کیا مذہب ایک پرائیویٹ اور انفرادی معاملہ ہے؟ (حصہ سوم)

ڈاکٹر فرح ناز

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہر اعتکاف 2024ء میں خطابات کیلئے جن اہم موضوعات کا انتخاب کیا بلاشبہ وہ ہماری نوجوان نسل میں دین گریز اور دین بیزار رجحانات کا قلع قمع کرنے کے لئے بہت ضروری ہیں۔ بیشتر دین دار گھرانوں کے والدین جو مغربی لادین افکار کے زیر اثر اپنی اولاد کے حوالے سے مایوس دکھائی دے رہے تھے انہیں ان خطابات نے ایک مضبوط بنیاد مہیا کردی ہے اور انہیں ایک ایسا موثر ہتھیار میسر آگیا ہے جس پر عمل پیرا ہوکر ضرورتِ دین کی اہمیت کو زیادہ موثر طریق سے نئی نسل کے سامنے آشکار کرسکیں گے۔

عام لوگوں میں دین اور مذہبی عقائد کے بارے یہ تصور پایا جاتا ہے کہ ان کا تعلق آخرت سے ہے۔ اگر عقیدہ درست ہو توجنت میں اور غلط ہوا تو دوزخ میں جائیں گے۔یہی وجہ ہے کہ بہت سارے لوگ مختلف عقائد رکھتے ہیں لیکن عملی زندگی میں ان کی کوئی تاثیر دکھائی نہیں دیتی۔ وہ مطمئن ہوتے ہیں کہ آخرت میں انہیں ان کا فائدہ پہنچے گا۔ حضور شیخ الاسلام نے ’’خدا کو کیوں مانیں؟ اور مذہب کو کیوں اپنائیں؟‘‘ کے موضوع پر چھ روزہ سلسلۂ خطابات میں فتنۂ الحاد کے تصورات کو جدید سائنسی دلائل سے جڑ سے اکھاڑنے کے بعد شبِ قدر کے خطاب میں اساتذہ اور والدین کے لئے فتنہ الحاد سے نمٹنے کے لئے دوبڑے راہنما اصول پیش کئے:

1۔ دین اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے اس میں کسی پرائیوٹ اور انفرادی معاملہ کا کوئی تصور نہیں ہے۔

2۔ معاشرے میں رہ کر مذہب سے لا تعلق رہنا اسلامی تصورنہیں۔

ملحدین (خدا کا اِنکار کرنے والے) جن مختلف محاذوں پر دین کے خلاف نفرت پیدا کرکے سادہ لوح لوگوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں، اُن میں سے ایک یہ کہ وہ مذہب کو ایک پرائیویٹ اور انفرادی معاملہ قرار دے کر ذہنوں کو خدا اور مذہب سے انکار پر لے آتے ہیں۔

شیخ الاسلام نے نہایت فکر انگیز گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:

’’بعض لوگ دوسروں کو قائل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ پر اپنے ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اپنی بے عملی کو اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ذاتی معاملہ قرار دے کر دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں دین پر عمل کرنا ہرگز پرائیویٹ معاملہ نہیں ہے۔ بلاشبہ اسلامی احکام کی بجا آوری میں بے عملی کو پرائیویسی کے پردے میں روا رکھنا کسی طور بھی جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اعمال کی بجا آوری میں کوئی امر پوشیدہ نہیں رکھا گیا۔ انفرادی کی بجائے اجتماعی عمل میں زیادہ اجر رکھا ہے جیسے اگر نماز گھر میں پڑھیں تو ایک درجے اور اگر جماعت کے ساتھ پڑھیں تو 27 درجے تک ثواب ملتا ہے۔ البتہ اس عمل کے اندر نیت کا تعلق بلاشبہ وہ پرائیویٹ معاملہ ہے کہ کہیں انسان ریا کاری اور دکھاوا تو نہیں کر رہا ہے۔ لیکن یہ کیا بات ہوئی کہ آپ زندگی حرام سے بھر دیں اور کوئی منع کرے تو کہہ دیں کہ یہ میرے اور اللہ کے درمیان ذاتی معاملہ ہے۔ ایسی کسی پرائیوسی کا تصور اللہ اور رسولﷺ نے نہیں دیا یہ کفر اور الحاد کی طرف لے جانے والے عناصر ہیں۔ اسلام پورا نظام حیات ہے۔ کفر کو اپنی زندگیوں میں جگہ دینے کے لیے، بے حیائی، حرام کاری اور حرام خوری کو جگہ دینے کے لیے اور دین کے احکام سے جان چھڑوانے کے لئے، دین کے فرائض و واجبات کا بوجھ اتار پھینکنے کے لیے، اپنے آپ کو مادر پدر آزاد کرنے کے لیے شیطان نے انہیں یہ راہ سمجھائی ہے اور یہ سارے وہ کلمات ہیں جو کفرکے کلچر نے سکھائے ہیں۔ اس سے اجتناب کرتے ہوئے توبہ کریں اور فکر وعمل میں اس تقسیم کو اور اس سوچ کو ختم کریں۔‘‘ (خطاب شب قدر 7 اپریل 2014)

شیخ الاسلام نے نوجوان نسل کے ذہنوں کی الجھن اور تشکیک کا ازالہ کرتے ہوئے فرمایا:

’’وہ لوگ جنہوں نے دین کے راستے سے ہمیں ہٹایا ہے، ہٹا رہے ہیں اور ہٹانا چاہتے ہیں ان کی طرف سے یہ کفر کا Culture، اللہ کے وجودکے انکار پر ہمیں لے آتا ہے۔ یہ طاغوت کا ایک بھیانک منصوبہ ہے۔ جب اللہ کی ذات کا انکار ہورہا ہوتا ہے تو اللہ کے بھیجے ہوئے نبیوں، پیغمبروں اوررسولوں کا انکار ہے۔ جب ان کا انکار ہے تو اس کے بھیجی ہوئی کتاب کا انکار ہورہا ہے۔ یوں یہ قرآن و سنت کا انکار ہے تو اس طرح یہ درحقیقت پورے دین و مذہب کا انکار ہے۔ اوامر و نواہی کا انکار ہے، حلال و حرام کا انکارہے، ایمان اور اسلام کے اعمال صالحہ کا انکار ہے۔ تقوی کا انکار ہے۔ سارے احکام مٹا کر Godless society بنانے کا ایک حیوانی منصوبہ ہے۔‘‘ (خطاب شب قدر 7 اپریل 2014)

کہا جاتا ہے کہ مذہب خدا اور انسان کے درمیان ایک پرائیویٹ معاملہ ہے۔ ہر شخص کو آزادی حاصل ہے کہ چاہے تو وہ اپنی پرائیویٹ زندگی میں خدا کو مانے اور مذہب پر عمل کرے مگر سوسائٹی اور ریاستی افیئرز میں مذہب کو نہیں گھسیٹنا چاہیے۔

’’ظاہر کے اپنے فوائد ہوتے ہیں اور باطن کے اپنے فوائد اگر کوئی شخص کہے کہ نیت اچھی ہونی چاہئے نیت میں ہی سارا دین رکھا ہے تو ایسا نہیں ہے۔ نیت اس وقت معتبر ہوتی ہے جب کوئی عمل صالح بھی کیا جائے۔ نیت از خود عمل صالح کی ہوتی ہے۔ اگرظاہر میں نیک عمل کرے اور اس کی نیت اچھی ہو تو وہ اسے مقبول بنا دے گا۔ خالی نیت اچھی رکھنے سے اللہ کی بارگاہ میں کوئی عمل قبول نہ ہوگا۔‘‘ (خطاب شب قدر 7 اپریل 2014)

مذہب کا یہ تصور کہ یہ بندے اور خدا کے مابین معاملہ ہے، ایک گمراہ کن تصور ہے۔ بعض دکانوں پر لکھا ہوتا تھا :’’یہاں سیاسی باتیں کرنا منع ہے‘‘ اب بعض جگہوں پر یہ لکھا بھی دکھائی دیتا ہے’’یہاں مذہبی باتیں کرنا منع ہے‘‘۔ سیاسی باتیں چونکہ جھگڑے فساد کا موجب بن جاتی ہیں اس لیے ان سے منع کیا جاتا ہے۔ اب یہی حال مذہبی باتوں کا ہونے لگاہے۔ یہ مذہبی باتیں جو جھگڑے کا موجب بنتی ہیں ان پر اگر آپ غور کر یں تو سارا زور یہی نکلے گا کہ یہ عقیدہ جنت میں جانے کا ذریعہ ہے اور اُس عقیدے والے جہنم میں جائیں گے۔ ایسی باتوں کا عموماً عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

شیخ الاسلام نے اس غلط تصور پر بہت کھل کر روشنی ڈالی اور یہ ثابت کیا کہ اس معاملے میں دو ہی امکانات ہیں یا تو خدا انسان سميت اس پوری کائنات کا خالق، مالک اور حاکم ہے یا پھر نہیں ہے۔

اب اگر وہ خالق، مالک اور حاکم نہیں ہے تو پھر اس کے ساتھ پرائیویٹ معاملے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

اور اگر وہ خالق، مالک اور حاکم ہے تو پھر اس کے اختیارات کو محدود کرکے محض ذاتی اور انفرادی زندگی میں اس کے سامنے جھکنے کی مشق اور اس کی عظمت کے گن گا کر کوئی اگر خدا کو ماننے کا دعوی کرے تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔

یہ تو کائنات کے مالک سے سراسر بغاوت ہے۔

اگر ایک انسان اپنی پرائیویٹ زندگی میں تو خدا کا بندہ ہو مگر یہ سب آدمی جب مل کر معاشرہ بنائیں تو خدا کی ضرورت ہی نہ رہے۔

ان حالات ميں اگر ہمیں خدا کی راہنمائی کی ضرورت نہ گھر اور نہ خاندان میں، نہ محلے اور شہر میں، نہ ادارے اور بازار میں، نہ عدالت اور پارلیمنٹ میں۔ نہ پولیس اورفوج میں، نہ میدانِ جنگ اور صلح میں ہے تو پھر اس کی ضرورت ہے کہاں؟

کیوں ایسے خدا کو مانا جائے یا اس کی عبادت کی جائے جو زندگی کے ان تمام معاملات میں ہماری رہنمائی نہیں کرتا؟

اس ضمن میں logical بات یہ ہے کہ جس ہستی کو ہم اپنی انفرادی زندگی میں رب تسلیم کرتے ہیں وہی ہماری اجتماعی زندگی کا بھی رب ہے اور اسی کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق اس دنیا کا نظام بھی چلے گا۔

لہذا خواہ ہماری پرائیویٹ لائف ہو یا پبلک لائف خدا کا وجود اور مذہب کے اصول ہر جگہ لاگو ہونگے۔

ہمارے دین میں ہماری زندگی کے تمام گوشوں سے متعلق واضح راہنمائی موجود ہے۔ یہ توجیہہ اور جواز سرے سے غلط ہے کہ مذہب کوئی پرائیویٹ معاملہ ہے۔

انسان انفرادی یا اجتماعی طورپر جو کچھ بھی کرتا ہے کسی نظریے کی بنیاد پر کرتا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ عقیدہ یا نظریہ انسانی زندگی پر اثر انداز نہ ہو، تا ہم جس طرح کا نظریہ ہو گا، اسی طرح کا عمل بھی ہوگا۔اگر کسی کا تصورِ خدا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا، وہ ہمارامالک ہے تاہم وہ رحیم و کریم بھی ہے ،غفار و ستار بھی ہے، ہم سے جوبھی گناہ ہو جائے ہم چونکہ اس کے ماننے والے ہیں وہ ہمیں ضرور بخش دے گا، اس کا نتیجہ اس کے عمل پر یوں مرتب ہو گا کہ وہ خواہشات نفسانی کے سہارے سب کچھ کرتا چلا جائے گا۔

یہ تصورسراسر غلط ہے کہ ہم دل کے مسلمان ہیں اور ہمارا دل نیک، پاک اور صاف ہے۔ جس شخص کا ظاہر طیب، مطہر اور پاک نہیں اور اس میں فسق و فجور ہے، اس کا باطن کبھی مسلمان اور پاکیزہ نہیں ہوسکتا۔ یہ Godless فکر اور سوچ ہےکہ زندگی میں ہر لمحہ حرام کماتے اور کھاتے رہیں اور پھر اسے اپنا پرائیویٹ معاملہ قرار دے دیں۔ اَعمالِ صالحہ نہ کرنا اور انہیں اپنا اور رب کا معاملہ قرار دینا بالکل غلط تصور ہے۔ یہ اِیمان کو کفر اور اِلحاد کی طرف لے جانے والی فکر ہے۔ شیخ الاسلام نے شب قدر کے خطاب میں درد مندی کے ساتھ باطن اور ظاہر کے اس تضاد پر پُرمغز گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:

’’ظاہر کے اپنے فوائد ہوتے ہیں اور باطن کے اپنے فوائد اگر کوئی شخص کہے کہ نیت اچھی ہونی چاہئے نیت میں ہی سارا دین رکھا ہے تو ایسا نہیں ہے۔ نیت اس وقت معتبر ہوتی ہے جب کوئی عمل صالح بھی کیا جائے۔ نیت از خود عمل صالح کی ہوتی ہے۔ اگرظاہر میں نیک عمل کرے اور اس کی نیت اچھی ہو تو وہ اسے مقبول بنا دے گا۔ خالی نیت اچھی رکھنے سے اللہ کی بارگاہ میں کوئی عمل قبول نہ ہوگا۔‘‘ (خطاب شب قدر 7 اپریل 2014)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہر اعتکاف 2024ء میں خطابات کیلئے جن اہم موضوعات کا انتخاب کیا بلاشبہ وہ ہماری نوجوان نسل میں دین گریز اور دین بیزار رجحانات کا قلع قمع کرنے کے لئے بہت ضروری ہیں۔ بیشتر دین دار گھرانوں کے والدین جو مغربی لادین افکار کے زیر اثر اپنی اولاد کے حوالے سے مایوس دکھائی دے رہے تھے انہیں ان خطابات نے ایک مضبوط بنیاد مہیا کردی ہے اور انہیں ایک ایسا موثر ہتھیار میسر آگیا ہے جس پر عمل پیرا ہوکر ضرورتِ دین کی اہمیت کو زیادہ موثر طریق سے نئی نسل کے سامنے آشکار کرسکیں گے۔

ایک نظریہ کے مطابق یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایمان باللہ کا نتیجہ ہے اور ایک دوسرے نقطۂ نظر کے مطابق کہا جاسکتا ہے کہ ایمان باللہ ہوتا تو وہ گناہ سے پرہیز کرتا اور خواہشات نفسانی کا اسیر نہ ہوتا۔دوسری بات اس لیے درست ہے کہ اس کی اللہ تعالیٰ کے بارے میں شناخت چونکہ درست نہیں ہے، یہ شخص اس کے عدل وحکمت پر ایمان نہیں لایا، اس نے جس تصور خدا کو مانا ہے وہ خدا ہی نہیں ہے،لہٰذا ’’ایمان باللہ ‘‘ کا اعلان اسکی زبان کی حد تک ہے لیکن حقیقی طور پر دیکھا جائے تو وہ اللہ پر ایمان ہی نہیں لایا۔جبکہ پہلی بات بھی ایک لحاظ سے صحیح ہے اور وہ یہ کہ جیسا خدا کو اس نے مانا ہے ویسا ہی اس کا عمل ہے۔ ہمیں ہر وقت نیک اعمال کے ذریعے ایمان کے ظاہر اور باطن دونوں کی حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایمان کے معاملے میں انسان کا کوئی معاملہ ذاتی نہیں رہتا۔ ہر معاملہ اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے اَحکامات کے تابع ہوگا تو ایمان محفوظ رہے گا۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید کے جملہ اَحکامات میں توبہ، ایمان اور عملِ صالح کو جوڑا ہے۔ اگر دین عمل میں نہیں ڈھلا تو پھر محض نیت اچھی ہونے کا کوئی فائدہ نہیں، نہ دنیا میں نہ آخرت میں۔

کارکنوں پر لازم ہے کہ وہ شیخ الاسلام کے ان مواعظ حسنہ کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنائیں اور ان کے ذریعہ معاشرے میں موجود غلط تصورات کا قلع قمع کریں۔ قول و عمل کے تضاد سے معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آسکتی۔ جب بھی آپ کہیں جاتے ہیں، کسی نہ کسی کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ نے جہاں کہیں بھی جانا ہے وہاں آپ نے اپنی اصل کی حفاظت بھی کرنی ہے۔ یہ ذمہ داری اللہ کے دین کے نمائندوں پر زیادہ بھاری ہے کہ ان کے ہر عمل کو ان کی جماعت، مسلک اور مذہب کے ساتھ جوڑا جائے گا۔ وہ جیسے ہی کوئی غلط عمل کریں گے تو کہا جائے گا: صرف یہ نہیں بلکہ اس کی جماعت، مسلک، مذہب اور خدا ہی غلط ہے۔