فرمانِ الٰہی
اللهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌ ط اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ ط اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّهَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰـرَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لَّاشَرْقِیَّۃٍ وَّلَا غَرْبِیَّۃٍ یَّکَادُ زَیْتُهَا یُضِٓیْئُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ط نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ ط یَهْدِی اللهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُ ط وَیَضْرِبُ اللهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ ط وَاللهُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ.
(النور، 24: 35)
’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال (جو نورِ محمدی کی شکل میں دنیا میں روشن ہے) اُس طاق (نما سینۂ اَقدس) جیسی ہے جس میں چراغِ (نبوت روشن) ہے؛ (وہ) چراغ (قلبِ محمدی کے) فانوس میں رکھا ہے۔ (یہ) فانوس (نورِ الٰہی کے پَرتو سے اس قدر منور ہے) گویا ایک درخشندہ ستارہ ہے (یہ چراغِ نبوت) جو زیتون کے مبارک درخت سے (یعنی عالم قدس کے بابرکت رابطہ وحی سے یا انبیاء و رُسل ہی کے مبارک شجرۂ نبوت سے) روشن ہوا ہے نہ (فقط) شرقی ہے اور نہ غربی (بلکہ اپنے فیضِ نور کی وسعت میں عالم گیر ہے)۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تیل (خود ہی) چمک رہا ہے اگرچہ ابھی اسے (وحیِ ربّانی اور معجزاتِ آسمانی کی) آگ نے چھوا بھی نہیں۔ (وہ) نور کے اوپر نور ہے (یعنی نورِ وجود پر نورِ نبوت گویا وہ ذات دوہرے نور کا پیکر ہے)۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنے نور (کی معرفت) تک پہنچا دیتا ہے، اور اللہ لوگوں (کی ہدایت) کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے، اور اللہ ہر چیز سے خوب آگاہ ہے۔‘‘
فرمانِ نبوی ﷺ
عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّ یُبْتَغَی بِهِ وَجْهُ اللهِ، لا یَتَعَلَّمُهُ إِلاَّ لِیُصِیْبَ بِهِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْیَا، لَمْ یَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَعْنِي رِیْحَھَا. رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَابْنُ مَاجَہ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے علم حاصل کیا جس سے اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کی جاتی ہے لیکن (اگر) وہ یہ علم حصولِ دنیا کے لئے سیکھتا ہے تو قیامت کے روز وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔‘‘
(المنہاج السوی، ص: 428)