مجدد الف ثانیؒ کی تحریک احیائے دین

ڈاکٹر انیلہ مبشر

حضرت مجدد الف ثانیؒ شیخ احمد سرہندی جو 26 جون 1564ء کو بمقام سرہند پیدا ہوئے برصغیر پاک و ہند کے عظیم مذہبی مفکر اور مصلح دین سمجھے جاتے ہیں۔ آپ نے نخلِ اسلام کی آبیاری میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر پائے اثبات میں لغزش نہ آئی۔ آپ نے ہندومت کے احیاء کی تحریک، متحدہ قومیت کے تصور اور وحدت ادیان کے اکبری نظریئے کو نہ صرف رد کیا بلکہ اسلام اور کفر کو ایک دوسرے میں ضم کرنے کی بشری کوششوں کے خلاف راسخ الاعتقادی کی ایک ایسی زبردست تحریک شروع کی جس نے ایک طرف علماء، امراء اور بااثر حکمران طبقے کو متاثر کیا تو دوسری طرف عوام الناس کو رد بدعت اور شریعت کی پابندی کی طرف راغب کیا یہاں تک کہ آخری عظیم مغل حکمران اورنگ زیب عالمگیر نے آپ کے مذہبی و سیاسی نظریات کوسرکاری سرپرستی عطا کی۔ آپ کے لاتعداد مریدین کے ذریعے راسخ الاعتقادی کی یہ تحریک ہندوستان کی سرحدوں سے نکل کر افغانستان اور ترکستان تک پھیل گئی۔ تجدید دین اور احیائے اسلام کی اپنی خدمات کی بدولت آپ کو دوسرے ہزار سال کا مجدد کہا جاتا ہے۔

آپ کے عہد کے معروضی و تاریخی حالات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان میں سلاطین دہلی کے آخری دور میں مرکزی حکومت کمزور ہوگئی، کئی صوبے مرکز سے آزاد ہوگئے اس عدم استحکام کے عہد میں ہندوؤں کو بطور قوم طاقتور ہونے کا موقع مل گیا۔ اس دور میں بھگتی تحریک کے زیر اثر ہندو مذہب کی اصلاح اور احیاء کی کوششیں کی گئیں۔ بھگتی تحریک نے ہندومت اور اسلام کو اس قدر قریب کردیا کہ بعد ازاں اس تحریک کے اثرات میں یہ سمجھا جانے لگا کہ ہندومت اور اسلام ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ رام اور رحمان ایک ہیں۔ صرف اس ذات تک پہنچنے کے طریقے اور وسیلے مختلف ہیں۔ اس دور میں اسلامی تصوف کے نظریہ وحدت الوجود کی غیر منطقی اشاعت نے اس نظریہ کو اور بھی تقویت دی اور بھگتی تحریک کے ماننے والوں نے چاہا کہ مسلم صوفیوں کے فلسفہ وحدت الوجود میں ضم ہوکر ایک ہوجائیں۔

حضرت مجدد الف ثانی کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے بھگتی تحریک کی جو ہندومت اور اسلام کو ملاکر ایک درمیانی راستہ نکالنا چاہتی تھی، ڈٹ کر مخالفت کی۔ دوسری طرف اکبر بھی بھگتی تحریک کے اثرات سے بچ نہ سکا اور اپنے دور حکومت میں شیخ مبارک، ابوالفضل اور ضیفی جیسے آزاد خیال اہل علم کے زیر اثر اسلامی عقائد اور راسخ الاعتقادی کی حدود سے تجاوز کرگیا۔ اکبر نے 1581ء میں دین الہٰی جاری کیا جس میں بہت سے مذاہب کو ایک مذہب میں جمع کرنے کی بشری کوشش کی گئی۔ اکبر نے سلطنت کو استحکام دینے کی خاطر ہندو راجپوت رانیوں سے شادیاں کیں اور انہیں اپنے دھرم پر قائم رہنے کی اجازت دی۔ جس سے اس کے درباری امراء نے بھی ہندو رسوم و معاشرت کو اپنانا شروع کردیا۔ ہندوؤں کے تہواروں دسہرہ اور ہولی وغیرہ کی سیاسی سرپرستی کرنے اور خود بھی جھروکہ درشن دینے سے ہندوؤں کو سیاسی تقویت حاصل ہوئی اور مسلمان طبقہ مشکلات کا شکار ہوا۔ ان حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے عظیم محقق و مورخ پروفیسر محمد اسلم ’’تحریک پاکستان‘‘ میں رقمطراز ہیں۔

اکبر کی مذہبی حکمت عملی سے برصغیر پاک و ہند اور بنگلہ دیش میں اسلامی اقدار کو بڑا نقصان پہنچا۔ اس نے باغی مسلمان گورنروں کی سرکوبی کے لیے ہندو راجوں کو بھیج کر ان کے دلوں سے مسلمانوں کا رعب ختم کردیا۔ ہندو جو اب تک سمجھے بیٹھے تھے کہ مسلمان ناقابل شکست ہیں وہ اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہوگئے۔ اکبر نے دین الہٰی جاری کرکے اسلامی شعار کو نقصان پہنچایا۔ ہندو رانیوں نے شاہی محلات میں دیوالی، دسہرہ، جنم اشٹی، رکھشا بندھن اور شوراتری جیسے ہندوانہ تہوار بڑی دھوم دھام کے ساتھ منانے شروع کیے۔ اس زمانے میں ہندوؤں نے مسلمانوں کے خلاف جو جارحانہ رویہ اختیار کیا اس کی صدائے بازگشت حضرت مجدد الف ثانی کے مکتوبات میں سنائی دیتی ہے۔

پروفیسر محمد اسلم مجدد الف ثانیؒ کی خدمت دین کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت مجدد الف ثانی کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے بھگتی تحریک کی جو ہندومت اور اسلام کو ملاکر ایک درمیانی راستہ نکالنا چاہتی تھی، ڈٹ کر مخالفت کی۔ ورنہ آج ہمارے نام غلام محمد سنگھ یا کرشن احمد جیسے ہوتے ان کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے ایران سے درآمد شدہ مجوسی ساسانی اور مزد کے نظریات اور تہذیب وثقافت کی سختی کے ساتھ مخالفت کی۔

چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ بھگتی تحریک کی طویل تاریخ کے باعث اکبر کا پیدا ہونا لازمی تھا تو اس کے ردعمل میں مجدد الف ثانی کی تحریک احیائے دین بھی تاریخ کے ارتقا میں ایک اہم کڑی کا درجہ رکھتی ہے۔

حضرت مجدد الف ثانیؒ نے اپنی تحریک احیائے دین اسلام کو موثر اور کارآمد بنانے کے لیے اکبر کے درباری امراء اور اراکین سلطنت مثلاً شیخ فرید مہابت خان، عبدالرحیم خانِ خاناں اور خانِ جہاں لودھی سے رابطہ قائم کیا ان سنی اور تورانی امراء نے حضرت مجدد سے مکمل تعاون کیا یہاں تک کہ یہ تحریک ان کی نمائندہ تحریک بن گئی۔ آپ نے اپنی تحریک کی جڑیں عوام تک پھیلادیں اور اس کارخیر کے لیے بڑی تعداد میں اپنے مرید اور خلفا بنائے جن کا کام عوامی طبقات میں نشرو اشاعت کرنا تھا۔ آپ کے خاص شاگردوں کی تعداد تقریباً سولہ سو بتائی جاتی ہے۔ آپ خطوط کے ذریعے ان سے رابطہ رکھتے اور ضروری ہدایت دیتے۔

عہدی اکبری میں اصل مسئلہ دین الہٰی کے فروغ کا نہ تھا کیونکہ شاہی دربار میں اس کے ماننے والوں کی تعداد چند سو سے آگے نہ بڑھ سکی اور نہ ہی اکبر نے اس کے فروغ کے لیے جبری کوشش کی۔ اکبر نے جس طرح شعائر اسلامی کی نفی کی مثلاً سود، جوئے اور شراب پر پابندی ختم کرتے ہوئے جزیہ اور گائے کی قربانی کو ممنوع قرار دیا اور صلح کل کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے ہندو اور ہندوانہ رسومات کی سرپرستی شروع کردی اس سے ہندوؤں کو سیاسی تقویت حاصل ہوئی اور مسلمان رعایا کو بڑی مشکلات پیش آئیں۔ حضرت مجدد نے حکومت کے امرا اور اراکین سلطنت کی توجہ اکبری الحاد کے ساتھ ساتھ اس مسئلہ کی طرف دلوائی کہ چھوٹے شہروں میں ہندوؤں نے مسلمانوں کا جینا دوبھر کررکھا ہے اور غریب مسلمانوں کو جبری ہندو بنارہے ہیں۔

حضرت مجدد کے مکتوبات جو کہ مکتوبات امام ربانی کے نام سے مشہور ہیں۔ ان میں سے ایک خط میں لکھتے ہیں جو شہر تھانیسر سے متعلق تھا۔ کفار بے تحاشا مسجدوں کو گراکر وہاں اپنے معبد و مندر تعمیر کررہے ہیں۔ ایک دوسرے خط میں لکھتے ہیں کہ نگر کوٹ کے کفار مسلمانوں پر ظلم وستم کررہے ہیں۔ اکبر نے اپنے عہد میں جزیہ (غیر مسلموں سے لیا جانے والا ٹیکس) لینا بند کردیا اور گائے کی قربانی پر پابندی لگادی۔ حضرت مجدد کو یہ دونوں باتیں سخت ناگوار تھیں۔ آپ نے جہانگیر کی تخت نشینی کے فوراً بعد کئی خطوط میں اس پابندی پر اظہار افسوس کیا اور اس کے دوبارہ جاری کرنے کی تلقین کی۔ آپ حکمران وقت کی شخصیت ونظریات اور عوام پر اس کے مرتب ہونے والے اثرات سے مکمل طور پر آگاہ تھے۔ ا ٓپ نے شیخ فرید بخاری کو ایک خط میں لکھا کہ دنیا میں بادشاہ کی حیثیت وہی ہے جو جسم میں دل کی ہے۔ یعنی دل اگر صالح ہے تو جسم بھی صالح ہوگا۔ اگر دل میں کوئی خرابی یا فساد ہے تو اس کا اثر جسم پر بھی پڑے گا۔

اسی طرح اگر بادشاہ نیک ہے تو اس کی نیکی رعایا پر بھی اثر انداز ہوگی اور اگر اس میں خرابی یا برائی ہے تو رعایا میں بھی وہی خرابی اور برائی جڑ پکڑے گی۔ امرا سے مسلسل رابطے کے خوشگوار اثرات مرتب ہوئے۔ امراء اور اراکین سلطنت کے دباؤ کے نتیجہ میں جہانگیر نے اقتدار سنبھالتے ہی شراب کی بندش، مساجد کی تعمیر اور اشاعت اسلام کی حوصلہ افزائی کے احکامات جاری کیے۔

حضرت مجدد الف ثانی کی عوام میں بڑھتی ہوئی مقبولیت نے آپ کے کئی مخالف پیدا کردیئے اور انھوں نے جہانگیر سے شکایت کی کہ سرہند کا ایک مشائخ زادہ خود کو صحابہ سے افضل سمجھتا ہے اور مجددیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ ہزارو ں لوگ اس کے حلقہ بگوش ہیں۔ چنانچہ جہانگیر نے آپ کو دربار میں طلب کیا تو آپ نے اپنے خلاف اعتراضات کا جواب دیا مگر بادشاہ جہانگیر کو درباری رسومات کے مطابق سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ جس پر جہانگیر نے آپ کو گوالیار کے قلعہ میں قید کردیا مگر اس آزمائش میں انھوں نے جس قدر استقلال اور عالی ہمتی کا مظاہرہ کیا وہ ہماری روحانی تاریخ کا درخشاں باب ہے۔ زنداں میں قیام کے دوران کئی بت پرستوں کو اسلام کا حلقہ بگوش بنایا۔ بعد ازاں جہانگیر نے آپ کی رہائی کا حکم صادر کردیا اور آپ کو اجازت دی کہ چاہیں تو لشکر کے ساتھ رہیں اور چاہیں تو گھر چلے جائیں۔ آپ نے لشکر کے ساتھ رہنا قبول کیا اور تین سال تک اہل لشکر کو تلقین و ہدایت سے مستفید کرتے رہے۔

بقول مولانا مودودی انھوں نے ہندوستان میں حکومت کو بالکل ہی کفر کی گود میں جانے سے روکا اور اس فتنہ عظیم کے سیلاب کا منہ پھیرا جو اب سے تین چار سو برس پہلے ہی یہاں سے اسلام کا نام مٹادیتا۔

حضرت مجدد نے اس کا پرزور جواب دیا اور فرمایا: ’’رام اور رحمان کو ایک جاننا بہت بڑی بیوقوفی ہے۔ خالق مخلوق کے ساتھ ایک نہیں ہوسکتا چوں بے چوں کے ساتھ متحد نہیں ہوتا۔ آپ نے نظریہ وحدت الوجود کی وضاحت میں مزید فرمایا۔ مسلمانوں کا ایمان اس پر ہے کہ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اس پر نہیں ہے کہ کوئی وجود نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے۔

آپ کا ایک اہم کام ہندوستان میں ردبدعت اور نئے فرقوں کی نفی بھی تھا۔ آپ کے خیال میں نئے طریقوں سے نہ صرف دین میں رخنے پید اہورہے تھے بلکہ اسلامیان ہند کے اجتماعی نظام کو بھی خطرات درپیش تھے۔ آپ نے اسلام کو اس کی ابتدائی حالت پر قائم رکھنے پر زور دیا اور بعد میں پید اہونے والے فرقوں کی مخالفت کی۔ مغل دور میں ایران سے قریبی تعلقات کی بنا پر شعبہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے ہزاروں امرا، خواص و عوام ہندوستان منتقل ہورہے تھے۔ آپ نے ہندوستان میں شیعہ فرقے کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے کے لیے رسالہ رد شیعہ تحریر کیا۔ اسی طرح آپ کے عہد میں بہت سے صوفیائے خام پیدا ہوچکے تھے جو تصوف کی آڑ میں شریعت اسلامی کو فراموش کررہے تھے۔ آپ نے اپنی راسخ الاعتقادی سے ان صوفیہ خام کے طریق کار کی نفی کو جو طریقت اور معرفت کا نام لے کر شریعت کے تمام قوانین نظر انداز کردیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ جو شخص باطن کو درست کرلیتا ہے مگر ظاہر کو یونہی چھوڑ دیتا ہے وہ ملحد ہے۔ آپ نے خواتین کی اصلاح کا بیڑا بھی اٹھایا۔ خاص طور پر خواتین کا قبور پر جانا، پیر اور صوفیا خام کی قدم بوسی کی سخت مخالفت کی۔ آپ نے خواتین کو باپردہ رہنے اور گھر میں رہ کر شریعت اسلامی پر چلنے کی ضرورت پر زور دیا۔

آپ نے نظریہ وحدت الوجود جو ہندوستان میں مکمل طور پر سرایت کرچکا تھا اس نظریہ کی سخت مخالفت کی۔ اسی نظریہ کے تحت ایک ہندو ہردے رام نے آپ کو خط میں لکھا کہ رام اور رحمان حقیقت میں ایک ہی ہیں۔ حضرت مجدد نے اس کا پرزور جواب دیا اور فرمایا:

’’رام اور رحمان کو ایک جاننا بہت بڑی بیوقوفی ہے۔ خالق مخلوق کے ساتھ ایک نہیں ہوسکتا چوں بے چوں کے ساتھ متحد نہیں ہوتا۔

آپ نے نظریہ وحدت الوجود کی وضاحت میں مزید فرمایا۔ مسلمانوں کا ایمان اس پر ہے کہ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اس پر نہیں ہے کہ کوئی وجود نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے۔

ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی رائے میں نظریہ وحدت الوجود کو رد کرنا اس عہد کی سب سے بڑی ضرورت تھی اور اسلام اس وقت جس مرض میں مبتلا تھا اس کی تشخیص اسی پر مبنی تھی اور اگر شیخ احمد سرہندی مجدد عہد تھے تو ان کا یہ دعویٰ وحدت الوجود کے فلسفے کو رد کرنے پر ہی مبنی ہے۔

ایک دوسرے خط میں لکھتے ہیں کہ نگر کوٹ کے کفار مسلمانوں پر ظلم وستم کررہے ہیں۔ اکبر نے اپنے عہد میں جزیہ (غیر مسلموں سے لیا جانے والا ٹیکس) لینا بند کردیا اور گائے کی قربانی پر پابندی لگادی۔ حضرت مجدد کو یہ دونوں باتیں سخت ناگوار تھیں۔ آپ نے جہانگیر کی تخت نشینی کے فوراً بعد کئی خطوط میں اس پابندی پر اظہار افسوس کیا اور اس کے دوبارہ جاری کرنے کی تلقین کی۔ نظریہ وحدت الوجود کو ردکرکے آپ نے ایک دوسرے نظریئے وحدت الشہود کی نشرو اشاعت کی جس کا حاصل یہ ہے کہ خالق اورمخلوق ایک چیز کے دو نام نہیں ہیں۔ رب العزت نوری ہیں اور انسان خاکی ہے۔ اس طرح خالق ومخلوق کو ملانا جائز نہیں۔ اگر مخلوق شریعت کے مطابق کوشش کرے تو خالق کا اسرارمنکشف ہوسکتا ہے۔ ا ٓپ کی کوششوں سے نظریہ وحدت الشہود ہندوستان میں مقبول ہونے لگا جس سے بھگتی تحریک کے اثرات بھی کم ہوگئے۔

حضرت مجدد الف ثانی کی ایک اہم اسلامی خدمت یہ ہے کہ آپ نے ہندوستان میں نقشبندیہ سلسلہ تصوف کی اشاعت کی جو شریعت کے قریب ترین تھا۔ اس میں سنت محمدی کی پیروی کی جاتی تھی۔ اس میں نہ چلہ کسی تھی ، نہ سماع، نہ قبور پر روشنی، نہ پیروں کی قدم بوسی اور نہ سجدے۔ آپ نے اس سلسلہ تصوف کی اشاعت پورے ہندوستان میں اپنے خلفا اور مریدوں کے ذریعے کی جس سے ہندوستان میں احیائے دین کی تحریک پھیل گئی اور شرعی رنگ غالب آگیا۔

حضرت مجدد الف ثانی کی تحریک احیائے دین کا براہ راست اثر ہمیں اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں ملتا ہے۔ اگرچہ اس کے کچھ نقوش جہانگیر اور شاہ جہاں کے دور میں بھی نظر آتے ہیں۔ لیکن اورنگ زیب کا پورا دور ان نظریات کی عملی تصویر ہے۔ اورنگ زیب کے عہد میں شراب اور دیگر منشیات کا سختی سے انسداد کیا گیا۔ طوائفوں کو شادی کرنے یا ملک سے نکل جانے کی ہدایت کی گئی۔ معاشرے کی اخلاقی حالت سنوارنے کے لیے محتسب مقررکیے گئے۔ عیش و نشاط کی محفلیں، جشن نوروز،محرم، دسہرہ ، دیوالی کے تہواروں کی شاہی سرپرستی ختم کی۔ جذیہ دوبارہ نافذ کیا۔ رسم سجدہ اور جھروکہ درشن کی روایت ختم کی اور فتویٰ عالمگیری کے نام سے ایک فقہ کی کتاب مرتب کروائی۔ بقول ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اورنگ زیب کے عہد نے ثابت کردیا کہ راسخ الاعتقادی کو سیاسی طور پر اپنا لیا گیا ہے اور یہ سب مجدد الف ثانی کی تحریک احیائے دین کا براہ راست اثر سمجھا جاتا ہے۔ حکومتی اور عوامی دونوں سطحوں پر آپ کی تحریک کی پذیرائی تحریک کی کامیابی کی دلیل ہے۔