علم اور علماء کی فضیلت قرآن و حدیث کی روشنی میں

سعدیہ کریم

تعارف

علم عربی زبان کا لفظ ہے یہ باب علم یعلم سے مصدر ہے اور اس کا مادہ اشتقاق ع، ل، م ہے۔ اس سے تفعیل کے وزن پر تعلیم اور تفعل کے وزن پر لفظ تعلم ہے۔ اسی مادے سے علیم اور علام بطور مبالغہ اسم فاعل عالم کے قرآن مجید میں ذکر ہوئے ہیں۔ معلوم اسم مفعول بھی اسی سے نکلا ہے۔

عربی لغت کے مطابق

لفظ علم کا معنی ہے ادراک الشئی بحقیقتہ یعنی کسی شے یا چیز کی حقیقت کو جان لینا۔ اردو زبان میں لفظ علم کا معنی ہے جاننا، واقفیت، آگاہی حاصل کرنا۔

اصطلاحی تعریف

ہر اہل علم و فن نے اپنے علمی و فنی ذوق، مہارت اور پس منظر کو پیش نظر رکھتے ہوئے علم کی تعریف وضع کی ہے بعض نے کہا کہ علم ایک ایسی صفت ہے جس کے ذریعے اشیاء کے حقائق کی معرفت اور حقیقت کا ادراک ہوتا ہے۔ بعض نے کہا کہ علم، عالم اورمعلوم کے درمیان صفت اضافیہ کا نام ہے۔ بعض حکماء نے کہا کہ کسی شے کی صورت کا عقل میں حاصل ہونا علم ہے۔متکلمین نے کہا کہ عالم کےذہن میں کسی چیز کا انکشاف علم ہے۔

محدثین کی اصطلاح میں علم کی تعریف

ملا علی قاری لکھتے ہیں:

علم، مومن کے قلب میں ایک نور ہے جو فانوس نبوت کے چراغ سے مستضاد ہوتا ہے یہ علم نبی کریمﷺ کے افعال اور احوال کے ادراک کا نام ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات، افعال اور اس کے احکام کی ہدایت حاصل ہوتی ہے یہ علم کسی انسان کےو اسطے سے حاصل ہو تو کسبی ہے اور اگر بلاواسطہ حاصل ہو تو لدنی ہے۔علم لدنی کی تین اقسام ہیں:

  1. وحی
  2. الہام
  3. فراست

۱۔ وحی کا لغوی معنی ہے سرعت سے اشارہ کرنا اور اصطلاح میں وحی وہ کلام الہٰی ہے جو نبی کی طرف حضرت جبرائیل علیہ السلام کے واسطے سے نازل کیا جائے۔

۲۔ الہام کا لغوی معنی ہے۔ ابلاغ اور اصطلاح میں وہ علم حق ہے جس کا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر القاء کرتا ہے اور انہیں امور غیبیہ پر مطلع فرماتا ہے۔

۳۔ فراست وہ علم ہے جس میں ظاہری صورت کو دیکھ کر امور غیبیہ منکشف ہوتے ہیں۔ الہام میں ظاہری صورت کا واسطہ نہیں ہوتا۔ بلاواسطہ کشف ہوتا ہے اور فراست میں ظاہری صورتوں کا واسطہ ہوتا ہے۔ الہام اور وحی میں فرق یہ ہے کہ الہام وحی کے تابع ہوتا ہے جبکہ وحی الہام کے تابع نہیں ہوتی۔ وحی سے حاصل ہونے والا علم قطعی ہوتا ہے۔

ان تمام تعریفات کے مطابق علم کسی چیز کو اس کی حقیقت کے حوالے سے جان لینے کا نام ہے یعنی علم ایکسا تصور اور ذہنی قضیہ ہے جو عالم خارج میں موجود کسی نہ کسی حقیقت کو جان لینے سے عبارت ہے۔ علم یقین دلائل سے حاصل ہوتا ہے۔ عین الیقین مشاہدہ سے حاصل ہوتا ہے اور حق الیقین تجرد سے واصل ہونے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔

علم کی ان تمام تعریفات پر غوروفکر کرنے سے علم کی تین صورتیں سامنے آتی ہیں۔

۱۔ ادراک ۲۔تصور ۳۔ یقین

یعنی کسی شے کی حقیقت کا ادراک علم ہے اور ادراک حواس خمسہ کی مدد سے کسی شے کے بارے میں جاننے سے عبارت ہے اور اس ادراک کے بعد اس شے کے بارے میں یقین اور پختہ اعتقاد ہے۔

علم کی اقسام

جس طرح علم کی مختلف تعریفات ہوئی ہیں اسی نسبت سے علم کی مختلف اقسام بھی متعین کی گئی ہیں۔

تقسیم اول: علم کی تقسیم اول کسی شے کے ادراک کے حوالے سے کی گئی ہے اس کے مطابق علم کی دو قسمیں ہیں:

۱۔ کسی شے کی ذات کا ادراک کرلینا

۲۔ ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو اس کے لیے ثابت ہو یا ایک چیز سے دوسری چیز کی نفی کرنا۔

تقسیم ثانی: یہ تقسیم بھی دو اقسام پر مشتمل ہے:

۱۔ علم نظری (جو علم حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے)

۲۔ علم عملی (وہ علم جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے)

تقسیم ثالث: تقسیم ثالث میں بھی مزید دو اقسام ہیں:

۱۔ علم عقلی (وہ علم جو صرف عقل کی بنیاد پر حاصل ہو)

۲۔ علم سمعی (وہ علم جو بذریعہ نقل و سماعت حاصل کیا جائے)

تقسیم رابع: امام جرجانی نے بھی علم کی دو اقسام بیان کی ہیں:

۱۔ علم قدیم (وہ علم جو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ قائم ہے)

۲۔ علم حادث (اس کی مزید تین اقسام ہیں):

۱۔ علم بدیہی ۲۔ علم ضروری ۳۔ علم استدلالی

لفظ علم کا قرآنی مفہوم

صاحب قاموس القرآن کے مطابق قرآن مجید میں لفظ علم تین صورتوں میں آیا ہے۔

۱۔ علم بمعنی رویت

علم بمعنی رویت کا مطلب ہے دیکھنا یعنی جو علم دیکھنے یا مشاہدہ کرنے سے حاصل ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ولما یعلم اللہ الذین جاھدوا منکم۔

حالانکہ اللہ نے ایسے لوگوں کو متمیز نہیں فرمایا جنھوں نے تم میں سے جہاد کیا ہے۔

۲۔ علم بمعنی جاننا

یعنی وہ علم جو جاننے سے حاصل ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَاﷲُ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ۔ (النحل، ۱۶: ۱۹) ’’ اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو۔‘‘

۳۔ علم بمعنی اذن

یعنی اجازت یا حکم۔ اس کے بارے میں ارشادہوتا ہے:

فاعلموا انما انزل بعلم اللہ۔

تو جان لو کہ قرآن فقط اللہ کے علم سے اتارا گیا ہے۔

علم دین کے مشمولات

امام ابو بکر احمد بن حسین بیہقی لکھتے ہیں کہ جب علم کا لفظ مطلقاً بولا جائے تو اس سے مراد علم دین ہوتا ہے اور اس کی متعدد اقسام ہیں:

۱۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت کا علم، اس کو علم الاصل کہتے ہیں۔

۲۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ چیزوں کا علم، اس میں علم نبوت اور علم احکام اللہ شامل ہیں۔

۳۔ کتاب و سنت کی نصوص اور ان کے معانی کا علم، اس میں مراتب نصوص، ناسخ و منسوخ، اجتہاد، قیاس، صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے اقوال کا علم اور ان کے اتفاق اور اختلاف کا علم شامل ہے۔

۴۔ جن علوم سے کتاب و سنت کی معرفت اور احکام شریعہ کا علم ممکن ہو اس میں لغت عرب، نحو، صرف اور محاورات عرب کی معرفت شامل ہے۔

مترادفاتِ علم

مترادفاتِ علم سے مراد وہ الفاظ ہیں جو لفظ علم کا معنی و مفہوم رکھتے ہیں اور قرآن مجید میں نازل ہوئے ہیں انہیں امام فخرالدین الرازی نے ذکر کیا ہے ان میں ادراک، شعور، تصور، حفظ، تذکر، ذکر، معرفت، فہم، فقہ، عقل، درایت، حکمت، علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین، ذہن، فکر، حدس، ذکاء، الخاطر، وہم، ظن، خیال، البدیہۃ، اولیات، الرویۃ، الکیاسۃ، الخبرۃ، الرای، فراست الہامی، فراست استدلالی شامل ہیں۔

علم آدم کے شرف کی بنیاد ہے

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے علم ہی وہ خوبی ہے جو انسان کو باقی مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے اور اسی علمی خوبی کی سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو مسجود ملائک ہونے کا شرف عطا فرمایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّھَا ۔ (البقرہ، ۲: ۳۱)

اور اللہ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے۔

اس آیت کی تفسیر میں امام قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں علم اور اہل علم کی فضیلت کی دلیل ہے۔ حضرت آدمؑ کو اللہ تعالیٰ نے نہ صرف علم الاسماء سے نوازا گیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو آپ کی علمی برتری کا عملی مشاہدہ بھی کروایا اور آدمؑ کو حکم دیا کہ اے آدمؑ تم انہیں ان اشیاء کے ناموں سے بھی آگاہ کرو۔ آدم علیہ السلام نے جب تمام نام بتائے تو فرشتے حیران ہوگئے یہ مشاہدہ فرشتوں کے لیے ایک ایسی تجربی توثیق کا درجہ رکھتا تھا جس کے بعد حضرت آدمؑ کی علمی فضیلت میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہی۔

علم انسان کی امتیازی خصوصیت

اسلام میں علم کی بہت زیادہ اہمیت ہے اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب کے ذریعے جس کلام کو انسانی رابطے کا نقطہ آغاز قرار دیا اور جہاں سے ہدایت ربانی عالم انسانی کی طرف اترنا شروع ہوئی اس کا پہلا پیغام علم ہی تھا۔ سورہ علق کی پہلی پانچ آیات میں پڑھنے کا ہی حکم دیا گیا تھا جو اس بات کا مظہر ہے کہ اسلام اول تا آخر علم کا پیغام ہے۔

اسلام علم پر اس قدر زور دیتا ہے کہ کسی سطح پر جہالت کو گوارا نہیں کرتا۔ قرآن نے علم کوانسان کی امتیازی خصوصیت قرار دیا ہے۔ عالم اور جاہل کبھی برابر نہیں ہوسکتے کیونکہ علم روشنی اور جہالت تاریکی ہے۔علم ہدایت ہے اور جہالت گمراہی ہے۔ علم انسان میں احساس بندگی کو اجاگر کرتا ہے اور اس کے اندر سے احساس برتری اور غوروفکر کو ختم کردیتا ہے۔

عالم کی تعریف

علم خشیت الہٰی کا باعث ہے علم کی فضیلت قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح کی گئی ہے۔ علم حاصل کرنے والے اور علم کے منبع کو عالم کہا جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنَّمَا یَخْشَی اﷲَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا ۔ (الفاطر، ۳۵: ۲۸)

درحقیقت اللہ کے بندوں میں سے صرف علماء اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں۔

اس آیت مبارکہ میں علماء سے مراد وہ نہیں ہیں جو صرف تاریخ، فلسفہ اور دنیاوی مروجہ علوم کے عالم ہوں بلکہ اس سے مراد علماء دین ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے عالم ہوں، قرآن، حدیث اور فقہ کی کتب پر عبور رکھتے ہیں۔ ان کو اتنی مہارت ہوتی ہے کہ وہ عقیدہ اور عمل سے متعلق ہر مطلوبہ مسئلہ کو متعلقہ کب سے اخذ کرسکتے ہیں۔ ان کے دل میں خوف خدا کا غلبہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ علم کے تقاضوں پر عمل کرتے ہیں۔

عالم/ علماء کی مختلف تعریفات

مالک بن مغول روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے شعبی سے پوچھا کہ مجھے بتایئے عالم کون ہے؟ انھوں نے کہا کہ عالم وہ ہے جو اللہ کا خوف رکھتا ہو۔

حسن بیان کرتے ہیں کہ عالم وہ ہے دنیا سے بے رغبتی کرلے، آخرت میں رغبت رکھے۔ اس کو اپنے دین پر بصیرت ہو اور اپنے رب کی عبادت پر دوام اور ہمیشگی کرتا ہو۔مجاہد فرماتے ہیں کہ عالم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو۔

عالم/ علماء کے لیے بلندی درجات کا وعدہ

اللہ تعالیٰ اہل علم کے درجات کو بلند فرماتا ہے اس کا وعدہ قرآن مجید میں کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یَرْفَعِ اﷲُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ لا وَالَّذِیْنَ اُوْتُو الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ۔ (المجادلہ، ۵۸: ۱۱)

اللہ اُن لوگوں کے درجات بلند فرما دے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم سے نوازا گیا۔

جب کسی انسان کو عالم کا درجہ عطا ہوتا ہے تو اس کی عزت اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ قرآن و حدیث میں علماء کی بہت سی فضیلتیں ذکر کی گئی ہیں۔

عالم کی فضیلت قرآن و حدیث کی روشنی میں

قرآن مجید کی بے شمار آیات میں علماء کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ

قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۔

اے نبی آپ فرمادیجئے کیا جو لوگ جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے برابر ہیں؟ (الزمر، ۳۹: ۹)

وَ تِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُھَآ اِلَّا الْعَالِمُوْنَ۔

اور یہ مثالیں ہم جن لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں ان کو صرف علم والے سمجھتے ہیں۔ (العنکبوت، ۲۹: ۴۳)

ان آیات میں عالم اور علماء کے مقام کو بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ احادیث مبارکہ میں بھی علماء کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ چند احادیث درج ذیل ہیں:

۱۔ حضرت معاویہؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ جس شخص کے لیے خیر کا ارادہ فرمالے اس کو دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔‘‘

۲۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص علم کے حصول کے لیے کسی راستہ پر چلا اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کی طرف راستہ آسان کردیتا ہے۔

اسی طرح ایک اور حدیث کے مطابق

۳۔ حضرت ابوالدرداءؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا: جو شخص علم کی طلب میں کسی راستہ پر گیا اللہ تعالیٰ جنت کے راستوں کو اس کے لیے آسان کردیتا ہے اور فرشتے اس کی رضا کے لیے اپنے پرجھکاتے ہیں۔ آسمانوں اور زمین کی تمام مخلوق اس کے لیے دعا کرتی ہے حتی کہ پانی کی مچھلیاں بھی۔ اور بے شک عالم کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے اور بے شک علماء کرام انبیاء کرام کے وارث ہیں۔

۴۔ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ایک عالم شیطان پر ایک ہزار عابدوں کی نسبت زیادہ سخت ہوتا ہے۔

۵۔ حضرت ابوامامہ باہلیؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے دو شخصوں کا ذکر کیا گیا ان میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم تھا۔ پس آپﷺ نے فرمایا عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح ہے جس طرح میری فضیلت تم میں سے کسی ادنیٰ شخص پر ہے اور بے شک اللہ اور اس کے فرشتے اور تمام آسمانوں اور زمینوں والے حتی کہ چیونٹیاں بھی اپنے بلوں میں اور حتی کہ مچھلیاں بھی پانی میں نیکی کی تعلیم دینےو الے پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں۔

۶۔ حسان بن سنان بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا عالم جاہلوں کے درمیان اس طرح ہے جس طرح زندہ مردوں کے درمیان ہو۔

۷۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا طالب علم، طالب رحمت ہے، طالب علم، اسلام کا رکن ہے۔ اس کو نبیوں کے ساتھ اجر دیا جائے گا۔

۸۔ حضرت عمارؓ اور حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے علم طلب کرنے والا اس شخص کی مثل ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے صبح اور شام جہاد کرنے والا ہو۔

یہ تمام احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ علماء کا مقام دنیا اور اخرت میں بہت بلند ہے۔ ان تمام احادیث سے علم حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کا در س ملتا ہے اور علم اور علماء کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔

حاصل کلام

دنیا کی ہر چیز فانی ہے ہر کمال کو زوال ہے۔ ہر آباد کو برباد ہونا ہے۔ دن کے ساتھ رات، روشنی کے ساتھ تاریکی، امیری کے ساتھ غریبی، تندرستی اور بیماری غرض یہ کہ دنیا کی ہر چیز ختم ہوجائے گی لیکن علم ایک ایسی دوا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔

علم ایک ایسا نور ہے جو جہالت کی تاریکی کو دور کرتا ہے اور انسان کو گناہوں کے اندھیرے میں بھٹکنے سے بچاتا ہے۔ علم ایک ایسی نیکی ہے جو ہمیشہ انسان کا نام قائم رکھتی ہے۔ یہ صدقہ جاریہ ہے۔ علم کا حاصل کرنا اور اسے پھیلانا ہر مسلمان کے لیے لازم ہے۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے۔ علم خزانے کی کنجی ہے۔

ہر مسلمان کے لیے دنیا کے ساتھ ساتھ دین کا علم حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ دین کا علم ہی اصل علم ہے۔ اس بارے میں امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ عوام کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام فرائض، واجبات، سنن اور آداب، تمام مکروہات ومحرمات کا علم حاصل کریں اور خواص کے لیے ضروری ہے کہ وہ احکام شریعہ کی تمام فروعات، قرآن مجید کی صریح عبارات، دلالت اشارات اور اقتضاء نصوص کا علم حاصل کریں قیاس اور اس کی شرائط کا علم حاصل کریں اور ایسی مہارت حاصل کریں کہ ہر پیش آمدہ مسئلے کا حل کتاب اور سنت سے بتاسکیں۔