود ہے گھنے جنگلات ہیں دریا ہیں۔ ہمیں یوتھ کو قدرتی ماحول کی حفاظت کی طرف راغب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

ہمارے ملک میں سوشل میڈیا ٹیمز بنانے کا رواج تو بہت بن گیا ہے لیکن نوجوانوں کے لئے کھیلوں ’’اعلی تعلیم‘‘ ہایکنگ اور قدرتی جگہوں کو دیکھنے کی سہولیات کچھ زیادہ موجود نہیں۔ ان کے لئے بہت محدود مواقع ہیں اس لئے وہ اپنا غصہ سوشل میڈیا پرنکالتے ہیں۔ ہمارے ملک میں تفریح بھی بہت مہنگی ہے کچھ تو اتنے سہولیات سے محروم ہیں کہ ان کے پاس فون انٹرنیٹ جیسی سہولت بھی موجود نہیں۔ ان کا وقت بحث مباحثوں اور گلیوں میں گزر جاتا ہے۔ جبکہ انکی یہ عمر اچھی تعلیم اچھی سہولیات میں گزر ہونی چاہیے۔ پاکستان کی آبادی بہت زیادہ ہے اور وسائل بہت کم ہیں۔ یوتھ حالات کی وجہ سے تنگ ہے اور وہ باہر کے ممالک جانے کے خواہش مند ہیں۔ جب وہ ملکی وسائل پر چند خاندانوں کی اجاہ داری دیکھتے ہیں تو وہ مایوس ہوجاتے ہیں۔

کتنے ہی پاکستانی نوجوان انسانی سمگلرز کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور ان کی لاشیں سمندر یا صحراوں سے ملتی ہیں۔ یہ صورتحال دیکھ کر مجھے افسوس ہوتا ہے۔ سیاسی بحرانوں کی وجہ سے نوجوان بہت متاثر ہوئے ہیں ان میں غم مایوسی اور غصہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس لئے ہمیں ہمارے نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی طرف لے کرجانا ہوگا۔ ان کے لئے تعلیم صحت اچھی خوراک کا بندوبست کرنا ہوگا۔ درکار وسائل ان کو دینا ہوں گے ان کے بنیادی حقوق ان کو ملنے چاہیں۔ ان کو سوشل میڈیا ایکٹوازم کے بجائے کھیل کے میدانوں میں لےکرجانا ہوگا۔ وہ آن لائن گیمز کھیلیں اپنی بینائی کمزور کریں اس سے بہتر ہے کہ وہ میدانوں میں فٹ بال یا کرکٹ کھیلیں۔ ہمیں نوجوانوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے آگاہ کرنا ہوگا۔ پاکستان ہر وقت سیلاب زلزلوں قدرتی آفات میں گھرا رہتا ہے ہمیں ان کو ان تمام خطرات سے آگاہ کرنا ہوگا۔ ہمیں ان کو درختوں کی افادیت اور شجرکاری کے حوالےسے بتانا ہوگا۔ 12 اگست کے ٹھیک دو دن بعد چودہ اگست آتی ہے ہمیں اپنی یوتھ کو یہ باور کرانا ہوگا کہ سڑکوں پر موٹرسائکل کی ون ویلنگ کے بجائے وہ اس دن پودے لگائیں۔ پاکستان کو سرسبز بنائیں یہ انسانی نسل کی بقا کے لئے بہت ضروری ہے۔ نوجوان اس ملک کا اثاثہ ہیں برین ڈرین سے اس کو مل کر بچائیں اور نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کریں تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر پاکستان کی ترقی میں حصہ لیں۔