جب بھی کبھی کوئی خیال آپ کے دل و دماغ پر دستک دے اسی وقت اپنے نفس کا محاسبہ کرلیا کرو اور دل کا دروازہ بند کرلیا کرو۔ لہذا نامناسب خیال کو پہلی آمد کے موقع پر ہی مسترد کردو جو آپ کو خیر سے دورکرنے کے لیے آیا ہے۔
دل کی اقسام:
دل تین قسموں کے ہوتے ہیں:
- قلب سلیم
- قلب میت
- قلب سقیم
جو دل صحیح ہو اس کو قلب سلیم کہتے ہیں اس کو قلب بھی کہتے ہیں یہ دل زندہ ہے دوسری قسم اس کے برعکس ہے قلب میت جو مرگیاہو۔ تیسری قسم دونوں کے درمیان ہے۔ بیمار دل کو قلب سقیم کہتے ہیں۔
دل کی امراض کے اسباب:
ان امراض کے کچھ داخلی اسباب ہیں اور کچھ خارجی ۔ خطرہ سے مراد خارجی سبب ہے جو باہر سے داخل ہونے والا ہے۔ مریض کا علاج نہ ہو اور مرض بڑھتا چلا جائے تو دل مردہ ہوجاتا ہے۔ تو یہ مرض سے موت تک پہنچنے کا ایک سفر ہے۔
قلب مریض کی مرض کا آغاز خطرہ سے ہوتا ہے۔ خطرہ اس کو کہتے ہیں جو دل و دماغ میں آتا ہے اور گزر جاتا ہے۔ خطرے نے دل کے اندر وجود نہیں پایا۔ جتنا اولیاء کرام کا زمانہ گزرا اس میں صالحین اپنے شاگردوں کو دل کی حفاظت کی طلب رکھنے والوں کو یہ سبق دیتے تھے کہ جب پہلی بار خطرہ آئے اس وقت اپنے نفس کا محاسبہ کرلو اور اسی وقت چوکیدار بن کر کھڑے ہوجاؤ۔
خطرہ سے مراد وہ برا خیال ہے جو یکسوئی کو خراب کردے۔ نیکی و خیر کو خراب کردے۔ نیکی و بھلائی اورسخاوت انفاق فی سبیل اللہ، ذکر کرنا، تلاوت کرنا، سجدہ ریزی کرنا، توبہ و استغفار کرنا لوگوں کے ساتھ بھلا کرنے کی جو رغبت تھی اس پر حملہ کرتا ہے۔ اچھا چوکیدار وہ ہوتا ہے جو اپنے نفس کی حفاظت کرنا ہے۔ اگر برے خیال کو اس وقت رد نہ کیا جائے تو خیال بار بار آئے گا۔ وہ دیکھتا ہے اس بندے کی طبیعت میں رغبت ہے پھر وہ وسوسہ بن جاتا ہے۔
علماء کی اصطلاح میں شر کے لیے جو خطرہ آتا ہے اس کو وسوسہ کہتے ہیں۔ یہیں سے دل کے مریض ہونے کا آغاز ہوتا ہے جو شخص اپنے آپ کو خطرات سے نہیں بچاتا وہ اپنے آپ کو کھلا رکھتا ہے مثلاً جس آدمی کے بہت سارے دشمن ہوں وہ گارڈ رکھتا ہے۔ گارڈ کا کام یہ ہوتا ہے کہ مشکوک لوگوں کو اس آدمی کے قریب نہیں آنے دیتا کیونکہ مشکوک آدمی سے اس کو خطرہ ہے۔ اس کو حسب نفسک کہتے ہیں لہذا اپنے دلوں پر سیکیورٹی گارڈ رکھنے چاہییں تاکہ کوئی مشکوک شے دل کے گھر میں داخل نہ ہو۔
جو لوگ اپنی سیکیورٹی نہیں کرتے دشمن اس پر آسانی سے حملہ آور ہوجاتے ہیں جس طرح جان کے دشمن ہیں اسی طرح ایمان کے دشمن ہوتے ہیں جو جان کی دشمن سے زیادہ ہیں اگر کسی کے پاس مال و دولت زیادہ ہے تو اس کی جان کے دشمن ہیں۔ صرف مال لوٹنے کے لیے جان کے دشمن بن جائیں گے۔ ایمان کے دشمن زیادہ ہونے کی وجہ یہ ہے وہ شیطان کا مسئلہ ہے۔ یاد رہے کہ جب شیطان نے اللہ کی نافرمانی کی تو اس نے قسم کھائی۔
قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَ. اِلَّا عِبَادَکَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ.
(ص، 38: 82-83)
’’اس نے کہا: سو تیری عزّت کی قسم، میں ان سب لوگوں کو ضرور گمراہ کرتا رہوں گا۔سوائے تیرے اُن بندوں کے جو چُنیدہ و برگزیدہ ہیں۔‘‘
ہر شخص جو ایمان پر ہے جو اطاعت و خیر پر ہے جس کا عقیدہ صحیح ہے جس کے خیالات، کاوشیں صحیح ہیں۔ جو نیک ہے اللہ و رسول ﷺ کو مانتا ہے اس کا دشمن شیطان ہے۔ شیطان ہم سب کے ایمان کا دشمن ہے ایمان کا دشمن ایک نہیں ہے بلکہ کروڑ و اربوں کی تعداد میں ہیں۔ جتنے انسان ہیں اس کے برعکس شیاطین کا عدد انسانوں سے زیادہ ہے۔ اس نے قسم کھائی ہے کہ میں تیرے ہر راہ راست پر چلنے والے کو گمراہ کروں گا سوائے اس کے جنھوں نے گارڈ رکھ لیے ہوں گے جو اپنی حفاظت کرتے ہوں گے جو مکمل طور پر سیکیور ہوں گے۔
مخِلص اور مخَلص میں فرق:
مخلِص سے مراد جو خطرے میں ہیں مخلص کے ل پر زبر آجائے جو مکمل طو رپر سیکیور ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو تیری مدد کے حصار میں رکھ دیا ہے۔ جس کو تو نے نفس کی شرارت سے محفوظ کرلیا ہے جو تیرے کرم سے محفوظ ہوگئے وہ شیطان کے حملے سے بچ جائیں گے۔
شیطان نے کہا!
قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَلَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَ. اِلَّا عِبَادَکَ مِنْھُمُ الْمُخْلَصِیْنَ.
(الحجر، 15: 39، 40)
’’ابلیس نے کہا: اے پروردگار! اس سبب سے جو تو نے مجھے گمراہ کیا میں (بھی) یقینا ان کے لیے زمین میں (گناہوں اور نافرمانیوں کو) خوب آراستہ و خوشنما بنا دوں گا اور ان سب کو ضرور گمراہ کر کے رہوں گا۔ سوائے تیرے ان برگزیدہ بندوں کے جو (میرے اور نفس کے فریبوں سے) خلاصی پا چکے ہیں۔‘‘
ہم میں سے ہر ایک ایکسپوز رہتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں ہم داعی ہیں اپنے شعبے کو ہیڈ کررہے ہیں، عالم و مبلغ ہیں۔ یہ سب خیر کے کام ہیں ہم لوگوں کو خیر کی طرف بلارہے ہیں یہ سب مغالطے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم عبادالمخلصون میں شامل ہوجائیں۔ اگر کوئی عالم ہے تو علم اس کا خزانہ ہے۔ جس کے پاس خزانہ ہے اسی پر شیطان حملہ کرے گا۔ عابد کے پاس عبادت کا خزانہ ہے تو ڈاکو حملہ کرے گا۔ جو نیک ہے۔ نیکی اس کا خزانہ ہے توشیطان اس پرحملہ کرے گا یہ بات قابل غور ہے کہ مگر جس کے پاس خزانہ ہی نہیں اس کے گھر کس نے چوری کے لیے آنا ہے۔
جس کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں اس کے پاس چور نہیں آئیں گے۔ اس خزانے کی مثال ایمان اور عمل صالح ہے جس کے پاس ایمان و عمل صالح نہیں ہیں چور اس کے پاس نہیں آتا چور سے مراد شیطان اور اس کے لشکر ہیں۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَجُنُوْدُ اِبْلِیْسَ اَجْمَعُوْنَ.
(الشعراء، 26: 95)
’’اور ابلیس کی ساری فوجیں (بھی واصل جہنم ہونگی)۔‘‘
پھر شیطان کے لشکر کے درجے بھی ہوتے ہیں وہ جانتا ہے کس بندے پر کس طرح کے فوجی کو بھیجنا ہے۔ جس کے پاس تھوڑا سا خزانہ ہے اس کے پاس ایک سپاہی کا بھیجنا ہی کافی ہے۔ جس کے پاس ایمان کا خزانہ زیادہ ہے اور وہ زیادہ غیر محفوظ ہے جبکہ لوگ الٹ سوچتے ہیں جو جتنا بڑا عالم ہے وہ سمجھتا ہے میں اتنا زیادہ محفوظ ہوں حالانکہ یہ سوچ غلط ہے بلکہ اس کو سوچنا چاہیے میں اتنے خطرے میں ہوں۔ جس کے پاس جتنا زیادہ خزانہ ہے شیطان اس کے پاس اتنے بڑے سپاہی کو بھیجے گا جس کے پاس کچھ نہیں اس کی طرف کسی کو نہیں بھیجتا وہ جانتا ہے کہ وہ تو پہلے ہی گمراہ ہے۔ شیطان نے قسم کھائی۔
باری تعالیٰ میں ایسے جال بچھادوں گا کہ کسی کی سمجھ میں بھی نہیں آئےگا کہ یہ گناہ ہیں۔ ایسے راستے بنادوں گا کسی کو خیال بھی نہیں آئے گا کہ میں گمراہ ہوں۔ سارے راستے اور طریقوں کو خوش نما بنادوں گا۔ لوگ اس میں اپنے آپ کو سیکیور سمجھیں گے۔لہذا یہ خیال کبھی نہیں آنے دینا چاہیے کہ میرے پاس اتنا بڑا عہدہ ہے۔ کیونکہ درجات میں کسی حفاظت کی گارنٹی نہیں پڑی ہوئی جو اطاعت و نیکی کے کام ہیں دراصل اصلاح کے کام ہیں اسی سے شیطان اور اس کے لشکر کو چڑ ہے جو دین میں کمزور ہے اس سے نہیں چڑتا۔ ان سے اس کو کوئی مصیبت نہیں ہے ۔ شیطان کو مصیبت اس سے ہے جو ہدایت یافتہ ہے۔ خیر کا عمل کرتے ہیں۔ ان کو گمراہ کرنے کے منصوبے شروع کردیتا ہے۔ وہ حملہ کرتا ہے بندے کی استقامت کو دیکھ کر کیونکہ شیطان نے اعتراف کیا جو سیکیور ہوگئے ہیں۔ ان پر میرا حملہ نہیں ہوگا۔ سورۃ الاعراف میں ہے۔
قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ.
(الاعراف، 7: 16)
’’اس (ابلیس) نے کہا: پس اس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے (مجھے قٔسم ہے کہ) میں (بھی) ان (افرادِ بنی آدم کو گمراہ کرنے) کے لیے تیری سیدھی راہ پر ضرور بیٹھوں گا (تاآنکہ انہیں راهِ حق سے ہٹا دوں)۔‘‘
شیطان اپنا ٹھکانہ گمراہی کی راہ پر نہیں بناتا۔ وہ جانتا ہے کہ یہ تو میرا گروہ ہے شیطان اپنی کرسی صراط مستقیم پر بناتا ہے۔ چوکنا ہوکر دیکھتا ہے کون کون اس راہ پر جارہا ہے جو صراط مستقیم پر چل رہے ہوں گے ان کو گمراہ کرے گا۔
گمراہ کرنے کے طریقے:
پہلا خیال شیطان ایک خطرہ کے طور پر ڈالتا ہے جیسے بارش آتی ہے تو پہلے ایک قطرہ گرتا ہے پھر بارش ہوتی ہے۔ شیطان کی طرف سے خطرہ بھی بارش کے اس پہلے قطرے کی مانند ہے۔ ہمیشہ اپنے اردگرد حفاظت کا اہتمام کریں۔ گارڈ کو تقویٰ کہتے ہیں۔ اپنا محاسبہ کرنا اور دھیان میں یہ رکھنا کہ میرا اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ دل میں اس دھیان کی پختگی کو مراقبہ کہتے ہیں۔ مراقبہ نگہبانی اور نگرانی کا نام ہے۔ قلب کی دائمی نگرانی اس خیال کے ساتھ کرنا کہ میرا اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ میرے اللہ کی نگاہ میرے دل پر ہے۔ میرے اللہ کی نگاہ میرے ہر فعل، میرے ہر ظاہرو باطن پر ہے۔ ہر حرکت و سکون پر ہے اس تصور کی نگرانی کرنا اس تصور کو ہمہ وقت جمائے رکھنا اس کو مراقبہ کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں عرف عام میں ایک اصطلاح ہے جب ہم گردن جھکا کر بیٹھتے ہیں اس کو مراقبہ کہا جاتا ہے۔ دراصل مراقبہ ایسی کیفیت ہے جو چند لمحوں اور گھنٹوں کے لیے نہیں بلکہ ساری زندگی پورے دوام کے ساتھ رہتی ہے۔
شیطان نے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اعلان کیا:
ثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْم بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ اَیْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَآئِلِهِمْ.
(الاعراف، 7: 17)
’’پھر میں یقینا ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے ان کے پاس آؤں گا۔‘‘
میں یقیناً ان کے آگے سے آؤں گا چار اطراف کا ذکر کیا ان لوگوں کے آگے کی طرف سے آؤں گاان کے پیچھے کی طرف سے آؤں گا ان کی دائیں جانب سے آؤں گا اور ان کی بائیں جانب سے آؤں گا۔ شیطان نے قسم کھائی۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کے اعلان کو قرآن کا حصہ بنادیا۔ ہمیں آگاہ کرنے کے لیے اے حبیب ﷺ اپنی امت کے فرد تک پہنچادیں کہ شیطان کا یہ مقصد ہے۔ شیطان کے حملے کا توڑ تب ہی کرسکتے ہیں جب اس کے حملے سے واقف ہوں گے۔
وَلَا تَجِدُ اَکْثَرَهُمْ شٰکِرِیْنَ.
(الاعراف، 7: 17)
’’اور (نتیجتاً) تو ان میں سے اکثر لوگوں کو شکر گزار نہ پائے گا۔‘‘
انسان کا ناشکرا ہونا:
شیطان کا یہ دعویٰ ہے کہ باری تعالیٰ میرے حملوں کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ میرے بندوں کو شکر گزار نہیں پائیں گے۔ وہ اس طرح سے حملہ کرتا ہے کہ شکر و اطمینان کی کیفیت چھین لیتا ہے۔ شکریہ ہے کہ بندے کو کچھ ملے تب بھی شکر کرے خوشی میں بہک نہ جائے۔ جب کچھ نہ ملے تب بھی صبر کرے غم زدہ نہ ہوجائے۔ مشکلات و مصائب، آرام ہوں بیماریاں ہوں تب بھی صبر ہو شکوہ نہ ہو۔ امیری ہے تب بھی صبر ہے امیری انہیں گمراہ نہ کردے فاسق نہ کردے۔ غریبی، محتاجی ہو تب بھی صبر ہو کہ کہیں فکرو فاقہ میں آکر گمراہ نہ ہوجائے جب صبر کی بنیاد مضبوط کرتے ہیں تو اس پر شکر کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ جیسے گھر کی تعمیر پختہ کرتے ہیں اس طرح اس پر عمارت کھڑی کرتے ہیں۔
جتنی بنیادیں مضبوط ہوں گی اس پر اتنی عمارتیں قائم کرسکیں گے۔ اگر بنیادیں کمزور ہیں تو چھوٹی عمارت بناسکتے ہیں مزید نہیں اس کا مطلب ہے صبر کی بنیاد کمزور ہو تو شکر کی عمارت کبھی قائم نہیں کرسکتے۔ اگر بندے کے قلب میں صبر کی بنیاد بہت مضبوط ہوگئی ہوگی تو جتنی عمارتیں چاہیں شکر کی قائم کرلیں اور اللہ کے شکر گزار بنتے چلے جائیں۔ شکر بڑھتے بڑھتے اللہ کی رضا میں بدل جاتا ہے۔ شکر و تسلیم ر ضا کی حدود ملی ہوئی ہیں۔ بندہ اللہ پر راضی ہوجاتا ہے بندہ راضیہ بن جاتا ہے۔اس کو نفس مرضیہ مل جاتا ہے وہ اللہ کا محبوب ہوجاتا ہے۔ یہ سارا سفر صبر سے شروع ہوتا ہے۔
صبر یہ ہے کہ زلزلہ کی کیفیت نہ ہو مضبوطی ہو، استحکام ہو، ہر حال میں سکون میں رہا جائے۔ جب کہ شیطان اس سکون کو تباہ کرتا ہے جہاں سے خیر مل رہی ہوتی ہے اس دروازے سے اانسان کو دور کرنا چاہتا ہے۔ یہ شیطان کا حملہ ہے۔ اس نے کہا کہ میں آگے پیچھے سے، دائیں سے اور بائیں سے بھی آؤں گا۔ سامنے سے بھی آؤں گا کہ میں اس طریقے سے حملہ کروں گا کہ اس کو نظر آئے گا۔
محسوسات پر حملہ:
محسوسات سے بھی حملہ کروں گا یوٹیوب ہے، سیل فون، یہ جدید سہولتیں بھی محسوسات کے حملے میں شامل ہیں۔ یہ تمام راستے جن میں برائی نظر آرہی ہے اور آپ اس کو جگہ دیتے ہیں۔ وہ پہلا لمحہ جس میں اس نے جگہ پائی وہ خطرہ تھا اور پیچھے سے بھی آؤں گا۔ شیطان کے حیلے کا پہلا طریقہ نظر آتا ہے جیسا کہ میں ڈوب رہا ہوں ہلاک ہوجاؤں گا۔
برائی دیکھ رہا ہوں برائی میرے اندر سمو جائے گی جو لذت قرآن کے سننے سے آتی تھی وہ قرآن کے سننے سے نہ آئے گی جو لذت اہل اللہ کو دیکھنے سے آتی تھی وہ لذت غیر مناسب قسم کی باتوں کو سننے اور دیکھنے سے ملے گی۔ ٹریک تبدیل ہوا اور آپ نے فکر نہ کی کہ میری ترجیح بدل رہی ہے اور اس ترجیح کو روک نہ سکے اور خطرہ اندر داخل ہوگا۔
وسوسہ ڈالنا:
معقول یعنی عقل پر حملہ کروں گا۔ سامنے سے مطلب آنکھوں اور کانوں کے ذریعے حملہ کروں گا۔ الٹے سیدھے خیالات ڈالوں گا۔ اللہ کیا ہے؟ کیسے ہے؟ مذہب کی کیا ضرورت ہے۔ نبیوں کو کیوں بھیجا؟ وحی کا کیا معنی ہے؟
ہمیں عقل دی ہم خود نہیں سو چ سکتے تھے کہ اچھائی و برائی کیا ہے؟ ہم اتباع کیوں کریں؟ آج کا زمانہ میں چودہ سو سال کی پابندی کیوں کریں؟ دنیا ادھر جارہی ہے میں اس طرف جاؤں گا لوگ مجھے اچھا نہیں سمجھیں گے۔ مجھے پرانے زمانے کا اور سادہ بندہ تصور کیا جائے گا۔ یہ لادینیت کے خیالات ہیں۔ اللہ کے وجود کے انکار کے خیالات ہیں۔ وحی الہٰی کا انکار سنت نبوی ﷺ کا انکار دین کی شرائط کا انکار اوامر و نواہی کا انکار یا شکوک ہیں وہ معقولات کے ذریعے ڈالتا ہے بندہ کہتا ہے کہ میں نے ایسی کوئی برائی نہیں کی۔ ایسی کسی مجلس میں نہیں بیٹھا وہ خطرہ ایک شک کی صورت میں ڈال دیتا ہے۔
باری تعالیٰ میں ایسے جال بچھادوں گا کہ کسی کی سمجھ میں بھی نہیں آئےگا کہ یہ گناہ ہیں۔ ایسے راستے بنادوں گا کسی کو خیال بھی نہیں آئے گا کہ میں گمراہ ہوں۔ سارے راستے اور طریقوں کو خوش نما بنادوں گا۔ لوگ اس میں اپنے آپ کو سیکیور سمجھیں گے۔لہذا یہ خیال کبھی نہیں کہ میرے پاس اتنا بڑا عہدہ ہے۔ کیونکہ درجات میں کسی حفاظت کی گارنٹی نہیں پڑی ہوئی جو اطاعت و نیکی کے کام ہیں۔ دراصل اصلاح کے کام ہیں۔ اسی سے شیطان اور اس کے لشکر کو چڑ ہے جو دین میں کمزور ہے اس سے نہیں چڑتا
شیطان کا ایک عمل شک پیدا کرنا ہے۔ اللہ اس کے رسول ﷺ کے بارے میں اور وحی الہٰی میں شک پیدا کرتا ہے جس کے ذریعے خیرو ہدایت مل رہی ہے اس کے تعلق کے بارے میں شک ڈالتا ہے۔ اولیاء و صالحین جن کو خیر کا وسیلہ بنایا گیا ہے اگر ان کے ساتھ جڑیں رہیں تو ہدایت ملتی رہے گی۔ اگر وہاں شک پیدا کردے ادھر سے توڑے آپ کی تقویت ختم ہوگئی جیسے فوجیں لڑتی ہیں پیچھے سے انہیں کمک ملتی رہتی ہے۔ اگر وہ توڑ دیں اور دشمن کی کمک جاری ہی رہے پھر سارے مرجاتے ہیں۔ ہر چیز کا نظام ایک ہی ہے کبھی یہ نہ سمجھیں جو کچھ مل رہا ہے وہ کافی ہے۔ ہرشخص کو بروقت کمک کی ضرورت ہے۔ اس لیے اللہ پاک نے فرمایا انہیں بار بار یاد دلائیں۔ اس عمل سے جنت ملے گی اس عمل سے دوزخ ہوگئی۔ انہیں بار بار یاد دلائیں۔ اللہ پاک نے ہدایت کا اصول دیا ہے۔ ہدایت ایک بار مل جانا کافی نہیں ہے۔ اس کا تسلسل جاری رہنا چاہیے جس راستے سے ہدایت ملی ہے وہ راستہ نہ کٹے۔
ایسے خوراک معاملے کو لے لیں۔ کوئی ایساہے جو کہے میں ایک بار کھالوں تو پھر میں زندہ رہوں گا۔ ناشتہ کرتے ہیں کھانا کھاتے ہیں۔ شام کو کچھ کھاتے ہیں ہر روز کھاتے ہیں، پھر ہی جسم کو توانائی ملتی ہے جسم ہر روز کھانے پینے کا محتاج ہے۔ پانچ دن بھی ایک کھانے کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ جسم خوراک کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔اسی طرح دل و روح زندہ نہیں رہ سکتے۔ جب تک انہیں زندگی کی خوراک نہ ملے۔ زندگی کی خوراک ان کے لیے ہدایت ہے۔ اس لیے مصطفوی مشن سے جڑتے رہیں۔ جہاں سےہدایت مل رہی ہے اس سے جڑے رہیں۔ اس رشتہ کو نہ توڑیں۔ جس سے اطاعت کی توفیق کے لیے رغبت ملتی ہے اللہ کی قربت کا سبق ہے۔ مرتے دم تک اس تعلق کو چھوڑیں جبکہ شیطان اس تعلق کو توڑنے کے لیے شک پیدا کرسکے گا۔ اس سارے عمل میں جن خواطر سے بچنا ہے ان کی پہچان بھی اشد ضروری ہے۔ خواطر کی چار اقسام ہیں:
1۔ خاطر نفسانی
2۔ خاطر شیطانی
3۔ خاطر ملکی
4۔ ربانی و رحمانی
خواطر نفسانی کے لیے فرمایا اے اللہ! بری طرح وسوسہ ڈالنے والے خناس سے بچا۔
الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ.
(الناس، 114: 5)
’’جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔‘‘
شیطان لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ یکسوئی کو ختم کرنے والا، انتشار پیدا کرنے والا ہدایت چھیننے والا، وہی وسوسہ ڈالتا ہے من الجنۃ والناس وہ جنات میں سے بھی ہے اور لوگوں میں سے بھی ہے۔ جو بغیر ارادے کے دل میں داخل ہوجائے اس کو خواطر کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے متقی بننے کے لیے فرمایا:
الٓمّٓ. ذٰلِکَ الْکِتٰـبُ لاَ رَیْبَ فِیْهِ هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ.
(البقرة، 2: 1-2)
’’الف لام میم (حقیقی معنی اﷲ اور رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں)۔ (یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔‘‘
یہ قرآن متقین کے لیے ہدایت ہے جو اپنی حفاظت کرتے ہیں ان کو ہدایت نہیں ملے گی جو اپنے آپ کو محفوظ نہیں کرتے پھر سمجھتے ہیں کہ ہدایت بھی مل جائے فرمایا پہلے اپنے آپ کو سیکیور کرو۔ جو اپنے آپ کو سیکیور کرتے ہیں قرآن مجید ان کو ہدایت دیتا ہے۔ متقی وہ ہیں جو اپنے آپ کو محفوظ کرنے والے ہیں۔ ان کے لیے فرمایا اس کتاب میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ شک کی جڑ ہی کاٹ دی ہے۔ ایمان نام ہے تصدیق بالقلب اور اقرار باللسان کا۔ تصدیق تب ہی ہوتی ہے جب دل کا اطمینان ہوتا ہے۔ دل ایک چیز پر جمتا ہے۔ دل کو سکون ہوتا ہےاس اطمینان سے تصدیق ہوتی ہے جب تشکیک آجائے تو تصدیق چلی جاتی ہے۔
شک کی جڑ کٹے تو بندہ متقی بنتا ہے پھر اپنی حفاظت کرتا ہے۔ نفسانی شہوات کے ساتھ، برائی کی لذتیں ہیں۔
زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ.
(آل عمران، 3: 4)
’’ لوگوں کے لیے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے۔‘‘
جو دائیں ہاتھ والے ہوتے ہیں ان کا دایاں ہاتھ زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ سوائے ان کے جن کا پیدائشی طور پر بایاں ہاتھ مضبوط ہوتا ہے۔ زمین کے اندر کلچر ہے اس کو سامنے رکھ کر فرمایا یمین جو ان کے مضبوط حصے ہیں ان پر بھی حملہ کروں گا جن کا بایاں ہاتھ مضبوط ہوتا ہے اس پر بھی حملہ کروں گا۔ شیطان مضبوط حصے میں اپنا لشکر بھیجتا ہے، کمزور حصے میں وہاں اپنے چھوٹے موٹے شیطان کو بھیجتا ہے۔ یہ شیاطین وسوسے ڈالتے ہیں۔
وَاِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِھِمْ.
(الانعام، 6: 120)
’’اور بے شک شیاطین اپنے دوستوں کے دلوں میں (وسوسے) ڈالتے رہتے ہیں۔‘‘
شیطان انسانوں کے دلوں میں برے خیالات، شک اور تذبذب ڈالتے ہیں تاکہ جس میں جمے ہوئے ہیں ان میں اضطراب پیدا ہوجائے، تعلق و واسطہ ختم ہوجائے ان کو ناشکرا بنادے گا۔ ناشکری کی ابتدا بندوں کی ناشکری سے ہوتی ہے۔ آقا ﷺ نے فرمایا جس نے بندے کا شکر ادانہیں کیا اس نے میرا شکر ادا نہیں کیا۔ جس بندے سے آپ کو خیر ملی ہم اسی کا ناشکرا ہوتے ہیں۔ اس کے بعد راستہ ناشکری کا کھل جاتا ہے۔ چلتے چلتے انسان اللہ کا بھی ناشکرا ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ شیاطین انسانوں میں سے بھی ہیں جنات میں سے بھی ہیں۔ کئی لوگ بالکل شیطان ہیں لوگوں پر حملہ آور ہورہے ہیں۔ ان کے ذریعے ہدایت کے راستے ٹوٹ رہے ہیں۔ چاروں طرف سے حملہ آور ہوکر معقولات، احساسات اور شہوات کے ذریعے۔ اس لیے حق و باطل کی روز اول سے جنگ ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے ربانی اولیاء بھیجے۔
اِنَّهٗ یَرٰکُمْ ھُوَ وَقَبِیْلُهٗ.
(الاعراف، 7: 27)
’’بے شک وہ (خود) اور اس کا قبیلہ تمہیں (ایسی ایسی جگہوں سے) دیکھتا (رہتا) ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْهِمْ سُلْطٰنٌ.
(الحجر، 15: 42)
’’بےشک میرے (اخلاص یافتہ) بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا۔‘‘
یہ کیسے ہوسکتا ہے شیطان کو کھلا چھوڑ دے ادھر ہدایت دینے والے لشکر نہ ہو۔ جس طرح گمراہی کرنے کے لیے شیطان کے جلود ہیں اس طرح سیدھی راہ پر لانے کے لیے اللہ تعالیٰ کے انبیاء ہیں جب انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ ختم ہوگیا تو انسانوں کی ہدایت کے لیے اولیاء کو بھیجا۔ جس طرح جنات اور انسانوں میں شیطان ہیں۔ اسی طرح ہدایت کی راہ نمائی کرنے لیے ملائکہ اور انسانوں میں سے بھی ہیں۔ ان کو اولیاء صالحین اور مجدد کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر صدی میں مجدد پیدا کرتا ہے جو لوگوں کو خیر کی طرف بلاتے ہیں اور بدی سے روکتے ہیں۔ خیر کو فروغ دیتے ہیں وہ نیکی کا خیال دلوں میں ڈالتے ہیں۔ یہ حق باطل کی جنگ ہے اگر باطل کا جال ہے تو حق کا بھی جال ہے۔