اسلام کی آمد سے قبل دنیا علم، اخلاق، دیانت و امانت، صبر و قناعت، حقوق و فرائض، عفو ودرگزر، احتساب اور صلہ رحمی جیسی اقدار سے ناواقف تھی۔ مذکورہ بالا تعلیمات کے حوالے سے حضور نبی اکرم ﷺ کی پیغمبرانہ جدوجہد کا ہر لمحہ اور مرحلہ حکمت و دانائی سے مزین ہے، اگر ہم اسلامی تعلیمات کے جوہر تک رسائی اوراس کی کامل تفہیم چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم خطبہ حجتہ الوداع کا بار بار عمیق نظری سے مطالعہ کریں بلکہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو ہر نوع کے تشکیک و ابہام سے نجات کے لئے پیغمبر اسلام ﷺ کی تعلیمات کی درست تفہیم کے لئے خطبہ حجتہ الوداع کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ حجتہ الوداع کا خطبہ عالم انسانیت کے لئے تھا اور اس خطبہ کا ایک ایک حرف آفاقی اور انسانیت کی فلاح و بہبود اور بقا و استحکام کے لئے تھا، پیغمبر اسلام ﷺ کے حجتہ الوداع میں ارشاد فرمائے جانے والے خطبہ کو ہم دنیا کے کسی بھی براعظم اور خطہ میں فخر کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں کہ اسلام انسانیت کی فلاح و بہبود اور بقا و استحکام کا الوہی ضابطہ حیات ہے، الحمداللہ عالم اسلام کے کروڑوں فرزندان توحید نے فریضہ حج اور فریضہ قربانی کی ادائیگی کی سعادت حاصل کی ہے۔ یہ دونوں فرائض محض رسومات نہیں ہیں، ان دونوں فرائض کے اندر اللہ رب العزت نے اسلامی تعلیمات کا نچوڑ رکھا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی آفاقی تعلیمات اور 23 سالہ مبارک حیات کے کٹھن مراحل اور کامیابیوں کا نچوڑ پیش کرنے کے لئے اور قیامت تک کے مسلمانوں کو آسان الفاظ میں راہ نمائی دینے کے لئے حج کے موقع کو منتخب فرمایا۔ کم و بیش سوا لاکھ فرزندان توحید نے حضور نبی اکرمﷺ کی مبارک موجودگی میں فریضہ حج ادا کیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس موقع پر ایک عظیم الشان خطبہ فرمایا جو قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے ذریعہ ہدایت و راہنمائی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے خطبہ کے آغاز میں تمام فرزندان توحید کو متوجہ ہونے اور پوری یکسوئی کے ساتھ ارشادات سماعت کرنے کی ہدایت فرمائی۔ آپ ﷺ نے دو ٹوک انداز میں اعلان فرمایا کہ آج سے زمانہ جاہلیت کی تمام رسومات مسترد کی جاتی ہیں بلکہ آپ ﷺ نے فرمایا یہ جاہلانہ رسومات میرے قدموں کے نیچے روندی گئی ہیں اور آپﷺ نے زمانہ جاہلیت کے تمام خون معاف کرنے کا اعلان کیا کیونکہ عرب معاشرے کے اندر خون بہا ایک ایسا معاملہ تھا جس کے تحت نسل در نسل خون ریز لڑائیاں ہوتی تھیں اور ایک خون کے بدلے ہزار ہا انسانوں کا خون بہادیا جاتا تھا، آپ ﷺ نے بدلے کی آگ کو ایک قانون اور ضابطے کے تحت کر دیا اور اندھے انتقام اور غرور و تکبر کو یکسر ختم کر دیا یعنی بدلے کے آگ میں جلنا اور کسی کو نقصان پہنچانے کی ہروقت منصوبہ بندی کرتے رہنا مصطفوی تعلیمات کے تحت مطلقاً حرام ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر ویمن امپاورمنٹ کے جو زریں اصول دئیے دنیا کا کوئی منشور اس کے مقابلے کا بیانیہ پیش نہیں کر سکا، عورت عرب معاشرے کے اندر ایک حقیر، کمزور اور خرید و فروخت کی چیز سمجھی جاتی تھی مگر حضور نبی اکرم ﷺ نے اس جاہلانہ اور باطل سوچ کو مسترد کرتے ہوئے اعلان فرمایا کہ ’’عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو، ان کے بارے میں اللہ کا لحاظ رکھو کہ تم نے انہیں اللہ کے نام پر حاصل کیا ہے اور اسی کے نام پر وہ تمہارے لئے حلال ہوئی ہیں،اے لوگو! تمہاری عورتوں پر تمہارے کچھ حقوق ہیں اسی طرح تم پر بھی ان کے حقوق ہیں، عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کا مال اجازت کےبغیر کسی کو دے ۔‘‘ اگر آج ہم گھریلو ناچاقیوں پر نگاہ دوڑائیں تو اس میں سب سے بڑی قباحت ایک دوسرے کے عزت و احترام اور حقوق و فرائض کے خیال نہ رکھنے کی صورت میں نظر آتی ہے، مصطفوی تعلیمات کے تحت مردوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عورتوں کے نان و نفقہ، خورونوش، تحفظ اور عزت و احترام کا خیال رکھیں، اسی طرح خواتین کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے خاوند کے وسائل کی حفاظت کرے اوران کے لئے حقیقی معنوں میں عزت و سکون کو ذریعہ بنیں، اسلام سے قبل دنیا کے کسی اور الہامی یا غیر الہامی مذہب میں خواتین کے لئے تحفظ کی وہ گارنٹی نہیں دی گئی جو گارنٹی اسلامی تعلیمات میں دی گئی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے کمزور لوگوں کا خیال رکھنے کا حکم دیا، ہمیں چاہیے کہ جو لوگ ہماری خدمت پر مامور ہیں ہم ان کے ساتھ انصاف اور صلہ رحمی کا معاملہ کریں، ان سے جانوروں کی طرح کام نہ لیں اورنہ ہی ان کی عزت نفس کو مجروح کریں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے سود کو منع فرمایا، سودی معیشت آج انسانیت کو نگل رہی ہے، آج بھی وقت ہے کہ ہم سودی معیشت سے نجات حاصل کر لیں۔آپ ﷺ نے حجتہ الوداع کے خطبہ کے موقع پر قرض کی ادائیگی کا حکم فرمایا اور فرمایا کہ اگر آپ کے پاس کسی کی امانت ہے تو اسے ٹھیک طریقے سے لوٹاؤ، آپ ﷺ نے فرمایا تمام انسان برابر ہیں، اگر کسی کو کسی پر فضیلت ہے تو وہ تقویٰ کی وجہ سے ہے، سماجی مساوات کا یہ تصور اسلام کی ایک خاص پہچان ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں ہے، لہٰذا سیدھے راستے پر چلنے کے لئے قرآن مجید اور میری سنت پر عمل پیرا رہو، آپ ﷺ نے فرمایا دین مکمل ہو چکا ہے، لہٰذا اپنی طرف سے اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرنا، آپ ﷺ نے اس موقع پر حکم فرمایا کہ آج کے اس پیغام کو ان لوگوں تک پہنچا دو جو آج یہاں موجود نہیں ہیں۔ یہ وہ حکم دعوت ہے جس پر عمل پیرا کرنا اُمت محمدیہ ﷺ کے ہر فرد پر لازم ہے، آپ ﷺ کے اسی حکم کے تحت منہاج القرآن مصطفوی تعلیمات کو عام کرنے کے لئے دن رات کوشاں ہے۔