اسلام نے عورت کو ذلت اور غلامی کی زندگی سے آزاد کرایا اور ظلم و استحصال سے نجات دلائی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کر دیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں لیکن عورت جو قبل از اسلام مرتبۂ انسانیت سے گرادی گئی تھی۔ محسنِ انسانیت جناب رسول اللہ ﷺ نے انسانی سماج پر احسان ِعظیم فرمایا عورتوں کو ظلم، بے حیائی، رسوائی اور تباہی کے گڑھے سے نکالا انہیں تحفظ بخشا ان کے حقوق اجاگر کیے۔ اسلام نے عورت کو ہر لحاظ سے مقام و مرتبہ دیا اور اسلامی نقظۂ نگاہ سے عورت سوسائٹی میں وہی ومقام رکھتی ہے جو ایک مرد کو حاصل ہے۔ اسلام نے عورت کو اس کے حقوق سے آشناء کیا، اسے علم کی دولت سے مالا مال کیا اور تہذیب وشائستگی وسلیقہ مندی کی بدولت نہ صرف مقتدر طبقہ بلکہ پورے معاشرے میں اسے خاصا اثر ورسوخ حاصل ہوگیا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس طرح مردوں سے دین کی خدمت لی ہے، اسی طرح عورتوں سے بھی دینی خدمت لیتا آیا ہے، قرآن کریم میں سورة النمل اور سورة القصص دو مفصل سورتیں ہیں، ایک میں ملکہ بلقیس کی حقیقت پسندی اور ایمان ذکر فرمایا ہے اس کے بعد متصل سورت میں فرعون کا قصہ ہے، اس میں اشارہ ہے کہ بعض عورتیں مردوں سے زیادہ حقیقت پسند اور زیادہ دین کا کام کرنے والی ہوتی ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جن باکمال عورتوں کا تذکرہ ملتا ہے ان میں حضرت خدیجہ، حضرت عائشہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہن بہت نمایاں ہیں، ان میں سے ہر خاتون کی دینی، علمی، عملی ہراعتبار سے ہر ایک کی الگ خصوصیت تھی، گویا ہمیں یہ حکم ہو رہا ہے کہ ہماری عورتوں کو ان خصوصیات کے اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ دین کے لئے قربانی دیتی تھیں، دین کے لئے جتنی قربانی انہوں نے دی، اتنی قربانی دوسری عورتوں نے بہت کم دی ہوگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اور ان کو تسلی دینا اور ان پر اپنا مال خرچ کرنا اور ان کے ساتھ شعب ابی طالب میں رہنا اور بھوک و پیاس برداشت کرنا، یہ ان کی خصوصیات تھیں، اس خصوصیت کو ہم بھی اور ہماری عورتیں بھی اختیار کریں کہ اپنا مال دین پر خرچ کریں اور دین کے راستے میں بچے اور بچیوں پر تکلیف آئے یا شوہر پر تکلیف آئے تو ان کو حوصلہ دیں۔
تسلی دینا، مال خرچ کرنا اور مصیبت برداشت کرنا یہ خصوصیت ہماری عورتوں میں بھی آنی چاہئے جتنا عمل اونچا ہوتا ہے جزاء بھی اتنا ہوتی ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جبریل نے مجھے فرمایا کہ: میں خدیجہ کو ایسے محل کی خوشخبری دوں جو موتی کا بنا ہوا ہے۔ جنہوں نے دین میں مشقت برداشت کی ان کے ساتھ خاص فضل و کرم اور راحت والا معاملہ ہوگا، ایک پہلو تو یہ ہے، اس پہلو سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔
دوسری عورت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تھی وہ حضرت عائشہ تھیں، ان کی دیگر خصوصیات کے علاوہ ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ وہ علم کے حاصل کرنے میں بہت زیادہ مشغول تھیں، محدثین نے راویوں کو تین حصوں پر تقسیم کیا ہے۔ بعض راویوں کو مکثرین کہتے ہیں، جن صحابہ سے ایک ہزار سے زیادہ روایات مروی ہوں وہ مکثرین ہیں۔ جن راویوں سے سو سے لے کر ہزار تک احادیث مروی ہوں ان کو متوسطین کہتے ہیں۔ جن صحابہ سے سو سے کم احادیث مروی ہوں ان کو مقلّین کہتے ہیں۔ حضرت عائشہ کا شمار مکثرات صحابہ میں سے ہے، اور ان سے 2210 احادیث مروی ہیں۔
سب سے پہلا مرتبہ حضرت ابوہریرہ کا ہے ان سے 5374 احادیث مروی ہیں، اس کے بعد ابن عمر ہیں، اس کے بعد حضرت انس اور اس کے بعد حضرت عائشہ ہیں جن سے 2210 روایات مروی ہیں۔ تو ہماری خواتین کا فرض یہ ہے کہ وہ حضرت عائشہ کی وراثت کو سنبھالیں، ان کی وراثت، علم کا پھیلانا ہے، حضرت عائشہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی علم سکھاتی تھیں، اور رشتہ داروں کے علاوہ دوسرے مرد صحابہ بھی پردے کے پیچھے بیٹھ کر ان سے علمی استفادہ کرتے تھے، جس پر کئی احادیث دال ہیں کہ پردے کے پیچھے سے حضرت عائشہ نے یہ فرمایا، یہ فرمایا وغیرہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے کی ایک خاتون حضرت فاطمہ تھیں، ان کو ایک نمایاں خصوصیت یہ حاصل تھی کہ وہ گھر کا کام کاج خود کیا کرتی تھیں، وہ واقعہ تو آپ سب جانتی ہوں گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ غلام اور خادمائیں آئی تھیں، حضرت فاطمہ نے گھر کے کام کاج کے لئے ایک خادم طلب فرمایا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خادم عطا نہیں فرمایا بلکہ اس کی جگہ تسبیحاتِ فاطمہ سکھائیں۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ تسبیحاتِ فاطمہ کو غنیٰ، مال داری اور رزق کی وسعت میں بہت بڑا دخل ہے۔ دوسری بات جو ہمیں اس روایت سے ملی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے خادم یا خادمہ کا انتظام نہیں فرمایا، کیونکہ گھر کا کام کاج خادم کے بغیر عورت چلاسکتی ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو خادم دے دیتے تو یہ مسئلہ بن جاتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کو جب خادمہ ملی تھی تو ہم سب کو بھی خادمہ ملنی چاہئے، بغیر خادمہ کے کام ہی نہیں کریں گی۔ حالانکہ غریب اور متوسط گھرانوں میں یہ کام نہیں ہوتا یہ خادم اور خادمائیں نہیں ہوتیں۔ تو جیسے آپ کا کام علم سیکھنا ہے، اسی طرح آپ کا کام گھر کا کام کاج سیکھنا بھی ہے، آپ کی ڈیوٹی اور فرائض مردوں سے زیادہ ہیں، کیونکہ مردوں کا کام صرف باہر کا کام ہے، اور آپ کے ذمہ گھر کے کام کاج کے ساتھ علم کا کام بھی ہے جو کہ حضرت عائشہ و فاطمہ کا تھا، ایسا نہ ہو کہ بعد میں لوگوں کو پریشانیاں لاحق ہوں، آپ علیہ السلام کے گھر کی تینوں خواتین کی خصوصیات پر ہمیں نظر رکھنی چاہئے۔
منہاج القرآن ویمن لیگ، تحریک منہاج القرآن کا ایک اَہم فورم ہے۔ جس کا دائرۂ کار خواتینِ معاشرہ ہیں۔ خواتین معاشرہ کی اساس ہیں اور نئی نسل انہی کی گود سے پروان چڑھتی ہے۔ اگر ایک خاتون کی سوچ کا دھارا بدل دیا جائے تو وہ تنہا پورے خاندان کی سوچ اور جہت کوتبدیل کر سکتی ہے۔ لہٰذا اس اَہم ترین طبقہ ہائے جنس میں شعوری، علمی، فکری، اخلاقی اور روحانی اقدار کے احیاء کے لیے یہ فورم اپنا بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔ اس میں ہر شعبہ ہائے زندگی کی خواتین شامل ہو کر اپنا کردار بخوشی نبھا رہی ہیں۔ اس فورم کا وسیع نیٹ ورک عملی صلاحیتوں کے ساتھ ایک روشن مستقبل کی طرف بڑھ رہا ہے، جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ممالک بھی دین کے پیغام کو ایک نئے رنگ اور اُسلوب سے پہنچایا ہے۔
منہاج القرآن ویمن لیگ گزشتہ تین دہائیوں میں شاندار تنظیمی و تحریکی کردار اور فکری و نظریاتی جد و جہد سے دنیا کے 30 سے زائد ممالک میں اپنا مؤثر وجود قائم رکھے ہوئے ہے۔ محبتِ الٰہی کا حصول ہو یا عشق و ادبِ رسول ﷺ کا فروغ، اَمر بالمعروف ونہی عن المنکر کی دعوت ہو یا علمی و فکری اصلاح، معاشی فلاح و بہبود کی ذمہ داری ہو یا معاشرتی و سماجی حقوق و فرائض کی اصلاح کا فریضہ ہو یا عوامی تحریک کا سیاسی سفر، منہاج القرآن ویمن لیگ نے ہر سطح پر خود کو منوایا ہے۔
منہاج القرآن ویمن لیگ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس نے ہر شعبہ میں اور بالخصوص تعلیم و تربیت، قیامِ اَمن اور معاشرتی اِصلاح میں اپنا متحرک کردار ادا کیا ہے اور اسلام کے بنیادی عقائد اور اقدار کے تحفظ کے ساتھ ساتھ خواتین میں بیداریِ شعور کے حوالے سے ویمن لیگ نے گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ کانفرنسز، علمی و تحقیقی منصوبہ جات اور عملی اصلاحی سرگرمیوں کے ذریعے ہزارہا خواتین کو اپنی طرف راغب کیا ہے۔ یہ خواتین اس پلیٹ فارم سے اخلاقی، نظریاتی اور تربیتی مراحل سے گزر کر باعمل مسلمان اور ذمہ دار شہری کی حیثیت سے فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ منہاج القرآن ویمن لیگ کےتحت درج ذیل شعبہ جات فروغِ دین میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں: شعبہ تنظیم، شعبہ دعوت، شعبہ تربیت، شعبہ ایم ایس ایم سسٹرز، شعبہ عرفان الہدایہ، شعبہ سماجی و فلاحی امور، شعبہ اُمورِ اَطفال، شعبہ سوشل میڈیا، شعبہ ماہنامہ دختران اسلام، شعبہ منہاجینز
عورت نہ صرف خاندان کی اساس ہے بلکہ معاشرہ ساز بھی ہے اور اس کی تربیت معاشرہ کی تعمیر میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ منہاج القرآن ویمن لیگ بلا تفریق ہر پہلو سے خواتین کو باشعور بنانے میں کوشاں ہے۔ اس کی بھر پور کوشش رہی ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خواتین کو درپیش مسائل اور مشکلات کا قابلِ عمل اور یقینی حل پیش کرنے کے قابل بنانا ہے۔ اس نے دینی علوم اور جدید عصری و سائنسی علوم کی روشنی میں محدود سوچ اور تعصبات کی شکار خواتین میں اُمت کے اجتماعی تحفظ کا داعیہ بیدار کیا ہے۔ اس کے علاوہ منہاج القرآن ویمن لیگ کے مقاصد میں دعوت و تبلیغ کا مربوط نظام قائم کرکے صنفِ نازک کو دینِ اِسلام کی طرف راغب کرنا تاکہ دینِ مبین سے دوری کا خاتمہ ہو اور خواتین کی تعمیرِ شخصیت ممکن ہو سکے۔ خواتین میں اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ فرائض کی ادائیگی کا شعور پیدا کرنا تاکہ اُصولِ مواخات و مساوات پر مبنی مثالی معاشرہ قائم ہو سکے۔ عوام میں شعور و آگہی پیدا کرنا تاکہ دینی غیرت و حمیت اور قومی و ملی جذبہ پروان چڑھایا جاسکے۔ خواتین کی بطور انسان، بطور شہری اور بطور اُمتی معاشرہ کی تشکیل میں اَہمیت کو اجاگر کرنا اورعملی کردار ادا کرنے کے لیے تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم پر متحد ہونے کی ترغیب دیناشامل ہے۔
منہاج القرآن ویمن لیگ، تحریک منہاج القرآن کا ایک اَہم فورم ہے۔ جس کا دائرۂ کار خواتینِ معاشرہ ہیں۔ خواتین معاشرہ کی اساس ہیں اور نئی نسل انہی کی گود سے پروان چڑھتی ہے۔ اگر ایک خاتون کی سوچ کا دھارا بدل دیا جائے تو وہ تنہا پورے خاندان کی سوچ اور جہت کوتبدیل کر سکتی ہے۔
عورت معاشرہ ساز ہے اسکی تربیت معاشرہ کی تعمیر میں نمایاں مقام رکھتی ہے لہذا ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے امت مسلمہ کو کنتم خیرا امتہ کی عملی تصویر بنانے کے جس مشن کا آغا ز کیا اس میں خواتین کا بحثیت داعیہ اہم کردار شامل ہے یہی وجہ ہے کہ آج تحریک منہاج القرآن کے رفقاء میں خواتین کی ایک کثیر تعدا د شامل ہے جوبطور مبلغہ اور مقررہ معاشرے میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ ویمن لیگ کے پلیٹ فارم سے سپیکرز فورم کے ذریعے خواتین دنیا بھر میں اپنے موثر انداز تقریر سے اسلام کی اشاعت میں اپنا کر دار ادا کر رہی ہے۔