خواتین کی صحت اور معاشرتی ترقی

سعدیہ کریم

زندگی کی جدوجہد جاری رکھنے کے لیے عورت نے مرد کو بہت سہارا دیا ہے۔ عورت کی محبت ماں کے روپ میں ہو، بیوی کی شکل میں، بہن کے تصور میں یا بیٹی کی فکر میں اس نے ہمیشہ مرد کو حوصلہ دیا ہے اور پریشانیوں سے نجات دلانے میں ہمت بڑھائی ہے۔ موجودہ دور میں بھی عورت نے پہلے سے کہیں بڑھ کر زندگی کے ہر شعبے میں اہم کردا ادا کیا ہے۔ بعض معاملات میں تو عورت نے مردکو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ کھیلوں میں، ذہنی اور فنی صلاحیتوں میں، دفاتر اور صنعت میں ان کا ریکارڈ ایمانداری اور تیز رفتاری میں منفرد نظر آتا ہے۔ بطور استاد عورت نہایت ہی کامیاب ثابت ہوئی ہے۔ سب سے پہلے جاپانی عورت جوڈو اور کراٹے کی ماہر بنی۔ اس نے اپنی حفاظت کے لیے مشکل ترین تربیت حاصل کی۔ جاپان، چین اور کوریا کی تقریباً تمام لڑکیاں کراٹے کے فن کی ماہر قرار دی گئی ہیں۔ چین اور جاپان کے درمیان جنگ کے موقع پر چین کی نوجوان لڑکیوں کی فوجی بٹالین بھی تشکیل دی گئی تھی۔ جنھیں فوجی تربیت کے علاوہ جوڈو کراٹے کا اضافی فن بھی سکھایا گیا تھا۔

اسلام میں عورت کے حقوق وفرائض:

عورت کے بارے میں اسلامی نظریہ سب سے بہترین ہے۔ اسلامی معاشرے میں عورت کی اہمیت اور احترام مرد کے برابر ہے۔ لیکن عورت کی ذمہ داریاں مردوں سے مختلف ہیں۔ عورت کے فرائض اور ذمہ داریاں مردوں سے زیادہ اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ وہ قوم کی مائیں اور استاد ہوتی ہیں۔ ہمارے کریم آقا حضرت محمد ﷺ نے فرمایا:

’’ماں کے پاؤں تلے جنت ہے۔‘‘

یہ سب سے بہترین خراج تحسین ہے جو عورت کو اس کے نبی ﷺ کی طرف سے ملا ہے۔ عورت ماں کے روپ میں قوم کی بہترین خدمت کرسکتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عورت ملک کی ثقافتی، معاشی، سیاسی یا معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتی۔ عورت ملک کے سیاسی حالات کا بہتر طور پر جائزہ لے سکتی ہے اور اپنے انداز فکر کی روشنی میں سیاسی زندگی میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے اور اس کی مثالیں ہمیں قرون اولیٰ کی خواتین میں بھی ملتی ہیں۔

ہنگامی صورتحال میں عورت ملک کے کسی بی شعبہ میں اپنی خدمات پیش کرکے اپنے فرائض نبھاسکتی ہے۔ بوقت ضرورت وہ ہسپتال، سکول اور کالج میں اپنی خدمات پیش کرسکتی ہے اور کرتی ہے جس کا اثر معاشرے میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ تمام امور ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسلام عورت کو بطور ماں اپنے فرائض احسن طریقے سے اداکرنے کی تلقین کرتاہے۔ اگر گھر کے معاملات بہتر طور پر چل رہے ہوں تو پھر عورت قومی اور معاشرتی معاملات میں بھی اپنا کردار اداکرسکتی ہے ۔

کام میں مساوی حقوق کا مطلب یہ نہیں کہ مرد اور عورت دونوں کمائیں۔ سخت محنت اور روزی کمانے کا کام مرد کو سونپا گیا ہے لیکن اس کے باوجود خود عورتیں تجارتی، صنعتی اور سیاسی میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔ انتظامی امور میں سائنسی تحقیقات میں، ادب اور آرٹ کے شعبوں میں عورتیں اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھاتی ہیں۔ محکمہ پولیس ہو یا افواج پاکستان، سیلز گرلز ہوں یا ایئر ہوسٹس، کلرک ہوں یا سینئر ٹائپسٹ، معاشرتی معاملات ہو یا سیاسی ہرجگہ عورتیں اپنا بہترین کردار ادا کرتی ہیں۔

انسانی تاریخ اور خواتین کی صحت؛ ایک تجزیہ:

انسانی تاریخ میں قوموں کی ترقی اور معاشرے کے بگاڑ اور تنزلی میں خواتین کا اہم کردار رہا ہے۔ عورت کی گود سے تربیت پانے والے ہی لیڈر بنتے ہیں کیونکہ عورت ہی بچے کی بہترین یا بدترین تربیت کی ذمہ داری ہوتی ہے اور عورت کی تربیت سے ہی دنیا کے بڑے عالم، مجاہد، مصلح، سائنسدان تیار ہوتے ہیں۔ معاشرہ ترقی پاتا ہے لیکن اس سب کے لیے خواتین کا صحت مند ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اگر ماں صحت مند نہ ہو تو بچے کی جسمانی اور روحانی ضروریات پوری نہیں ہوسکتیں۔ اور وہ معاشرے کا بہترین رکن بننے سے قاصر رہتا ہے۔ اس کی ذہن سازی اور بہترین کردار سازی اس کی ماں کی صحت سے مشروط و منسلک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خواتین کی صحت ہی معاشرے کی ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے لیکن نہ تو بحیثیت مجموعی معاشرہ عورت کی اس خصوصی حیثیت کی قدر کرتا ہے اور نہ ہی عورت کو اپنی اہمیت اور صحت کے مسائل کا پورا شعور ہوتا ہے۔

صحت ایک توازن کی حالت ہے جس میں جسمانی، ذہنی، روحانی اور سماجی صحت شامل ہیں۔ جسم، ذہن، روح اور سماج آپس میں مربوط ہیں اور ایک حصہ کی صحت دوسرے حصہ پر اثر انداز ہوتی ہے خواتین کی مخصوص جسمانی ساخت، جذبات، احساسات اور سماجی حیثیت کے لحاظ سے صحت کے کچھ منفرد مسائل اور ضروریات ہیں جن کا جاننا اور سمجھنا ضروری ہے۔پیدائش سے لے کر بڑھاپے تک، زندگی کے مختلف مراحل میں خواتین کی غذائی ضروریات اور جذباتی کیفیات میں تغیر آتا ہے اور اس کا احساس سب سے بڑھ کر دوسری خواتین (ماں، بہن، ساس) ہی کرسکتی ہیں۔

بلوغت، حمل و رضاعت کے دوران خواتین میں بے شمار جسمانی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جس کا اثر براہ راست خواتین کی ذہنی صحت پر ہوتا ہے اس لیے انہیں مناسب رہنمائی اور دیکھ بھال درکار ہوتی ہے۔ اگر ان مواقع پر خواتین کی جسمانی اور ذہنی صحت کا خیال رکھا جائے اور انھیں پرسکون ماحول اور فضا میسر ہو تو وہ اپنے معاشرتی اور گھریلو مسائل بہتر طور پر حل کرنے کے قابل ہوتی ہیں۔ خواتین کی سب سے اہم ذمہ داری بچوں کی پرورش اور ان کی تربیت کرنا ہوتا ہے کیونکہ اگر مائیں اپنے بچوں کو مناسب وقت نہ دیں اور انہیں صحیح، غلط، حرام و حلال کی تمیز نہ سکھائیں تو بچے معاشرے کے مفید شہری نہیں بن سکتے اور مجموعی طور پر معاشرہ بگاڑ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسی لیے نپولین نے بھی کہا تھا کہ:

’’تم مجھے بہترین مائیں دو میں تمھیں بہترین قوم دوں گا۔‘‘

اسلام نے بھی عورت کو بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری دی ہے اور اسے فکر معاش سے آزاد رکھا ہے تاکہ وہ بہتر انداز میں اپنے بچوں کی تربیت کرکے معاشرے کی ترقی میں اپنا بہترین کردار ادا کر سکے۔ اس کے لیے سب سے پہلی اور ضروری چیز خواتین کی اپنی صحت ہے۔ اگر خواتین خود صحت مند ہوں گی تو معاشرے کے لیے صحت مند افرادی قوت مہیا کرسکیں گی۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ خواتین کی صحت معاشرے کی مجموعی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔

تحریک آزادی اور خواتین:

دنیا کی قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ جس قوم کی خواتین صحت مند نہ ہوں اور ملکی و قومی ذمہ داریوں میں حصہ نہ لے سکیں وہ قوم عموماً آزاد زندگی گزارنے سے محروم رہتی ہے۔ ہمارے مربی و محسن قائداعظمؒ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے۔ انھوں نے تحریک آزادی کی قیادت سنبھالتے ہی اس بات پر زور دیا کہ دنیا میں کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی جب تک اس قوم کی عورتیں میدان عمل میں گامزن نہ ہوں۔ اور عورت میدان عمل میں اسی وقت اپنا کردار نبھا سکتی ہے جب وہ جسمانی اور ذہنی و روحانی طور پر صحت مند ہو۔ اس بات کا عملی نمونہ انھوں نے پیش کیا اور اپنی بہن فاطمہ جناحؒ کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھا۔ وہ تمام سیاسی امور میں ان سے مشاورت کرتے تھے، محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے بھائی کی قیادت میں مسلمان خواتین کو منظم کیا اور انھیں آزادی کا مقصد سمجھایا۔ انہی رہنما خواتین نے اپنی جرات، بے باکی، عزم و حوصلے اور قربانیوں سے قوم کی نوجوان نسل کی تر بیت کی۔ انہیں جوش و ولولہ دیا اور نوجوان نسل منظم ہوکر اپنی پوری قوت سے پاکستان حاصل کرنے کے لیے میدان عمل میں نکلی۔

غزوات و سرایا میں خواتین کا کردار:

اسلامی غزوات و سرایا میں بھی خواتین کا کردار ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ نبی کریم ﷺ کی ازواج بھی جنگوں میں شریک ہوتی تھیں۔ حضرت عائشہؓ سب سے پہلے جنگ احد میں شریک ہوئیں اس جنگ میں حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلمیٰؓ نے بھرپور حصہ لیا وہ مشک بھر کر پانی لاتیں اور زخمیوں کو پلاتی تھیں۔

خواتین معاشرے کی بنیاد:

خواتین معاشرے کا ستون ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کی جسمانی و ذہنی صحت بہت ضروری ہوتی ہے ان کی صحت کے مسائل کو حل کرنا از حد ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ علم حاصل کرسکیں اور تیزی سے بدلتے ہوئے معاشرتی حالات کے مطابق فیصلے کرنے کے قابل ہوسکیں۔ اگر وہ صحت مند اور تعلیم یافتہ ہوں گی تو ہی پیش آنے والے حالات کا مقابلہ کرسکیں گی۔ نئی نسل کی صحیح تربیت کرسکیں گی۔ ایک مفکر کا قول ہے کہ:

’’ایک مرد کی تعلیم صرف ایک فرد کی تعلیم ہوتی ہے جبکہ ایک عورت کی تعلیم سارے خاندان کی تعلیم ہے۔‘‘

تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ مائیں ہی اپنے بچوں کو ٹیپو سلطان، خالد بن ولید، صلاح الدین ایوبی اور حیدر علی جیسے شیروں کی داستانیں اور واقعات سناکر اسلام کے نامور مجاہد بناسکتی ہیں۔

حاصل کلام:

گھریلو اعتماد اور اچھی تربیت کے ساتھ ساتھ اچھی صحت کی حامل خواتین ملک و ملت کا قیمتی اثاثہ ہوتی ہیں اور ایسی خواتین ہی اصل معاشرتی بہتری اور ترقی کی بنیاد رکھتی ہیں۔

اگرکوئی ملک حقیقی معنوں میں تعمیر نو اور ترقی کا خواہش مند ہو تو اسے ملک کی آدھی آبادی اور نصف افرادی قوت عورتوں کی صحت اور خوشحالی کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اسے بااختیار اور باعزت بنانا ضروری ہے ان کے تعلیمی مسائل اور صحت کے مسائل حل ہونے چاہئیں۔ اگر عورتوں کے سلسلے میں ٖغلط طرز فکر جڑ پکڑلے تو حقیقی اور ہمہ جہتی تعمیر و ترقی ممکن نہیں ہے خود عورتوں کو بھی چاہیے کہ اسلامی طرز فکر کو اپناتے ہوئے معاشرے میں اپنا مقام بنائیں۔ اپنی زندگی کو اسلامی اصولوں پر استوار کریں دین کے تقاضوں کو سمجھیں اپنی جسمانی و روحانی صحت کا خیال رکھیں تاکہ مقدس اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر اپنے حقوق کا دفاع کرسکیں۔ مردوں کو بھی عورتوں سے متعلق تمام اسلامی تعلیمات سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔

اسلام عورت کو کام کرنے کی آزادی دیتا ہے لیکن اپنی صحت کا خیال اور گھریلو معاملات کو پورا کرنا پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ ہمارا دین اور آئین خواتین کو تمام بنیادی حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہے اور آج سے پندرہ سو سال پہلے عورتوں کے حقوق کا تحفظ ان کی عزت و احترام اور مذہبی حدود کے پیش نظر کاروبار تک کرنے کی بہترین مثال صرف اسلام میں ہی ملتی ہے۔ قوموں کی تعمیر و تشکیل میں اور اولاد کی بہترین تربیت میں اصل اور کلیدی کردار صحت مند اور توانا خواتین کا ہی ہوتا ہے۔ اس لیے خواتین کی صحت معاشرے کی ترقی کے لیے از حد ضروری ہے۔