مصطفوی معاشرے کا قیام اور اس کے لیے لائحہ عمل کا اہتمام

ڈاکٹر نعیم انور نعمانی

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا.

العنکبوت، 29: 69

’’اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (یعنی مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیں اپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں۔‘‘

جو لوگ کسی بھی میدان میں اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں باری تعالیٰ ان کی جدوجہد کو ثمر آور کرتا ہے اور ان کی سعی و کاوش کو نتیجہ خیز بناتا ہےاور کامیابی اور کامرانی کو ان کے مقدر کرتا ہے۔ یہ آیت عرفان ذات اور عرفان معاشرہ سے لے کر عرفان الہٰی تک ہم کو پہنچاتی ہے۔

اگر ہم اللہ کی معرفت حاصل کرنا چاہیں تو وہ رب اپنی ذات کی بے شمار نشانیاں اپنی معرفت کے لیے ہمیں عطا کرتا ہے۔ اس نے یہ نشانیاں ہمارے اندر بھی رکھی ہیں اور ہمارے باہر بھی رکھی ہیں۔ یہ نشانیاں کائنات نفس میں بھی ہیں اور کائنات آفاق میں بھی ہیں۔ انسان کے اندر اللہ نے اپنی نشانیاں رکھی ہیں۔

اسی لیے انسان کے جسمانی اعضا اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کے بنائے ہوئے نظام کے مطابق اپنا اپنا کام کررہے ہیں۔ ہمارا جگر خوراک سے خون بناکر ہماری رگوں کو پہنچارہا ہے اور فاضل چیزوں کو ہمارے مثانے کی طرف بھیج رہا ہے۔

ہمارا معدہ ہماری غذا کو ہضم کررہا ہے اور فاسد مادوں کو ہماری بڑی آنت کی طرف بھیج رہا ہے اور کائنات خارج میں اللہ اپنی نشانیاں یوں دکھا رہا ہے کہ سورج طلوع ہوکر دن کو روشن کررہا ہے تاکہ لوگ کاروبار حیات کو انجام دے سکیں۔ اور سورج غروب ہوکر رات کو لانے کا باعث بن رہا ہے تاکہ لوگ دن بھر کی تھکاوٹ رات کے آرام کے ذریعے ختم کرسکیں۔ اس سارے نظام انفس اور کائنات خارج آفاق میں وحدت امر اور یکجہتی حکم پائی جاتی ہے اورنظام کائنات کی وحدت اس نظام کو چلانے والے کی وحدت اور توحید پر بہت بڑی علامت اور دلیل خود یہ عالم شہادت ہے۔

غرضیکہ جو انسان بھی جاھدوا فینا کا عمل اختیار کرتا ہے اور اس عمل کا مقصد منتھی للہ، اللہ کی رضا اور خوشنودی ہوتی ہے تو وہ عمل اللہ کی مدد و نصرت سے والذین جاھدوا فینا ہوجاتا ہے اور اس عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی ضمانت آیہ کریمہ کا یہ حصہ دیتا ہے لنھدینہم ہدایت الہٰیہ ایصال الی المطلوب کی منزل پر فائز کرتی ہے۔

اگر ہم اپنا مقصد کسی عظیم عمل کو بنالیں تو رب کا وعدہ ہے کہ لنھدینھم کا چشمہ ہماری بارگاہ سے جاری ہوجائے گا۔ انسان کو پل پل، لمحہ لمحہ ہدایت ربانی ملتی رہے گی اور وہ منزل کی طرف بڑھتا رہے گا۔

جھد یجھد کا معنی کوشش کرنا ہے جبکہ جاھد کا معنی مقابلہ کرنا ہے۔یہ باب مفاعلہ کا صیغہ ہے اس میں مبالغے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے اور جاھدوا کا معنی یہ ہے کہ کسی کے مقابلے کے لیے اپنی پوری کوشش لگادینا جاھدوا کہلاتا ہے۔

انسانی جدوجہد اور مقصد حیات

تمام تر رکاوٹوں کی پرواہ کیے بغیر اپنی ساری صلاحیتوں اور اپنی ساری استعدادوں کو صرف کردینا جاھدوا کہلاتا ہے۔ حتی کہ اپنے مقصد حیات کو حاصل کرنے کے لیے اپنی جان سے بھی گذر جانا جاھدوا فینا ہے، جاھدوا میں اپنے نفس کی بھی باطل اور بے مقصد خواہشات کا مقابلہ کرنا ہے۔ ایسی خواہشات نفس جو انسان کو اپنا غلام بنالیتی ہیں اور اعلیٰ مقصد کی جدوجہد میں مزاحم ہوجاتی ہیں اور انسان کو اپنی جدوجہد کو منزل آشنا کرنے کے لیے اندرونی اور بیرونی خطرات اور سازشوں سے بھی مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ جس کا عمل والذین جاھدوا فینا کی روح رکھتا ہے۔وہی فرد شرِ ِ انساں اور شرِ شیطان سے محفوظ رہ سکتا ہے، وگرنہ انسانی شرّ، سازش کے ذریعے اور شیطانی شرِ، آسیب و جادو کے ذریعے انسان کو زیر کرلیتا ہے اور منزل سے ہٹا دیتا ہے۔

انسانی جدوجہد ہمیشہ انسان کے مقصد حیات کے گرد گھومتی ہے۔ ہمیں اپنے مقصد حیات کے لیے دنیا کے فلاسفر اور حکماء اور بڑے حکمت داں اور نکتہ داں زعماء سے اپنے مقصد حیات کو نہیں سمجھنا ہے بلکہ خود اپنی جان کے خالق اور اپنے وجود کے مالک اور وہ ذات جو ہمارے لیے اور سب انسانوں کے لیے رب العالمین ہے اس سے اپنی زندگی کا مقصد جاننا ہے۔ قرآن بیان کرتا ہے:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ.

الذاریات، 51: 56

’’اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لیے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں۔‘‘

قرآن انسان کے مقصد حیات کو بیان کرتا ہے کہ کوئی انسان بھی اپنی زندگی میں یہ تصور نہ کرے کہ وہ عبث پیدا کیا گیا ہے اور اس کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ اس لیے قرآن نے اس سوچ کو یوں مخاطب کیا ہے:

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰـکُمْ عَبَثًا.

المومنون، 23: 115

’’سو کیا تم نے یہ خیال کر لیا تھا کہ ہم نے تمہیں بے کار (وبے مقصد) پیدا کیا ہے۔‘‘

اور وہ زندگی جس کو قرآن نے کہا تم کو عبادت و عرفان الہٰی کے لیے دی گئی ہے۔ اب عبادت الہٰی کے ذریعے اس کی ذات کا عرفان کیونکر ہمارے لیے ممکن ہے۔ اس کا راستہ بھی قرآن نے واضح کردیا ہے کہ وہ راستہ مسلسل جدوجہد، احسن عمل اور ارفع سعی اور بہترین فعل سے عبارت ہے۔ اس لیے فرمایا:

الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَنَّکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً.

الملک، 67: 2

’’جس نے موت اور زندگی کو (اِس لیے) پیدا فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے۔‘‘

شاہراہ حیات پر چلتے چلتے انسان ذریعہ حیات اور مقصد حیات کو گھڈ مڈ کردیتا ہے۔ دونوں کو اپنے ذہن میں مکس کرلیتا ہے۔ عام دنیوی زندگی میں اگر کسی سے سوال کریں کہ تمہارا مقصد حیات کیا ہے۔ کوئی اس سوال کا جواب یوں دیتا ہے۔ مجھے ڈاکٹر بننا ہے مجھے انجینئر بننا ہے، مجھے بیرسٹر بننا ہے، مجھے پروفیسر بننا ہے، مجھے فلاں فلاں پروفیشنز میں یہ منصب لینا ہے۔ یہ سارے عہدہ و مناصب انسان کے مقصد حیات نہیں ہیں بلکہ یہ سارے ذرائع حیات ہیں، ان کے ذریعے انسان اپنی حیات کو باقی رکھتا ہے۔ اپنی زندگی کا نظام ان کے ذریعے چلاتا ہے۔ ان ہی کے ذریعے آمدن و دولت کماتا ہے۔

مقصد حیات اور ذریعہ حیات میں فرق

مقصد اور ذریعہ حیات میں بڑا واضح فرق ہے۔ مقصد حیات ایک مرتبہ متعین ہوجانے کے بعد بدلتا نہیں ہے جبکہ ذریعہ حیات بدلتا رہتا ہے۔ کوئی طالب علم ہے مگر بیرسٹر بننا چاہتا ہے۔ بعد ازاں حالات موافق نہ رہے وہ انجینئر بن گیا تو اس سے معلوم ہوا کہ ذریعہ اور ذرائع حیات بدلتے رہتے ہیں۔جبکہ مقصد حیات کبھی بھی نہیں بدلتا ہے مقصد ہمیشہ بڑا ہوتا ہے اور وہ مقصد انسانی فلاح اور دینی تفوق اور معاشرتی اصلاح اور قوم کی تقدیر بدلنے سے عبارت ہوتاہے۔ رسول اللہ ﷺ کو یہ مقصد حیات دیا گیا ارشاد فرمایا:

هُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّهٖ وَلَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُوْنَ.

الصف، 61: 9

’’وہی ہے جس نے اپنے رسول (ﷺ) کو ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا تاکہ اسے سب ادیان پر غالب و سربلند کردے خواہ مشرک کتنا ہی ناپسند کریں۔‘‘

اب ہمیں بحیثیت مسلمان اس آیہ کریمہ کی روشنی میں اپنے مقصد حیات کا تعین کرنا ہے اور پھر اس کے تعین کے بعد اپنی زندگی کی ساری مساعی و کاوش کو اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے صرف کردینا ہوگا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اپنے مقصد حیات اور اپنے مقصد بعثت کو حاصل کرلیا تو باری تعالیٰ نے اس امر کی خوشخبری کا اعلان یوں کیا:

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا.

المائدة، 5: 3

’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے اپنی بعثت، اپنی ذمہ داری نبوت کے بعد اپنی اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے اپنی زندگی کے شب و روز ایک کردیئے، دن ہو یا رات ہر وقت اپنے مقصد بعثت کو حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہے، مکہ کی سرزمین کو اپنی دعوت سے تیرہ سال تک مسلسل ثمر آور کیا لیکن مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوئے تو آپ نے اپنے مقصد کو پانے کے لیے سرزمین مکہ کے علاوہ دیگر خطوں کو بھی سامنے رکھا۔ بالآخر جب یہ سرزمین مکہ مقصد بعثت کے ابتدائی مرحلے میں نتیجہ خیز نہ ہوئی تو پھر آپ نے ہجرت کا ارادہ اور قصد کرلیا اور سرزمین مدینہ منورہ کو عظیم مقصد بعثت کی تکمیل کے لیے منتخب کرلیا تو مدینہ منورہ کی سرزمین نے آپ کی دعوت کو بڑی جلدی اور بڑی سرعت کے ساتھ قبول کیا۔ آپ کی تشریف آوری کے ساتھ مدینہ منورہ کی سرزمین نے ایک نیا تعارف مضبوط بنیادوں پر اختیار کرلیا۔ مکہ المکرمہ میں اسلام کا پیغام دعوت کے ذریعے پہنچا جبکہ مدینہ منورہ میں آپ کا پیغام سلطنت وحکومت کے قیام کے ذریعے پہنچا۔

بحیثیت مسلمان بامقصد زندگی کی تشریح

ایک مسلمان کو اپنی زندگی کو رسول اللہ ﷺ کی سیرت کی روشنی میں بامقصد بنانا ہے۔ اس اعتبار سے ہر مسلمان کی زندگی کے دو رخ ہیں ایک اس کی انفرادی زندگی ہے اور دوسری اس کی اجتماعی زندگی ہے۔ انفرادی زندگی کو بامقصد بنانے کے لیے پہلے دین کی تعلیم کو حاصل کرنا ہے اور پھر ان تعلیماتِ دین پر عمل کرنا ہے اور بعد ازاں دین کی اس تعلیم اور دین کے اس عمل کی تبلیغ کرکے دوسروں کی زندگیوں کو سنوارنا ہے۔ اسلامی اور انسانی زندگی کو بامقصد بنانے کے لیے پہلی چیز طلب علم ہے، علم موثر ذریعہ ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ہر مسلمان کے لیے طلب علم کو فرض قرار دیا ہے۔

طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم و مسلمة.

(افتخاح الکتاب والایمان و فضائل الصحابہ والعلم، باب فضائل العلماء والحث علی طلب العلم مکتبہ دارالسلام، بیروت، لبنان، رقم الحدیث: 224)

بدقسمتی سے یہ امت مقصد آشنا کیسے ہوسکتی ہے اس لیے کہ دنیا میں سب سے زیادہ جاھل اور پست یہ امت ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسری اقوام اور دوسرے مذاہب کے لوگ زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔ باوجود اس کے اسلام نے تعلیم پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔آج علم سے لاتعلقی ہی ہماری پسماندگی اور تنزلی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ہر مسلمان کو رسول اللہ ﷺ نے اپنی سیرت کے ذریعے تحصیل علم پر کاربند کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کے لیے تبلیغ پر گامزن کیا ہے۔

اگر کوئی بھی حکومت اپنے سارے لوگوں کو تعلیم یافتہ اور خواندہ بنانا چاہے تو بہت ہی تھوڑے عرصے میں وہ یہ فریضہ سرانجام دے سکتی ہے مگر اس ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے لیے لیڈر شپ کا ارادہ، عزم اور قوت فیصلہ چاہیے۔ آج اس قوم کو تعلیم سے آراستہ کردیا جائے تو اس کی تقدیر بدل جائے گی اور یہ اپنے مقصد حیات سے آشنا ہوجائے گی۔

رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کو مقصد حیات سے آشنا کرنے میں سب سے پہلے ان کو تعلیم دی ہے اور ان کے ذہن بنائے ہیں اور ان کو تربیت دی ہے۔ تعلیم و تربیت کے عمومی عمل میں آپ تمام صحابہ کرامؓ کو شریک کرتے تھے اور ان سے مختلف مسئلوں پر مشاورت کرتے تھے اور یوں ان کو اس عمل کے ذریعے تعلیم بھی دیتے تھے اور ان کی تربیت بھی کرتے تھے، اصحاب صفہ نے بہت زیادہ وقت رسول اللہ ﷺ سے تعلیم و تربیت کے لیے وقف کیا تھا اور رسول اللہ ﷺ سے خصوصی فیضان رسالت حاصل کیا تھا۔

اسلام کے پیغام کو مختلف اقوام اور بلاد میں عام کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ اپنے ان ہی تربیت یافتہ اصحاب کو بھیجتے تھے۔ آپ کی مجلس میں مقصد حیات سے آشنا ہونے کے لیے ہر قوم کے افراد آتے تھے اور آپ کی مجلس میں روم سے آئے ہوئے صہیب رومی بھی موجود ہوتے تھے۔ ایران و فارس سے آئے ہوئے حضرت سلیمان فارسی بھی حاضر ہوتے تھے اور سرزمین حبش سے آئے ہوئے حضرت بلال حبشی بھی آپ کی چوکھٹ پر نظر آتے تھے۔ یہ سب مختلف خطوں، مختلف قوموں اورمختلف نسلوں اورمختلف زبانوں اور مختلف رنگوں کے حامل افراد صحبت و سنگت رسول میں موجود ہوتے تھے۔ دنیا کو بڑا ہی عجیب نظارہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و تربیت اور آپ کے عطاکردہ مقصد حیات نے دکھادیا تھا وہ سب کے سب کلمہ گو خود ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہوگئے تھے اور ان کے درمیان رشتہ اخوت استوار ہوگیا تھا۔

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ.

الحجرات، 49: 10

’’بات یہی ہے کہ (سب) اہلِ ایمان (آپس میں) بھائی ہیں۔‘‘

کیا زندہ قوم بننے کیلئے انفرادی مقصد حیات مدنظر رکھنا کافی ہے؟

ہر قوم کے فرد کو اپنے انفرادی مقصد حیات کو سامنے رکھتے ہوئے اجتماعی مقصد حیات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا، تبھی کوئی قوم زندہ قوم بن سکے گی۔ انفرادی زندگی کے مقصد حیات پر ہی اگر زور دیا جائے اور اجتماعی مقصد حیات کو نظر انداز کردیا جائے توپھر بغداد جیسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کہ وہاں بڑے بڑے علماء موجود تھے مگر زوالِ بغداد کے وقت ان کی گردنیں بھی کاٹی گئیں۔ یہ انفرادی زندگی میں باشعور تھے مگر اجتماعی شعور قوم میں پیدا نہ کرسکے تھے۔

اگر اجتماعی شعور زندہ ہوتا تو عراق کی وہ تباہی نہ ہوتی جو تاریخ کے اوراق ہمیں بتاتے ہیں۔ اجتماعی شعور زندہ ہونے پر یہ قوم بغیر تلوار و تیر کے بھی اپنے بازؤں کی قوت سے بھی دشمن کو ناکام کرسکتی تھی۔ جس قوم میں اجتماعیت ہو وہ کبھی بھی نہیں مرتی اور جس قوم کی اجتماعیت مرجائے وہ قوم زندہ ہوتے ہوئے مردہ قوم ہوجاتی ہے۔

ہماری قوم کی اجتماعیت کو سب سے زیادہ نقصان سیاست اورمذہب کے غلط استعمال نے دیا ہے۔ ہم نے پوری قوم میں سیاست کے نام پر ایک دوسرے سے نفرت و حقارت پیدا کی ہے اور مذہب کے نام پر ایک دوسرے کے خلاف فرقہ واریت اورمذہبی جنونیت کو ہوا دی ہے۔آج الا ماشاء اللہ نہ کوئی سیاستدان اجتماعیت کی دعوت دیتا ہے اور نہ ہی مذہب کا کوئی مبلغ (الا ماشاء اللہ) عملی اجتماعیت کا نام لیتا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ قوم اپنا کوئی اجتماعی تشخص نہیں رکھتی ہے۔

(ڈاکٹر میر معظم علی علوی، خلافت راشده، تحریک خلافت راشده، لاہور، ص: 93)

آج دنیا بھر میں مسلمان ذلیل و خوار اس لیے ہورہے ہیں کہ ہماری اجتماعیت کا آج فقدان ہے جس کے باعث مسئلہ کشمیر، مسئلہ فلسطین اور دیگر مسلم امہ کے عالمی مسئلے لاینحل ہیں۔ اور اجتماعی مقصد حیات کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں تین اقدام کرنے ہیں۔ سب سے پہلے قوم کی ذہن سازی کرنا ہوگی اور اس کے ذہین افراد کو سرگرم کرنا ہوگا اور تیسرا ان افراد کی معاشی کفالت کرنا ہوگی۔

انفرادی مقصد حیات اور اجتماعی مقصد حیات کو حاصل کرنے کے لیے انفرادی اور اجتماعی کاوش کے عمل سے گزرنا ہوگا۔ اگر آپ اپنا کوئی مکان تعمیر کرنا چاہتے ہیں تو اس مقصد کے لیے سب سے پہلے آپ کو اینٹوں کی ضرورت ہوگی اور اب اینٹیں دو طرح کی ہیں کچھ کچی ہیں اور کچھ پکی ہیں۔ بلاشبہ پکی اینٹوں کا مکان زیادہ مضبوط ہوگا۔پکی اینٹ پکے ذہن اور تربیت یافتہ ذہن کی علامت ہے۔ پکی اینٹوں کو بنانے کے بعد ہمیں مکان بھی بنانا ہے۔ مکان اور محل کی تعمیر اجتماعی عمل سے ہی زیادہ موزوں ہے۔ فقط پکی اینٹیں ایک ڈھیر تو ہوسکتی ہیں مگر مکان نہیں ہوسکتیں۔ مکان کسی نقشے سے بنتا ہے اس کے لیے مستری اور مزدوروں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ گویا اجتماعیت کے بغیر مکان بھی اچھی طرح تعمیر نہیں ہوسکتا۔ یہاں مکان اور محل معاشرے کی مثل ہیں جبکہ کوئی بھی معاشرہ اجتماعی فکر اور اجتماعی کاوش کے بغیر کبھی بھی مثالی نہیں بن سکتا ہے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی ہمیشہ مقصد آشنا رہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے نفس پر اطیعواللہ کا الوہی حکم نافذ کردیں۔ اور اگر ہم چاہتے ہیں ہماری سیرت میں بھی سیرت رسول ﷺ کی کوئی جھلک نظر آئے تو ہمیں اپنی زندگی کا سارا اور مکمل عنوان اطیعوا الرسول پر قائم کرنا ہوگا اور اس اطاعت رسول ﷺ میں فنائیت ہی ہمیں سیرت طیبہ کے حقیقی فیضان سے منور و آراستہ کرے گی۔

اسلامی تعلیمات کو ہم تین حصوں میں سمجھ سکتے ہیں۔ ایک اعتقادات ہیں دوسری عبادات ہیں اور تیسری چیز معاملات ہیں۔ مکی زندگی میں اعتقادات اور عبادات کا غلبہ رہا ہے جبکہ مدنی زندگی میں ان دونوں کے ساتھ ساتھ معاملات کا بھی پہلے سے زیادہ اضافہ ہوگیا تھا۔ ہمیں اپنے انفرادی اور اجتماعی مقصد حیات کو حاصل کرنے کے لیے دین کے ان تینوں پہلوؤں سے اپنی شخصیت کو مزین و آراستہ کرنا ہوگا۔

مصطفوی معاشرے کے لیے تین اہم اقدام

آج ہمیں ہر سطح پر اپنے معاشرے کو مثالی بنانے کے لیے تین طرح کے اقدام کرنے ہوں گے۔ تعلیم و تربیت کے عمل کو گھر سے لے کر مسجد تک اور معاشرے کی سطح پر مثبت سرگرمیوں کے ذریعے فروغ دینا ہوگا۔ اور دوسرا شعبہ انصاف کی جلد فراہمی کو بھی پورے معاشرے کی سطح پر ایکٹو کرنا ہوگا۔ کسی کا حق نہ مارا جائے، کسی کے ساتھ ظلم نہ ہو، کسی کی زمین پر قبضہ نہ ہو، کسی کے اثاثہ جات کو چھینا نہ جائے، کسی بھی معاشرے کے فرد کے کسی بھی حق کو پامال نہ کیا جائے۔

تیسرا شعبہ جسے ہمیں قائم اور متحرک کرنا ہوگا کہ وہ بیت المال کا قیام ہے۔ اس شعبے کے ذریعے معاشرے کے ہر کمزور، ضرورتمند اور بے حال و بے سہارا فرد اور مقروض شخص کی مدد کی جائے۔ اسے بآسانی قرض حسنہ فراہم کیا جائے۔ اس کی بیماری میں اور حادثاتی ضرورت میں اس کی مدد کی جائے۔ یہی اقدامات ہی ہماری اجتماعی زندگی کو خوبصورت و حسین اور دلکش بناسکتے ہیں۔ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ہر شخص کو اخلاص کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور ان تمام اقدامات کے عملی نفاذ میں سمجھداری کا اظہار کرنا ہوگا اور حتی کہ معاشرے کو مثالی بنانے کے لیے ہر فرد کو انتہائی سنجیدگی کا رویہ اپنانا ہوگا۔

(ڈاکٹر میر معظم علی علوی، خلافت راشده، تحریک خلافت راشده، لاہور، ص: 128)

ہم معاشرے میں جس جمہوریت کی بات کرتے ہیں اس کی نرسری اور اس کی نچلی سطح محلہ، قصبہ اور چھوٹی آبادی گاؤں ہے۔ اس نچلی سطح پر ہمیں اپنے لوگوں کو جمہوریت کے ذریعے قوم اور اعلیٰ لوگوں میں بدلنا ہوگا۔ ڈیموکریسی کا یہی عملی پہلا مقام ہے ڈیموکریسی کا لفظ بھی ہمیں یہی معنی سمجھاتا ہے کہ ڈیمو کا مطلب لوگ People ہیں جبکہ کریسی Cracy کا مطلب رول اینڈ اتھارٹی Role and Authority ہے۔ اس لیے جمہوریت کا مطلب یہ ٹھہرا کہ لوگوں کا رول لوگوں کی حکمرانی اور لوگوں کی اتھارٹی اور لوگوں کی پاور اس لیے جمہوریت کو ان تین تصورات کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے کہ: Rule of the people by the people, for the people

ہم نچلی سطح کے جمہوری اداروں کے ذریعے Rule of the people کی صورت تو کریں پھر by the people اور for the people کا عمل بھی ہوجائے گا۔ اس تصور کو ہمارے نظام میں بپا کرنے کے لیے بلدیاتی ادارے بنائے گئے ہیں کاش آج یہ ادارے زندہ ہوں اور اپنا کام صحیح بنیادوں پر کریں تو معاشرے کو ہم ایک مثالی معاشرہ بناسکتے ہیں۔ اسلام یہ تصور دیتا ہے کہ قوم اپنی قیادت کے لیے جس فرد اور جن افراد کو منتخب کرے وہ فرد اور افراد دیانت دار ہوں، باصلاحیت ہوں اور اپنے فرض منصبی کا خوب خیال اور احساس رکھنےو الے ہوں۔

(ڈاکٹر میر معظم علی علوی، خلافت راشده، تحریک خلافت راشده، لاہور، ص: 147)

معاشرے کے ان پرائمری بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری یہ ہو کہ یہ ہر بھوکے کو کھانا کھلائیں۔ لوگوں کو روزگار فراہم کریں اور ہر بے لباس شخص کو باوقار لباس فراہم کریں۔ رہائش سے محروم افراد کو رہائش فراہم کریں، بیمار افراد کے علاج کے لیے ہسپتال کی سہولت دیں۔ اپنی کمیونٹی کے تمام افراد کو تعلیم کی لازمی سہولت دیں۔ اگر کوئی زیادتی کرے تو مظلوم کا ساتھ دیں اور ظالم کو قانون کی گرفت میں لائیں۔ ہر کسی کو سستا انصاف فراہم کیا جائے۔ نوجوانوں کو بے راہ روی سے بچانے کے لیے شادی بیاہ کی رسومات کو آسان بنائیں۔ یہ عمل اور یہ اقدامات ہی معاشرے کو سنوار سکتے ہیں۔

(نظام خلافت راشده، ص: 153)

اسلام تو یہ تصور دیتا ہے کہ انسان کی یہ دنیا بھی اچھی ہو اور اس کی آخرت بھی اچھی ہو، اس لیے اسلام اس دنیا کی بھی بھلائی کی بات کرتا ہے اور آخرت کی اچھائی کی بات بھی کرتا ہے۔ اس لیے قرآن نے ہمیں یہی تصور دیا ہے۔

ربنا آتنا فی الدنیا حسنة وفی الآخرة حسنة.

حقیقی مسلمان اور اعلیٰ انسان وہی ہے جس کی دنیوی حیات بھی حسنہ کی علمبردار ہو اور جس کی اخروی حیات بھی حسنہ سے معمور ہو۔ ہمیں اپنے معاشرے کو مثالی بنانے کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر آزادی فکرو عمل کی اقدار اپنے لوگوں کو دینی ہوں گی۔ ہمارا کوئی جابرانہ اور متکبرانہ انداز نہ ہو، کوئی بات کسی کے مزاج اور طبیعت کے خلاف ہو تو اس پر گردن زنی نہ کی جائے، اسے کسی قسم کی قیدو بند کی صعوبتیں ہرگز نہ دی جائیں، اسے نہ اٹھایا جائے اور نہ ہی اغوا کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے ماحول کو مخالفانہ رائے کو برداشت کرنے والا بنانا ہوگا۔ اپنے ماحول میں پاکیزگی پیدا کرنا ہوگی، اخلاقی اقدار کے معیار کو بلند کرنا ہوگا۔ ہر سطح پر بڑے کی اطاعت اور چھوٹے پر شفقت کو فروغ دینا ہوگا۔ معاشرے سے ہر نوعیت کے جرائم اور خبائث کا خاتمہ کرنا ہوگا۔(ڈاکٹر میر معظم علی، نظام خلافت راشدہ، ص 164)

خلاصہ کلام

زندگی کے کسی بھی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پہلی چیز اس فرد اور قوم کا اخلاص (Sincerity) ہونا چاہیے، دوسری چیز جو مقصد کے حصول کو یقینی بناتی ہے وہ شعور (Sensibility) ہے۔ شعور کا تعلق انسان کے ذہن کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔ کامیابی کے لیے تیسرا عنصر سنجیدگی (Seriousness) ہے۔ اگر ہم اپنے مقصد کے حصول کے لیے سنجیدگی اختیار نہیں کرتے تو کبھی بھی کامیابی ہمارا مقدر نہیں بن سکتی۔ ایک عام فرد سے لے کر ایک طالب علم تک کوئی بھی شخص کامیابی کے ان تینوں عناصر کو کماحقہ اپناکر ہی کامیاب ہوسکتا ہے۔

اگر کوئی طالب علم ہے وہ اپنے امتحان اور کامیابی کے لیے مخلص نہیں ہے اور نہ ہی اپنی کامیابی کا کامل اور اکمل شعور رکھتا ہے بلکہ وہ اپنے امتحان کو بے شعوری کے ساتھ دیکھتا ہے تو وہ ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کچھ مخلص ہوتے ہیں مگر بے شعور ہوتے ہیں تب بھی وہ ناکام ہوجاتے ہیں اور کچھ باشعور بھی ہوتے ہیں مگر اپنے مقصد کے لیے سنجیدہ نہیں ہوتے ہیں۔ تب بھی وہ خاسر ہوجاتے ہیں۔

غرضیکہ تینوں عناصر میں سے کسی ایک کی کمی بھی کامیابی سے محروم کردیتی ہے۔ اخلاص، شعور اور سنجیدگی یہ تینوں عوامل انسانی کامیابی کے لیے ذہنی عناصر کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ اس کامیابی کو حاصل کرنے کے لیے کچھ عملی عناصر بھی ہیں۔ جس میں پہلا عنصر اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اس کی منصوبہ بندی ہے اور اس کا مکمل تنظیمی عمل (Organization process) لازمی ہے۔ کسی بھی مقصد کے لیے تنظیمی عمل اس کی کامیابی کو یقینی بنادیتا ہے۔

جب رسول اللہ ﷺ کا غزوہ بدر میں کفار و مشرکین کے ساتھ سامنا ہوا تو آپ نے اپنے اصحاب کو ان کے سامنے ایک تنظیمی عمل کے ساتھ اتارا جبکہ کفار و مشرکین تنظیمی عمل سے تہی دامن تھے۔ وہ ایک جم غفیر کی صورت میں جمع تھے اور ان کو اپنی عددی کثرت پر بڑا ناز تھا۔ یہ مسلمانوں سے تین گنا زیادہ تھے مگر وہ بدنظم (Undisciplined) تھے۔ ان میں سرے سے کوئی تنظیمی عمل موجود نہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک لکیر کھینچ کر اپنے جانثاروں کو کھڑا کیا اور ان کی خوب تنظیم کی اس تنظیمی عمل اور اس نظم نے مسلمانوں کو یہ فائدہ دیا کہ اپنے سے تین گنا زیادہ فوج پر مسلمانوں کا یہ قلیل لشکر غالب آگیا۔

اجتماعی کامیابی کی پہلی شرط معاشرے کا اجتماعی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تنظیمی شکل اختیار کرنا ہے۔ ایسی ہی افواج کامیاب ہوتی ہیں جن میں بہت زیادہ نظم و نسق اور ڈسپلن ہوتا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے دوسرا عملی عنصر تربیت ہے (Training) جب تک انسانی ذہن Mind making کا مرحلہ طے نہ کرے کامیابی کا حصول یقینی نہیں ہوتا ہے۔ یہ تربیت بھی دو طرح کی ہے۔ ایک ذہنی تربیت ہے اور دوسری جسمانی تربیت ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کی سب سے پہلے ذہنی تربیت کی اور اسی وجہ سے آپ نے بہت قلیل وقت میں اپنے مقصد بعثت کی منزل کو پالیا جسمانی تربیت آج کل ہر جگہ عام ہے مثلاً گاڑی Drive کرنا تبھی ممکن ہوگا۔ جب اس کی تربیت لی ہوگی اگر کوئی بغیر تربیت کے گاڑی چلاتا ہے تو اس کے دو ہی انجام ہوں گے یا ہسپتال میں جائے گا یا قبرستان میں جائے گا۔

باقاعدہ تربیت یافتہ ڈرائیونگ ہی انسان کو حادثات اور نقصانات سے محفوظ رکھتی ہے۔ یوں انسان کا تربیتی عمل ہر جگہ مسلم ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کی ویعلمھم اور یزکیہم کے ذریعے ان کی ذہنی تعلیم اور جسمانی تربیت کا اہتمام کیا تھا۔ آج ہم اپنی قوم کو کیا کیا قومی اخلاق، قومی رویے اور قومی اہداف سکھانا چاہتے ہیں۔ ہمیں ان سب کی تعلیم بھی دینا ہوگی اور ان کی تربیت بھی دینا ہوگی۔ تبھی قوم ایک مثالی قوم بنے گی اور ہمارا معاشرہ ایک بے مثال مثل معاشرہ تبھی بنے گا۔ تعلیم کی کثرت بھی قومی اہداف کے تعین کے بغیر ہمیں منزل مراد پر نہیں پہنچا سکتی۔

یہ رسول اللہ ﷺ کی عطا کردہ تعلیم اور تربیت کا نتیجہ ہی تھا کہ صحابہ کرامؓ نے اتنے بڑے جزیرہ عرب کو صرف اور صرف دس سال کے قلیل عرصہ میں آپ کی قیادت میں فتح کرلیا اور اس میں اسلامی حکومت قائم کردی۔ اسلام کا ہر عمل ایک تعلیم بھی ہے اور ایک مستقل تربیت بھی ہے۔ نماز ہی کو لے لیں یہ ذہنی تربیت بھی ہے اور جسمانی تربیت بھی ہے۔ سب کے سب مقتدی ایک لائن اور ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں۔ امام رکوع کرتاہے تو سب کے سب رکوع کرتے ہیں، امام سجدہ کرتا ہے تو سب کے سب سجدہ کرتے ہیں۔ اسی طرح ہر ہر عمل صلاۃ میں ہر مقتدی امام کی اتباع اور پیروی کرتا ہے۔ یوں نماز کا عمل قوم مسلم کی ذہنی تربیت بھی ہے اور جسمانی تربیت بھی ہے اور اس عمل کا مقصد کسی ایک امام، کسی ایک رہبر، کسی ایک راہنما کی اطاعت اور پیروی کرنا ہے اور اسی کردار کے ذریعے کسی عمل کی اجتماعی تکمیل ہوتی ہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم کی اجتماعی کامیابی کے لیے قوم کی اجتماعی تعلیم، اجتماعی تنظیم اور اجتماعی تربیت لازمی اور ضروری ہے۔ تبھی قومی مقصد حاصل ہوسکتا ہے۔ ہمیں ہر سطح پر معاشرتی برائیوں کو قتل کرنا ہوگا۔ معاشرتی اچھائیوں کو زندہ کرنا ہوگا۔ ہمیں بحیثیت مسلمان اس مسلمانی کردار کو اپنانا ہوگا کہ ایمان والے تو وہ ہیں جو تامرون بالمعروف نیکی کا حکم دیتے ہیں اور وینھون عن المنکر برائی سے روکتے ہیں۔ (آل عمران، 3: 110)

بدقسمتی سے یہ امت مقصد آشنا کیسے ہوسکتی ہے اس لیے کہ دنیا میں سب سے زیادہ جاھل اور پست یہ امت ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسری اقوام اور دوسرے مذاہب کے لوگ زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔ باوجود اس کے اسلام نے تعلیم پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔آج علم سے لاتعلقی ہی ہماری پسماندگی اور تنزلی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ہر مسلمان کو رسول اللہ ﷺ نے اپنی سیرت کے ذریعے تحصیل علم پر کاربند کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کے لیے تبلیغ پر گامزن کیا ہے

معاشرے سے کسی بھی اچھائی کو قتل کرنا تمام اچھائیوں کو قتل کرنا اور ختم کرنا ہے۔ کسی ایک اچھائی کو زندہ کرنا سارے معاشرے کی اچھائی کی قدروں کو زندہ کرنا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے قرآن حکیم نے ایک انسانی جان کے ناحق قتل کو تمام انسانوں کا قتل کردیا ہے اور ایک انسانی جان کی حفاظت کو کل انسانی جانوں کی حفاظت قرار دیا ہے۔ اس لیے فرمایا:

مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاط وَمَنْ اَحْیَاهَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا.

المائدة، 5: 32

’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد انگیزی (کی سزا) کے بغیر (ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)۔‘‘

اسلام تو ایک نفس اور ایک جان میں کل جہاں کا تصور دیتا ہے اور سب سے زیادہ اجتماعیت پر زور دیتا ہے اور اسی حقیقت کو یداللہ علی الجماعۃ کے تصور کے ساتھ واضح کرتا ہے اور جس فعل کو ساری قوم مل کر کرے تو اس میں اللہ کی مدد بھی شامل حال ہوجاتی ہے۔ بدقسمتی آج تک ہم نے من حیث المجموع اس قوم کو کوئی قومی ہدف نہیں دیا ہے۔ کوئی قومی شعور نہیں دیا ہے، کوئی قومی اخلاق نہیں دیا ہے اور کوئی قومی مقصد نہیں دیا ہے اور کوئی قومی نصب العین نہیں دیا ہے۔ اس لیے ہم انفرادی زندگی میں بھی بے مقصد اور قومی زندگی میں بھی بے مقد ہیں۔ ہماری انفرادی کاوشیں بھی بے شمار ہیں اور اجتماعی کاوشیں بھی بے حساب ہیں۔ مگر ان کی سمت متعین نہیں ہے۔ ان کا رخ مقرر نہیں ہے۔ ہم من حیث القوم اس اونٹنی کی طرح ہیں جو بے لگام ہے اور بے مہار ہے جو بغیر کسی مقصد چلے جارہی ہے۔ اس لیے ہماری انفرادی اور اجتماعی حالت بقول اقبال یہ ہے کہ ہم اپنے انفرادی اور اجتماعی مقصد کو بھول چکے ہیں۔ ہمارا نغمہ کیا تھا ہم اس کو چھوڑ چکے ہیں۔

آیئے ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنے اصل نغمے اور اصل مقصد کو پہچانیں، اپنی قوم اور اپنی ناقہ بے زمام کو پھر سے مقصد اور منزل کی قطار میں شامل کرکے اس قوم کو ایک عظیم قوم بنادیں اور اس کے معاشرے کو ایک مثالی معاشرہ اور ایک مصطفوی معاشرہ بنادیں۔ اقبال کی طرح ہر کسی کو اور ہر صاحب درد کو اپنی قوم کی ناقہ بے زمام کو سوئے قطار می کشم کا فریضہ سرانجام دینا چاہیے اور اسی جانب متوجہ کرتے ہوئے اقبال نے اپنا وظیفہ حیات امت کو یوں بتایا ہے۔

نغمہ کجا ومن کجا ساز سخن بہا نہ الیست
سوئے قطار می کشم ناقہ بے زمام را

لہذا ہر سطح کے تمام اساتذہ، تمام طلبہ و طالبات اور تمام تعلیم یافتہ حضرات اور درد دل رکھنے والے احباب اپنی قوم کے لیے یہ فریضہ سرانجام دیں۔

سوئے قطار می کشم می کشم ناقہ بے زمام را