’’وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘ کلام اقبال کے اس مصرع میں خواتین کے معاشرتی کردار کے ضمن میں ایسا خوبصورت اظہار موجود ہے کہ گویا سمندر کو کوزے میں سمودیا ہے۔ گھر ہو یا باہر، خواتین کا مثبت کردارمعاشروں کی بنیادیں مستحکم کرنے کے ساتھ تمام افراد معاشرہ کی زندگیوں کو سہل بھی بناتا ہے ۔ شریعت اسلامیہ میں عورت پر کوئی خرچہ لازم نہیں قرار دیا۔ نکاح سے پہلے وہ والدین کے گھر میں باپ کی ذمہ داری ہے اور شادی کے بعد شوہر کے پاس اس کے تمام اخراجات و ضروریات کو پورا کرنے کی ذمہ داری شوہر کو سونپی گئی ہے۔
سورۃ الاحزاب 33 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور اپنے گھروں میں سکون سے قیام پذیر رہنا اور پرانی جاہلیت کی طرح زیب و زینت کا اظہار مت کرنا اور نماز قائم رکھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت گزاری میں رہنا۔‘‘
گویا یہ طے شدہ بات ہے کہ اسلامی معاشرہ میں گھر کے باہر کی دوڑ دھوپ کی ذمہ داری ’’مرد‘‘ پر ہے اور گھر کے امور اور تربیت اولاد کے فریضہ کو سرانجام دینے کی تاکید عورت کے لیے ہے۔ مرد و عورت کے لیے فرائض سرانجام دینے کی یہ تقسیم ایک فطری اور متوازن نظام ہے جو دین اسلام ہمیں عطا کرتا ہے اور شریعت کے احکامات کے مطابق جب مردو زن اپنا معاشرتی کردار ادا کرتے ہیں تو دونوں (مردو زن) سکون و اطمینان قلب کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ دین کا بغور مطالعہ ہم کو یہ سکھاتا ہے کہ عورت کا بہ وقت ضرورت گھر سے باہر کام کرنا جائز تو ہے لیکن اگر موقع میسر ہوتو گھر اور گھر کی چار دیواری ہی عورت کا بہترین مقام ہے۔ گویا اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ بنایا ہے۔ البتہ جو کام مردوں کے لیے جائز ہیں قرآن و حدیث میں عورتوں کو ان سے منع نہیں کیا گیا ہے۔البتہ عورت کے لیے شرعی حدود و قیود میں رہنا ضروری ہے۔ یعنی بعض اوقات حالات و واقعات کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ عورت کو گھر سے باہر نکل کر کمانا اور ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات خواتین کی ملازمت کرنا معاشرہ کی اجتماعی ضرورت بھی ہوتی ہے جیسا کہ لیڈی ڈاکٹرز کا خواتین کو طبی امداد فراہم کرنا یا تعلیم نسواں کے لیے خواتین کا شعبہ تدریس سے منسلک ہونا وغیرہ۔
اگر تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو کسی بھی دور میں معاش کی تمام ذمہ داری خواتین کے کاندھے پر نہیں ڈالی گئی۔ خواتین کسب معاش میں مختلف طریقوں سے مردوں کا ہاتھ ضرور بٹاتی ر ہی ہیں۔ کھیتی باڑی، مویشی پالنا، شعبہ تدریس، کپڑا بنانے کے لیے کپاس چننے سے لے کر دھاگہ بنانا اور درزن کے طور پر کپڑے سینا پرونا یہاں تک کہ دھوبن تک کے کام خواتین کرتی رہی ہیں۔ برتن سازی ہو یا باورچی ہونا تجارت تک بہت سے شعبہ جات زندگی میں خواتین اپنے کنبے پالنے کے لیے محنت و مشقت کرتی رہی ہیں۔ دور حاضر پر نظر ڈالیں تو احساس ہوتا ہے کہ ملازمت اور معاشی سرگرمیوں کا ہر میدان خواتین کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ کھیل کے میدان کرکٹ، ہاکی، فٹ بال، والی بال وغیرہ وغیرہ کی بات ہو یا آفس اور فیکٹری کا تذکرہ ہو فوج اور پولیس کی ملازمت ہویا جہاز اڑانے یا کشتی رانی کا کام ہو، ستاروں پر کمند ڈالنے کو چاند تک کا سفر کرنا ہو یا ڈاکٹر انجینئر بن کر بنی نوع انسان کی خدمت بجا لاتی ہو۔
خواتین کے لیے زندگی کے ہر شعبہ تک رسائی ممکن ہو چکی ہے۔ آج کی عورت وزیراعظم بنتی بھی نظر آتی ہے اور بہترین کاروباری ٹائی کون بھی۔ لیکن ترقی اور آزادی کے اس سفر میں عورت نے اپنے عورت ہونے کا اعزاز کھودیا ہے۔ وہ ہر شعبے میں ’’مرد‘‘ کی طرح حصہ تو لے رہی ہے لیکن یہ امومیت کا وہ فریضہ اولین جو کائنات میں عورت کی اصل پہچان ہے اور فطری تقاضا ہے اب عورت کی غفلت کا شکار ہورہا ہے۔ دور حاضر کی آزادی سے عورت کو بظاہر فوائد حاصل ہوئے اور عورت کو اپنی قابلیت منوانے کا موقع بھی ملا لیکن اس اندھا دھند ترقی نے معاشرتی نظام کو ایسا نقصان پہنچایا ہے کہ عصر حاضر کے معاشروں میں توازن باقی نہیں رہا اور خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر گیا۔ میاں بیوی ایک دوسرے سے دوریوں میں مبتلا ہورہے ہیں اور بچوں کو ماں کی محبت اور شفقت سے بھرپور تربیت نہیں مل رہی۔ فحاشی اور عریانیت بڑھتی چلی جارہی ہے۔ماں، بیٹی اور بیوی جو عورت کے بہترین روپ ہیں۔ ان کا وجود گہنا رہا ہے۔ آج کی عورت آزادی اور ترقی کے نام پر جن کھوکھلی بنیادوں پر زندگی کی عمارت تعمیر کررہی ہے وہ کبھی عورت کے لیے پرسکون زندگی کی ضامن نہیں ہوسکتی۔ نہ صرف عورت بلکہ پورے معاشرے کے لیے بے سکونی اور انتشار کا پیش خیمہ ہے۔ بقول اقبال
تمھاری تہذیب خود آپ اپنے خنجر سے خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
عورت کی بے راہ روی نے کیسی کیسی برائیوں اور بیماریوں کو جنم دے دیا کہ انسانیت شرمندہ نظر آتی ہے اور یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ عصر حاضر میں مذہب کی اہمیت اور اخلاقی تعلیمات کو قصہ پارینہ بنادیا گیا ہے۔ معصوم بچیوں کی لمحہ لمحہ تربیت کرنے والی ماں کے پاس آج اپنے بچوں کو صحیح اور غلط کا فرق بتانے اور سمجھانے کی فرصت ہی نہیں ہے اور اس کے نتیجے میں جو سب سے بڑا نقصان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ خاندان جو سماج کی اکائی ہے اس کا نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا ہے۔
ضرورت ہے تو اس امر کی کہ آج کی عورت اپنی تخلیق کے سب سے بڑے پہلو کو سمجھے اور یہ جان لے کہ عورت کو اللہ رب العزت نے بنایا ہی ماں، بیوی، بہن اور بیٹی کے کردار بہترین انداز میں نبھانے کے لیے ہے۔ عورت کی تخلیق کا اولین مقصد ان معصوم پھولوں کی پرورش ہے جو عورت کی گود میں کھلتے ہیں۔ عورت کا کوئی بھی روپ ماں سے بہتر نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ رب العزت نے جنت ماں کے قدموں تلے رکھ دی ہے اور اس دنیا میں ماں کی محبت تمام محبتوں کی ماں ہوتی ہے۔ بوعلی سینا نے کیا خوبصورت عکاسی کی ۔۔۔ ماں کی محبت کی: بقول بوعلی سینا
’’اپنی زندگی میں محبت کی سب سے اعلیٰ مثال میں نے تب دیکھی جب سیب چار تھے اور ہم پانچ تب میری ماں نے کہا مجھے سیب پسند ہی نہیں۔ گویا حضرت اقبال جب اپنے کلام میں کہتے ہیں کہ:
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر ظرف ہے اسی درج کا در مکنوں
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں
تو عورت کے ان ہی بہترین کرداروں کی بات کرتے ہیں جو وہ معاشرے میں ’’ماں‘‘ بہن اور بیوی اور بیٹی کے روپ میں ادا کرتی ہے۔ ماں کی گود تربیت ہی قوموں کو بہادر سپوت عطا کرتی ہے۔ پڑھی لکھی ماں ہی اپنے بچوں کو بہترین تربیت سے نواز کر قوم کے لیے مثبت کردار ادا کرنے کے قابل بناتی ہے۔لہذا عورت کی تعلیم تو ہر صورت ضروری ہے لیکن اس کا گھر سے باہر نکل کر کام کرنا جائز تو ہے لیکن ہمارے دین اور معاشرت کی اولین ترجیح نہیں ہے اور اگر کوئی امر مجبوری نہ ہو تو گھر اور خاندان اور خصوصاً بچوں کی پرورش اور بہترین دیکھ بھال کا فریضہ نبھانا ہی عورت کی خوبصورتی اور فرض اولین ہے۔ جس کا سب سے بڑا صلہ تو عورت کو ’’ماں‘‘ کے روپ میں ملنے والی اہمیت اور عزت سے ہی مل جاتا ہے۔ خود حضرت اقبال ماں کے لیے کہتے ہیں:
تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا
گھر مرے اجداد کا سرمایہ عزت ہوا
۔۔۔۔۔۔۔ نہ ہو تو گھر اور خاندان اور خصوصاً بچوں کی پرورش اور بہترین دیکھ بھال کا فریضہ نبھانا ہی عورت کی خوبصورتی اور فرض اولین ہے۔ جس کا سب سے بڑا صلہ تو عورت کو ماں کے روپ میں ملنے والی اہمیت اور عزت سے ہی مل جاتا ہے۔ خود حضرت اقبال ماں کے لیے کہتے ہیں:
تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا
گھر مرے اجداد کا سرمایہ عزت ہوا
اللہ رب العزت کی بنائی ہوئی اس دنیا میں خالق کائنات نے مردو عورت کو زندگی گزارنے اور نسل نو کی پرورش و تربیت کے لیے ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ٹھہرایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں مرد میں کنبہ پروری اور سرپرستی کی صفات موجود ہوتی ہیں وہیں عورت بھی صفات و کمالات کا مجموعہ ہوتی ہے۔ اگر یہ باشعور ہو تو زندگی کو گلزار بنادیتی ہے اور بے شعور ہوجائے تو زندگی کو برباد بھی کرسکتی ہے۔ مامتا کی شفقت عورت کو گل سے زیادہ نرم بنادیتی ہے اور ارادوں کی مجبوطی اسے ایسی چٹان کی مانند بنادیتی ہے کہ جسے حالات کے تھپیڑے توڑ نہیں پاتے۔ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جن میں عورتوں نے کمال فن سے تخت و تاج کو سنبھالا، جنگ و جدل میں دشمنوں کا مقابلہ کیا، سلطنتیں ان کے اشاروں پر چلتی رہیں لیکن مذہب اسلام نے جس بہترین انداز پر عورت کے مقام و مرتبے کا تعین کیا ہے کسی اور مذہب میں ایسی مثال نہیں ملتی۔ اسلامی افکار و تمدن کی وجہ سے عورت کے مقام و مرتبے کے بارے میں انقلاب رونما ہوا۔ اسلام عورت کو علم حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ عورت کو وراثت میں حق دیتا ہے اور یہاں تک کہ ر فیق حیات کے انتخاب میں بھی خودمختاری دی گئی ہے۔
اسلام کی راہ میں اپنی خدمات سرانجام دینے والی خواتین باادب، باعلم و عمل تھیں۔ بے شک خاتونِ جنت، بنتِ رسول ﷺ حضرت بی بی فاطمہ الزہراؓ اور ازواج مطہرات کے کردار اور ان کا اسلوب حیات ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
دور حاضر پر نظر ڈالیں تو آج کی عورت بھی گھر کی زینت و رونق بھی ہے اور اپنے شریک حیات کی مشیر کار بھی۔ زندگی کے تقریباً ہر میدان میں خواتین نے اپنا لوہا اپنے علم و فضل اور محنت سے منوایا ہے اور ثابت کردیا ہے کہ عورت بنی تو مٹھی بھر خاک سے ہے لیکن اوصافِ حمیدہ کی بنا پر وہ برتری میں ثریا سے بھی بڑھ کر ہے۔ بلاشبہ اگر آج بھی عورت دین اسلام کے قائم کردہ حدود و قیود کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے علم وفضل کو بروئے کار لائے تو وہ ستاروں پر کمند ڈال سکتی ہے۔ اگر آج ہماری عورت زندگی کے تمام شعبہ جات میں اللہ کے احکامات کے مطابق کردار ادا کرے اور زندگی میں اعتدال کو قائم رکھے اور ازدواجی زندگی کے حقوق و فرائض کو ایمانداری کے ساتھ نبھائے تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
گویا یہ طے ہے کہ عورت کی کامیابی میدان کارزار میں صرف اسی صورت ممکن ہے کہ اس کا علم و فن پابند حدود و قیود اسلام ہو کہ خود حضرت اقبال نے فرمایا:
تہذیب فرنگی ہے اگر مرگ امومت
ہے حضرت انساں کے لیے اس کا ثمر موت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو ارباب نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہ زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت