اسلام نے انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیتے ہوئے اس کی عظمت کا کھلے لفظوں میں اعتراف کیا ہے اور کہا ہے کہ اللہ رب العزت نے انسان کو بہترین انداز اور نمونے پر بنایا ہے۔ دین اسلام کا جو تصور انسان سے متعلق ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اپنی طبیعت، ترکیب، اپنے کردار اپنے مقصد وجود اور اپنے انجام کے لحاظ سے اس ساری کائنات میں منفرد ہے۔ دنیاوی زندگی اس کے لیے امتحان گاہ ہے۔ جس کے ذریعے اس کے اعمال کا حساب ہوگا اور یہی اعمال اس کا انجام متعین کریں گے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں (سورہ الحجر: 28، 29) میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی اور تری میں سواریاں عطا کی اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فوقیت بخشی۔‘‘
پھر سورۃ (التین: 4) میں فرمایا:
’’ہم نے انسان کو بہت خوبصورت سانچے میں ڈھالا ہے۔‘‘
اسلام نے انسان کوجو عظمت عطا کی ہے یا اس کی بحیثیت اشرف المخلوقات جو خوبیاں بیان کی ہیں ان کو دیکھتے ہوئے حضرت اقبال کہتے ہیں:
تو رازِ کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہوجا
خودی کا راز داں ہوجا خدا کا ترجماں ہوجا
خودی میں ڈوب جا غافل یہ سرِّ زندگانی ہے
نکل کر حلقہ شام و سحر سے جاوداں ہوجا
علامہ اقبال کے فلسفہ خودی کے تمام بنیادی مضامین درحقیقت قرآن مجید سے ماخوذ ہیں اور قرآن مجید میں فضیلتِ انسان، تسخیرِ فطرت، عزم و استقلال، جرات و شجاعت کا حمیت و غیرت اور قدرت و اختیار پر بکثرت آیات موجود ہیں۔
حضرت اقبال اپنی مشہورِ عالم تصنیف ’’اسرار خودی‘‘ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:
خودی سے میری مراد غرور یا تکبر نہیں ہے بلکہ اس سے مراد یہ قول ہے کہ من عرفہ نفسہ فقد عرفہ ربہ جس نے اپنے آپ کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔
خودی اس قدر طاقتور شے ہے کہ اگر اس خودی کو بالکل مطلق العنان چھوڑ دیا جائے تو وہ ایک شیطانی قوت بن جاتی ہے۔ لہذا اس میں اعتدال پیدا کرنے کے لیے اس کو کسی آئین کا پابند بنانا ضروری ہے۔ اسی لیے اقبال اپنے خطوط میں لکھتے ہیں کہ:
دین اسلام جو ہر مسلمان کے عقیدہ کی رو سے ہر شے پر مقدم ہے، نفس انسانی اور اس کی مرکزی قوتوں کو فنا نہیں کرتا بلکہ ان کے عمل کے لیے حدود متعین کرتا ہے۔ ان حدود کے معین کرنے کا نام اصطلاحِ اسلام میں شریعت یا قانون الہٰی ہے۔ خودی خواہ مسولینی کی ہو یا ہٹلر کی، قانون الہٰی کی پابند ہوجائے تو مسلمان ہوجاتی ہے۔
گویا حدود خودی کے تعین کا نام شریعت ہے اور شریعت کو اپنے قلب کی گہرائیوں میں محسوس کرنے کا نام طریقت ہے۔ علامہ اقبال نہایت بلند فہمی سے واضح کرتے ہیں کہ خودی کو پالینے کے بعد اس معرفتِ ذات کو قوم و ملت کے لیے وقف کردینا ہی انسان کی معراج ہے۔ علامہ اقبال نے اسی بناء پر اسرار خودی کے بعد رموزی خودی لکھ کر اس کی تکمیل کی اور فرد کا رشتہ ملت کےساتھ قائم کیا۔ گویا فرد پہلے اپنی ذات میں موجود صفات عالیہ کو پہچانے ان کو نکھارے اور پھر ان تمام مہارتوں کو قومی مفاد میں پیش کردے۔ اقبال نے نزدیک انسان کی خودی کی حقیقی تکمیل اور فرد و ملت کا حقیقی ربط صرف اسلام ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ اس لیے کہ اسلام میں فرد اور ملت کا رشتہ و اتحاد نسل یا وطن کا محدود تصور نہیں بلکہ توحید اور رسالت کا وسیع اور ہمہ گیر عقیدہ ہے۔
بنی نوع انسان اپنے ارادے اور عمل کے ذریعے اپنے آپ کو جس سانچے میں چاہے ڈھال سکتا ہے۔ا سی تخلیقی آزادی کی بنا پر انسان کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کہ وہ نہ مجبور ہے نہ مختار بلکہ ان دونوں کے درمیان ایک متحرک زندہ طاقت ہے۔ اسی متحرک اور زندہ طاقت ہونے کی وجہ سے انسان اپنے اعمال و افعال میں آزاد اور اس کا ذمہ دار ہے اور اسی عمل آزادی کی بنا پر انسانی خودی کی نشوونما ہوتی ہے۔ شاعر مشرق بیان کرتے ہیں:
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
ناچیز جہانِ مہ و پرین پرے آگے
وہ عالم مجبور ہے تو عالم آزاد
حضرت اقبال یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ خدا کے مقابلے میں انسان ایک بے بس و مجبور اور عاجز درماندہ ہستی ہے لیکن خدا کی پیدا کردہ کائنات کے مقابلے میں انسان کو فوقیت حاصل ہے۔ گویا انسان اپنی عقل اور ایجاد و اختراع کی اہلیت کو بروئے کار لاکر جب مظاہر قدرت کو اپنی تعمیر و ترقی کے لیے استعمال کرتا ہے تو اشرف المخلوقات ہونے اور نیابتِ الہٰی کا حق ادا کرتا ہے۔ اس ضمن میں حکیم الامت نہایت دلکش انداز میں انسان کی صلاحیت کو یوں سراہتے ہیں:
تو شب آفریدی، چراغ آفریدم
سفال آفریدی، ایاغ آفریدم
بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم
من آنم کہ از زبر نوشینہ سازمؔ
شاعر مشرق کا تمام کلام بنی نوع انسان کی اصلاح اور عمل پیہم کے پیغامات سے بھرا ہوا ہے۔ بے شک انسان کو جو اختیار ملا ہے وہ لامحدود نہیں ہے بلکہ ایک حد کے اندر ہے لیکن اقبال اسی محدود اختیار سے عشق:
سرحدکا ہے مومن کوئی پنجاب کا مومن
ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآں کا مومن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
دوسری جانب فکر اقبال میں مسائل قومی کا حل تلاش کرتی ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقبال کے مطابق ’’فرد‘‘ ملت سے وابستہ ہے۔ اس سے الگ ہیچ ہے۔ گویا فرد کی خودی جب ملت کی خودی میں گم ہوجاتی ہے تو بڑی برکتوں کا باعث ہوتی ہے۔ بقول اقبال:
فرد تا اندر جماعت گم شود
قطرہ وسعت طلب قلزم شود
گویا ہمارے دیس کے مسائل کا حل اگر ہے تو وہ یہ ہے کہ ملک و ملت کی ترقی اور قیام امن کی کاوشوں میں قوم کا ہر ’’فرد‘‘ اپنی بساط بھر خدمات ضرور سرانجام دے۔ فرد واحد کبھی بھی ملکی و قومی سطح پر بہتری کا ضامن نہیں ہوسکتا۔ لیکن یہی فردِ واحد جب اپنی سوچ یہ بنالے کہ ملک کا ہر محبِ وطن یکجا ہوکر ملک و قوم کی سلامتی اور ترقی کی ہر ممکن کوشش کرے گا تو یہ منظم کوششیں ملک و ملت کی ترقی و بحالی میں ضرور کارگر ہوں گی۔ ان شاء اللہ