اسلام وہ واحد الوہی ضابطہ حیات ہے جو انسان کی جسمانی و روحانی پاکیزگی و بالیدگی اورتعلیم و تربیت پر زور دیتا ہے، فی زمانہ سیکولر تعلیمی نصابات دنیاوی زندگی کو آسودہ اور خوشحال بنانے اور تمام تر توانائیاں دنیاوی فوائد کے حصول کے لئے بروئے کار لانے کی طرف راغب کرتے ہیں مگر اسلام اس دنیا کو عارضی اور آخرت کی زندگی کو دائمی زندگی قرار دیتے ہوئے آخرت کی تیاری کو اصل مقصدِ حیات قرار دیتا ہے۔ اسلام اس دنیا کے تقاضوں کو بھی پورا کرنے کی تعلیم و ترغیب دیتا ہے مگر اس مادی دنیا کو مقصدِ حیات بنانے سے روکتا ہے۔ نفس کا محاسبہ فرد اور معاشرہ کے دائمی سکون کے لئے ناگزیر ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے دنیا کو آخرت کی کھیتی قرار دیا ہے کہ ہم جو کچھ اس کھیتی میں بوئیں گے آخرت میں اس کی فصل کاٹیں گے۔ ہم کچھ گناہوں کو معمولی جان کر اراداتاً یا غیرارادی طور پر ان کا ارتکاب کرتے ہیں حالانکہ ان غلطیوں اور کوتاہیوں کا دارومدار جنت اور دوزخ پر ہے۔ انگریزی سال 2023ء اختتام پذیر ہو چکا اور 2024ء کا آغاز ہو چکا ہے۔ بطور مسلمان ہم بھول جاتے ہیں کہ ہماری زندگیوں سے ایک سال کم ہو گیا ہے، جب کسی کی دولت کم ہونے لگتی ہے تو وہ اس پر خوشی کا اظہار نہیں کرتا بلکہ مغموم ہوتا ہے مگر مسلمان کی خوشی اور اُس کے غم کا انحصار اُس کے اعمال پر ہوتا ہے۔ اعمال اچھے ہیں تو یہ معاملہ باعث مسرت و شادمانی ہے اور اگر اعمال وعبادات کی بجا آوری میں کوتاہی ہے تو یہ غم اورآزار والی کیفیت اور لمحہ فکریہ ہے۔ ہمیں ہر لحظہ اپنا احتساب کرنا ہے کہ ہمارے بیتے ہوئے لمحوں میں اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی اطاعت کتنی ہے اور نافرمانی کتنی ہے؟۔نفس کے محاسبہ کی یہ فکر تکبر، غفلت اور گمراہی سے بھی بچاتی ہے۔ ہمیں بدلتے ہوئے ماہ و سال میں اس بات کا محاسبہ کرنا ہے کہ ہم نے اللہ اوراُس کے بندوں کے ساتھ کئے ہوئے عہد کو کس حدتک نبھایا؟۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا کتنا خیال رکھا، اللہ سے جو عہد نماز پنجگانہ کی ادائیگی کی صورت میں کررکھا ہے ہم نے کس حد تک اس عہد کی پابندی کی اور وہ فرائض جو اللہ کی طرف سے ہمارے ذمہ ہیں انہیں کس حد تک ادا کر سکے؟ ہم کس حد تک اللہ کے دئیے ہوئے وقت اور مہلت کا مثبت اور بہتر استعمال کر سکے اور بندوں کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کو نبھا سکے؟۔ مومن کی یہ شان بیان کی گئی ہے کہ اُس کا آنے والا لمحہ گزرے ہوئے لمحہ سے بہتر ہوتا ہے، اسی میزان پر ہمیں اپنے روز و شب کو پرکھنا چاہیے اور پھر نتیجہ اخذ کرنا چاہیے کہ ہمارے گزرے ہوئے لمحے آنے والے لمحوں سے کس اعتبار سے بہتر اور نفع بخش ہیں؟۔ اگر ہم دیانت داری کے ساتھ اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہیں اور ہمیں اس محاسبہ کے دوران اپنے اعمال میں کچھ کوتاہیاں نظر آتی ہیں تو پھر تائب ہونے اور اصلاح کے لیے رتی برابر بھی تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ منہاج القرآن اصلاحِ احوال اور توبہ کی طرف مائل کرنے کی تحریک ہے تاکہ روز قیامت ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے روبرو سرخرو ہو سکیں۔ توبہ برقرار رکھنے کے لئے بھی محاسبہ نفس کی ضرورت ہے۔ محاسبہ کے ذریعے توبہ میں استقامت نصیب ہوتی ہے اور نفسانی خواہشات اور وسوسوں سے نجات ملتی ہے۔ امام ترمذیؒ حضرت عمر بن خطابؓ کا قول نقل کرتے ہیں کہ ’’ اپنے نفوس کا محاسبہ کرو اس سے قبل کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور بڑی پیشی کے لئے تیار ہو جائو، قیامت کے دن اُس آدمی کا حساب آسان ہو گا جس نے دنیا میں ہی اپنا حساب کر لیا‘‘ جو کوئی اپنے محاسن و عیوب کو صدق و اخلاص کے ترازو میں نہ تولے وہ مرد کامل کے درجے تک نہیں پہنچ سکتا لہٰذا اعمال کی خامیوں کو ملاحظہ کرتے رہنا صحیح توبہ کے لئے ضروری ہے اور توبہ اس وقت تک درست نہیں ہو سکتی جب تک سچے دل سے مجاہدہ نہ کیا جائے۔ اللہ رب العزت ہمیں دستیاب مہلت کا ہر لمحہ اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی خوشنودی کے لئے بروئے کار لانے کی توفیق دے اور اپنی زندگی کو نیک اعمال کے ساتھ مزین و مرصع کرنے کی ہمت اور توانائی عطا فرمائے۔