14 اگست اور 15 اگست 1947ء کی درمیانی شب ستائیسویں رمضان المبارک 1366ھ کی وہ بابرکت ساعت تھی جب رب ذوالجلال نے اپنے بے پایاں رحمتوں کے نزول کے ساتھ دس کروڑ مسلمانوں کی بے تیغ و تفنگ قوم کو آزادی کی نعمت سے نوازا۔ یہ لیلۃ القدر کی مقدس رات تھی اور یوم جمعۃ الوداع کی پر نور صبح طلوع ہونے میں کچھ ہی دیر باقی تھی کہ رات بارہ بجے دنیاکےنقشے پر آزادی اور خود مختاری حاصل کرنے والی دنیائے اسلام کی سب سے بڑی مملکت کا اضافہ ہوا جس کی پہچان لفظ ’’پاکستان‘‘سے تھی۔ لاہور، پشاور اور ڈھاکہ کےریڈیو سٹیشنوں سے رات گیارہ بجے آل انڈیا ریڈیو سروس نےآخری اعلان نشر کیا۔ رات ٹھیک بارہ بجے ظہور آذر کی آواز میں پہلے انگریزی اور پھر اردو میں یہ الفاظ گونجے۔
’’یہ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس ہے۔‘‘
فوراً بعد مولانا زاہر القاسمی نے قرآن مجید کی سورۃ فتح کی آیات تلاوت کیں: ’’بے شک ہم نے تمھیں فتح مبین عطا کی۔‘‘
ہوا کے دوش پر یہ آواز جس نگر بستی، گاؤں اور گوٹ پہنچی آزادی کے متوالے آنسوں کے سیلِ رواں میں سجدہ ریز ہوگئے۔ تشکر کے انہی لمحات میں اولین آزادی کی صبح نو طلوع ہوئی۔
15 اگست کی صبح رمضان المبارک کا آخری جمعہ تھا۔ ریڈیو پاکستان پر اعلان ہوا۔ ابھی تھوڑی دیر میں قائداعظم محمد علی جناح قوم سے خطاب فرمائیں گے چند ہی لمحوں میں ناقابلِ شکست، حریت پسند قائد کی بارعب آواز ریڈیو پاکستان پر گونجی۔ آپ نے فرمایا:
- ’’آج کا دن مسلم قوم کی تقدیرکی کامیابی کا دن ہے جس نے اپنا وطن حاصل کرنے کے لیے گزشتہ برسوں میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔۔۔‘‘
- اس انتہائی اہم ساعت میں میرا دل جنگ آزادی کے ان دلیر مجاہدوں کی یاد سے معمور ہے جنھوں نے پاکستان کو حقیقت بنانے کے لیے اپنا سب کچھ بلکہ اپنی جانیں تک نثار کردیں۔۔
- اس نئی مملکت کے قائم ہوجانے سے پاکستان کے شہریوں پر زبردست ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انہیں یہ موقع حاصل ہوا ہے کہ دنیا کو ثابت کردکھائیں گے کہ کس طرح ایک ایسی قوم جس میں مختلف عناصر شامل ہیں۔ آپس میں مل جل کر صلح و آشتی سے رہتی ہے اور اپنے تمام شہریوں کی یکساں فلاح و بہبود کے لیے کام کرتی ہے۔
- ہم چاہتے ہیں کہ ہم خود باعزت طرز پر زندگی بسر کریں اور دوسروں کو بھی باعزت زندگی بسرکرنے دیں۔ آج جمعۃ الوداع ہے۔ رمضان المبارک کے مہینے کا آخری جمعہ۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ نماز جمعہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی اور انکساری کے ساتھ سربسجود ہوکر اس کی ابدی رحمتوں اور بخششوں کا شکر بجا لائیں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں پاکستان کو ایک عظیم مملکت بنانے کے لیے اور ہم کو اس کا اہل شہری بننے کے لیے اپنی ہدایت اور نصرت سے سرفراز فرمائے۔ پاکستان زندہ باد۔
یہ تھا قائد کا پہلے یوم آزادی کا خطاب جس میں آپ اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتے ہوئے جنگ آزادی کے دلیر مجاہدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور حصولِ آزادی کے بعد ذمہ داریوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔
دراصل تخلیق پاکستان ایک طرف تو مثبت ایزی کی مرہون منت تھا تو دوسری طرف مسلم قائدین، اکابرین اور مشاہیر کی بے لوث قیادت و جدوجہد کا اعجاز۔ آزادی کی یہ فکری، عملی اور سیاسی تحریک ایک صدی کے دلخراش، جاں سوز اور پُرسوز اور پُر خطر حالات و واقعات پر محیط ہے۔ تحریک آزادی کے اولین قافلہ سالار سرسید احمد خان اور آخری سالار قائداعظم محمد علی جناحؒ تھے۔ 1930ء میں اسلامیانِ ہند کے لیے آزاد مسلم ریاست کا تصور شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ کی جنوں خیز فکر کا نتیجہ تھا۔ میرِ کارواں محمد علی جناح کی ولولہ انگیز، سیاسی و قانونی بصیرت کی حامل کثیرا لجہت شخصیت نے فلسفی شاعر کے خواب آزادی کو تعبیر کرنے کے لیے شبانہ روز محنت کی۔ آپ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح آپ کو آرام کا مشورہ دیتیں تو آپ فرماتے کہ میں وہ کمانڈر ہوں جس کی فوجیں میدان جنگ میں پڑی ہیں کیا ایسی صورت میں میں آرام کرسکتا ہوں۔
قائد کا پیغامِ آزادی کچھ ایسا سحر انگیز اور دل نشین تھا کہ قوم کے تمام طبقات کے دلوں میں جاگزیں ہوگیا۔ پژمردہ قوم ایک نئے ولولے اور عزم کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی۔ یہاں تک کہ اپنا تن من دھن، ذاتی اثاثے، آرزوئیں، محبتیں، رفاقتیں، خونی رشتے ناطے سب اس وطن پر نچھاور کرنے کے لیے تیار ہوگئی۔
ایک یورپی مورخ نے تحریر کیا ہے کہ پاکستان تاریخ کے بطن میں موجود تھا۔ اسے جنم لینا ہی تھا اور جنم کا عمل تکلیف دہ تو ہوتا ہے۔ جشن آزادی کے پرکیف لمحوں میں ہر محب وطن پاکستانی کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنے آباؤ واسلاف کی ان گنت، بے مثل بے مول قربانیوں، صبرو ہمت کی لازوال داستانوں کو فراموش نہ کرے جنھوں نے غلامی کی تیرہ شبی کو لہو کے چراغ جلاکر روشن کیا، اپنے خونِ جگر سے زمین کا قرض اتارا، آگ و خون کے چڑھے دریا تیر کر پار کیے۔ کٹھن منزلوں کے راہرو اپنے پرکھوں کی قبریوں کو بے چراغ چھوڑ کر جس منزل کی طرف رواں دواں تھے اس کا ہر راستہ قتل گاہوں سے ہوکر گزرتا تھا۔ یہ وہ مقتل تھے جہاں ان کی بہنوں، بہو بیٹیوں کی عصمتیں تار تار کی جارہی تھیں۔ سروں سے دوپٹے کھینچے جارہے تھے۔ ہر طرف موت کا رقص تھا۔ ان کا سب سے بڑا گناہ آزاد وطن کا حصول قرار پایا تھا۔
پنجاب کی ریاستیں پٹیالہ، کپور تھلہ، الور بھرت پور، مشرقی و وسطی پنجاب کے ریاستی فوجی ہندوؤں اور سکھ جتھوں نے مسلم آبادی کو بڑے منظم طریقے سے تہ تیغ کیا۔ لندن ٹائمز کی ایک رپورٹ منظر کشی کرتی ہے کہ سکھ مشرقی پنجاب کو مسلمانوں سے خالی کرنے میں سرگرم تھے، ہر روز بے دردی سے سیکڑوں افراد کو تہ تیغ کرتے۔ جان کو نیل نے اپنی کتاب ’’آرکنلیک‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ سکھوں کے ایک ہجوم نے برہنہ مسلمان عورتوں کا امر تسر کے گلی کوچوں میں جلوس نکالا۔ ان کی عصمت لوٹی پھر بعض کو کرپانوں سے ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور بعض کو زندہ جلادیا۔ تارا سنگھ اعلان کررہا تھا کہ یہ جنگ ہے جنگ اور پاکستان ہماری لاشوں پر سے گزر کر بنے گا۔
تاریخِ عالم میں عظیم ترین تبادلہ آبادی ہورہا تھا۔ صرف چند ہفتوں میں ایک کروڑ بیس لاکھ سے زائد افراد نے اپنے گھروں کو خیر باد کہا۔ 4 ستمبر 1947ء کے شمارہ میں لندن ٹائمز نے مسلمانوں کے ایک بیس میل لمبے قافلے کے بارے میں اطلاع شائع کی۔ اس قافلہ میں بیس ہزار سے زائد افراد تھے۔ ان میں سے اکثر پیدل ہی پاکستان کی جانب بڑھ رہے تھے۔ آبلہ پا، تکان سے چور، بھوک کے مارے، سفر کی صعوبتوں سے نڈھال ستر لاکھ مہاجرین گرتے پڑتے پاکستان پہنچے۔ وہ بالکل بے سروسامان تھے۔ ان کے پاس تن کے کپڑوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ وہ درد آشنا تھے کہ انھوں نے معصوم بچوں کا قتل لاشوں کی قطع و برید اور عورتوں کی بے حرمتی اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی۔ ہزاروں بھوک اور بیماری یا سکھوں کے خون آشام جتھوں کا نشانہ بن کر جاں بحق ہوگئے یا پاکستان کی سرحد پر پہنچتے ہی ابدی نیند سوگئے۔ یہ صرف عوام کی اولوالعزمی اور قائد اعظم کی قیادت پر ان کا یقین محکم تھا جس نے صورتِ حال کو سنبھالنے کا معجزہ کر دکھایا۔
’’امر تسر جل رہا تھا‘‘ کے مصنف خواجہ افتخار تحریر کرتے ہیں کہ 18 اگست 1947ء کو منائی جانے والی پاکستان کی پہلی عید عجیب تھی۔ آزادی کی اس پہلی عید پر بچوں نے نہ گوٹا کناری والے کپڑے پہنے، نہ نئے جوتے، نہ لڑکیوں نے مہندی لگائی، نہ عید کارڈ اور تحائف کا تبادلہ ہوا، نہ میٹھی سوئیاں تیار ہوئیں اور نہ کسی کو عیدی مانگنے کا خیال آیا۔ والٹن کیمپ میں مہاجرین کی آمد جاری تھی۔ ہر خاندان زخم خوردہ تھا جیسے اپنے پیاروں کی قربانی دے کر آزادی کی قیمت چکارہا ہو۔
ہم سلام پیش کرتے ہیں والٹن کیمپ موجودہ ’’بابِ پاکستان‘‘ پر اترنےو الے دل فگار، لہورنگ قافلوں کو جو تباہی و بربادی کی تصویر بنے سامانِ زیست سے محروم، اپنے پیاروں کو ہندوؤں اور سکھوں کی شقاوت قلبی کی نذر کرکے، گہوارہ امن کے متلاشی، کمالِ حوصلہ سے عزم و ہمت کی معراج چھوکر، قلب و روح میں اترنے والے زخم سہہ کر بھی زندہ تھے بلکہ تعمیر وطن اور تزین چمن میں مصروفِ عمل تھے۔ زندہ قومیں اپنے آباؤ اجداد کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں اور ایسی ہی قومیں آزادی کے ثمرات سے مستفید ہونے کا حق رکھتی ہیں۔
پاکستان ہمارے اجداد کے خوابوں کی سرزمین ہے جسے اللہ رب العزت نے بیش بہا نعمتوں سے نوازا ہے۔ قدرتی وسائل اور معدنیات سے مالا مال یہ وہ دیس ہے جہاں انواع و اقسام کے پھل و سبزیاں ہیں جہاں فلک بوس پہاڑی سلسلے اور برف پوش چوٹیاں ہیں۔ سرسبز و شاداب وادیاں ہیں توحد نظر تک پھیلے ہوئے سبزہ زار ہیں جہاں سطح مرتفع پوٹھوار، صحرائے تھل و چولستان اور زرخیز میدانی علاقے کی سونا اگلتی زمین ہے۔ جہاں جھیلوں کا صاف شفاف ٹھنڈا پانی اور پورے چاند کی رات میں سمندر کی لہروں کا قابلِ دید نظارہ ہے۔ دھرتی کے پانچ دریا مشہور ہیں اور پانچ ہی موسم۔ کبھی تو سردیوں کی یخ بستہ سرد ہوایں جسم و جاں کو گدگداتی ہیں تو کبھی گرمیوں میں سورج کی روشن رو پہلی کرنیں تن بدن میں زندگی کی نمو کا احساس جگاتی ہیں۔ مون سون کی پھوار قطرہ قطرہ روح کی پیاس بجھاتی ہے۔ خزاں کی زردی مائیوں بیٹھی دلہن کو شرماتی ہے تو بہار کے رنگ قوسِ قزاح کو زمین پر اتارکر خطہِ ارض کو گل و گلزار بنادیتے ہیں۔
یہ کشورِ حسین دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہے۔ اے وطن کے باسیوں اس وطن کو اپنا مکان نہیں گھر سمجھو کیونکہ یہ وطن ہماری پہچان، ہمارا تعارف اور حوالہ ہے۔ یوم آزادی صرف گھروں کو سبز ہلالی پرچموں، ہری بھری جھنڈیوں سے آراستہ و پیراستہ کرنے، عمارات کو رنگین برقی قمقموں سے سجانے، موٹر سائیکلوں کے سلنسر نکال کر ون ویلنگ کرنے کا نام نہیں۔ یہ تو دھرتی ماں سے تجدید عہد کا دن ہے، جذبہ حب الوطنی کی تائید کا دن ہے۔ خالقِ کائنات کے حضور سجدہ شکر بجا لانے اور دستِ دعا دراز کرنے کا دن ہے۔ یہ دن احتسابِ ذات کا دن ہے۔ تجدید عہد کا دن ہے۔
اس روز ہم سب کو خود سے یہ سوال کرنا ہوگا کہ کیا ہم نے دھرتی ماں کے شایانِ شان برتاؤ کیا ہے؟ اس کا مقام و مرتبہ بلند کرنے میں ہمارے اخلاق و ایمان کا پیمانہ کس قدر درست رہا؟ اس کے سائبان جیسے آنچل پر ہمارے نام کے کتنے مہتاب چمکتے ہیں؟ آؤ کہ ہم اپنی مادرِ گیتی کو روٹھنے سے پہلے منالیں۔ تجدید عہد کریں کہ اپنی ذمہ داریاں محنت لگن اور جانفشانی سے اداکریں گے اپنے بزرگوں کی طرح جہدمسلسل کو اپنا شعار بنائیں گے۔ یقیناً دوسری تمام ماؤں کی طرح ہماری ماں مٹی ہمارے عیوب کی پردہ پوشی کرکے ہمیں اپنی آغوشِ محبت میں لے لے گی۔ ہماری خود احتسابی نئی منزلوں کی تلاش میں مہمیز کا کام دے گی اور یہ ’’عید آزادی‘‘ ہمارے لیے حقیقی اور دائمی راحت کا باعث بن جائے گی۔