خدا کو کیوں مانیں؟ اورمذہب کو کیوں اپنائیں؟ (حصہ چہارم)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

وَ اَنَّہٗ خَلَقَ الزَّوۡجَیۡنِ الذَّکَرَ وَ الۡاُنۡثٰی.

(النجم، 53: 45)

اور یہ کہ اُسی نے نَر اور مادہ دو قِسموں کو پیدا کیا۔

مِنۡ نُّطۡفَۃٍ اِذَا تُمۡنٰی.

(النجم، 53: 46)

نطفہ (ایک تولیدی قطرہ) سے جبکہ وہ (رَحمِ مادہ میں) ٹپکایا جاتا ہے۔

دنیا کی کسی کتاب کا آغاز اس طرح کے چیلنج کے ساتھ نہیں کیا گیا کہ:

’’اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔‘‘

قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے جس میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ قرآن میں ارشاد ہے:

ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْهِ.

(البقرة، 2: 2)

’’(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے‘‘

گذشتہ نشستوں میں ہم نے جن سائنسدانوں اور ریسرچرز کا تذکرہ کیا ان میں سے ایک فرانسیسی سرجن ڈاکٹر موریس ایک آیت قرآنی پر غور کرکے مسلمان ہوا۔ دوسرا برطانیہ پولیس کا چیف کمانڈر 1993ء میں 4 سال تک قرآن مجید کا مطالعہ کرنے کے بعد 2 سبجیکٹس پر تحقیق کرنے کے بعد مسلمان ہوگیا۔ ڈاکٹر گیری ملر جو ٹورنٹو یونیورسٹی میں ریاضی اور منطق کے پروفیسر تھے انہوں نے قرآن مجید میں غلطیاں تلاش کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں حق کو پا گئے اور انہیں یہ معلوم ہوا کہ قرآن مجید غلطیوں سے پاک ہے۔

3اپریل 1995ء میں شیخ الاسلام نے کینیڈا کا دورہ کیا۔ وہاں ایک پروفیسر تھے ڈاکٹر کیتھ مور جن کی وفات 2019ء میں ہوئی۔ یہ یونیورسٹی آف ٹورنٹو میں اناٹمی اور ایمبریولوجی کے پروفیسر تھے۔ اور AACA کے چیئرمین تھے۔ بہت سی معروف کتابوں کے مصنف بھی ہیں ۔ شیخ الاسلام انہیں دعوت اسلام دینے کیلئے گئے تھے اور ان کی رہائشگاہ پر ہی ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ انہوں نے شیخ الاسلام کو اپنی دو کتب سائن کرکے تحفے میں دیں اور شیخ الاسلام نے انہیں اپنی 2 کتب Islam on Embryology & The Expansion of Universe دیں۔ وہ شیخ لاسلام کی کتب میں اپنی کتاب کے حوالہ جات دیکھ کر بہت خوش اور حیران ہوئے۔ ان کے ساتھ طویل نشست ہوئی۔ نشست کے اختتام پر شیخ الاسلام نے انہیں اسلام کی دعوت دی انہوں نے نہ ہی ہاں کہا اور نہ ہی ناں، لیکن بہت خوشگوار جواب دیا۔ ان کے جواب میں میں ان کی اسلام سے محبت اور اسلام کیلئے عقیدت جھلکتی تھی۔

انھوں نے واضح کردیا کہ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ محمد مصطفیﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں انھوں نے اس تحقیق کو 1980ء میں شروع کیا تھا اور میری ملاقات ان سے 1995ء میں ہوئی۔ پندرہ سال کی تحقیق کے بعد انھوں نے کہا میں نے جو کچھ قرآن پاک میں پایا ہے اس سوال کا جواب اس کے سوا کوئی اور نہیں کہ یہ اللہ رب العزت کی وحی ہے۔ وحی ربانی کا علم ہے جو قرآن مجید میں اترا اور ہم تک پہنچا۔ اگر اللہ کے وجود کو نہ مانیں، قرآن کو نہ مانیں اور حضور علیہ السلام کو سچا رسول نہ مانیں تو ایک سائنٹسٹ ہونے کے ناطے (مذہباً عیسائی ہوں) میرے پاس اس امر کا کوئی جواب نہیں کہ جو تحقیقات ہمیں اب 50 سال کے عرصے میں میسر آئیں کہ بچہ ماں کے رحم میں پیدا کیسے ہوتا ہے؟ کن کن مراحل سے گزرتا ہے کیا کیا جزئیات و تفصیلات ہیں یہ وہ معلومات ہیں جن کا ادراک سائنس کو 50 سال قبل ہوا ہے۔

1941ء کے بعد سائنس کو ادراک ہوا ہے۔ 20 ویں صدی سے پہلے چالیس سالوں میں بھی انسانیت کے پاس یہ معلومات نہیں تھیں مگر وہ معلومات مکمل درستگی کے ساتھ قرآن نے ساڑھے چودہ سال قبل فراہم کردیں۔ اس حیرت کا میرے پاس کوئی جواب نہیں سوائے اس کے کہ میں مانو کہ قرآن اللہ کی سچی کتاب ہے۔ حضور علیہ السلام اللہ کے سچے پیغمبر ہیں یہ اللہ کی وحی کے ذریعے نازل ہوا۔ اس کے بعد شیخ الاسلام کی ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔ ظاہراً ان کا اختتام کہاں پر ہوا اس کا علم نہیں ہے۔ معلوم نہیں کہ خاموشی سے انھوں نے اسلام قبول کرلیا ہو لیکن مجھے ان کے احوال کا علم نہیں۔

1980ء میں ڈاکٹر کیتھ مور کو دعوت دی گئی کہ سعودی عرب میں کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی میں ایمبریالوجی اور اناٹمی پر لیکچر دیں۔ وہ اس سبجکیٹ میں عالمی اتھارٹی رکھتے تھے۔ ان کی جتنی بھی کتب ہیں ان میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ جب کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی میں لیکچر دے چکے تو وہاں ایک ایمبریالوجی کمیٹی تھی۔ کمیٹی نے انہیں دعوت دی کہ ہمارے پاس قرآن مجید کی کچھ آیات ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کی تشریح آپ سے کروائیں۔ ایک اناٹمس اور سائنٹسٹ ہونے کے ناطے قرآن کیا کہہ رہا ہے۔ اس طرح آقا علیہ السلام کی کچھ احادیث مبارکہ ہیں ان کی تشریح کر دیں۔

ڈاکٹر کیتھ مور کہتے ہیں کہ جب میں نے قرآن کی آیات و حدیث کے ترجمے دیکھے تو میں دھنگ رہ گیا کہ قرآن و حدیث کے بیان اور فراہم کردہ موضوعات میں اتنی درستگی تھی کہ ماں کے پیٹ میں بچے کی نشوونما سے متعلق جس کا تصور آج سے چودہ سو سال پہلے روح زمین کا کوئی شخص نہیں کرسکتا تھا۔ چودہ سو سال قبل قرآن نے مکمل درستگی اور منظم تفصیل کے ساتھ وہ معلومات فراہم کردیں جو ابھی ہمیں 1995ء میں اس صدی کے 50 سال پہلے ملی ہیں۔ مغربی دنیا کے تمام اناٹمس اور ایمبریالوجسٹ کہتے ہیں کہ یہ جو علم ہے کہ بچہ رحم مادر میں کیسے پیدا ہوتا ہے اور کس طرح اس کی نشوونما ہوتی ہے۔ سولہویں صدی عیسوی تک جبکہ آج 21 ویں صدی ہے۔ آج سے 4، 5 سو سال پہلے تک پوری روح زمین پر ہر طرف ماں کے پیٹ میں بچے کی تخلیق و نشوونما کا بس وہی علم تھا جو ارسطو اور ان کے ہم زمانہ لوگوں نے دیا تھا۔ وہی علم عیسیٰ علیہ السلام سے دو سو سال بعد تک چلا آرہا تھا۔ سولہویں صدی تک اس میں ایک رتی کے برابر بھی ترقی نہیں ہوئی تھی۔

اس بات کو سمجھنے کے لیے یہ وضاحت ضروری ہے کہ جب نیوٹن آیا نیوٹن کے زمانے تک اور تب سارے سائنس دانوں کے پاس جو علم تھا کہ زمین ساکن ہےمتحرک نہیں۔ نیوٹن بھی اس پر یقین کرتا تھا اور سارے سائنس دان بھی اس پر یقین رکھتے تھے۔ 1915ء تک یہی علم تسلیم کیا جاتا رہا اور دنیا کے کسی خطے میں اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہر کوئی سمجھتا تھا کہ زمین ساکن ہے۔ 1915ء میں آئن سٹائن نے آکر زمین کے ساکن ہونے کا تصور بدلہ اور کہا زمین متحرک ہے۔ یہ تصور دے کر اس نے نیوٹن کے نظریہ کو رد کردیا مگر یہ ثابت نہیں کرسکا کہ کائنات وسیع بھی ہورہی ہے۔ 1922ء سے لے کر 1965ء تک 40 سالوں میں سائنس کی دنیا اس علم پر پہنچی کہ کائنات متحرک بھی ہے اور ہمہ وقت اس میں پھیلاؤ بھی ہورہا ہے۔ سائنس اس طرح درجہ بدرجہ ترقی کرتی رہی ہے۔ دو سو سال قبل یہ ترقی شروع ہوئی ہے۔ اس سے پہلے ہزار یا بارہ سو سال کے عرصہ کو Dark ages کہا جاتا ہے۔ کیونکہ مغربی دنیا اور یورپ اندھیرے میں تھا۔ لیکن اسلام اندھیرے میں نہیں تھا قرآن مجید اور حدیث مبارکہ کے علم کے نور کی وجہ سے یہ علوم واضحیت کے ساتھ موجود تھے۔

مغربی دنیا و سائنسدان ایک ہزار سال تک اسی اندھیرے میں ڈوبے رہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی مگر اسلام روشنی میں تھا۔ سرزمین مکہ و مدینہ سے نور چمکا تھا جس نے مسلم دنیا کو روشن کردیا تھا۔ قرآن و حدیث علوم اسلامیہ کے چشمہ نور سے آقا علیہ السلام کے غلاموں نے مراکز علم قائم کردیئے تھے۔

1915ء تک آئن سٹائن سے قبل دو ہزار سال تک سائنس رکی ہوئی تھی کہ ساری کائنات جامد ہے۔ اس طرح ایمبریالوجی کا علم بھی کہ ماں کے رحم میں بچہ کیسے پیدا ہوتا ہے اور کن مراحل سے گزرتا ہے اس پر سائنس سولہویں صدی تک رکی ہوئی تھی۔سولہویں صدی سے ایک ہزار سال قبل آقا علیہ السلام کی بعثت ہوئی۔ عرب میں تو علم نہیں تھا یہ تو ان پڑھ بدوں کا معاشرہ تھا جبکہ روم، ایران اور یونان کے جن خطوں میں علم تھا ان کو بھی ایمبریالوجی کا جدید علم نہیں تھا اس زمانے میں ایمبریالوجی میں کوئی ترقی نہیں ہوئی تھی۔ سترہویں صدی عیسوی میں مائیکروسکوپ ایجاد ہوئی تب جاکر مائیکرو سکوپ سے مطالعہ کیا جانے لگا مگر انسان کا مائیکروسکوپ مطالعہ ابھی تک نہیں کیا گیا حیوانوں کا کرتے رہے مگر انسان کا بطور خاتون بچہ کا رحم مادر میں سترھویں صدی عیسوی، اٹھارویں اور انیسویں میں بھی نہیں کرسکے۔ تین سو سال تک عورت کے رحم کے اندر بچے کی پیدائش کا مطالعہ مغربی سائنس میں نہیں ملتا اور اس کے بعد بھی تین سو سال تک نہیں ملتا۔ اب میں تاریخ کا ریکارڈ دے رہا ہوں ان بیٹے اور بیٹیوں کے لیے جو کہتے ہیں خدا کو کیوں مانے اور مذہب کو کیوں اپنائیں؟ جہاں سے یہ غلط فکر ملی ہے یہ ان سے سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ جو حقائق قرآن میں بتائے گئے ہیں کیا اس میں ایک غلطی بھی ہے؟ جو سائنس کا علم رکھتا ہے وہ کہے گا نہیں۔ وہ لوگ جو لوگوں کو منتشر کرکے یہ گمراہی پھیلارہے ہیں وہ خود سائنسدان نہیں نہ ہی تحقیق کی صلاحیت رکھتے ہیں گمراہی کا یہ عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر کیتھ مور لکھتے ہیں کہ ترقی ہوتی گئی انیسویں صدی آئی اس میں ابتدائی طور پر کوششیں ہونے لگیں کیونکہ مائیکرو سکوپ موجود تھیں۔

انسانی ایمبریو کا مطالعہ و مشاہدہ کیا جائے یہ کاوشیں آگے بڑھتی رہیں۔ حتی کہ بیسویں صدی عیسوی آگئی۔ 1914ء میں ایک سائنسدان موب نے انسانی ایمبریو ایک سیریز میں ترتیب دے کر اس کا مطالعہ شروع کیا مائیکروسکوپ تھی لیکن انسانی ایمبریو کی سٹڈی کے لیے کوئی سسٹم ڈویلپ نہیں ہوا تھا۔ 1941ء کے ایک سائنسدان نے مائیکرو سکوپ کی بنیاد پر ایک نظام وضع کیاجس نظام میں ماں کے رحم میں بچہ کی پیدائش، نشوونما کے مراحل کو سٹڈی کیا جاسکتا ہے۔ یہ سٹڈی 1914ء کے بعد ہوئی۔ آج سے 83 سال قبل اس علم تک رسائی ہوئی کہ ماں کے رحم میں بچے کی پرورش کن مرحلوں میں ہوتی ہے۔ ایمبریو ڈویلپمنٹ کس طرح سٹیجز میں ہوتی ہے اس کا مطالعہ 1980ء سے پہلے اور 1941ء کے بعد ہوا۔

اس سے قبل کسی مغربی دنیا میں اس کا علم نہیں تھا۔ پھر یہی سسٹم 1973ء میں مزید ڈویلپ ہوا۔ ایک اور سائنس دان آیا اس نے اسی مطالعہ کو بڑی تفصیل سے واضح کرنے کے طریقے واضح کردیئے۔ درج بالا ساری وضاحت ایک بیک گراؤنڈ ہے تاکہ جب قرآن مجید کی وضاحت دوں تو پتہ ہو کہ قرآن کس وقت میں نازل ہوا سائنس اس تحقیق کو کب واضح کررہی ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔ جتنی معلومات آئیں ہیں یہ ساری معلومات سائنس کو اور سائنسدانوں کو 1941ء کے بعد ملیں۔ اس سے پہلے کسی کو کوئی خبر نہیں تھی۔ 1941ء کے بعد انسانیت کو علم حاصل ہوا۔

پیدائش کیسے ہوتی ہے؟ مرد کی طرف سے تولیدی مادہ چلتا ہے جس کو آپ منی کہتے ہیں۔ جب میاں بیوی کا ملاپ ہوتا ہے۔ مرد کی طرف سے جو سیل آتے ہیں۔ اس کو سپرم کہتے ہیں۔ مرد کا جو مادہ نکلتا ہے اس کے اندر سپرم ہوتے ہیں انڈا کو اووم کہتے ہیں جو عورت کی بیضا دانی سے نکلتا ہے اس کو اوری کہتے ہیں۔ مرد کا مواد انڈے میں اووری میں داخل ہوتا ہے۔ سائنس نے بتایا جب یہ داخل ہوتے ہیں۔اس وقت مرد کی منی کے اندر 2 کروڑ سے 4 کروڑ سپرم ہوتے ہیں۔ اتنا بڑا عدد کس نے پیدا کردیا؟ یہ نظام کس نے بنایا ہے دو کروڑ سے 4 کروڑ ایک بار میں جاتے ہیں۔ ان دو کروڑ سے چار کروڑ سپرمز نے جانا کہاں ہوتا ہے؟ اووم تک انڈے تک وہ ان کی منزل ہے۔ (انڈا) وہ انتظار کررہا ہوتا ہے ماں کی بیضا دانی کے باہر فلوپین ٹیوب میں یہ انڈا نہیں دوڑکر جاتا بلکہ سپرم دوڑ کر جاتے ہیں۔ ان کی منزل اس انڈے تک پہنچنا ہوتی ہے۔ لہذا سپرم سفر پر چلتے ہیں۔ دو کروڑ یا چار کروڑ کوئی راہ میں مرجاتا ہے کئی بھٹک جاتے ہیں کئی راہ میں گم ہوجاتے ہیں کچھ تھک ہار کر بیٹھ جاتےہیں اس انڈے کی منزل تک صرف دو سو پہنچتے ہیں۔

اس بات میں روحانی تربیت کی ایک بات ہے کہ اللہ کو پانے کا سفر بہت لوگ شروع کرتے ہیں اللہ کی رضا سفر، نیکی و تقویٰ کا سفر ایمان کے استحکام کا سفر مگر سفر میں مشقتیں و رکاوٹیں آتی ہیں۔ پریشانیاں آتی ہیں۔ ان مشقتوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے، اس کو صبرو استقامت کہتے ہیں جو راہ چھوڑ بیٹھیں۔ راہ میں بھٹک جائیں، ہارجائیں، بیٹھ جائیں وہ منزل پر نہیں پہنچتے جس طرح تولیدی مادے میں سپرم دوکروڑ چلے تھے منزل پر پہنچے دو سو۔ سفر تو شروع ہر کوئی کرتا ہے مگر پہنچتا کوئی کوئی ہے۔ اللہ ہمیں ان میں شامل کرے جو منزل تک پہنچتے ہیں۔ ہر انسان کی تخلیق کے نظام کے اندر اللہ رب العزت نے یہ اصول رکھ دیا ہے۔ منزل پر دو سو پہنچ گئے اب اس (انڈے) میں داخل ہونا ہے۔ ملاپ ہوگا تو اس کے نتیجے میں نئی زندگی کا آغاز ہوگا۔ پہنچے 2 سو تھے مگر اندر داخلہ صرف ایک کو ملتا ہے۔ یہ کم ہوتا ہے کہ ایک وقت میں دو داخل ہوں تو دو بچے پیدا ہوجاتے ہیں۔ یونہی ایک سپرم اپنا سر داخل کرتا ہے۔ اس میں سیل ممبرین میں فوری تبدیلی آتی ہے۔ وہ سخت ہوجاتا ہےایک داخل ہوتا ہے باقی ساروں کا راستہ بند ہوجاتا ہے۔ وہ جھلی کسی اور کو داخل ہونے ہی نہیں دیتی کون ہے وہ ذات جو ان امور کی تدبیر کرنے والی ہے؟ آپ کررہے ہیں؟ مرد کررہا ہے؟ عورت کررہی ہے یا اللہ کرتا ہے؟ ہمیں تو یہ شعور ہی نہیں کہ اندر کیا ہورہا ہے تو ہے نا کوئی تدبیر کرنےوالا جو ایک سپرم کو دو کروڑ سے چار کروڑ سپرم بناکر چلاتا ہے۔ کوئی تو ہے جس نے یہ امر دے رکھا ہے۔

انڈے کو کس کا حکم ہے کہ تو بیضہ دانی کے باہر کھڑا رہ اور انتظارکر اور تو منزل ہے مسافر آرہے ہیں انہیں تو پہنچنے دے کوئی تو ہے جو انڈے کو فلوپین ٹیوب میں روکے رکھتا ہے۔کوئی تو ہے جو ایک کو داخل کرکے جھلی کو اس طرح بند کردیتا ہے کہ کوئی اور نہ جاسکے۔ جب سپرم داخل ہوجاتا ہے تو ان کا جب ملاپ ہوتاہے۔ لہذا سپرم اور اووم جب ملتے ہیں اس کو فرٹیلائزیشن آف ایگ کہتے ہیں۔ مرد اور عورت کا خلیہ مل کر ایک نیا خلیہ بن جاتا ہے۔ اس کا نام ہے زائیگوٹ اس کو نطفہ کہتے ہیں۔ اس کے داخل ہوتے ہی جو کوئی انسان تشکیل پانا ہے اس کے سارے فیصلے ہوجاتےہیں۔ سارے افعال،خصوصیات تیار ہوجاتے ہیں۔ اس نے کیا بننا ہے فیصلہ ہوجاتا ہے۔ یہ انڈا دو دن تک اپنا سفر شروع کرتا ہے فلوپین ٹیوپ کے اندر یوٹرس کی طرف جانے کے لیےجہاں بچے نے آرام پکڑنا ہے۔ دو دنوں میں سفر شروع کرتا ہے پھر ٹیوب میں واپس چار، پانچ دن اور لگاکر وہ یوٹرس میں استقرار پکڑ لیتا ہے۔ یوٹرس کی لائننگ ہوتی ہے اس کے ساتھ جاکر لٹک جاتا ہے۔ جب سکونت اختیار کرلیتا ہے تب کہتے ہیں حمل ٹھہر گیا ہے۔ اس کو جنین کہتے ہیں۔ پھر اس کی زندگی کی نشوونما شروع ہوتی ہے۔ جب مرد کا سیل اور عورت کا خلیہ ملے تھے تو نیا سیل بنا تھا اس کو نطفہ کہتے ہیں۔ جب مرد اور عورت کی سیلز ملتے ہیں تو دونوں کی طرف سے کروموسومز کی ایک تعداد آتی ہے جن میں سے دو مرد کے سیکس کروموسومز ہوتے ہیں اور دو عورت کی طرف سے سیکس کروموسومز ہوتے ہیں۔ جب زائیگوٹ بنتا ہے اس میں 46 کروموسومز ہوتے ہیں۔ جنس متعین کرنے کے لیے اب جو مرد کے پاس کروموسومز ہیں وہ دو قسموں کے ہیں ایک کا نام ہے xاور دوسرے کا نام y ہے مرد کے اندر دو yآتے ہیں۔ عورت کے پاس جو کروموسومز ہے وہ صرف x ہے عورت کے پاس y نہیں ہوتا دو x ہوتے ہیں اور دونوں ایکس xx ہوتے ہیں۔ مرد کے اندر سے جو کروموسومز آتے ہیں اس میں کروموسومزx ہے اور y بھی ہے۔ اگر تو x کروموسومز فرٹیلاز کرے تو بیٹی پیدا ہوتی ہے کیونکہ عورت کے پاس y ہوتا ہی نہیں عورت کے پاس دونوں xx ہوتے ہیں۔ مرد کے پاس مرد والا کروموسوم بھی اور عورت والا بھی ہے۔ مرد کا x چلا گیا تو بیٹی پیدا ہوتی ہے۔ بیٹا اس صورت میں پیدا ہوتا ہے جب مرد کی طرف سے yفرٹیلاز کرے عورت کے پاس x تھا جب مرد کا y ملا تو وہ فیصلہ کردیتا ہے کہ بیٹا پیدا ہوگا۔ بہت سارے والدین جو کہتے ہیں ہماری بیٹیاں ہی بیٹیاں ہیں بیٹا نہیں ہورہا۔ کئی مائیں اپنے بیٹوں کی نئی شادیاں کروادیتی ہیں۔ میں ان کو کہنا چاہتا ہوں اس میں قصور کسی کا نہیں ہے خاص طور پر اس میں آپ کی بہو کا قصور ہی کوئی نہیں۔ بہو کے پاس تو دونوں xx تھے اگر قصور ہے تو آپ کے بیٹے کا ہے۔ x اور y کا فیصلہ آپ کے بیٹے کی طرف سے ہونا ہے ۔ عین جس وقت ملاپ ہوتا ہے y زائیگوٹ میں چلاجائے تو بیٹا بن جائے گا۔ اور اگر x چلا جائے تو بیٹی بن جائے گی۔ یہ عین اس وقت پر فیصلہ ہوجاتاہے۔

(جاری ہے)